اہم خبریں
مسلم مخالف تقریروں اور دھرم سنسد جیسے پروگراموں پر پابندی کے لئے جمعیۃ علماء ہند سپریم کورٹ میں ، یہ محض مسلمانوں کا نہیں بلکہ ملک کے آئین ، قانون ، اتحاد اور سالمیت کا معاملہ ہے : مولانا سید ارشد مدنی
- Jan 10, 2022
- Editor: Arshad Kanir Khaquaan
- Views : 678
نئی دہلی : 10. جنوری 2022ء (پریس ریلیز)
پچھلے کچھ عرصہ سے ملک میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز تقریروں اور بیانات میں اچانک شدت آگئی ہے ، یہاں تک کہ حال ہی میں ہریدوار اور دہلی میں حکومت کی ناک کے نیچے منعقد ہونے والے پروگراموں میں نہ صرف کھل کر اشتعال انگیزیاں کی گئیں ، بلکہ ہندو راشٹر کے قیام کے لئے اکثریت کو مسلمانوں کے قتل عام پر اکسانے کی دانستہ خطرناک سازش بھی کی گئی ، مگر افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ان دونوں معاملوں میں اب تک کسی طرح کی کوئی قانونی کارروائی نہیں ہوئی ہے ، ایسے میں مجبور ہوکر جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا سید ارشد مدنی کی ہدایت پر جمعیۃ علماء ہند نے اس معاملہ میں بھی ملک کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ کا رخ کیا ہے امید افزا بات یہ ہے کہ جمعیۃ علماء ہند کی اس پٹیشن کو سماعت کے لئے منظور کرلیا گیا ہے ، یہ پٹیشن گزشتہ 4؍ جنوری کو آئین کی دفعہ 32 کے تحت داخل کی گئی ہے ، جس کا ڈائری نمبر 691/2022 ہے ، اس پورے معاملہ پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے مولانا سید ارشد مدنی نے کہا کہ ریاست اور مرکز کی قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کا اپنے فرائض منصبی کے ادا نہ کرنے سے پورے ملک میں انتہائی مایوس کن صورت حال پیدا ہوگئی ہے ، دھرم سنسد اور دوسری جگہوں پر ہونے والی شرانگیز تقریروں پر مرکز اور صوبائی حکومتوں کی خاموشی نے صورت حال کی سنگینی میں اور اضافہ کردیا ہے ،
یہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ ایک ایسے جمہوری ملک میں جس کے آئین میں ہر شہری کو یکساں حقوق دیئے گئے ہیں اور سب کے ساتھ یکساں سلوک کی ہدایت کی گئی ہے ، کچھ لوگ کھلے عام ملک کی سب سے بڑی اقلیت کے خلاف نہ صرف شرانگیزی کرتے ہیں بلکہ اکثریت کو اس کے قتل عام کے لئے اکسانے کی سازش بھی کی جاتی ہے ، مگر ایسے لوگوں کے خلاف معمولی دفعات کے تحت بھی کوئی کارروائی نہیں ہوتی ۔
آج عام چرچا ہے کہ گورنمنٹ اور سیاسی لوگوں کی خاموشی یہ بتارہی ہے کہ یہ جرم کے اندر شریک ہیں ، اور شدت پسند لوگوں کو سیاسی پشت پناہی حاصل ہے ، شاید یہی وجہ ہے کہ پولس ایف آئی آر کے بعد بھی ان لوگوں پر ہاتھ ڈالتے ہوئے گھبراتی ہے ، اسی لئے شرپسند لوگ بے خوف و خطر ، دہشت گردانہ عمل کو انجام دیتے ہیں کیونکہ ان کو یقین ہے کہ ہماری سرپرستی کرنے والے اقتدار میں موجود ہیں ، مولانا مدنی نے کہا کہ کشمیر سے کنیا کماری تک لوگ خوف و ہراس میں مبتلا ہیں ، لیکن ہم موجودہ حالات سے مایوس ہرگز نہیں ہیں اگر عزم مضبوط ہو تو مایوسی کے انہی اندھیروں میں سے امید کی نئی شمع روشن ہوسکتی ہے ، انہوں نے کہا کہ مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے ، کیونکہ زندہ قومیں حالات کے رحم و کرم پہ نہیں رہتی ہیں بلکہ اپنے کردار و عمل سے حالات کا رخ پھیر دیا کرتی ہیں ، مولانا مدنی نے کہا کہ جدوجہد آزادی میں قربانی دینے والے ہمارے بزرگوں اور مہاتما گاندھی اور نہرو وغیرہ نے جس ہندوستان کا خواب دیکھا تھا وہ یہ ہندوستان ہرگز نہیں ہوسکتا ، ہمارے بزرگوں اور مہاتما گاندھی اور نہرو وغیرہ نے ایک ایسے ہندوستان کا خواب دیکھا تھا جس میں بسنے والے تمام لوگ نسل برادری اور مذہب سے اوپر اٹھ کر امن وآتشی کے ساتھ رہ سکیں ۔
