ماہنامہ الفاران

ماہِ صفر المظفر - ۱۴۴۷

ملت کے اتحاد کی کوشش "فرض عین" ہے!

محترم جناب مولانا مبارک صدیقی قاسمی صاحب، ناظم:مدرسہ اسلامیہ یتیم خانہ ارریہ بہار

منفعت ایک ہے اس قوم کی ، نقصان بھی ایک۔۔ ایک ہی سب کا نبی ، دین بھی ، ایمان بھی ایک
حرم پاک بھی ، اللہ بھی ، قرآن بھی ایک ۔۔ کیا بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک؟
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں۔۔ کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں ؟
کیا یہ عبرت کا مقام نہیں کہ وہ قوم جس نے صدیوں تک اس سرزمین پر اپنی حکمرانی، شرافت اور انسانیت کے نقوش ثبت کیے، آج خود انہی نقوش عزت پر مٹی ڈالے ہوئے ہے؟ کیا یہ ستم ظریفی نہیں کہ وہ ملت جس کی ماضی کی تاریخ روشنیوں کی امین تھی، آج اپنی موجودہ تاریکیوں پر شرمندہ بھی نہیں؟
کیا یہ حیرت انگیز امر نہیں کہ وقت کی ٹھوکریں اور زوال کی چوٹیں بھی ہمیں خواب غفلت سے بیدار نہ کر سکیں؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ زوال صرف خارجی نہیں، بلکہ داخلی شکست و ریخت کا نتیجہ ہے۔
اگر ہم اس قوم کی موجودہ بے حسی، باہمی نفاق اور فرقہ واریت کا سنجیدہ تجزیہ کریں تو یہ واضح ہو جاتا ہے کہ ہمارے زوال کا نقطۂ آغاز اس دن ہوا جب ہم نے خدا سے اپنا رشتہ کمزور کر لیا اور فرقہ بندیوں، شخصی مفادات اور گروہی تعصبات نے ہمیں سمندر کی سی طاقت رکھنے کے باوجود قطروں میں تقسیم کر دیا؛ یہاں تک کہ ہم اس دھوپ میں بخارات بن کر اڑنے لگے جہاں دھوپ کا جھونکا ہی ہماری ہستی کو مٹا دینے کے لئے کافی ہے۔
قرآنِ کریم کا وہ زریں حکم "جو اُحد کی ہزیمت کے پس منظر میں نازل ہوا " گویا ہمارے لئے آئین حیات ہے: ﴿وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا﴾ (آل عمران: 103) اور دوسری جگہ:﴿وَلَا تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ﴾ (الأنفال: 46)
قرآن کی زبان میں "ریح"جان ہے، قوت ہے اور شوکت ہے، نزاع و اختلاف اس "ریح" کو اڑا لے جاتا ہے، جیسا کہ آج ہم عملاً دیکھ رہے ہیں کہ ہماری طاقت، اثر اور وزن مفقود ہو چکا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات سے معلوم ہوتا ہے کہ اتحاد امت کے لئے شریعت نے کتنی وسعت دی ہے، جھوٹ، جو عام حالات میں کبیرہ گناہ ہے؛ لیکن اگر دو مسلمان آپس میں دشمن ہوں اور ان میں صلح کرانے کے لئے جھوٹ بولنا پڑے تو وہ روا ہے: "ليس الكذاب الذي يصلح بين الناس فينمي خيراً أو يقول خيراً" (صحیح بخاری)
غور کا مقام ہے کہ صرف دو نفر کے درمیان صلح کے لیے گناہ کبیرہ کو روا رکھا گیا تو اگر بات دو گروہوں، دو جماعتوں یا دو تنظیموں کے درمیان صلح کی ہوگی تو دسیوں جھوٹ کی اجازت ہو سکتی ہے۔
یہی اصول "نہی عن المنکر" پر بھی لاگو ہوتا ہے؛ یعنی اگر کسی برائی سے روکنا ملت کے شیرازے کو بکھیرنے کا سبب بن رہا ہو تو وقتی طور پر صبر و سکوت کو ترجیح دی گئی ہے، جب کہ نہی عن المنکر اس امت کا شان امتیاز ہے، حضرت ابوذر کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ کا مکالمہ بھی اسی حقیقت کی گواہی دیتا ہےکہ پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ایک وقت آئے گا کہ ایسے بادشاہ تم پر مسلط ہوں گے جو تمہاری گاڑھی کمائی جبرا وصول کر اپنے عیش و لایعنیت پر صرف کریں گے تو تم کیا کرو گے؟ حضرت ابو ذر غفاری نے عرض کیا: میں نوک شمشیر سے اسے سیدھا کروں گا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہرگز نہیں! بلکہ اس وقت کا انتظار کرنا جب تم اور وہ بادشاہ اللہ سے ملیں۔(سنن ابن ماجہ: 3958، مسند احمد: 21329)
مزاج نبوت کے شناسا حضور کی مراد خوب جانتے ہیں کہ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر شدت اختیار کرنے، انتشار و افتراق سے بچنے، صبر و تحمل سے کام لینے اور معاملہ کو اللہ کے حوالے کر دینے کی ہدایت دی ہے۔
