اہم خبریں

blog-detail-img.jpg

مولانا فاران!ایک مثالی ناظم، علمی مصنف اور بے باک رہنما

  • Aug 06, 2025
  • Editor:
  • Views : 205

حضرت مولانا کبیرالدین فاران مظاہری صاحب دامت فیوضہم
ایک مثالی ناظم، علمی مصنف اور بے باک رہنما
علم و فضل کے مینار، انتظام و انصرام کے ماہر، اور اخلاص و للّٰہیت کی زندہ مثال، مولانا کبیرالدین فاران مظاہری کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ اُن کی شخصیت ایک جامع و مانع پیکر ہے، جو علم، حلم، تدبیر، اور قیادت کا حسین امتزاج ہے۔
مولانا کبیرالدین صاحب کا تعلق ہندوستان کے معروف علمی و روحانی ادارے مظاہر العلوم سہارنپور سے وابستہ ہے، جہاں سے انہوں نے علمِ دین کی گہرائیوں میں اتر کر فیض حاصل کیا۔ مظاہر العلوم کی وہ علمی و روحانی فضا جس میں قرآن، حدیث، فقہ، اور سلوک کی مہک بسی ہوئی ہے، مولانا فاران کی شخصیت میں یہ صفات بدرجہ اتم جھلکتی ہے، مولانا محترم نے صرف کتابی علم ہی نہیں سیکھا بلکہ علم کے ساتھ عمل، اخلاق، اور اخلاص کا گہرا رشتہ اپنی ذات کیساتھ جوڑا۔
ناظم کی حیثیت سے خدمات
مولانا کبیرالدین فاران مظاہری نہایت شاندار انداز میں ناظم کے عہدے پر فائز ہیں۔ ایک ناظم کی حیثیت سے انہوں نے جس دور اندیشی، معاملہ فہمی، نظم و ضبط، اور بصیرت کا مظاہرہ کیا ہے، وہ قابلِ رشک ہے۔ ان کی قیادت میں ادارے میں تعلیمی، تعمیری،تربیتی، صفائی اورانتظامی سطح پر ترقی، ہوتی رہی
تنظیم و ترتیب کے ماہر
مولانا فاران صاحب کے فیصلے ہمیشہ حکمت اور دانائی پر مبنی ہوتے ہیں۔ وہ نظام کو اس طرح منظم کرتے ہیں کہ ہر دائرہئ کار واضح اور متوازن نظر آجاتا ہے۔
خدمت کا جذبہ:
اُن کی ذات خدمتِ دین کے جذبے سے لبریز ہے۔ طلبہ کی تربیت، اساتذہ کی رہنمائی، اور ادارے کی ہمہ جہت ترقی ان کے مشن کا حصہ ہے۔ سنجیدہ اور متواضع شخصیت
باوجود اس کے کہ وہ ایک اعلیٰ عہدے پر فائز ہیں، ان کی سادگی، انکساری، اور خوش اخلاقی ہر کسی کو اپنا گرویدہ بنا لیتی ہے
مولانا کبیرالدین فاران مظاہری پہاڑوں میں دین کی روشنی پھیلانے والا چراغ
اللہ تعالیٰ بعض ہستیوں کو اپنے دین کی خدمت کے لیے خاص طور پر چُن لیتا ہے۔ وہ جہاں بھی جاتے ہیں، علم، محبت، نظم، اخلاص اور دین کی روشنی پھیلاتے ہیں۔ انہی برگزیدہ ہستیوں میں ایک روشن نام ہے مولانا کبیرالدین فاران مظاہری دامت برکاتہم کاآپ کی شخصیت صرف ایک ناظم یا عالم کی نہیں، بلکہ ایک داعی، مربی، اور قائد کی بھی ہے۔ آپ نے دین کے پیغام کو اُن علاقوں تک پہنچایا جہاں صدیوں سے اندھیرا چھایا ہوا تھا — دور دراز پہاڑی علاقے، جہاں نہ سہولیات تھیں، نہ مدارس کی روشنی۔
پہاڑی علاقوں میں دین کی خدمت
مولانا کبیرالدین صاحب نے اپنے استاذ محترم حضرت مفتی عبد العزیز رائے پوری ؒ کی ایماں پر جب پہاڑی علاقوں کا رخ کیا، تو وہاں کی فضا دینی بیداری سے خالی تھی، تربیت: علم سے بڑھ کر
مولانا کبیر الدین ہمیشہ کہتے ہیں کہ ''صرف علم کافی نہیں، جب تک عمل اور اخلاق ساتھ نہ ہوں ''۔ ان کی مجلسوں میں ادب سکھایا جاتا ہے، عاجزی سکھائی جاتی ہے، اور دین کی حقیقی روح—تواضع، اخلاص، صبر اور احترام—دل میں بٹھائی جاتی ہے۔