مگر ان حالات میں امید افزا بات یہ ہے کہ تمام ریشہ دوانیوں کے باوجود ملک کی اکثریت فرقہ پرستی کے خلاف ہے ، انہوں نے یہ بھی کہا کہ ملک کے انصاف پسند لوگ چپ نہیں ہیں ، وہ جو کرسکتے ہیں کررہے ہیں ، مسلح افواج کے سابق سربراہان ، سرکردہ بیورو کریٹ ، سپریم کورٹ کے ممتاز وکلاء اور دوسری سیکڑوں اہم شخصیات اس حوالہ سے صدر جمہوریہ ہند ، چیف جسٹس آف انڈیا کو خطوط لکھ چکی ہیں مگر اس کے باوجود حکومت اور اس کی ایجنسیاں دونوں خاموش ہیں ، دوسری طرف کسی طرح کی کارروائی نہیں ہونے سے شرپسند بے خوف و خطر حسب معمول شرانگیزی اور شدت پسندانہ عمل میں مصروف ہیں ، انہیں یہ یقین ہو چلا ہے کہ قانون کے ہاتھ ان کی گردنوں تک نہیں پہنچ سکتے ، کیوںکہ ان کی سرپرستی کرنے والے اقتدار میں موجود ہیں ، انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہمیں امید ہے کہ دوسرے معاملوں کی طرح اس معاملہ میں بھی ہمیں انصاف ملے گا کیوںکہ یہ محض مسلمانوں کا نہیں ملک کے آئین قانون اتحاد اور سالمیت کا معاملہ ہے ، پٹیشن میں عدالت سے درخواست کی گئی ہے کہ جو لوگ ملک میں اتحاد و یکجہتی کو ختم کرنے کے لئے ایسا کررہے ہیں ، ان کے خلاف سخت قوانین کے تحت کارروائی ہونی چاہئے ، یہ مطالبہ بھی کیا گیا ہے کہ ماب لنچنگ کی طرز پر گائیڈلائن بھی جاری کی جائے جس کے تحت ہر ضلع میں نوڈل افسر کی تعیناتی ہو جو ایسے ہر پروگرام کی نشاندہی کرے جس میں نفرت انگیز تقریریں کی جائے ، اور فوری طور پر پروگرام کے منتظمین اور اشتعال انگیزی کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کا التزام بھی ہو ، پٹیشن میں یہ مطالبہ بھی کیا گیا ہے کہ عدالت تمام ریاستوں کے ڈائرکٹر جنرل آف پولس ، لاءاینڈآرڈ کے ذمہ داروں دیگر افسران کو ہدایت جاری کرے کہ وہ نفرت آمیز بیان یا تقریر کی شکایت ملنے کے چھ گھنٹے کے اندر مقدمہ درج کرکے ملزمین کی گرفتاری کو یقینی بنائے ، اور وقت پر ملزمین کے خلاف چارج شیٹ عدالت میں داخل کی جائے ۔
مقدمہ کی جلد از جلد سماعت کے لئے پولس عدلیہ کا تعاون کرے ساتھ ہی ایسے مقدمات کی تیز سماعت کے لئے فاسٹ ٹریک عدالتوں کا قیام عمل میں لایا جائے ، یہ درخواست بھی کی گئی ہے کہ ایسے لوگوں کی ضمانت مسترد کئے جانے کے لئے گائیڈلائن تیار کرے جو مسلسل اس طرح کے بیانات دیتے ہیں جس سے ملک میں امن وامان میں نہ صرف خل پڑتا ہے بلکہ ایک مخصوص فرقہ کے خلاف اکثریت کو اکسانے کی سازش بھی کی جاتی ہے ، پٹیشن میں ایسے 30 واقعات کی نشاندہی بھی کی گئی ہے ، قابل ذکر ہے کہ اس پٹیشن میں جمعیۃ علماء ہند قانونی امدادی کمیٹی کے سربراہ گلزار احمد اعظمی مدعی بنے ہیں ، پٹیشن کو سینئر ایڈوکیٹ نتیا راما کرشنن کے قانونی مشورہ سے ایڈوکیٹ صارم نوید نے تیار کیا ہے ۔ آج چیف جسٹس آف انڈیا کی جانب سے ہریدوار دھرم سنسد نفرت آمیز تقاریر معاملہ میں داخل پٹیشن پر سماعت کے لئے راضی ہونے کا صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا سید ارشد مدنی نے خیرمقدم کیا ہے ۔
Arshad Kabir Khaquaan
تازہ ترین خبریں