اہم خبریں

blog-detail-img.jpg

ثواب کے برقعے میں ایک ایمانی جرأت

  • Feb 09, 2022
  • Editor: Arshad Kabir Khaquaan
  • Views : 464

کئی دنوں سے کرناٹک کی دھرتی سے اپجے ایک دل شکن "ناٹک"نے ملک کے سیکولر مزاج کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کررکھا ہے،ایک ہی ملک میں دوضابطے پر عمل سے ملکی نظام جہاں متاثر ہورہے ہیں، وہیں ملک کی خوبصورتی پر بھی آنچ آرہی ہے،ملک کے آئین و دستور کوجہاں مفلوج کرنے کی ناپاک کوشش ہورہی ہے، وہیں ملک میں بدامنی اور غیر اطمینانی فضاء بھی پروان چڑھ رہی ہے،کسی کی آزادی،کسی کے اختیارات،کسی پر پابندی اور کسی کے دھارمک پہناؤ اور لباس پر اعتراضات کئے جارہے ہیں،ایک ہی چھت کے نیچے دوہرے معیار کی لوجک،ایک ہی کیمپس میں دونظریئے،ایک ہی سرکاری ادارے میں دو ضابطے اور ایک ہی جیسے جسم پر دوشالے اور حجاب کی جنگ ملک کو تسویش کے کنارے بھیج چکی ہے،ایک ریاست میں ایک ہی جگہ سے چلی نفرت کی فضاء مکمل ریاست کو مکدر کر چکی ہے،ملک کے گوشے گوشے میں بڑی تیزی سے یہ زہریلی اورناسور تحریک مکمل خدشات کے لبادے میں پھیل رہی ہے،ساتھ پڑھنے،لکھنے اور کینٹن میں بیٹھنے والے آج دودھروں اوردو گٹوں میں بٹ چکے ہیں،انسانیت کی درسگاہ سے حیوانیت کے نعرے،اکھنڈتا کے مندر سے نفرت اور تعصب کی باتیں کھلے عام ہونے لگیں ہیں،انسانیت سے پیار رکھنے والوں کی دھڑکنیں اس قدر مضطرب ہوگئیں جیسے آشیانے میں کوئی ماچش کی جلی تلی پھینک دیا ہو،سب سے بڑی جمہوریت کے آنگن میں، شرپسندوں اور پریم مخالفوں کا یہ کھیل اتنا گھناؤنا ہے ،جس کی ہم آپ کلپنا بھی نہیں کرسکتے،ملک کی آئین جب ہر کسی کو خود مختاری اور آزادئ راۓ کا حق دیتا ہے، تو پھر ہمیں کیا حق ہے کہ ہم کسی کے رہن سہن اور پہناؤ واوڑھاؤ پر مداخلت کریں؟کوئی حجاب میں آۓ ،کوئی بنا حجاب آۓ، اس سے ہماری صحت پر کیا اثر؟اس سے ہماری روائلٹی،یا کوالٹی میں کیا فرق پڑتا ہے؟مگر افسوس ان سوچوں پر جو اس طرح کی گھٹیاسوچ رکھتے ہیں اور بیگانے کی شادی میں عبداللہ دیوانے والی حرکتیں کرجاتے ہیں۔
موجودہ جاری تنازع میں آج جو تصویر اسکرین پر ابھر کرآرہی ہے، اس سے بہت چہروں پر مسکان ہیں، تو بہت دلوں میں جان بھی آئ ہے،زعفرانی جھنڈ میں ثواب کے برقعے میں لپٹے اکلوتی شیرنی نے آج سمیہ،ام عمارہ ،خنساء اور رضیہ سلطانہ کی یاد تازہ کردی،"اللہ اکبر "کے فلک شگاف نعروں کی طاقت اور برکت نے کائروں کے صفوں میں ماتم پھیلا دیا،پٹرول کے سہارے اسکوٹی سوار نے آج غزوات کی تاریخ دھرا دئیے، پیٹھ پر ٹنگے بیگ نے مشکیزوں کی یاد زندہ کردیا، ایمانی جذبہ اور ملک کی محبت نے آج اس بہادر بیٹی کو بہادر صحابیات کے مماثل تصور کیا ، یہ بھی حقیقت ہیکہ "سناتن دھرم" کی تعلیم یا "رام جی "کا سندیش ایسا قطعانہیں ہےجس طرح رام کا نام زبان پر لاکر ان تخریب پسندوں اور انسانیت دشمنوں نے نفرت کو سلگایا ہے، قربان جائیے اس گنگا جمنی تہذیب پر کہ ہمارے برادران وطن کی بیویوں ،بچیوں،بہنوں اور ماؤں نے بھی اس جرات،اس جسارت،اس حمیت،اس غیرت اور اس بہادری کو سراہا اور سپورٹ کیا اوراس کردار کو "ماں درگا "کی روپ میں محسوس کیا، یہی تو اس ملک کی خوبصورتی ہے،ٹکراؤ سے انسان ہی نہیں بلکہ ملک ٹوٹتا اور کمزور ہوتا ہے،آپسی مدبھید سے انگنت نقصانات پنپتے اور بڑھتے ہیں،تعلیمی دور میں اس طرح کی تحریک سے صلاحتیں مضبوط نہیں ہوتیں بلکہ سوچ بگڑتی اور گھٹتی ہے،طالب علم ملک کا بہتر اور امید افزا مستقبل ہوتا ہے،ملک کو طالب علم سے بہتر امیدیں وابستہ رہتا ہے،ملک طالب علموں کےبہتر عزائم اور سپنوں کی تعمیر کا محل تکمیل کرنے کی بھر پور تیاری کرتا ہے،بھلا ایسے حالات اور ایسی تحریکوں سے سواۓ نقصانات اور بربادی کے کیا ہوسکتا ہے ،ملک کی حکومت،ملک کے ناگرک،ملک کے رہبران،ملک کے قائدین اور ملک کے طلباء ایسی فضول تحریکات اور غیر ضروری ایجنڈوں میں شامل ہونے سے بچیں،ملک کو ایکتا،سالمیت،اتحاد،یگانیت اور محبت سے طاقت بخشیں۔
مولانا شاہد عادل صاحب ، قاسمی، ارریہ

تازہ ترین خبریں

دیگر تصانیف

امیدوں کا چراغ

مٹی کا چراغ

کہاں گئے وہ لوگ

تذکیر و تانیث

مجلس ادارت

team

سرپرست

حضرت الحاج مولانا کبیر الدین فاران صاحب مظاہری

team

مدیر مسئول

مولانا ارشد کبیر خاقان صاحب مظاہری

team

مدیر

مفتی خالد انور پورنوی صاحب قاسمی