ماہنامہ الفاران

ماہِ جمادی الثانی - ۱۴۴۷

اصلاحِ معاشرہ—علماء و ائمہ کی بنیادی ذمہ داری

محترم جناب حضرت مولانا کبیر الدین فاران صاحب مظاہری،ناظم اعلی؛ مدرسہ قادریہ مسروالا(ہماچل پردیش)صدر؛ابوالحسن علی ایجوکیشنل اینڈ ویلفیر ٹرسٹ(پورنیہ)بہار

نحمدہٗ و نصلّی علی رسولہ الکریم، أمّا بعد:
مسلم معاشرہ کی اصلاح اور منکرات کا ازالہ ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے، مگر خصوصیت کے ساتھ یہ فریضہ علماءِ کرام اور ائمۂ مساجد کے شانِ منصب میں داخل ہے۔ جب تک معاشرہ اپنے عقائد، اخلاق اور اعمال میں درست نہ ہو، اُس وقت تک عزت، عافیت اور اجتماعی بھلائی کی امیدیں محض خود فریبی ہیں۔ جمعیتہ علماء ہند اور دوسری دینی و ملی تنظیمیں جو مسلمانوں کی فلاح کے لیے سرگرم ہیں، ان کی جدوجہد کا اہم ترین دائرہ اصلاحِ معاشرہ ہی ہے۔ اس کام کے مؤثر اور کامیاب ہونے کے لیے چند بنیادی امور ناگزیر حیثیت رکھتے ہیں۔
سب سے پہلے اصلاح کا آغاز فرد کی ذات سے ہونا چاہیے۔ جو شخص معاشرے میں تبدیلی کا علم بردار ہو، اس کی اپنی زندگی میں اس دعوت کے اثرات نمایاں ہونا ازحد ضروری ہے۔ انبیاء علیہم السلام کو اسی لیے معصومیت کی دولت عطا کی گئی کہ دعوت کے میدان میں ان کے کردار پر کسی کو اعتراض کا موقع نہ ملے۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل چالیس برس کی پاکیزہ حیاتِ طیّبہ کو قرآن نے دلیل کے طور پر پیش کیا ہے: "فقد لبثت فیکم عمراً من قبلہ أفلا تعقلون"۔ اس لیے داعی کے لیے لازم ہے کہ اس کی گفتار و کردار میں تطابق ہو، تضاد روی اور دوغلے معیار اصلاح کی تحریک کے لیے زہرِ قاتل ہیں۔ خصوصاً دینی اور ملی ذمہ داریوں پر فائز افراد کو مزید احتیاط، تقویٰ اور تہمت کے مقامات سے دور رہنے کی ضرورت ہے۔ اگر کوئی شخص کسی پہلو سے توجہ دلائے تو غصّے کے بجائے خود احتسابی بہتر ہے، اور اگر اعتراض بجا ہو تو اسے قبول کرنا تقویٰ کی علامت ہے۔
دوسرا مرحلہ گھر اور اہل خانہ کی اصلاح کا ہے۔ اگر کسی داعی کے اپنے گھرانے میں منکرات پائے جائیں تو اس کی دعوت عوام کے دلوں میں اثر پیدا نہیں کرتی۔ اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا گیا کہ اپنے قریب ترین رشتہ داروں کو پہلے متنبّہ کریں۔ گھر کا پاکیزہ ماحول معاشرے کی اصلاح کا نقطۂ آغاز ہے۔
فرد اور خاندان کی اصلاح کے بعد اجتماعی اصلاح کی ضرورت پیش آتی ہے۔ منکرات خواہ زندگی کے کسی بھی شعبے سے متعلق ہوں—معاشرت، معاملات، عبادات یا تقریبات—ان کا ازالہ ضروری ہے۔ یہ غلط فہمی عام ہے کہ اصلاحِ معاشرہ صرف شادی کی رسومات سے متعلق ہے، حالاں کہ منکر بہرحال منکر ہے اور اس کے خاتمے کے لیے علماء کو اپنی نگاہ ہر طرف رکھنی چاہیے، بالکل اسی طرح جیسے محکمۂ صحت وبائی امراض پر نظر رکھتا ہے اور بروقت اقدامات کرتا ہے۔ اگر علماء اپنی بستی میں پھیلتی ہوئی برائیوں سے بے خبر رہیں تو معاشرہ اخلاقی اور روحانی تباہی سے دوچار ہو جائے گا، کیونکہ دین کی بقا اور امت کی عافیت کا مدار ’’امر بالمعروف اور نہی عن المنکر‘‘ ہی پر ہے۔
