توحید
*اللہ تعالی پر ایمان لانے کا مفہوم اور اس کی حقیقت* ایمان ارکان خمسہ میں سے اہم ترین رکن ہے ایمان کے بغیر کوئی عمل مقبول نہیں اس لیے مختصراً ایمان کا مفہوم وحقیقت پیش خدمت ہے سچا ایمان روح کی غذاء اور خوشی کا ساماں ہے دلی سکون صرف اللہ تعالی پر ایمان لانے سے میسر ہوتا ہے، اور ایمان نہ رکھنے والا دل سدا ڈر و خوف میں مبتلا رہتا ہے، کمزوری اس کی زندگی کا حصہ بن جاتی ہے، اور کبھی اس کو قرار نہیں ملتا ہے۔ وہ ایمان جس سے انسان کو نجات ملتی ہے وہ اللہ کی ذات پر یقین ہے۔ اس کا مفہوم یہ ہوتا ہے کہ سچے دل کے ساتھ یہ یقین رکھیں کہ اللہ تعالی ہر چیز کا پروردگار ہے، وہی اس کا مالک و خالق ہے، وہی تنہا اس بات کا مستحق ہے کہ اسی کے لئے نمازپڑھی جائے روزہ رکھا جائے، دعاء و دواء کے لئے اسی کو پکارا جائے، امید و بیم اور خشوع و خضوع کے ساتھ عبادت کی جائے۔ وہی ساری باکمال صفات سے متصف ہے، اور ہر کمی و عیب سے پاک ہے۔ اللہ تعالی پر ایمان لانے میں اس کے فرشتوں پر ایمان لانا، اس کی کتابوں، رسولوں، آخرت کے دن، اور اچھی و بری تقدیر پر ایمان لانا بھی شامل ہے۔ یہی ایمان انسان کی سعادت و خوش نصیبی کا اہم محور ہے، بلکہ مومن کے لئے یہ دنیا میں ملنے والی جنت ہے، اور اس کا انجام ان شاء اللہ تعالی آخرت میں ملنے والی جنت پر ہوگا۔ اللہ تعالی کی ذات پر ایمان: انصاف، آزادی، علم و معرفت، ہدایت، راحت و سکون اور روحانی اطمینان کی طرف لیجانے والا نور ہے شريعت ميں:ايمان دل سے اعتقاد، زبان سے اقرار اور اعضاء سے عمل كا نام ہے، جو اطاعت سے زیادہ اور نافرمانی سے كم ہوتا ہے. جب یہ بات معلوم ہوگئی، تو اب یہ جاننا ضروری ہے کہ اللہ کے دربار میں عمل کے قبولیت کی بنیاد ایمان ہے؛ اس لئے کہ اللہ تعالی نے فرمایا:{پھر جو بھی نیک عمل کرے، اور وہ مومن (بھی) ہو } (الانبیاء: 94) ایمان کی اہمیت و فضیلت اللہ کے یہاں سب سے افضل و پاک عمل ایمان ہے، چنانچہ حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ نے روایت کیا کہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سوال کیا:اے اللہ کے رسول: کونسا عمل سب سے زیادہ افضل ہے؟ تو آپ ﷺ نے کہا: اللہ تعالی کی ذات پر ایمان رکھنا اور اس کے راستے میں حددرجہ کوشش کرنا"(اس حدیث کو امام مسلم نےروایت کیا ہے) ایمان دنیوی و اخروی سعادت و ہدایت کا ذریعہ ہے، چنانچہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:{سو جس شخص کو اللہ تعالی راستے پر ڈالنا چاہے اس کے سینہ کو اسلام کے لئے کشادہ کردیتا ہے }(الانعام: 125) ایمان مومن کو گناہوں سے دور رکھتا ہے، چنانچہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ:{یقینا جو لوگ ایمان ترس ہیں جب ان کو کوئی خطرہ شیطان کی طرف سے آجاتا ہے تو وہ یاد میں لگ جاتے ہیں، سو یکایک ان کی آنکھیں کھل جاتی ہیں۔}(الاعراف: 201) ایمان عمل کے قبولیت کی شرط ہے، اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ:{یقینا تیری طرف بھی اور تجھ سے پہلے ( کے تمام نبیوں) کی طرف بھی وحی کی گئی ہے کہ اگر تو نے شرک کیا تو بلا شبہ تیرا عمل ضائع ہوجائے گا اور بالیقین تو زیاں کاروں میں سے ہوجائے گا۔ }(الزمر: 65) سچے ایمان سے اللہ تعالی عمل میں برکت پیدا کرتے ہیں اور دعاؤں کو قبولیت سے نوازتے ہیں۔۔ فقط واللہ
نماز
*نَمازارکان خمسہ میں سے دوسرا رکن ہے اس لیے اس کی اہمیت وفضیلت پر مختصر تحقیق* ایمان و تصحیح عقائد مطابق مذہب اہل سنت و جماعت کے بعد نماز تمام فرائض میں نہایت اہم واعظم ہے۔ قرآن مجید و احادیث نبی کریم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالتَّسْلِیْم اس کی اہمیت سے مالا مال ہیں ،جا بجا اس کی تاکید آئی اور اس کے تارکین پر وعید فرمائی،اللہ پاک نے قرآن پاک کی سورۂ البقرۃ آیت 3 میں متقی لوگوں کا دوسرا وصف بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ نماز قائم کرتے ہیں۔نماز قائم کرنے سے مراد یہ ہے کہ نماز کے ظاہری اور باطنی حقوق ادا کرتے ہوئے نمازپڑ ھی جائے۔نماز کے ظاہری حقوق یہ ہیں کہ ہمیشہ، ٹھیک وقت پر پابندی کے ساتھ نماز پڑھی جائے اورنماز کے فرائض، سنن اور مستحبات کا خیال رکھا جائے اور تمام مفسدات و مکروہات سے بچا جائے جبکہ باطنی حقوق یہ ہیں کہ آدمی دل کوغیرُاللہ کے خیال سے فارغ کرکے ظاہروباطن کے ساتھ بارگاہِ حق میں متوجہ ہواوربارگاہِ الٰہی میں عرض و نیاز اور مناجات میں محو ہو جائے۔(بیضاوی، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۳، ۱ / ۱۱۵-۱۱۷، جمل، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۳، ۱ / ۱۸، ملتقطاً) *نماز قائم کرنے کے فضائل اور نہ کرنے پر وعیدیں* قرآنِ مجید اور احادیث میں نماز کے حقوق کی ادائیگی کے ساتھ نماز پڑھنے والوں کے فضائل بیان کئے گئے اور نہ پڑھنے والوں کی مذمت بیان کی گئی ہے چنانچہ سورۂ مومنون میں اللہ تعالٰی ارشاد فرماتا ہے: *’’ قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَۙ(۱) الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ(۲)‘‘(مؤمنون: ۱-۲)* بیشک(وہ) ایمان والے کامیاب ہوگئے۔ جو اپنی نماز میں خشوع و خضوع کرنے والے ہیں۔ اسی سورت میں ایمان والوں کے مزید اوصاف بیان کرنے کے بعد ان کا ایک وصف یہ بیان فرمایا کہ *وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَلٰى صَلَوٰتِهِمْ یُحَافِظُوْنَۘ(۹)‘‘ (مؤمنون: ۹)* اور وہ جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ اور ان اوصاف کے حامل ایمان والوں کے بارے میں ارشاد فرمایا: *اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْوٰرِثُوْنَۙ(۱۰) الَّذِیْنَ یَرِثُوْنَ الْفِرْدَوْسَؕ-هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ‘‘(مؤمنون: ۱۰-۱۱)* یہی لوگ وارث ہیں۔