اہم خبریں

امارت شرعیہ کے سرپرستان،ذمہ داران اور خیر خواہوں کے نام کھلاخط
- Jun 01, 2025
- Editor:
- Views : 110
امارت شرعیہ کے سرپرستان،ذمہ داران اور خیر خواہوں کے نام
قابل قدر / برادران اسلام
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ٍ ملی جمعیتوں اور تحریکوں میں امارت شرعیہ بہار،اڑیسہ،جھاڑ کھنڈ اور بنگال اپنی متحدہ قوتوں اورخدمات جلیلہ کو ایک صدی پار کرگیا ہے جسے اپنے اصول وضوابط اور آئین کی پاسداری کے سبب ملک اور بیرون ملک ایک باوقار ادارے کی شکل میں دیکھا جاتا رہاہے۔
مخلصین امت اور خیر اندیشوں کے سائے سے دوری کے سبب اب اس ادارے کو بھی گُھن لگتا جارہاہے،دیگر تنظیموں کی طرح اس میں بھی رسہ کشی شباب پر ہے، حب جاہ و مال کے متوالوں نے اس میں بھی سیند لگانا شروع کر دیا ہے۔
ایک دل جلے کی آہ وفغاں ملاحظہ فرمائیے جس میں ملت کے فکر و اذہان کا عکس نظر آتا ہے۔ معذرت کے ساتھ.
”اَمرِ واقعہ یہ کہ مسلمانوں کو ان کے اپنے اجتماعی مفادات کے لئے متحد کرنا ترازو میں مینڈک تولنے سے بھی زیادہ مشکل ترین کام ہے، ایک کو لایا جاتا ہے اور دوسرا اچھل کود کر نکل جاتا ہے، دنیا کی ہر قوم ہر ملک ہر جماعت اور ہر ادارے میں اختلاف رائے ہوتا ہے اور یہ فطری ہے لیکن مسلمانوں میں مخالفت اور سرپھُٹوّل ہوتی ہے.
ان کی یہی اجتماعی کمزوری ہے جس کے نتیجے میں دنیا کی دوسری سب سے بڑی اکثریت ہونے کے باوجود بے وزن بلکہ بے حیثیت ہو کر رہ گئے ہیں اور چھوٹی چھوٹی اقلیتیں ان پر حاوی بلکہ مسلط ہو گئی ہیں.
اتحاد و اتفاق، اجتماعیت اور یَک جِہتی کی جتنی تعلیم و تربیت قرآن و سنت سے مسلمانوں کو دی گئی ہے شاید دنیا کی کسی کتاب اور کسی مذہب نے اتنی کثرت سے عملاً اتحاد اور یَک جہتی کی تعلیم نہیں دی ہوگی، لیکن افسوس سب سے زیادہ
پراگندگی، انتشار، بد امنی اور منافرت مسلمانوں میں ہی ہے، سب سے زیادہ دَلال مُخبِر اور ایجنٹ انھیں میں ملیں گے.
سب سے زیادہ حیرت کی بات یہ ہے کہ ہر قوم میں انتشار عوامی ہوتا ہے، عوام منتشر ہوتی ہے، لیکن خواص متحد روشن خیال اور مخلص ہوتے ہیں.
لیکن مسلمانوں میں انتشار خواص میں ہوتا ہے، اُن کے علماء، فقہاء، ملی قائدین، اداروں،جماعتوں اور جمعیتوں کے صدور و اراکین منتشر، پراگندہ، مفاد پرست، منافق اور بد دیانت دیکھے گئے ہیں، ان میں ملی شعور اور اجتماعی مفادات کی فکر کسی بھی بیحَمِیّت قوم کے چوروں ڈکیتوں اور بدمعاشوں سے بھی کم ہوتی ہے، کسی بھی قوم کے چور لٹیرے اور ڈاکوؤں کو اپنے اجتماعی ملی مفادات جتنے عزیز ہوتے ہیں ہمارے ملی قائدین ان سے بھی بدتر اور گئے گزرے واقع ہوئے ہیں،، (معذرت)
سب سے زیادہ اتحاد و اتفاق ملی شعور اور اجتماعی مفادات کے تحفظ کا درس جو ہمارے قائدین کی طرف سے اداروں، تنظیموں، جماعتوں اور جمعیتوں کے اسٹیج سے دیا جاتا ہے وقت آنے پر وہی سب سے زیادہ منتشر پراگندہ مفاد پرست بلکہ بد دیانت واقع ہوتے ہیں.