اصلاحِ معاشرہ کے لیے کوئی ایک شرعی طریقہ متعین نہیں، مگر تجربہ نے کچھ امور کو مؤثر ثابت کیا ہے—جیسے مساجد میں درسِ قرآن کا اہتمام، کیونکہ قرآن مجید ہی دلوں کی دنیا بدلنے کی سب سے زیادہ قوت رکھتا ہے؛ درسِ حدیث کا سلسلہ، جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حکیمانہ تعلیمات کو لوگوں تک پہنچاتا ہے؛ میدانوں میں اصلاحی اجتماعات جو اُن طبقات تک بھی آواز پہنچائیں جو مسجد سے دور ہیں؛ نوجوانوں کی خصوصی نشستیں جن میں محبت، شفقت اور مطابقت کے ساتھ گفتگو کی جائے؛ علاقے کے بااثر لوگوں اور علماء کو ساتھ لے کر اصلاحی کمیٹیاں قائم کی جائیں؛ شہر بھر کے لیے ہفتہ وار مختصر اجتماعات رکھے جائیں؛ اور جمعہ کے بڑے اجتماع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مختصر مگر مؤثر اصلاحی گفتگو کی جائے۔ اسی طرح خواتین کے لیے مناسب پردے اور صحیح رہنمائی کے ساتھ مجالسِ اصلاح بھی نہایت مفید ہیں۔
بعض اوقات کوئی خاص برائی تیزی سے پھیلنے لگتی ہے تو اس کے سدباب کے لیے خصوصی مہم کی ضرورت ہوتی ہے، جیسے فحاشی، بے حیائی، آتش بازی یا دیگر منکرات کے خلاف مخصوص مہمات۔ ان مہموں میں اجتماعات، پمفلٹ، ذاتی ملاقاتیں اور نوجوانوں و تعلیمی اداروں میں بیداری پروگرام مؤثر ثابت ہوتے ہیں۔ گھروں میں دینی ماحول پیدا کرنے کے لیے مختصر مگر جامع لٹریچر کی اشاعت بھی بڑی اہمیت رکھتی ہے۔
اجتماعی کوششوں کے ساتھ انفرادی محنت بھی نہایت ضروری ہے۔ کسی بھائی سے خیر خواہی کے جذبے کے ساتھ، شفقت بھرے انداز میں، تنہائی میں، نرمی سے بات کرنا اکثر بڑے سے بڑا اثر پیدا کر دیتا ہے۔ البتہ اس میں سختی، تحقیر یا بے ادبی کا شائبہ بھی نہ ہو۔
اگر ان تمام امور کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے خلوص، مستقل مزاجی اور حسنِ حکمت کے ساتھ محنت کی جائے تو اللہ کے فضل سے اس کے ثمرات ضرور ظاہر ہوں گے، اور مسلم معاشرہ حقیقی معنوں میں اصلاح اور بھلائی کی طرف گامزن ہوگا۔
فقط، واللہ تعالیٰ أعلم بالصواب۔
وآخر دعوانا أن الحمد للہ رب العالمین۔

دیگر تصانیف

امیدوں کا چراغ

مٹی کا چراغ

کہاں گئے وہ لوگ

تذکیر و تانیث

مجلس ادارت

team

سرپرست

حضرت الحاج مولانا کبیر الدین فاران صاحب مظاہری

team

مدیر مسئول

مولانا ارشد کبیر خاقان صاحب مظاہری

team

مدیر

مفتی خالد انور پورنوی صاحب قاسمی