میں نے خود محسوس کیا کہ وہ اپنے طلبہ کو صرف سبق نہیں دیتے، بلکہ اُس کے باطن کو سنوارتے ہیں، اُس کی سوچ کو بہتربنانے کیلئے بسا اوقات جھنجھوڑ تے بھی ہیں عصری علوم کے ماہرین کے احوال اور مسائل سے دلائل کو مبرہن کرتے ہیں اور یہ کہتے بھی نہیں چوکتے کہ بتائے آپ کی ذات سے دنیا کو کیاملے گا؟، ان کی باتیں دل پر اثر کرتی ہیں کیونکہ وہ خود ان باتوں پر عمل کرنے والے ہیں۔
مولانا فاران مخالفت کے تلاطم میں
جب دنیا میں آدمی کارہائے نمایاں سرانجام دینے میں کمر بستہ ہوتا ہے تو انہیں مختلف مسائل و مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اپنوں کی مخالفت،پڑھے لکھوں کا حسد اور یارو اغیارکی چپقلش سے گذرنا ہوتا ہے اور دوستوں کی طوطہ چشمی اسے کھانے کو دوڑ تی ہے،چونکہ حضرت مولانا امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے شیدائی ہیں اور اس کیلئے وہ کسی مرحلہ میں بھی نہیں رکتے،جب کہنے پر آتے ہیں تو بڑوں بڑو ں کے سامنے اپنی باتیں کہنے سے نہیں چوکتے لازمامخالفت اور مخاصمت مولانا ئے محترم کا پیچھا کرتی رہتی ہے۔ جس سے مولانا بھی دو چار ہوتے رہتے ہیں۔ لیکن ان کا خلوص، جہد مسلسل اور اکثر طویل خاموشی مخالفین کو کبھی سرخ رو ہونے نہیں دیتی جس سے وہ بڑوں بڑوں کا دانت کھٹا کر دیتے ہیں، لیکن مولانا محترم پر کبھی اس کا اثر نہیں دیکھا گیا اور نہ ہی چہرے پر کوئی اضمحلال آیا یہ بھی تجربہ میں آیا کہ مولانا نے اللہ پر کامل بھروسہ کیا، صبر و استقامت سے کام لیا، نہ کسی سے بدلہ لیا اور اسی کا لازمی نتیجہ ہے کہ وہ آج تک سر خ رو اور ہر محاظ پر کا میاب چلے آتے رہے۔
مولانا فاران فرماتے ہیں:
''علم بغیر تربیت ایک تلوار ہے جو نقصان ہی نقصان پہنچا تی ہے۔''اس لیے ان کا زور ہمیشہ تربیت پر رہا—طلبہ کے اخلاق، گفتگو، عبادات، معاملات، حتیٰ کہ چال ڈھال پر بھی نظر رکھتے۔ ان کی مجلس میں بیٹھنے سے ادب، عاجزی اور اخلاص جیسے اوصاف خودبخود دل میں اُترتے چلے جاتے ہیں۔
ہندوستان بھر کے علماء کی آمد
یہ بھی باعثِ فخر ہے کہ ہندوستان کے مختلف علاقوں سے ممتاز علماء کرام، مفتیانِ عظام اور طلبہ عزیز یہاں جوق در جوق چلے آتے ہیں۔ بعض علماء تو خاص طور اپنی دلبستگی اور تھکن دو ر کرنے پہاڑوں کے بیچ واقع مدرسہ قادریہ تشریف لاتے ہیں۔ اس موقع پر وہ طلبہ سے خطاب کرتے ہیں مدرسہ کے نظم وانصرام، حساب و کتاب، تعلیم وتربیت کا از خود معائنہ کرواتے ہیں
اکثر دیکھا گیا ہے کہ وہ تعریفی کلمات اور بیجا مدرسے کا تعارف سے چیں بہ جبیں ہوتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ہماری کمی بھی گنائیے اور اگلی ملاقات پر تلافی ہوئی یا نہیں اس کا معائنہ بھی کیجئے یہ در اصل خیر خواہی ہے۔یہ مولانا کی تربیتی اور فکری گہرائی اور ان کے خلوص کی جیتی جاگتی عکس جمیل بھی۔
مولانا کبیر الدین: قرآن کے خادم، تربیت کے معمار، اور علماء کا منتخب ناظم
پہاڑی علاقوں کے درمیان ایک ایسا دینی ادارہ، جہاں علم، ادب، تربیت اور روحانیت کا چراغ روشن ہے وہ مدرسہ قادریہ مسروالا ہماچل پردیش ہے— یہ ہے وہ مدرسہ جس کی خدمت اور قیادت حضرت مولانا کبیر الدین کے سپرد کی گئی۔ وہ صرف ایک عالم نہیں، بلکہ ایک مخلص مربی، زبردست منتظم، اور سچے خادمِ قرآن ہیں۔

