ماہنامہ الفاران
ماہِ جمادی الثانی - ۱۴۴۷
بےحیائی کا بڑھتا رجحان اور اس کے مہلکات
محترم جناب محمد عادل صاحب ارریاوی، جامع مسجد،سیسونا،جوکی ہاٹ،ضلع ارریہ
محترم قارئین آج کا معاشرہ تیزی سے بدل رہا ہے اور انہی تبدیلیوں کے ساتھ بےحیائی کا رجحان بھی خوفناک حد تک بڑھتا جا رہا ہے جب اخلاقی حدود کمزور پڑتی ہیں تو فرد اور خاندان دونوں عدم تحفظ بگاڑ اور انتشار کا شکار ہونے لگتے ہیں بےحیائی نہ صرف روحانی و اخلاقی زوال کا سبب بنتی ہے بلکہ معاشرتی اقدار کردار سازی اور نسلوں کے مستقبل پر بھی گہرے منفی اثرات مرتب کرتی ہے یہی وجہ ہے کہ اس موضوع کو سنجیدگی سے سمجھنا اور اس کے مہلکات سے آگاہ ہونا وقت کی اہم ضرورت بن چکا ہے۔
آج کا دور بلاشبہ ٹیکنالوجی آزادیِ اظہار اور جدت کا دور کہلاتا ہے مگر اسی تیز رفتار ترقی کے ساتھ ایک ایسی آندھی بھی جنم لے چکی ہے جس نے معاشرتی اقدار کی جڑوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور وہ ہے بےحیائی کا بڑھتا ہوا رجحان یہ رجحان بظاہر آزادی اور حقِ انتخاب کے خوبصورت نعروں میں لپیٹا ہوا نظر آتا ہے مگر حقیقت میں یہ اخلاقی گراوٹ روحانی کمزوری اور سماجی انتشار کا پیش خیمہ ہے۔
بےحیائی دل کی سختی اور روح کی ویرانی کا سبب بنتی ہے جب انسان حیاء کی دولت سے محروم ہو جاتا ہے تو گناہ اس کے لیے معمولی اور بدکرداری معمول کی چیز بن جاتی ہے حیاء ایمان کا ایک اہم شعبہ ہے اور اس کا کمزور ہونا دراصل ایمان کے کمزور ہونے کی علامت ہے معاشرے میں زنا بےوفائی عیاشی اور ناجائز تعلقات کا بڑھنا اسی کمی کا نتیجہ ہے بےحیائی صرف اخلاقی نقصان نہیں پہنچاتی بلکہ ذہنی اور سماجی بیماریوں کو بھی جنم دیتی ہے۔
ذہنی بےچینی عدم تحفظ حسد مقابلہ بازی اور خود اعتمادی میں کمی رشتوں میں بےوفائی یہ تمام امراض اسی وقت پیدا ہوتے ہیں جب انسان اپنی شخصیت کو دوسروں کی نظر میں دلکش دکھانے کے لیے حدود کو پامال کرتا ہے۔
اسلام نے حیاء کو ایمان کا زیور اور کردار کا حسن قرار دیا ہے حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا حیا ایمان کا حصہ ہے۔ حیاء انسان کو برائی کے دہانے سے دور رکھتی ہے نگاہوں کو محفوظ کرتی ہے خیالات کو پاک کرتی ہے اور دل کو روشن کرتی ہے۔
جو معاشرے حیا کو تھام لیتے ہیں وہاں سکون اعتماد اور خیر کا فروغ ہوتا ہے بےحیائی کی موجودہ لہر بظاہر روشن خیالی لگتی ہے مگر حقیقت میں یہ معاشرے کی بنیادوں پر حملہ ہے اگر ہم نے وقت رہتے اس بہاؤ کے سامنے بند نہ باندھا تو آنے والی نسلوں کو ایک بے مقصد بے لگام اور بے سکون زندگی وراثت میں ملے گی حیاء صرف لباس یا ظاہری پردے کا نام نہیں یہ دل کی پاکیزگی سوچ کی شفافیت اور کردار کی مضبوطی ہے معاشرہ اسی وقت مہذب کہلاتا ہے جب اس کے افراد حیاء اور اخلاق کے زیور سے آراستہ ہوں۔ ۔