مسلمانوں کا درد اور مرض یہ ہے کہ ان کا سَوادِ اَعظم ملت کے اجتماعی مفاد اعظم سے منحرف ہو گیا ہے، یعنی جسے دنیا کی رہنمائی کی ذمہ داری دی گئی تھی وہی گمراہ ہو گیا ہے، یا یہ کہیں کہ جو ڈاکٹر تھا وہی بیماری پھیلانے کا کوڑے دان بن چکا ہے، جہاں سے کرپشن نا اہلی اور بد دیانتی کا علاج ہونا تھا وہی ہر طرح کے کرپشن اور بد دیانتی و نا اہلی کا مرکز بن گیا ہے اور ستم بالائے ستم یہ کہ کرپشن، بد دیانتی، نا اہلی، انتشار اور نفاق کا جو جتنا بڑا مریض ہے اسے اتنا ہی زیادہ اس کے بھگت ایماندار، اہل اور ملی مفادات کا محافظ منوانے کی تحریک چلاتے ہیں۔
ایسی بدترین صورت حال میں عوام سے پہلے خواص اور عام مسلمانوں سے پہلے انکے قائدین جماعتوں، جمعیتوں، اداروں اور تنظیموں کی اصلاح ضروری ہے، لہٰذا حالات کا تقاضا یہ ہے کہ بہر حال اب عوام سے پہلے خواص کی اصلاح کا سامان کیا جائے کیونکہ خواص کی اصلاح کے بغیر عوام کو راہ راست پر لانا ناممکن ہے...!“
کسی ادار ہ کی تعمیر و ترقی کے لئے اگر حسب و نسب اور وراثتانہ ملی قیادت کی روشن تاریخ کسی ذی علم اور روشن خیال کی تائید کرتی ہے تو یہ کوئی معیوب نہیں بلکہ مستحسن ہے،ایسی شخصیت اپنے بڑوں کی قائم کردہ تحریک وتنظیم کی آبیاری میں اہم کردار اداکرسکتی ہے جس کا آئے دن مشاہدہ ہوتارہتا ہے، بہار میں ان دنوں امیر شریعت کے منصب پر فائز امیر شریعت جو ایک جری، زیرک اور صاحب دل کے وارث و جانشیں رہ کر 4 ریاستوں کا امارتی نظام 2021 سے بخوبی سنبھال رہے ہیں تو انہیں سنبھالنے دیجئے!!کے عموماً اولاد اپنے اجداد کے خون جگر سے سینچے ادارے کی لگن اور جاں فشانی سے بہتر خدمات انجام دے سکتے ہیں اور اس کی آبرو کی حفاظت کا حق ادا کر سکتے ہیں۔
2021 میں انتخاب کے وقت عالم دین اورملکی ہونے کی شرط پر اس مجلس کے باوقار علماء کی کمیٹی اور جماعت نے بہر طور تحقیق کے بعد موجودہ امیر شریعت کی علمی صلاحیت اور خاندانی نجابت کے امتیاز کو سامنے رکھ کر ہی استصواب رائے سے انہیں امیر شریعت منتخب کیا تھا!
یہ حقیقت ہے کہ عالم دین کہلانے کیلئے کسی ادارہ سے باضابطہ سند حاصل کرنے کی ضرورت نہیں،کیا دنیا نہیں جانتی کہ سید الطائفہ حضرت حاجی امداد اللہ صاحب سر خیل علماء دیوبند تھے اور وہ کسی ادارہ سے باضابطہ سند یافتہ نہیں تھے، اس کے ساتھ ساتھ علماء ربانی و حقانی ان کی اہمیت کو گردانتے اور ان کا فیض یافتہ تھے۔
علم مولا ہو جسے وہ مولوی
محض غیر ملک میں ملازمت کی وجہ سے انہیں غیرملکی گھوشت کرنا یہ اصل و عقل سے منھ موڑنے کے مترادف ہے، اس لئے کہ ماں باپ کی وطنیت سے بچہ کی وطنیت ثابت ہوتی ہے، اس کے با وجودامارت شرعیہ میں گھمسان بیحد افسوس ناک ہے۔ کسی بشری کمزوری کی وجہ سے ان کو منصب پرباقی رکھتے ہوئے ان کی اصلاح ایک مدبرانہ اور دور اندیشانہ اور شرعی حکم پر عمل کرنا ہے جس کو دنیا ہمیشہ سے تسلیم کرتی چلی آئی ہے۔ اس کے باوجود اب ان کے سامنے نفرت و بغض دیوار کھڑی کرنا غیرمنصفانہ اور غیر شریفانہ طریقہ ہے۔
میں اس حقیقت سے بھی خوب واقف ہوں کہ امارت شرعیہ پر اجارہ دارانہ قبضے کچھ خطوں کے حضرات کے ہیں اور تعمیری کام بھی ان علاقوں میں امارت کے خوب نظر آتے ہیں۔اس کے با وجود اس کے نظم و استحکام کو انسانی نظام سمجھتے ہوئے ان کی کم وبیش کو برداشت کرنا ایک ملی اور شرعی ذمہ دار ی ہے اور اس پر مشاورت کے بغیر غاصبانہ انداز اولوامر منکم کیخلاف ورزی ہے،یہ ملت کے شیرازہ کو منتشر کرنے کے مترادف ہے۔ جس سے بالکلیہ پرہیز وقت کا اہم تقاضہ ہے۔
اسی طرح امانت و دیانت کی پاسداری صاحب منصب کیلئے بھی بیحد ضروری ہے کہ وہ اپنے دامن کو ہرطرح کے غبار سے پاک اور صاف رکھنے کی کوششوں سے کبھی غفلت نہ برتیں۔
الیس منکم رجل رشید”کیا تم میں کوئی بھی شائستہ آدمی نہیں“ کا اشارہ ہے کہ خطہ سے کوئی مرد حق آگاہ اٹھے اور اس انتشار کو اجتماعیت میں بدل ڈالے اور ساتھ ہی اربابِ حل و عقد کو لازم ہے کہ وہ اکابر ملت کی اس بیش بہاامانت میں ہر قسم کی خیانت اور ملی انتشار سے خود متنبہ رہتے ہوئے امارت پر تنبیہی نگاہ مر کوز رکھیں۔
تازہ ترین خبریں