یہ فردوس کی میراث پائیں گے، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ نماز میں سستی کرنے والوں اورنمازیں ضائع کرنے والوں کے بارے میں اللہ تعالٰی ارشاد فرماتا ہے: *اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ یُخٰدِعُوْنَ اللّٰهَ وَ هُوَ خَادِعُهُمْۚ-وَ اِذَا قَامُوْۤا اِلَى الصَّلٰوةِ قَامُوْا كُسَالٰىۙ-یُرَآءُوْنَ النَّاسَ وَ لَا یَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ اِلَّا قَلِیْلًا‘‘(النساء: ۱۴۲)* بیشک منافق لوگ اپنے گمان میں اللہ کو فریب دینا چاہتے ہیں اور وہی انہیں غافل کرکے مارے گا اور جب نماز کے لئے کھڑے ہوتے ہیں توبڑے سست ہوکر لوگوں کے سامنے ریاکاری کرتے ہوئے کھڑے ہوتے ہیں اور اللہ کو بہت تھوڑا یاد کرتے ہیں۔ اور ارشاد فرمایا: *فَخَلَفَ مِنْۢ بَعْدِهِمْ خَلْفٌ اَضَاعُوا الصَّلٰوةَ وَ اتَّبَعُوا الشَّهَوٰتِ فَسَوْفَ یَلْقَوْنَ غَیًّاۙ(۵۹) اِلَّا مَنْ تَابَ وَ اٰمَنَ وَ عَمِلَ صَالِحًا فَاُولٰٓىٕكَ یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ وَ لَا یُظْلَمُوْنَ شَیْــٴًـا(مریم: ۵۹-۶۰)* تو ان کے بعد وہ نالائق لو گ ان کی جگہ آئے جنہوں نے نمازوں کو ضائع کیا اور اپنی خواہشوں کی پیروی کی تو عنقریب وہ جہنم کی خوفناک وادی غَی سے جاملیں گے مگر جنہوں نے توبہ کی اور ایمان لائے اور نیک کام کئے تو یہ لوگ جنت میں داخل ہوں گے اور ان پر کوئی زیادتی نہیں کی جائے گی۔ حضرت عثمانِ غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :سرکار دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جس نے میرے اِس وضو کی طرح وُضو کیا پھر اس طرح دورکعت نماز پڑھی کہ ان میں خیالات نہ آنے دے تو اس کے پچھلے تمام گناہ بخش دیئے جائیں گے ۔ *(بخاری، کتاب الوضوئ، باب الوضوء ثلاثًا ثلاثًا، ۱ / ۷۸، الحدیث: ۱۵۹)* حضرت عقبہ بن عامررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،سید المُرسَلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’جوبھی مسلمان اچھے طریقے سے وُضو کرتا ہے ،پھرکھڑے ہو کراس طرح دو رکعت نمازپڑھتا ہے کہ اپنے دل اور چہرے سے متوجہ ہوکر یہ دو رکعتیں ادا کرتا ہے تواس کے لئے جنت واجب ہوجاتی ہے ۔ *مسلم،کتاب الطہارۃ، باب الذکر المستحبّ عقب الوضو ء،ص۱۴۴، الحدیث:۱۷۲۳۴* حضرت عبداللہ بن عمرو رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’جس نے نماز پر مداومت کی تو قیامت کے دن وہ نماز اس کے لیے نور ،برہان اور نجات ہو گی اور جس نے نماز کی محافظت نہ کی تو اس کے لیے نہ نور ہے، نہ برہان ،نہ نجات اور وہ قیامت کے دن قارون ، فرعون ، ہامان اور اُبی بن خلف کے ساتھ ہوگا۔ *مسند امام احمد ، مسند عبد اللہ بن عمرو بن العاص، ۲ / ۵۷۴، الحدیث: ۶۵۸۷* حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضوراقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’جس نے جان بوجھ کرنماز چھوڑی تو جہنم کے اُس دروازے پر اِس کا نام لکھ دیا جاتا ہے جس سے وہ داخل ہوگا۔ *حلیۃ الاولیاء، ۷ / ۲۹۹، الحدیث: ۱۰۵۹۰*۔ فقط واللہ اعلم۔
روزہ
*روزہ ارکان خمسہ میں سے چوتھا رکن ہے اس لیے روزہ کی فرضیت و فضیلت پر مختصر کلام* قرآنِ حکیم میں روزہ کی فرضیت کے بارے میں اﷲ تعالیٰ نے فرمایا : *يأَيُّهاَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَيْکُمُ الصِّيَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَoالبقرة، 2 : 183* اے ایمان والو! تم پر اسی طرح روزے فرض کیے گئے ہیں جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤo‘‘ 1حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے روزہ کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا۔ *مَنْ صَامَ رَمَضَانَ اِ يْمَانًا وَّ اِحْتِسَابًا غُفِرَ لَه. مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِه.بخاری، الصحيح، کتاب الصوم، باب صوم رمضان احتسابا من اليمان،1: 22، رقم : 38* جس نے بحالتِ ایمان ثواب کی نیت سے رمضان کے روزے رکھے اس کے سابقہ گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔‘ 2۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : *اَلصَّوْمُ جُنَّةٌ مِنَ النَّارِ کَجُنَّةِ أَحَدِکُمْ مِنَ الْقِتَالِ. نسائی، السنن، کتاب الصيام، 2 : 637، رقم : 2230، 2231* روزہ جہنم کی آگ سے ڈھال ہے جیسے تم میں سے کسی شخص کے پاس لڑائی کی ڈھال ہو۔ 3۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : *کُلُّ عَمَلِ ابْنِ آدَمَ يُضَاعَفُ الْحَسَنَةُ بِعَشْرِ أَمْثَالِها إِلَی سَبْعِمِائَةِ ضِعْفٍ إِلَی مَا شَائَ اﷲُ، يَقُوْلُ اﷲُ تَعَالَی إِلَّا الصَّوْمُ فَإِنَّهُ لِی، وَأَنَا أَجْزِی بِهِ. ابن ماجه، السنن، کتاب الصيام، باب ما جاء فی فضل الصيام، 2 : 305، رقم : 1638* آدم کے بیٹے کا نیک عمل دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک آگے جتنا ﷲ چاہے بڑھایا جاتا ہے۔ ﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے : روزہ اس سے مستثنیٰ ہے کیونکہ وہ میرے لئے ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گ۔‘‘ مندرجہ بالا حدیث مبارک سے یہ چیز واضح ہوتی ہے کہ اعمال صالحہ کا ثواب صدقِ نیت اور اخلاص کی وجہ سے دس گنا سے بڑھ کر سات سو گنا تک بلکہ بعض دفعہ اس سے بھی زیادہ ہوتا ہے لیکن روزہ کا ثواب بے حد اور بے اندازہ ہے۔ یہ کسی ناپ تول اور حساب کتاب کا محتاج نہیں، اس کی مقدار ﷲ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ روزے کی اس قدر فضیلت کے درج ذیل اسباب ہیں پہلا سبب : روزہ لوگوں سے پوشیدہ ہوتا ہے اسے ﷲ کے سوا کوئی نہیں جان سکتا جبکہ دوسری عبادتوں کا یہ حال نہیں ہے کیونکہ ان کا حال لوگوں کو معلوم ہو سکتا ہے۔ اس لحاظ سے روزہ خالص امﷲ تعالیٰ کے لئے ہی ہے۔ فانّا لِيْ سے اسی کی طرف اشارہ ہے۔ دوسرا سبب : روزے میں نفس کشی، مشقت اور جسم کو صبر و برداشت کی بھٹی سے گزرنا پڑتا ہے۔ اس میں بھوک، پیاس اور دیگر خواہشاتِ نفسانی پر صبر کرنا پڑتا ہے جبکہ دوسری عبادتوں میں اس قدر مشقت اور نفس کشی نہیں ہے۔ تیسرا سبب : روزہ میں ریاکاری کا عمل دخل نہیں ہوتا جبکہ دوسری ظاہری عبادات مثلاً نماز، حج، زکوٰۃ وغیرہ میں ریاکاری کا شائبہ ہو سکتا ہے۔ چوتھا سبب : کھانے پینے سے استغناء ﷲ تعالیٰ کی صفات میں سے ہے۔ روزہ دار اگرچہ ﷲ تعالیٰ کی اس صفت سے متشابہ تو نہیں ہو سکتا لیکن وہ ایک لحاظ سے اپنے اندر یہ خلق پیدا کر کے مقرب الٰہی بن جاتا ہے۔ پانچواں سبب : روزہ کے ثواب کا علم ﷲ تعالیٰ کے سوا کسی کو نہیں جبکہ باقی عبادات کے ثواب کو رب تعالیٰ نے مخلوق پر ظاہر کر دیا ہے۔ چھٹا سبب : روزہ ایسی عبادت ہے جسے ﷲ کے سوا کوئی نہیں جان سکتا حتی کہ فرشتے بھی معلوم نہیں کر سکتے۔ ساتواں سبب : روزہ کی اضافت ﷲ کی طرف شرف اور عظمت کے لئے ہے جیسا کہ بیت ﷲ کی اضافت محض تعظیم و شرف کے باعث ہے ورنہ سارے گھر ﷲ کے ہیں۔ آٹھواں سبب : روزہ دار اپنے اندر ملائکہ کی صفات پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے اس لئے وہ ﷲ کو محبوب ہے۔ نواں سبب : جزائِے صبر کی کوئی حد نہیں ہے اس لئے رمضان کے روزوں کی جزاء کو بے حد قرار دیتے ہوئے ﷲ تعالیٰ نے اس کو اپنی طرف منسوب کیا کہ اس کی جزاء میں ہوں فقط واللہ اعلم۔۔
زکوٰۃ
*زکوٰۃ ارکان خمسہ میں سے تیسرا رکن ہے لہذٰا اس کی فضیلت و اہمیت قرآن و حدیث کی روشنی میں* زکات اسلام کا بنیادی رکن ہے۔ رسولِ پاک ﷺ کا فرمانِ پاک ہے اسلام کی بنیاد پانچ باتوں پر ہے، اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ پاک کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد (ﷺ) اس کے رسول ہیں، نماز قائم کرنا، زکات ادا کرنا، حج کرنا اوررمضان کے روزے رکھنا۔ *بخاری شریف، کتاب الایمان ،باب دعا ء کم ایمانکم ،حدیث نمبر۸،ج۱،ص۱۴* زکات کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ قرآنِ حکیم میں نماز اور زکات کا ایک ساتھ 32 مرتبہ ذکر آیا ہے۔ *ردالمحتار،کتاب الزکاۃ، ج۳، ص۲۰۲* علاوہ ازیں زکات دینے والا خوش نصیب دنیوی واُخری سعادتوں کو اپنے دامن میں سمیٹ لیتا ہے۔ زکات کی فرضیت قرآن و حدیث سے ثابت ہے۔ اللہ پاک قرآنِ حکیم میں ارشاد فرماتا ہے *وَاَقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّکٰوۃَ* اور نماز قائم رکھو اور زکات دو۔ (پ ۱،البقرۃ:۴۳) اس آیت میں نمازو زکات کی فرضیت کا بیان ہے ۔ *خُذْ مِنْ اَمْوَالِہِمْ صَدَقَۃً تُطَہِّرُہُمْ وَتُزَکِّیۡہِمۡ بِہَاوتصل علیہم ان صلاتک سکن لھم* اے محبوب! ان کے مال میں سے زکات کی تحصیل کرو جس سے تم انھیں ستھرا اور پاکیزہ کردو۔ (پ۱۱، التوبۃ:۱۰۳) اس آیت میں جو صدَقہ وارِد ہوا ہے اس کے معنٰی میں مفسِّرین کے کئی قول ہیں۔ ایک تو یہ کہ وہ صدَقہ غیر واجِبہ تھا جو بطورِ کَفّارہ کے اِن صاحبوں نے دیا تھا جن کا ذکر اُوپر کی آیت میں ہے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ اس صدَقہ سے مراد وہ زکات ہے جو ان کے ذمّہ واجب تھی، وہ تائب ہوئے اور انہوں نے زکات ادا کرنی چاہی تو اللہ پاک نے اس کے لینے کا حکم دیا ۔ امام ابوبکر جصاص رازی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اس قول کو ترجیح دی ہے کہ صدَقہ سے زکات مراد ہے ۔ (خازن و احکام القرآن بحوالہ خزائن العرفان) زکات 2 ہجری میں روزوں سے قبل فرض ہوئی ۔ *الدرالمختار،کتاب الزکات،ج۳،ص۲۰۲* زکات کا فرض ہونا قرآن سے ثابت ہے ،اس کا اِنکار کرنے والا کافر ہے ۔ *الفتاویٰ الھندیۃ،کتاب الزکات ،الباب الاول،ج۱،ص۷۰ ۱* *احادیثِ فرضیت زکات* فرضیتِ زکات پر بے شمار حدیثیں آئیں ہیں، جن میں سے چند یہاں ذکر کی جا رہی ہیں (1) حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روا یت ہے کہ رسول پاک ﷺ نے فرمایا مجھے اللہ پاک نے اس پر مامور کیا ہے کہ مَیں لوگوں سے اس وقت تک قتال کروں جب تک وہ یہ گواہی نہ دیں کہ اللہ کے سوا کو ئی سچا معبود نہیں اور محمد (ﷺ )خدا کے سچے رسول ہیں، ٹھیک طرح نماز ادا کریں، زکات دیں، پس اگر ایسا کر لیں تو مجھ سے ان کے مال اور جا نیں محفوظ ہو جائیں گے سوائے اس سزا کے جو اِسلام نے (کسی حد کے سلسلہ میں)ان پر لازم کر دی ہو *صحیح البخاری،کتاب الایمان،باب فان تابواواقامواالصلوۃ،حدیث نمبر ۲۵،ج۱،ص۲۰* (2) نبی پاک ﷺ نے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو جب یمن کی طر ف بھیجا تو فرمایا: ان کو بتاؤ کہ اللہ پاک نے ان کے مالوں میں زکات فرض کی ہے مال داروں سے لے کر فقرا کو دی جائے ۔ *سنن الترمذی، کتاب الزکاۃ ،باب ما جاء فی کراھیۃ اخذ خیار المال فی الصدقۃ ،حدیث نمبر۶۲۵،ج۲،ص۱۲۶* (3) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرما تے ہیں جب رسول پاک ﷺ کا وصالِ ظاہری ہو گیا اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے اور کچھ قبا ئل عرب مرتد ہو گئے (کہ زکات کی فرضیت سے انکار کر بیٹھے) تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہاآپ لوگوں سے کیسے معاملہ کریں گے جب کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا مَیں لو گوں سے قتال کرنے پر ما مور ہوں جب تک وہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ نہ پڑھیں ۔ جس نے لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ کا اقرار کر لیا اس نے اپنی جان اور اپنا مال مجھ سے محفوظ کر لیا مگر یہ کہ کسی کا حق بنتا ہو اور وہ اللہ پاک کے ذمے ہے۔” (یعنی یہ لوگ تو لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ کہنے والے ہیں، ان سےکیسے قتال کیا جائے گا) حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہااللہ کی قسم! مَیں اس شخص سے قتال کروں گا جو نماز اور زکات میں فرق کرے گا (کہ نماز کو فرض مانے اور زکاۃ کی فرضیت سے انکار کرے) اور زکات مال کا حق ہے بخدا اگر انھوں نے (واجب الاداء) ایک رسی بھی روکی جو وہ رسول اللہ ﷺ کے دور میں دیا کرتے تھے تو مَیں ان سے جنگ کروں گا۔” حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :”واﷲ! میں نے دیکھا کہ ﷲ پاک نے صدیق کا سینہ کھول دیا ہے۔ اُس وقت میں نے بھی پہچان لیا کہ وہی حق ہے ۔ *صحیح البخاری ،کتاب الزکاۃ،باب وجوب الزکوۃ،حدیث نمبر ۱۳۹۹،۱۴۰۰،ج۱،ص۴۷۲،۴۷۳* اس حدیث سے معلوم ہوا کہ صرف کلمہ گوئی اِسلام کے لیے کافی نہیں، جب تک تمام ضروریاتِ دِین کا اِقرار نہ کرے اورامیر المومنین فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا بحث کرنا اس وجہ سے تھا کہ ان کے علم میں پہلے یہ بات نہ تھی، کہ وہ فرضیت کے منکر ہیں یہ خیال تھا کہ زکات دیتے نہیں اس کی وجہ سے گنہگار ہوئے، کا فر تو نہ ہوئے کہ ان سے قتال کیا جائے، مگر جب معلوم ہوگیا تو فرماتے ہیں میں نے پہچان لیا کہ وہی حق ہے، جو حضرت صدیق رضی اللہ عنہ نے سمجھا اور کیا۔ ” (بہارِ شریعت ،ج۱،حصہ ۵،ص ۸۷۰) *زکات ادا کرنے کے فضائل وفوائد* زکات ادا کرنے کی بے شمار فضیلتیں اور بے انتہاء فائدے ہیں ذیل میں چند فضائل و فوائد ملاحظہ کریں: (1)تکمیل ایمان کا ذریعہ زکات دینا تکمیل ِ ایمان کا ذریعہ ہے جیسا کہ رسول پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا: تمہارے اسلام کا پورا ہونا یہ ہے کہ تم اپنے مالوں کی زکات ادا کرو۔ *الترغیب والترھیب ،کتاب الصدقات ،باب الترغیب فی اداءِ الزکوٰۃ،حدیث نمبر۱۲، ج۱، ص۳۰۱* ایک مقام پر ارشاد فرمایا: جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتا ہو اسے لازم ہے کہ اپنے مال کی زکات ادا کرے *المعجم الکبیر ،حدیث نمبر ۱۳۵۶۱،ج۱۲،ص۳۲۴* (2)رحمتِ الہٰی کی برسات زکات دینے والے پر رحمتِ الہٰی کی برسات ہوتی ہے۔ سورۃُ الاعراف میں ہے : *وَ رَحْمَتِیۡ وَسِعَتْ کُلَّ شَیۡءٍ ؕ فَسَاَکْتُبُہَا لِلَّذِیۡنَ یَتَّقُوۡنَ وَ یُؤْتُوۡنَ الزَّکٰوۃَ* اور میری رحمت ہر چیز کو گھیرے ہوئے ہے تو عنقریب میں نعمتوں کو ان کے لئے لکھ دوں گا جو ڈرتے اور زکات دیتے ہیں ۔ *(پ۹،الاعراف۱۵۶)* (3)تقویٰ وپرہیزگاری کا حصول زکات دینے سے تقویٰ حاصل ہوتا ہے ۔قرآنِ پاک میں مُتَّقِیْن کی علامات میں سے ایک علامت یہ بھی بیان کی گئی ہے چناں چہ ارشاد ہوتا ہے : *وَمِمَّا رَزَقْنٰہُمۡ یُنۡفِقُوۡنَ* اورہماری دی ہوئی روزی ميں سے ہماری راہ ميں خرچ کرتے ہیں۔ (پ۱،البقرۃ:۳) (4)کام یابی کا راستہ زکات دینے والا کامیاب لوگوں کی فہرست میں شامل ہوجاتا ہے۔ جیسا کہ قرآن پاک میں فلاح کو پہنچنے والوں کا ایک کام زکات بھی گنوایا گیا ہے چناں چہ ارشاد ہوتا ہے : *قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوۡنَ ۙ﴿۱﴾الَّذِیۡنَ ہُمْ فِیۡ صَلَاتِہِمْ خَاشِعُوۡنَ ۙ﴿۲﴾وَالَّذِیۡنَ ہُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوۡنَ ﴿ۙ۳﴾وَالَّذِیۡنَ ہُمْ لِلزَّکٰوۃِ فٰعِلُوۡنَ ۙ﴿۴﴾* بے شک مراد کو پہنچے ایمان والے جو اپنی نماز میں گڑگڑاتے ہیں اور وہ جو کسی بیہودہ بات کی طرف التفات نہیں کرتے اور وہ کہ زکات دینے کا کام کرتے ہیں۔ *(پ ۱۸،المؤمنون ۱تا۴)* (5)نصرتِ الہٰی کا مستحق اللہ تعالیٰ زکات ادا کرنے والے کی مدد فرماتا ہے۔ چناں چہ ارشاد ہوتا ہے : *وَ لَیَنۡصُرَنَّ اللہُ مَنۡ یَّنۡصُرُہٗ ؕ اِنَّ اللہَ لَقَوِیٌّ عَزِیۡزٌ ﴿۴۰﴾اَلَّذِیۡنَ اِنۡ مَّکَّنّٰہُمْ فِی الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَوُا الزَّکٰوۃَ وَ اَمَرُوۡا بِالْمَعْرُوۡفِ وَ نَہَوْا عَنِ الْمُنۡکَرِ ؕ وَ لِلہِ عَاقِبَۃُ الْاُمُوۡرِ ﴿۴۱﴾* اور بے شک اللہ ضرور مدد فرمائے گا اس کی جو اس کے دین کی مدد کرے گا بے شک ضرور اللہ قدرت والا غالب ہے، وہ لوگ کہ اگر ہم انہیں زمین میں قابو دیں تو نماز قائم رکھیں اور زکات دیں اور بھلائی کا حکم کریں اور برائی سے روکیں اور اللہ ہی کے لئے سب کاموں کا انجام۔ *(پ ۱۷،الحج:۴۰،۴۱)* (6)اچھے لوگوں میں شمارہونے والا زکوۃادا کرنا اللہ کے گھروں یعنی مساجد کو آباد کرنے والوں کی صفات میں سے ہے چناں چہ ارشاد پاک ہے : *اِنَّمَا یَعْمُرُ مَسٰجِدَ اللہِ مَنْ اٰمَنَ بِاللہِ وَالْیَوْمِ الۡاٰخِرِ وَاَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَاٰتَی الزَّکٰوۃَ وَلَمْ یَخْشَ اِلَّا اللہَ ۟ فَعَسٰۤی اُولٰٓئِکَ اَنۡ یَّکُوۡنُوۡا مِنَ الْمُہۡتَدِیۡنَ ﴿۱۸﴾* اللہ کی مسجدیں وہی آباد کرتے ہیں جو اللہ اور قیامت پر ایمان لاتے اور نماز قائم کرتے ہیں اور زکات دیتے ہیں اور اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے تو قریب ہے کہ یہ لوگ ہدایت والوں میں ہوں۔ *(پ۱۰،التوبۃ: ۱۸)* (7)غربا کے دل میں خوشی داخل کرنے کا ثواب زکات کی ادائیگی سے غریب لوگوں کی ضرورت پوری ہوجاتی ہے اور ان کے دل میں خوشی داخل ہوتی ہے ۔ (8) بھائی چارے کا بہترین اظہار زکات دینے کا عمل اخوتِ اسلامی کی بہترین تعبیر ہے کہ ایک غنی مسلمان اپنے غریب مسلمان بھائی کو زکات دے کر معاشرے میں سر اٹھا کر جینے کا حوصلہ مہیا کرتا ہے۔ نیز غریب مسلمان بھائی کا دل کینہ وحسد کی شکارگاہ بننے سے محفوظ رہتا ہے کیوں کہ وہ جانتا ہے کہ اس کے غنی اسلامی بھائی کے مال میں اس کا بھی حق ہے چناں چہ وہ اپنے بھائی کے جان، مال اور اولاد میں برکت کے لیے دعاگو رہتا ہے، نبی ﷺ نے فرمایا: بیشک مؤمن کیلئے مؤمن مثل عمارت کے ہے، بعض بعض کو تقویت پہنچاتا ہے۔ *(صَحِیْحُ الْبُخَارِیْ،کتاب الصلوۃ،باب تشبیک الاصابع…الخ،حدیث نمبر۴۸۱،ج۱،ص۱۸۱)* (9)فرمان ِ مصطفی ﷺ کا مصداق زکات مسلمانوں کے درمیان بھائی چارہ مضبوط بنانے میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہے جس سے اسلامی معاشرے میں اجتماعیت کو فروغ ملتا ہے اور امدادِ باہمی کی بنیاد پر مسلمان اپنے پیارے آقا مدینے والے مصطفی ﷺ کے اس فرمانِ عظیم کا مصداق بن جاتے ہیں: مسلمانوں کی آپس میں دوستی اوررحمت اور شفقت کی مثال جسم کی طرح ہے، جب جسم کا کوئی عضو بیمار ہو تا ہے تو بخار اور بے خوابی میں سارا جسم اس کا شریک ہو تا ہے۔ *(صحیح مسلم ،کتاب البر والصلۃ والآداب،باب تراحم المؤمنین ..الخ،حدیث نمبر۲۵۸۶،ص۱۳۹۶)* (10)مال کا پاک ہونا زکات دینے سے مال پاک ہوجاتا ہے جیسا کہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول پاک ﷺ نے فرمایا: اپنے مال کی زکات نکال کہ وہ پاک کرنے والی ہے، تجھے پاک کردے گی ۔” *(المسندللامام احمد بن حنبل،مسند انس بن مالک ،حدیث نمبر ۱۲۳۹۷،ج۴،ص۲۷۴)* (۱۱)بُری صفات سے چھٹکارا زکات دینے سے لالچ وبخل جیسی بُری صفات سے (اگر دل میں ہوں تو)چھٹکارا پانے میں مدد ملتی ہے اور سخاوت وبخشش کا محبوب وصف مل جاتا ہے ۔ (12)مال میں برکت زکات دینے والے کا مال کم نہیں ہوتا بلکہ دنیا وآخرت میں بڑھتا ہے ۔ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے : *وَ مَاۤ اَنۡفَقْتُمۡ مِّنۡ شَیۡءٍ فَہُوَ یُخْلِفُہٗ ۚ وَ ہُوَ خَیۡرُ الرّٰزِقِیۡنَ ﴿۳۹﴾* اور جو چیز تم اللہ کی راہ میں خرچ کرو وہ اس کے بدلے اور دے گا اور وہ سب سے بہتر رزق دینے والا۔ *(پ۲۲،سبا:۳۹ )* ایک مقام پر ارشاد ہوتا ہے : *مَثَلُ الَّذِیۡنَ یُنۡفِقُوۡنَ اَمْوَالَہُمْ فِیۡ سَبِیۡلِ اللہِ کَمَثَلِ حَبَّۃٍ اَنۡۢبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِیۡ کُلِّ سُنۡۢبُلَۃٍ مِّائَۃُ حَبَّۃٍ ؕ وَاللہُ یُضٰعِفُ لِمَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَاللہُ وَاسِعٌ عَلِیۡمٌ ﴿۲۶۱﴾اَلَّذِیۡنَ یُنۡفِقُوۡنَ اَمْوَالَہُمْ فِیۡ سَبِیۡلِ اللہِ ثُمَّ لَا یُتْبِعُوۡنَ مَاۤ اَنۡفَقُوۡا مَنًّا وَّلَاۤ اَذًی ۙ لَّہُمْ اَجْرُہُمْ عِنۡدَ رَبِّہِمْ ۚ وَلَا خَوْفٌ عَلَیۡہِمْ وَلَا ہُمْ یَحْزَنُوۡنَ ﴿۲۶۲﴾* ان کی کہاوت جو اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اس دانہ کی طرح جس نے اگائیں سات بالیں، ہربال میں سو دانے اور اللہ اس سے بھی زیادہ بڑھائے جس کے لیے چاہے اور اللہ وسعت والا علم والا ہے، وہ جو اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں، پھر دیے پیچھے نہ احسان رکھیں نہ تکلیف دیں ان کا نیک (انعام) ان کے رب کے پاس ہے اور انہیں نہ کچھ اندیشہ ہو نہ کچھ غم۔ *(پ۳،البقرۃ:۲۶۱،۲۶۲)* توزکات دینے والے کو یہ یقین رکھتے ہوئے خوش دلی سے زکات دینی چاہیے کہ اللہ پاک اس کو بہتر بدلہ عطا فرمائے گا ۔ رسول پاک ﷺ کا فرمان ہے: ”صدقہ سے مال کم نہیں ہوتا ۔” *المعجم الاوسط ،حدیث نمبر ۲۲۷۰،ج۱،ص۶۱۹* اگرچہ ظاہری طور پر مال کم ہوتا ہےلیکن حقیقت میں بڑھ رہا ہوتا ہے جیسے درخت سے خراب ہونے والی شاخوں کو اُتارنے میں بظاہر درخت میں کمی نظر آرہی ہے لیکن یہ اُتارنا اس کی نشوونما کا سبب ہے۔ زکات دینے والے کی زکات ہر سال بڑھتی ہی رَہتی ہے۔ یہ تجرِبہ ہے۔ جو کسان کھیت میں بیج پھینک آتا ہے وہ بظاہِر بوریاں خالی کر لیتا ہے لیکن حقیقت میں مع اضافہ کے بھر لیتا ہے۔ گھر کی بوریاں چوہے، سُرسُری وغیرہ کی آفات سے ہلاک ہو جاتی ہیں یا یہ مطلب ہے کہ جس مال میں سے صَدَقہ نکلتا رہے اُس میں سے خرچ کرتے رہو، اِن شاءَ اللہ بڑھتا ہی رہے گا، کُنویں کا پانی بھرے جاؤ، تو بڑھے ہی جائے گا۔ *مرأۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح ج ۳ ص ۹۳* (13) شر سے حفاظت زکات دینے والا شر سے محفوظ ہوجاتا ہے جیسا کہ رسول پاک ﷺ کا فرمان ہے: جس نے اپنے مال کی زکات ادا کردی بے شک اللہ پاک نے اس سے شر کو دور کردیا *(المعجم الاوسط،باب الالف من اسمہ احمد،حدیث نمبر،۱۵۷۹،ج۱،ص۴۳۱)* (14)حفاظتِ مال کا سبب زکات دینا حفاظتِ مال کا سبب ہے جیسا کہ نبی پاک ﷺ نے فرمایا:’ ‘اپنے مالوں کو زکات دے کر مضبوط قلعوں میں کر لو اور اپنے بیماروں کا علاج خیرات سے کرو۔ *(مراسیل ابی داؤد مع سن ابی داؤد ،باب فی الصائم یصیب اھلہ،ص۸ )* (15)حاجت روائی اللہ پاک زکات دینے والوں کی حاجت روائی فرمائے گا جیسا کہ حضور پاک ﷺ نے فرمایا : جو کسی بندے کی حاجت روائی کرے اللہ پاک دین و دنیا میں اس کی حاجت روائی کرے گا۔ *(صحیح مسلم ،کتاب الذکر والدعائ،باب فضل الاجتماع….الخ، حدیث نمبر۲۶۹۹، ص۱۴۴۷)* ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا: ”جو کسی مسلمان کودنیاوی تکلیف سے رہائی دے تو اللہ پاک اس سے قیامت کے دن کی مصیبت دور فرمائے گا ۔” *(جامع الترمذی ،کتاب الحدود،باب ماجاء فی السترعلی المسلم،حدیث نمبر، ج۳، ص۱۱۵)* (16)دُعاؤں کی حصول یابی غریبوں کی دعائیں ملتی ہیں جس سے رحمتِ خداوندی اور مدد الہٰی حاصل ہوتی ہے جیسا کہ رسول پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا: ”تمھیں اللہ پاک کی مدد اور رزق ضعیفوں کی برکت اور ان کی دعاؤں کے سبب پہنچتا ہے ۔” *(صحیح البخاری،کتاب الجہاد،باب عن استعان بالضعفاء،…الخ، حدیث نمبر،۲۸۹۶، ج۲،ص۲۸۰)* زکات نہ د ینے کے نقصانات زکات کی عدم ادائیگی کے متعدد نقصانات ہیں جن میں چند یہ ہیں : (1) ان فوائد سے محرومی جو اسے ادائیگیِ زکات کی صورت میں مل سکتے تھے ۔ (2) بخل یعنی کنجوسی جیسی بُری صفت سے(اگر کوئی اس میں گرفتار ہوتو)چھٹکارا نہیں مل پائے گا۔ رسول پاک ﷺ کا فرمانِ پاک ہے : سخاوت جنت میں ایک درخت ہے جو سخی ہوا اس نے اس درخت کی شاخ پکڑ لی ،وہ شاخ اسے نہ چھوڑے گی یہاں تک کہ اسے جنت میں داخل کر دے اور بخل آگ میں ایک درخت ہے ،جو بخیل ہوا ،اس نے اس کی شاخ پکڑی ،وہ اسے نہ چھوڑے گی ،یہاں تک کہ آگ میں داخل کر ے گی *(شعب الایمان ،باب فی الجود ِوالسخاء،حدیث نمبر،۱۰۸۷۷،ج۷،ص۴۳۵)* (3)مال کی بربادی کا سبب ہے جیسا کہ رسول پاک ﷺ فرماتے ہیں: ”خشکی وتری میں جو مال ضائع ہوا ہے وہ زکات نہ دینے کی وجہ سے تلف ہوا ہے ۔” *(مجمع الزوائد،کتاب الزکوٰۃ،باب فرض الزکوٰۃ،حدیث نمبر۴۳۳۵،ج۳،ص۲۰۰)* ایک مقام پر ارشاد فرمایا: ”زکات کا مال جس میں ملا ہوگا اسے تباہ وبرباد کردے گا ۔” *(شعب الایمان،باب فی الزکوٰۃ،فصل فی الاستعفاف،حدیث نمبر۳۵۲۲،ج۳،ص۲۷۳)* بعض ائمہ نے اس حدیث کے یہ معنی بیان کیے کہ زکاۃ واجب ہوئی اور ادا نہ کی اور اپنے مال میں ملائے رہا تو یہ حرام اُس حلال کو ہلاک کر دے گا اور امام احمد رحمہ اللہ نے فرمایا کہ معنی یہ ہیں کہ مال دار شخص مالِ زکاۃ لے تویہ مالِ زکاۃ اس کے مال کو ہلاک کر دے گا کہ زکات تو فقیروں کے لیے ہے اور دونوں معنی صحیح ہیں۔ *(بہارشریعت،ج۱،حصہ ۵،ص۸۷۱)* (4)زکات ادا نہ کرنے والی قوم کو اجتماعی نقصان کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ رسول پاک ﷺ نے فرمایا: ”جوقوم زکات نہ دے گی اللہ پاک اسے قحط میں مبتلاء فرمائے گا ۔” *(المعجم الاوسط ،حدیث نمبر۴۵۷۷،ج۳،ص۲۷۵)* ایک اورمقام پر فرمایا: جب لوگ زکات کی ادا ئیگی چھوڑ دیتے ہیں تو اللہ پاک بارش کو روک دیتا ہے اگر زمین پر چوپا ئے مو جود نہ ہو تے تو آسمان سے پا نی کا ایک قطرہ بھی نہ گرتا ۔” *(سنن ابن ماجہ ،کتاب الفتن،باب العقوبات،حدیث نمبر۴۰۱۹،ج۴،ص۳۶۷)* (5) زکات نہ دینے والے پر لعنت کی گئی ہے جیسا کہ حضرت سیدناعبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں: ”زکات نہ دینے والے پر رسول اللہ ﷺ نے لعنت فرمائی ہے ۔” *(صَحِیْحُ ابْنِ خُزَیْمَۃ،کتاب الزکاۃ،باب جماع ابواب التغلیظ،ذکر لعن لاوی…الخ،حدیث نمبر ۲۲۵۰،ج۴،ص۸)* (6)بروزِقیامت یہی مال وبال جان بن جائے گا۔ سورہ توبہ میں ارشاد ہوتا ہے: *وَالَّذِیۡنَ یَکْنِزُوۡنَ الذَّہَبَ وَالْفِضَّۃَ وَلَا یُنۡفِقُوۡنَہَا فِیۡ سَبِیۡلِ اللہِ ۙ فَبَشِّرْہُمۡ بِعَذَابٍ اَلِیۡمٍ ﴿ۙ۳۴﴾یَّوْمَ یُحْمٰی عَلَیۡہَا فِیۡ نَارِجَہَنَّمَ فَتُکْوٰی بِہَا جِبَاہُہُمْ وَجُنُوۡبُہُمْ وَظُہُوۡرُہُمْ ؕ ہٰذَا مَاکَنَزْتُمْ لِاَنۡفُسِکُمْ فَذُوۡقُوۡا مَاکُنۡتُمْ تَکْنِزُوۡنَ ﴿۳۵﴾* اور وہ کہ جوڑ کر رکھتے ہيں سونا اور چاندی اور اسے اللہ کی راہ ميں خرچ نہيں کرتے انہيں خوش خبری سناؤدرد ناک عذاب کی جس دن وہ تپایا جائے گا جہنم کی آگ ميں پھر اس سے داغيں گے ان کی پیشانياں اورکروٹيں اور پیٹھيں يہ ہے وہ جو تم نے اپنے لئے جوڑ کر رکھا تھا اب چکھو مزا اس جوڑنے کا۔ *(پ۱۰،التوبۃ:۳۴،۳۵)* رسول پاک ﷺ کا فرمان ہے: ”جس کو اللہ تعالیٰ نے مال دیا اور وہ اس کی زکات ادا نہ کرے تو قیامت کے دن وہ مال گنجے سانپ کی صورت میں کر دیا جائے گا جس کے سر پر دو چتیاں ہوں گی (یعنی دو نشان ہوں گے)، وہ سانپ اس کے گلے میں طوق بنا کر ڈال دیا جائے گا ۔پھر اس (یعنی زکات نہ دینے والے) کی باچھیں پکڑے گا اور کہے گا : ”میں تیرا مال ہوں،میں تیرا خزانہ ہوں ۔” اس کے بعد نبی کریم ﷺ نے اس آیت کی تلاوت فرمائی : *وَلَا یَحْسَبَنَّ الَّذِیۡنَ یَبْخَلُوۡنَ بِمَاۤ اٰتٰىہُمُ اللہُ مِنۡ فَضْلِہٖ ہُوَ خَیۡرًا لَّہُمْ ؕ بَلْ ہُوَ شَرٌّ لَّہُمْ ؕ سَیُطَوَّقُوۡنَ مَا بَخِلُوۡا بِہٖ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ ؕ* اور جو بخل کرتے ہیں اس چیز میں جو اللہ نے انہیں اپنے فضل سے دی ، ہرگز اسے اپنے لئے اچھا نہ سمجھیں بلکہ وہ ان کے لئے برا ہے عنقریب وہ جس میں بخل کیاکرتے تھے قیامت کے دن ان کے گلے کا طوق ہوگا۔ *(پ۴، اٰل عمران:۱۸۰ )* *(صحیح البخاری،کتاب الزکات ، باب اثم مانع الزکوٰۃ،حدیث نمبر۱۴۰۳،ج۱،ص۴۷۴)* (7) حساب میں سختی کی جائے گی جیسا کہ رسول پاک ﷺ نے فرمایا: ”فقیر ہر گز ننگے بھوکے ہونے کی تکلیف نہ اٹھائیں گے مگر اغنیاء کے ہاتھوں ، سن لو ایسے مالداروں سے اللہ تعالیٰ سخت حساب لے گا اور انہیں درد ناک عذاب دے گا ۔” *(مجمع الزوائد،کتاب الزکوٰۃ،باب فرض الزکوٰۃ،حدیث نمبر۴۳۲۴،ج۳،ص۱۹۷)* (8) عذاب ِ جہنم میں مبتلا ہوسکتا ہے رسول پاک ﷺ نے کچھ لوگ دیکھے جن کے آگے پیچھے غرقی لنگوٹیوں کی طرح کچھ چیتھڑے تھے اور جہنم کے گرم پتھر اور تھوہر اور سخت کڑوی جلتی بدبو دارگھاس چوپایوں کی طرح چرتے پھرتے تھے۔ جبرئیل امین علیہ السلام سے پوچھا یہ کون لوگ ہیں ؟ عرض کیا : یہاں پر مالوں کی زکات نہ دینے والے ہیں اور اللہ پاک نے ان پر ظلم نہیں کیا ،اللہ تعالیٰ بندوں پر ظلم نہیں فرماتا ۔ *(الزواجر ،کتاب الزکوٰۃ،الکبیرۃ السابعۃ،الثامنۃ والعشرون….الخ،ج۱،ص۳۷۲)* ایک مقام پر نبی کریم ﷺ نے فرمایا: زکات نہ دینے والا قیامت کے دن دوزخ میں ہوگا ۔ *(مجمع الزوائد ،کتاب الزکوٰۃ،باب فرض الزکوۃ،حدیث نمبر۴۳۳۷،ج۳،ص۲۰۱)* ایک اور مقام پر فرمایا: ”دوزخ میں سب سے پہلے تین شخص جائیں گے ان میں سے ایک وہ مال دار جو اپنے مال میں اللہ پاک کا حق ادا نہیں کرتا۔” *(صحیح ابن خزیمہ، کتاب الزکوٰۃ،باب لذکر ادخال مانع الزکات النار….الخ ،حدیث نمبر۲۲۴۹،ج۴،ص۸ ملخصاً)* اخیر میں بارگاہ پروردگار میں دست بہ دعا ہوں کہ مولائے پاک اپنے محبوب ﷺ کے طفیل ہم میں سے جو صاحب نصاب ہیں انھیں اپنے مال کی زکات نکالنے کی توفیق عطا فرمائے۔ مستحقین تک اسے پہنچانے کی توفیق بخشے۔ اور خصوصاً ہم خادمانِ امت کو زیادہ سے زیادہ خدمات دینیہ و علمیہ کی توفیق خیر مرحمت فرمائے۔ (آمین۔ فقط واللہ اعلم۔
حج