ایک اور اہم بات قابل غور ہے کسی بھی بچے کا برتھ ڈے سال کا سب سے یادگار دن ہوتا ہے اس دن وہ جو کرتا ہے ہمیشہ کے لئے اس کا ذہن بن جاتا ہے اس دن کو ہمیشہ یاد رکھتا ہے پھر آہستہ آہستہ وہ ان کی عادتیں بننا شروع ہو جاتی ہیں جب آپ اپنے بچوں کو برتھ ڈے میں مہنگے کھلونے کا تحائف دیتے ہیں یا بڑی پارٹی دے کر موٹی رقم خرچ کرتے ہیں کیا آپ کو یقین ہے کہ اس سے بچے کا مستقبل سدھر جائے گا وہ ایک بہترین انسان بہترین شہری بنے گا بچے کو پارٹی یا مہنگے کھلونے دلا کر ہم کہیں نہ کہیں بچے کو پانا سکھا رہے ہیں دینا نہیں جیسے جیسے برتھ ڈے آتی ہے تو بچے کا سب سے پہلا سوال یہ ہوتا ہے کہ اس برتھ ڈے پر مجھے کونسا گفٹ ملے گا اگر پہلے پانچ ہزار کی پارٹی دی ہو گی تو دوسری مرتبہ بیس ہزار کی پارٹی دینی ہوگی یا جب وہ پانچ سال کی عمر میں مہنگے کھلونوں کی اُمید کرے گا تو وہ پندرہ سال کی عمر میں آئی فون کی یا مہنگی گاڑی کا خواہش کرے گا یعنی کہیں نہ کہیں ہم بچے کو یہ سکھا رہے ہیں کہ لینے کی خواہش کرو یا پھر جب بچے کو اس کی اُمید کے مطابق چیزیں نہیں ملتی تو وہ ڈمانڈ کرنا شروع کر دے گا مجھے تو سائیکل چاہئے اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوگا کہ وہ خود غرض بنے گا اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا بچہ ایسا بالکل نہ کرے تو برتھ ڈے کے دن کسی غریب کی مدد کرنے کا جذبہ سکھائیے غریبوں کو کھانا کھلانا یا مریضوں میں پھلوں کی تقسیم یا پھر کسی ضرورت مند کی ضرورت کو پورا کرنا جیسے اسکول میں اس کے ہم جماعت طلبہ میں سے کسی کے پاس کاپی نہیں ہے تو بچے کے ہاتھ سے کاپی پنسل دلوائے تا کہ بچہ یہ محسوس کرے کہ میرے پاس تو بہت کچھ ہے اور اس بچے کے پاس نہیں ہے مجھے اس کی ضرورت کو پوری کرنی چاہئے اس طرح آپ اپنے بچہ کو ایک بہترین انسان اور بہترین شہری بنا سکتے ہیں۔
اے اللہ ربّ العزت ہمیں ہر طرح کی بےحیائی برائی گمراہی اور فتنوں سے محفوظ فرما ہمارے دلوں کو پاکیزگی اور ہمارے کردار کو حیاء سے مزین فرما ۔آمین یارب العالمین
آج کا دور بلاشبہ ٹیکنالوجی آزادیِ اظہار اور جدت کا دور کہلاتا ہے مگر اسی تیز رفتار ترقی کے ساتھ ایک ایسی آندھی بھی جنم لے چکی ہے جس نے معاشرتی اقدار کی جڑوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور وہ ہے بےحیائی کا بڑھتا ہوا رجحان یہ رجحان بظاہر آزادی اور حقِ انتخاب کے خوبصورت نعروں میں لپیٹا ہوا نظر آتا ہے مگر حقیقت میں یہ اخلاقی گراوٹ روحانی کمزوری اور سماجی انتشار کا پیش خیمہ ہے۔
بےحیائی دل کی سختی اور روح کی ویرانی کا سبب بنتی ہے جب انسان حیاء کی دولت سے محروم ہو جاتا ہے تو گناہ اس کے لیے معمولی اور بدکرداری معمول کی چیز بن جاتی ہے حیاء ایمان کا ایک اہم شعبہ ہے اور اس کا کمزور ہونا دراصل ایمان کے کمزور ہونے کی علامت ہے معاشرے میں زنا بےوفائی عیاشی اور ناجائز تعلقات کا بڑھنا اسی کمی کا نتیجہ ہے بےحیائی صرف اخلاقی نقصان نہیں پہنچاتی بلکہ ذہنی اور سماجی بیماریوں کو بھی جنم دیتی ہے۔
ذہنی بےچینی عدم تحفظ حسد مقابلہ بازی اور خود اعتمادی میں کمی رشتوں میں بےوفائی یہ تمام امراض اسی وقت پیدا ہوتے ہیں جب انسان اپنی شخصیت کو دوسروں کی نظر میں دلکش دکھانے کے لیے حدود کو پامال کرتا ہے۔
