ماہنامہ الفاران
ماہِ جمادی الثانی - ۱۴۴۷
حضرات ائمۂ کرام — اللہ اور بندوں کے درمیان مضبوط واسطہ
جناب مولانا ارشد کبیر خاقان صاحب مظاہری،ناظم مدرسہ نور المعارف،مولانا علی میاں نگر،دیا گنج،ضلع ارریہ، جنرل سکریٹری؛ابوالحسن علی ایجوکیشنل اینڈ ویلفیر ٹرسٹ(پورنیہ)بہار
اسلام کے جملہ اعمال و عبادات میں سب سے اہم اور مقدس عبادت نماز ہے۔ خصوصاً وہ نماز جو جماعت کے ساتھ امام کی اقتدا میں ادا کی جائے؛ جس کا ثواب اکیلے پڑھی جانے والی نماز سے ستائیس گنا زیادہ بیان کیا گیا ہے۔ جماعت کی اس عظیم عبادت کے قائم رہنے کے لیے امام کی ضرورت ہوتی ہے، اور یہی ضرورت امامت کے منصب کو نہایت بلند اور باوقار بناتی ہے۔ امامت درحقیقت ایک دینی منصبِ جلیلہ اور عظیم امانت ہے جسے امتِ مسلمہ میں خاص قدر و منزلت حاصل ہے۔ اس منصب کی عظمت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ امام اپنے مقام میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نائب کی حیثیت رکھتا ہے۔
کتبِ حدیث و فقہ میں امامت کے مستحق فرد کی صفات بڑی وضاحت سے بیان کی گئی ہیں۔ لکھا ہے کہ امام ایسا شخص ہونا چاہیے جو رسول اللہ ﷺ کے طریقے سے زیادہ قریب ہو، جسے قرآنِ کریم سے گہری محبت ہو، اس کی تعلیمات کا شغف رکھتا ہو، اور اس کے احکام کو سمجھتا اور دوسروں تک پہنچاتا ہو۔ یعنی علمِ قرآن و حدیث، علمِ شریعت و سنت اور عملِ صالح میں دوسروں سے ممتاز ہو۔
حضرت امام مسلمؒ کی روایت کے مطابق رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:''جماعت کی امامت وہ شخص کرے جو کتاب اللہ کا سب سے زیادہ جاننے والا ہو۔ اگر سب اس میں برابر ہوں تو وہ شخص امامت کرے جو سنت اور شریعت کے علم میں زیادہ ہو۔''دارقطنی کی ایک روایت ہے:''اپنے میں سے بہترین اور نیک لوگوں کو امام بناؤ، کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے حضور تمہارے نمائندے اور ضامن ہوتے ہیں۔''
عہد نبوی ﷺ میں اس منصبِ جلیل پر خود سرورِ کائنات ﷺ فائز تھے۔ بیماری کے دنوں میں آپ ﷺ نے اس منصب کے لیے اپنے محبوب رفیقِ خاص حضرت ابو بکر صدیقؓ کو منتخب فرمایا، اور بعد ازاں یکے بعد دیگرے خلفائے راشدین اس ذمہ داری کو نبھاتے رہے۔
ائمۂ کرام کی عظیم ذمہ داریاں:
ائمۂ مساجد صرف نماز پڑھانے والے نہیں، بلکہ وہ اپنے مقتدیوں کی نماز کے ضامن اور اللہ تعالیٰ اور اس کے بندوں کے درمیان روحانی واسطہ ہوتے ہیں۔ یہی نسبت ان کی ذمہ داریوں میں مزید اضافہ کرتی ہے۔امام کو چاہیے کہ:اپنے مقتدیوں کی دینی حالت سے واقف ہو،یہ بھی جانچ لیں کہ انہیں نماز اور متعلقہ مسائل کا صحیح علم ہے یا نہیں،اپنے محلے اور علاقے کے دینی ماحول، عوام کے عقائد اور مسلک سے آگاہ ہو،اس بات پر نظر رکھے کہ کون سے فتنہ انگیز افکار یا گمراہ کن گروہ اہلِ ایمان پر حملہ آور ہو رہے ہیں، ایمان کے خلاف فتنۂ دجال اور دیگر گمراہ تحریکوں کی کوششوں کو سمجھ کر لوگوں کو بروقت خبردار کرے۔یہ ذمہ داریاں اس بات کی متقاضی ہیں کہ امام محض نماز تک محدود نہ رہے بلکہ اپنی جماعت کے دینی رہبر، معلم اور مصلح کی حیثیت سے کردار ادا کرے۔
ائمۂ کرام کو چاہیے کہ وقتاً فوقتاً علاقے کے علماء کی موجودگی میں ایسی دینی مجالس قائم کریں جہاں عوام بغیر وقت اور مال کے ضیاع کے قرآن و سنت کی باتیں سن سکیں، شریعت کے بنیادی احکام کو سمجھ سکیں اور اپنے عمل کو درست بنا سکیں۔ اس طرح کی مجالس محلے کے دینی ماحول کو مضبوط بنانے کا بہترین ذریعہ ہوتی ہیں۔
امت مسلمہ کے نام اپیل
ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان ائمۂ کرام کی عظمت اور ان کے منصب کو صحیح طور پر سمجھیں۔ انہیں محض نماز پڑھانے والا فرد نہ سمجھا جائے بلکہ انہیں وہ مقام دیا جائے جس کے وہ واقعی مستحق ہیں۔ ساتھ ہی امت کو چاہیے کہ ائمۂ مساجد کی ضروریاتِ زندگی، معاشی تکالیف اور سماجی ذمہ داریوں کا بھی احساس کرے اور ان کی مخلصانہ خدمت کا صلہ انہیں عزت، احترام اور سہولتوں کی صورت میں دے۔
ائمۂ کرام ہماری نسلوں کے معلم، معاشرے کی روحانی قیادت، امت کے فکری محافظ اور دینی ستون ہیں۔ ان کی عزت دراصل دین کی عزت ہے۔ لہٰذا ان کی تکریم، تعاون اور سرپرستی ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے۔
کتبِ حدیث و فقہ میں امامت کے مستحق فرد کی صفات بڑی وضاحت سے بیان کی گئی ہیں۔ لکھا ہے کہ امام ایسا شخص ہونا چاہیے جو رسول اللہ ﷺ کے طریقے سے زیادہ قریب ہو، جسے قرآنِ کریم سے گہری محبت ہو، اس کی تعلیمات کا شغف رکھتا ہو، اور اس کے احکام کو سمجھتا اور دوسروں تک پہنچاتا ہو۔ یعنی علمِ قرآن و حدیث، علمِ شریعت و سنت اور عملِ صالح میں دوسروں سے ممتاز ہو۔
حضرت امام مسلمؒ کی روایت کے مطابق رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:''جماعت کی امامت وہ شخص کرے جو کتاب اللہ کا سب سے زیادہ جاننے والا ہو۔ اگر سب اس میں برابر ہوں تو وہ شخص امامت کرے جو سنت اور شریعت کے علم میں زیادہ ہو۔''دارقطنی کی ایک روایت ہے:''اپنے میں سے بہترین اور نیک لوگوں کو امام بناؤ، کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے حضور تمہارے نمائندے اور ضامن ہوتے ہیں۔''
عہد نبوی ﷺ میں اس منصبِ جلیل پر خود سرورِ کائنات ﷺ فائز تھے۔ بیماری کے دنوں میں آپ ﷺ نے اس منصب کے لیے اپنے محبوب رفیقِ خاص حضرت ابو بکر صدیقؓ کو منتخب فرمایا، اور بعد ازاں یکے بعد دیگرے خلفائے راشدین اس ذمہ داری کو نبھاتے رہے۔
ائمۂ کرام کی عظیم ذمہ داریاں:
ائمۂ مساجد صرف نماز پڑھانے والے نہیں، بلکہ وہ اپنے مقتدیوں کی نماز کے ضامن اور اللہ تعالیٰ اور اس کے بندوں کے درمیان روحانی واسطہ ہوتے ہیں۔ یہی نسبت ان کی ذمہ داریوں میں مزید اضافہ کرتی ہے۔امام کو چاہیے کہ:اپنے مقتدیوں کی دینی حالت سے واقف ہو،یہ بھی جانچ لیں کہ انہیں نماز اور متعلقہ مسائل کا صحیح علم ہے یا نہیں،اپنے محلے اور علاقے کے دینی ماحول، عوام کے عقائد اور مسلک سے آگاہ ہو،اس بات پر نظر رکھے کہ کون سے فتنہ انگیز افکار یا گمراہ کن گروہ اہلِ ایمان پر حملہ آور ہو رہے ہیں، ایمان کے خلاف فتنۂ دجال اور دیگر گمراہ تحریکوں کی کوششوں کو سمجھ کر لوگوں کو بروقت خبردار کرے۔یہ ذمہ داریاں اس بات کی متقاضی ہیں کہ امام محض نماز تک محدود نہ رہے بلکہ اپنی جماعت کے دینی رہبر، معلم اور مصلح کی حیثیت سے کردار ادا کرے۔
ائمۂ کرام کو چاہیے کہ وقتاً فوقتاً علاقے کے علماء کی موجودگی میں ایسی دینی مجالس قائم کریں جہاں عوام بغیر وقت اور مال کے ضیاع کے قرآن و سنت کی باتیں سن سکیں، شریعت کے بنیادی احکام کو سمجھ سکیں اور اپنے عمل کو درست بنا سکیں۔ اس طرح کی مجالس محلے کے دینی ماحول کو مضبوط بنانے کا بہترین ذریعہ ہوتی ہیں۔
امت مسلمہ کے نام اپیل
ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان ائمۂ کرام کی عظمت اور ان کے منصب کو صحیح طور پر سمجھیں۔ انہیں محض نماز پڑھانے والا فرد نہ سمجھا جائے بلکہ انہیں وہ مقام دیا جائے جس کے وہ واقعی مستحق ہیں۔ ساتھ ہی امت کو چاہیے کہ ائمۂ مساجد کی ضروریاتِ زندگی، معاشی تکالیف اور سماجی ذمہ داریوں کا بھی احساس کرے اور ان کی مخلصانہ خدمت کا صلہ انہیں عزت، احترام اور سہولتوں کی صورت میں دے۔
ائمۂ کرام ہماری نسلوں کے معلم، معاشرے کی روحانی قیادت، امت کے فکری محافظ اور دینی ستون ہیں۔ ان کی عزت دراصل دین کی عزت ہے۔ لہٰذا ان کی تکریم، تعاون اور سرپرستی ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے۔