*حج کی اہمیت و فضیلت* اسلام کے پانچویں رکن یعنی حج کی اہمیت و فضیلت اشہر حج یعنی حج کے ایام شروع ہوئے، تودنیا کے کونے کونے سے ہزاروں عازمین حج ‘ حج کا ترانہ یعنی لبیک پڑھتے ہوئے مکہ مکرمہ پہنچ جاتے ہیں، لاکھوں حجاج کرام اسلام کے پانچویں اہم رکن کی ادائیگی کے لئے دنیاوی ظاہری زیب وزینت کو چھوڑکر اللہ جل شانہ کے ساتھ والہانہ محبت میں مشاعر مقدسہ (منی، عرفات اور مزدلفہ) پہنچ جاتے ہیں اور وہاں حضور اکرم ﷺ کے بتائے ہوئے طریقہ پر حج کی ادائیگی کرکے اپنا تعلق حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی عظیم قربانیوں کے ساتھ جوڑلیتےہیں۔ حج کو اسی لئے عاشقانہ عبادت کہتے ہیں کیونکہ حاجی کے ہر عمل سے وارفتگی اور دیوانگی ٹپکتی ہے۔ حج اس لحاظ سے بڑی نمایاں عبادت ہے کہ یہ بیک وقت روحانی، مالی اور بدنی تینوں پہلوؤں پر مشتمل ہے، یہ خصوصیت کسی دوسری عبادت کو حاصل نہیں ہے۔ حج کی فرضیت کے بعد ادائیگی میں تاخیر نہیں کرنی چاہئے: اس اہم عبادت کی حضوصی تاکید احادیث نبویہ میں وارد ہوئی ہے اور اُن لوگوں کے لئے جن پر حج فرض ہوگیا ہے لیکن دنیاوی اغراض یا سستی کی وجہ سے بلاشرعی مجبوری کے حج ادا نہیں کرتے، سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں ان میں سے چند حسب ذیل ہیں: *حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: فریضۂ حج ادا کرنے میں جلدی کرو کیونکہ کسی کو نہیں معلوم کہ اسے کیا عذر پیش آجائے(مسند احمد)* *حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ہی روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص حج کا ارادہ رکھتا ہے (یعنی جس پر حج فرض ہوگیا ہے) اس کو جلدی کرنی چاہئے۔ (ابو داؤد)* *حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس شخص کو کسی ضروری حاجت یا ظالم بادشاہ یا شدید مرض نے حج سے نہیں روکا اور اس نے حج نہیں کیا اور مرگیا تو وہ چاہے یہودی ہوکر مرے یا نصرانی ہوکر مرے۔ (الدارمی) (یعنی یہ شخص یہود ونصاری کے مشابہ ہے)۔* *حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ارادہ کیا کہ کچھ آدمیوں کو شہر بھیج کر تحقیق کراؤں کہ جن لوگوں کو حج کی طاقت ہے اور انھوں نے حج نہیں کیا ،تاکہ ان پر جزیہ مقرر کردیا جائے۔ ایسے لوگ مسلمان نہیں ہیں، ایسے لوگ مسلمان نہیں ہیں۔ اسی طرح حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے فرمایا کہ جس نے قدرت کے باوجود حج نہیں کیا، اس کے لئے برابر ہے کہ وہ یہودی ہوکر مرے یا عیسائی ہوکر۔ (سعید نے اپنی سنن میں روایت کیا)* *حج کی اہمیت وفضیلت:* احادیث نبویہ میں حج بیت اللہ کی خاص اہمیت اور متعدد فضائل احادیث نبویہ میں وارد ہوئے ہیں ، چند احادیث حسب ذیل ہیں: *حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ سے پوچھا گیا کہ کون سا عمل سب سے افضل ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا۔ پھر عرض کیا گیا کہ اس کے بعد کون سا آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ کی راہ میں قتال کرنا۔ پھر عرض کیا گیا کہ اس کے بعد کون سا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: حج مقبول۔ (بخاری ومسلم)* *حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سےہی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس شخص نے محض اللہ کی خوشنودی کے لئے حج کیا اور اس دوران کوئی بیہودہ بات یا گناہ نہیں کیا تو وہ (پاک ہوکر) ایسا لوٹتا ہے جیسا ماں کے پیٹ سے پیدا ہونے کے روز (پاک تھا)۔ (بخاری ومسلم)* *حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہی روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ایک عمرہ دوسرے عمرہ تک ان گناہوں کا کفارہ ہے جو دونوں عمروں کے درمیان سرزد ہوں اور حج مبرور کا بدلہ تو جنت ہی ہے۔ (بخاری ومسلم)* *حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: پے درپے حج وعمرے کیا کرو۔ بے شک یہ دونوں (حج وعمرہ) فقر یعنی غریبی اور گناہوں کو اس طرح دور کردیتے ہیں جس طرح بھٹی لوہے کے میل کچیل کو دور کردیتی ہے۔ (ابن ماجہ)* *حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: اپنا دایاں ہاتھ آگے کیجئے تاکہ میں آپ ﷺ سے بیعت کروں۔ نبی اکرم ﷺ نے اپنا دایاں ہاتھ آگے کیا تو میں نے اپنا ہاتھ پیچھے کھینچ لیا۔ نبی اکرم ﷺ نے دریافت کیا، عمرو کیا ہوا۔ میں نے عرض کیا، یا رسول اللہ! شرط رکھنا چاہتا ہوں۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: تم کیا شرط رکھنا چاہتے ہو؟ میں نے عرض کیا ( گزشتہ) گناہوں کی مغفرت کی۔ تب آپ ﷺ نے فرمایا: کیا تجھے معلوم نہیں کہ اسلام (میں داخل ہونا) گزشتہ تمام گناہوں کو مٹادیتا ہے، ہجرت گزشتہ تمام گناہوں کو مٹادیتی ہے اور حج گزشتہ تمام گناہوں کو مٹادیتا ہے۔ (مسلم)* *حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: جو حاجی سوار ہوکر حج کرتا ہے اس کی سواری کے ہر قدم پر ستّر نیکیاں لکھی جاتی ہیں اور جو حج پیدل کرتا ہے اس کے ہر قدم پر سات سو نیکیاں حرم کی نیکیوں میں سے لکھی جاتی ہیں۔ آپ ﷺ سے دریافت کیا گیا کہ حرم کی نیکیاں کتنی ہوتی ہیں، تو آپ ﷺ نے فرمایا: ایک نیکی ایک لاکھ نیکیوں کے برابر ہوتی ہے۔ (بزاز، کبیر، اوسط)* *عورتوں کے لئے عمدہ ترین قتال حج مبرور:* *ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیا، یا رسول اللہ! ہمیں معلوم ہے کہ قتال سب سے افضل عمل ہے، کیا ہم بھی قتال نہ کریں؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: نہیں (عورتوں کے لئے) عمدہ ترین قتال حج مبرور ہے۔ (بخاری)* *ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاہی سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا کیا عورتوں پر بھی قتال (فرض) ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ان پر ایسا قتال فرض ہے جس میں خوں ریزی نہیں ہے اور وہ حج مبرور ہے۔ (ابن ماجہ)* *حجاج کرام اللّہ کے مہمان ہیں اور ان کی دعائیں قبول کی جاتی ہیں:* *حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: حج اور عمرہ کرنے والے اللہ کے مہمان ہیں۔ اگر وہ اللہ تعالیٰ سے دعائیں کریں تو وہ قبول فرمائے، اگر وہ اس سے مغفرت طلب کریں تو وہ ان کی مغفرت فرمائے۔ (ابن ماجہ)* *حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب کسی حج کرنے والے سے تمہاری ملاقات ہو تو اُس کے اپنے گھر میں پہونچنے سے پہلے اس کو سلام کرو اور مصافحہ کرو اور اس سے اپنی مغفرت کی دعا کے لئے کہوکیونکہ وہ اس حال میں ہے کہ اس کے گناہوں کی مغفرت ہوچکی ہے۔ (مسند احمد)* *حج کی نیکی‘ لوگوں کو کھانا کھلانا، نرم گفتگو کرنا اور سلام کرنا:* *حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: حج مبرور کا بدلہ جنت کے سوا کچھ نہیں۔ آپ ﷺ سے پوچھا گیا کہ حج کی نیکی کیا ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا: حج کی نیکی‘ لوگوں کو کھانا کھلانا اور نرم گفتگو کرنا ہے۔ (رواہ احمد والطبرانی فی الاوسط وابن خزیمۃ فی صحیحہ)۔ مسند احمد* اور بیہقی کی روایت میں ہے کہ حضورِ اکرم ﷺ نے فرمایا: حج کی نیکی‘ کھانا کھلانا اور لوگوں کو کثرت سے سلام کرنا ہے ۔ *حج وعمرہ میں خرچ کرنا اجروثواب کا باعث:* *حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: حج میں خرچ کرنا قتال میں خرچ کرنے کی طرح ہے، یعنی حج میں خرچ کرنے کاثواب سات سو گنا تک بڑھایا جاتا ہے۔ (مسند احمد)* *حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تیرے عمرے کا ثواب تیرے خرچ کے بقدر ہے یعنی جتنا زیادہ اس پر خرچ کیا جائے گا اتنا ہی ثواب ہوگا۔ (الحاکم)* *حج کا ترانہ لبیک:* *حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب حاجی لبیک کہتا ہے تو اس کے ساتھ اس کے دائیں اور بائیں جانب جو پتھر، درخت اور ڈھیلے وغیرہ ہوتے ہیں وہ بھی لبیک کہتے ہیں اور اسی طرح زمین کی انتہاء تک یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے (یعنی ہر چیز ساتھ میں لبیک کہتی ہے)۔ (ترمذی، ابن ماجہ)* *بیت اللہ کا طواف:* *حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ جل شانہ کی ایک سو بیس (۱۲۰) رحمتیں روزانہ اِس گھر (خانہ کعبہ) پر نازل ہوتی ہیں جن میں سے ساٹھ طواف کرنے والوں پر، چالیس وہاں نماز پڑھنے والوں پر اور بیس خانہ کعبہ کو دیکھنے والوں پر ۔ (طبرانی)* *حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: جس نے خانہ کعبہ کا طواف کیا اور دو رکعت اداکیں گویا اس نے ایک غلام آزاد کیا ۔ (ابن ماجہ)* *حجر اسود، مقام ابراہیم اور رکن یمانی:* *حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: حجر اسود اور مقام ابراہیم قیمتی پتھروں میں سے دو پتھر ہیں، اللہ تعالیٰ نے دونوں پتھروں کی روشنی ختم کردی ہے، اگر اللہ تعالیٰ ایسا نہ کرتا تو یہ دونوں پتھر مشرق اور مغرب کے درمیان ہر چیز کو روشن کردیتے۔ (ابن خزیمہ)* *حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: حجر اسود جنت سے اترا ہوا پتھر ہے جو کہ دودھ سے زیادہ سفید تھا لیکن لوگوں کے گناہوں نے اسے سیاہ کردیا ہے ۔ (ترمذی)* *حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: حجر اسود کو اللہ جل شانہ قیامت کے دن ایسی حالت میں اٹھائیں گے کہ اس کی دو آنکھیں ہوں گی جن سے وہ دیکھے گا اور زبان ہوگی جن سے وہ بولے گا اور گواہی دے گا اُس شخص کے حق میں جس نے اُس کا حق کے ساتھ بوسہ لیا ہو۔ (ترمذی ، ابن ماجہ)* *حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ان دونوں پتھروں (حجر اسود اور رکن یمانی) کو چھونا گناہوں کو مٹاتا ہے۔ (ترمذی)* *حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: رکن یمانی پر ستّر فرشتے مقرر ہیں، جو شخص وہاں جاکر یہ دعا پڑھے: (اللّٰھُمّ اِنِّی اَسْئلُکَ الْعَفْوَ وَالْعَافِیۃَ فِی الدُّنْیا وَالْاخِرَۃِ رَبّنَا آتِنَا فِی الدُّنْیا حَسَنَۃً وّفِی الْاخِرَۃِ حَسَنَۃً وّقِنَا عَذَابَ النّارِ) تو وہ سب فرشتے آمین کہتے ہیں ۔ (یعنی یا اللہ! اس شخص کی دعا قبول فرما) (ابن ماجہ)* *حطیم‘ بیت اللّٰہ کا ہی حصہ:* *حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں کعبہ شریف میں داخل ہوکر نمازپڑھنا چاہتی تھی۔ رسول اللہ ﷺ میرا ہاتھ پکڑکر حطیم میں لے گئے اور فرمایا: جب تم بیت اللہ (کعبہ) کے اندر نماز پڑھنا چاہو تو یہاں (حطیم میں) کھڑے ہوکر نماز پڑھ لو۔ یہ بھی بیت اللہ شریف کا حصہ ہے۔ تیری قوم نے بیت اللہ (کعبہ) کی تعمیر کے وقت (حلال کمائی میسر نہ ہونے کی وجہ سے ) اسے (چھت کے بغیر) تھوڑا سا تعمیر کرادیا تھا۔ (نسائی)* *آب زمزم:* *حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: زمزم کا پانی جس نیت سے پیا جائے وہی فائدہ اس سے حاصل ہوتا ہے۔ (ابن ماجہ)* *حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: روئے زمین پر سب سے بہتر پانی زمزم ہے جو بھوکے کے لئے کھانا اور بیمار کے لئے شفا ہے۔ (طبرانی)* *حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا زمزم کا پانی (مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ ) لے جایا کرتی تھیں اور فرماتیں کہ رسول اللہ ﷺ بھی لے جایا کرتے تھے۔ (ترمذی)* *عرفہ کا دن:* *حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: عرفہ کے دن کے علاوہ کوئی دن ایسا نہیں جس میں اللہ تعالیٰ کثرت سے بندوں کو جہنم سے نجات دیتے ہوں، اس دن اللہ تعالیٰ (اپنے بندوں کے) بہت زیادہ قریب ہوتے ہیں اور فرشتوں کے سامنے اُن (حاجیوں) کی وجہ سے فخر کرتے ہیں اور فرشتوں سے پوچھتے ہیں (ذرا بتاؤ تو) یہ لوگ مجھ سے کیا چاہتے ہیں ۔ (مسلم)* *حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: غزوۂ بدر کا دن تو مستثنیٰ ہے اسکو چھوڑکر کوئی دن عرفہ کے دن کے علاوہ ایسا نہیں جس میں شیطان بہت ذلیل ہورہا ہو، بہت راندہ پھر رہاہو، بہت حقیر ہورہا ہو، بہت زیادہ غصہ میں پھر رہا ہو، یہ سب کچھ اس وجہ سے کہ وہ عرفہ کے دن اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کا کثرت سے نازل ہونا اور بندوں کے بڑے بڑے گناہوں کا معاف ہونا دیکھتا ہے۔(مشکوۃ)* *حج یا عمرہ کے سفر میں انتقال:* *حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص حج کو جائے اور راستہ میں انتقال کرجائے، اس کے لئے قیامت تک حج کا ثواب لکھا جائے گا اور جو شخص عمرہ کے لئے جائے اور راستہ میں انتقال کرجائے تو اس کو قیامت تک عمرہ کا ثواب ملتا رہے گا۔ (ابن ماجہ)* اللہ تبارک وتعالیٰ تمام عازمین حج کے حج کو مقبول ومبرور بنائے، آمین۔فقط واللہ اعلم۔