اسلام نے حیاء کو ایمان کا زیور اور کردار کا حسن قرار دیا ہے حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا حیا ایمان کا حصہ ہے۔ حیاء انسان کو برائی کے دہانے سے دور رکھتی ہے نگاہوں کو محفوظ کرتی ہے خیالات کو پاک کرتی ہے اور دل کو روشن کرتی ہے۔
جو معاشرے حیا کو تھام لیتے ہیں وہاں سکون اعتماد اور خیر کا فروغ ہوتا ہے بےحیائی کی موجودہ لہر بظاہر روشن خیالی لگتی ہے مگر حقیقت میں یہ معاشرے کی بنیادوں پر حملہ ہے اگر ہم نے وقت رہتے اس بہاؤ کے سامنے بند نہ باندھا تو آنے والی نسلوں کو ایک بے مقصد بے لگام اور بے سکون زندگی وراثت میں ملے گی حیاء صرف لباس یا ظاہری پردے کا نام نہیں یہ دل کی پاکیزگی سوچ کی شفافیت اور کردار کی مضبوطی ہے معاشرہ اسی وقت مہذب کہلاتا ہے جب اس کے افراد حیاء اور اخلاق کے زیور سے آراستہ ہوں۔ ۔
ایک اور اہم بات قابل غور ہے کسی بھی بچے کا برتھ ڈے سال کا سب سے یادگار دن ہوتا ہے اس دن وہ جو کرتا ہے ہمیشہ کے لئے اس کا ذہن بن جاتا ہے اس دن کو ہمیشہ یاد رکھتا ہے پھر آہستہ آہستہ وہ ان کی عادتیں بننا شروع ہو جاتی ہیں جب آپ اپنے بچوں کو برتھ ڈے میں مہنگے کھلونے کا تحائف دیتے ہیں یا بڑی پارٹی دے کر موٹی رقم خرچ کرتے ہیں کیا آپ کو یقین ہے کہ اس سے بچے کا مستقبل سدھر جائے گا وہ ایک بہترین انسان بہترین شہری بنے گا بچے کو پارٹی یا مہنگے کھلونے دلا کر ہم کہیں نہ کہیں بچے کو پانا سکھا رہے ہیں دینا نہیں جیسے جیسے برتھ ڈے آتی ہے تو بچے کا سب سے پہلا سوال یہ ہوتا ہے کہ اس برتھ ڈے پر مجھے کونسا گفٹ ملے گا اگر پہلے پانچ ہزار کی پارٹی دی ہو گی تو دوسری مرتبہ بیس ہزار کی پارٹی دینی ہوگی یا جب وہ پانچ سال کی عمر میں مہنگے کھلونوں کی اُمید کرے گا تو وہ پندرہ سال کی عمر میں آئی فون کی یا مہنگی گاڑی کا خواہش کرے گا یعنی کہیں نہ کہیں ہم بچے کو یہ سکھا رہے ہیں کہ لینے کی خواہش کرو یا پھر جب بچے کو اس کی اُمید کے مطابق چیزیں نہیں ملتی تو وہ ڈمانڈ کرنا شروع کر دے گا مجھے تو سائیکل چاہئے اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوگا کہ وہ خود غرض بنے گا اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا بچہ ایسا بالکل نہ کرے تو برتھ ڈے کے دن کسی غریب کی مدد کرنے کا جذبہ سکھائیے غریبوں کو کھانا کھلانا یا مریضوں میں پھلوں کی تقسیم یا پھر کسی ضرورت مند کی ضرورت کو پورا کرنا جیسے اسکول میں اس کے ہم جماعت طلبہ میں سے کسی کے پاس کاپی نہیں ہے تو بچے کے ہاتھ سے کاپی پنسل دلوائے تا کہ بچہ یہ محسوس کرے کہ میرے پاس تو بہت کچھ ہے اور اس بچے کے پاس نہیں ہے مجھے اس کی ضرورت کو پوری کرنی چاہئے اس طرح آپ اپنے بچہ کو ایک بہترین انسان اور بہترین شہری بنا سکتے ہیں۔
اے اللہ ربّ العزت ہمیں ہر طرح کی بےحیائی برائی گمراہی اور فتنوں سے محفوظ فرما ہمارے دلوں کو پاکیزگی اور ہمارے کردار کو حیاء سے مزین فرما ۔آمین یارب العالمین