ناظم کے طور پر تقرری
مولانا کبیر الدین کو اس مدرسے کی ذمہ داری علماء مدرسہ فیض ہدایت رائے پور ضلع سہارنپور نے سونپی۔ اس مشاورت میں شریک جید علما نے نہ صرف ان کے علم، بلکہ ان کی دیانت، اخلاص اور تربیتی بصیرت کو مدنظر رکھتے ہوئے انہیں ناظم منتخب کیا۔ ان کا انتخاب ذاتی خواہش یا دنیاوی حیثیت کی بنیاد پر نہیں، بلکہ اہلِ علم کے اعتماد اور شوریٰ کی رائے سے ہوا، جن علماء کرامکی آمد وقتاً فوقتاً ہوتی رہی یہ اسمائے گرامی، قابل ذکر ہیں : بانی مدرسہ حضرت مولانا مفتی عبدالعزیز رائیپوری۔ حضرت مفتی عبدالقیوم رائے پوری،رح۔امیرالمومنین فی الحدیث حضرت مولانا شیخ محمدیونس جونپوری، (مخدوم و استاذ حضرت فاران صاحب) ۔حضرت مولانا ابوالحسن علی میاں ندوی،رح۔حضرت مفتی سید محمد یحیٰ صاحب ؒ مظاہر علوم سہارنپور۔حضرت مفتی احمد خانپوری صاحب مفتی اعظم گجرات ۔حضرت مولانا نور عالم خلیل امینی،رح۔حضرت مولانا سید ارشد مدنی مدظلہ ۔حضرت مولانا قاری عبدالستار حفظہ اللہ،بوڑیوی،۔سجادہ نشین مجدد الف ثانی سید صادق رضا،سرہندی ۔حضرت مولانا غلام محمد وستانوی،اکل کوا،وغیرہم، ان علماء کی نظرکرم پڑتی رہی:یہی وجہ ہے کہ مدرسہ مولانا فاران کی قیادت میں دن بہ دن ترقی کرتا گیا۔ ادارے کی انتظامی بنیادیں مضبوط ہوئیں، تعلیم و تربیت کا معیار بلند ہوا، اور طلبہ کی کردار سازی پر خاص توجہ دی جانے لگی۔
مدرسہ قادریہ میرا مادر علمی
میں نے وہاں استاد محترم حضرت قاری محمد علی شیر صاحب کے پاس حفظ مکمل کیا،نیز میں نے خود ان سے تربیت پائی، اور ان کی صحبت سے یہ سیکھا کہ علم کا اصل مقصد اللہ کی رضا حاصل کرنا ہے، نہ کہ محض ڈگری یا شہرت۔ پانا
تصنیفی خدمات:
مولانا کی تحریریں صرف لفظوں کا مجموعہ نہیں بلکہ روح کی غذا اور دل کا پیغام ہوتی ہیں۔
آپ کی تصانیف میں سب سے مقبول اور اثرانگیز تحریر
مٹی کا چراغ،فاران ریڈیائی تقریریں،خطبات فاران،امیدوں کا چراغ،کہاں گئے وہ لوگ؟،استاذ: دعوت و تبلیغ، رسالہ تذکیر و تانیث،یادوں کی سوغات (زیر طبع)
ان کی ساری تالیفات انسان کو اس کی حقیقت کی یاد دلاتی ہے، عاجزی، فنا، اور اپنے رب کے سامنے جوابدہی کا احساس کراتی ہے اور ایک ذمہ دارانہ زندگی گزارنے کا سبق دیتی ہے۔جو ہندوستا کے معتبر کتب خانوں میں دستیاب ہے۔ اَللّٰہُمَّ اغْفِرْ لَہُ وَارْحَمْہُ، وَبَارِکْ لَہُ فِی عِلْمِہِ وَعَمَلِہِ، وَاجْعَلْہُ مِفْتَاحًا لِلْخَیْرِ وَمِغْلَاقًا لِلشَّرِّ، وَرَافِعًا لِرَایَۃِ الْقُرْآنِ وَالسُّنَّۃِ۔ اے اللہ!انہیں سایہئ عاطفت نصیب فرماکر شر وفتن سے محفوظ رکھئے اور ہر قدم پر اپنی نصرت سے نوازتے رہئے آمین یارب العالمین۔
✒️ شان عالم عبدالرحیم سہارنپوری
شریک حال تکمیل علومِ افتاء جامعہ اسلامیہ

تازہ ترین خبریں

دیگر تصانیف

امیدوں کا چراغ

مٹی کا چراغ

کہاں گئے وہ لوگ

تذکیر و تانیث

مجلس ادارت

team

سرپرست

حضرت الحاج مولانا کبیر الدین فاران صاحب مظاہری

team

مدیر مسئول

مولانا ارشد کبیر خاقان صاحب مظاہری

team

مدیر

مفتی خالد انور پورنوی صاحب قاسمی