اسی طرح حضور نے فرمایا: "الامام ضامن" ( سنن ابو داؤد، جامع ترمذی، ابن ماجہ) لہذا امام کا اوصاف حمیدہ کا حامل ہونا،عمدہ قاری، عالم با عمل اور پابند شرائع ہونا ضروری ہے؛ لیکن اگر ان اوصاف کا مطالبہ افتراق کا باعث اور انتشار و فساد کی وجہ بن سکتا ہو تو امام کے پیچھے نماز پڑھنے کا مسئلہ بھی امت کے اتحاد پر قربان کر دیا گیا: "صلوا خلف كل بر وفاجر" (سنن الدارقطنی، بیہقی) یعنی "اتحاد امت" امام کے پابند شریعت ہونے سے کہیں زیادہ ضروری ہے۔
اسی طرح جماعت سے نماز کی تاکید آپ علیہ الصلاۃ والسلام سے کس شدت کے ساتھ کی ہے کہ جماعت چھوڑنے والوں سے متعلق احادیث مبارکہ میں اتنی وعیدیں وارد ہوئیں ہیں کہ حضرات فقہائے کرام نے جماعت سے نماز پڑھنے کو واجب کے قریب قریب،گ یعنی: سنت مؤکدہ قرار دیا؛ نیز حضور صلی اللہ علیہ وسلم خود جماعت سے نماز کے اس قدر پابند تھے کہ مرض وفات پر عین مجبوری کی حالت میں بھی ہزاروں تکلفات کے ساتھ آپ مسجد تشریف لانے کی کوشش کرتے تھے؛ مگر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم "قبیلہ عمرو بن عوف" کے مسلمانوں کے درمیان صلح کے لیے گئے تو آپ کو مسجد تشریف آوری میں تاخیر ہوئی، جس کے باعث حضرت ابوبکر صدیق نے نماز پڑھائی اور آپ بعد میں شریک جماعت ہوئے۔(بخاری)
توجہ فرمائیں! آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے امت کے درمیان مصالحت کو اس عمل پر مقدم رکھا جس پر آپ نے پوری زندگی پابندی فرمائی۔
یہ سب تعلیمات ہمیں ایک واضح پیغام دیتی ہیں کہ وحدت امت، نماز، صداقت اور حتیٰ کہ بعض اوقات امر بالمعروف سے بھی اہم ہے؛اگر وہ افتراق کا سبب بن جائے۔
واقعہ یہ ہے کہ ہندوستانی مسلمان ایک ایسے نازک موڑ پر کھڑے ہیں جہاں اتحاد، اتفاق اور اشتراک و تعاون محض شعاری الفاظ نہیں؛ بلکہ زندگی اور بقا کا بنیادی تقاضا ہیں، فرقہ پرستی کی زعفرانی آندھیاں جس شدّت سے ہمارے خیمے کو جھنجھوڑ رہی ہیں؛ اگر ہم متحد نہ ہوئے تو یہ طوفان صرف ہمارے وجود کو ہی نہیں ؛بلکہ ہماری تہذیب، ثقافت، مدارس، مساجد اور خانقاہیں؛ حتیٰ کہ قرآن و اذان کے مستقبل کو بھی بہا لے جائے گا۔
مسلمانوں کی صفوں میں اتحاد و اشتراک ہی وہ آخری سپر ہے جس کے ذریعے اس سیاسی طوفان کو روکا جا سکتا ہے؛ لیکن افسوس کہ ہم اس زلزلے کو بھی محض ایک وقتی جھٹکا سمجھ کر اپنی فرقہ وارانہ انا میں مگن ہیں۔
واضح رہے کہ عزیز ملک ہندوستان میں کسی جماعت، مکتب فکر، یا ادارے کو دوسروں میں ضم کرکے اتحاد کا خواب دیکھنا, نہ عقل کا تقاضا ہے اور نہ ہی یہ عملا ممکن ہے؛ لہذا ہمیں یہ مان لینا ہوگا کہ "اتحاد ملت" کی بس ایک صورت "اشتراک عمل" پر قائم ہونا ہی باقی رہ گیا ہے؛ جیسا کہ قرآن نے غیر مسلموں کے ساتھ بھی مشترکہ نکات پر مل کر کام کرنے کی ہدایت دی: قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَى كَلِمَةٍ سَوَاءِ (آل عمران: 64) پھر کیا وجہ ہے کہ مسلمان اپنے مشترکہ مسائل (تعلیم، معیشت، جان و مال کا تحفظ، قانونی امداد، میڈیا پر نمائندگی وغیرہ) پر ایک میز پر جمع نہیں ہو سکتے؟
اگر سیاست کے میدان میں ایسی جماعتیں، جن کا میل ممکن نہ تھا، آج ہاتھ ملا رہی ہیں تو کیا ہم مسلمان اس قدر بے حس اور بے ضمیر ہو چکے ہیں کہ سیلاب بلا بھی ہمیں ایک نہ کر سکا؟
یاد رہے کہ یہ اتحاد اب محض خواہش نہیں، بلکہ فرض عین ہے، جو لوگ مسلمانوں کے درمیان صلح کرانے میں کوشاں ہوں، وہ امت کے معمار ہیں؛افسوس کہ ہماری دانشور طبقے کی اکثریت محض تماشائی بنی ہوئی ہے، حالیہ "امارت شرعیہ بہار" کا قضیہ نا مرضیہ نے بھی یہی دکھایا کہ ظالم دشمن کی موجودگی میں بھی ہم ایک دوسرے سے دست و گریباں ہیں۔
یہ وہ وقت ہے جب ہمیں اپنے اداروں، تنظیموں، جماعتوں، اور شخصیات کے مابین رابطہ، مشاورت اور اشتراک کی ایک قومی سطح کی کوشش کرنی ہوگی، اتحاد ملت اب محض نعرہ نہیں؛ بلکہ ہتھیار ہے، بقا کا وسیلہ ہے اور اللہ کی رسی ہے جسے تھامنے میں ہی نجات ہے۔

دیگر تصانیف

امیدوں کا چراغ

مٹی کا چراغ

کہاں گئے وہ لوگ

تذکیر و تانیث

مجلس ادارت

team

سرپرست

حضرت الحاج مولانا کبیر الدین فاران صاحب مظاہری

team

مدیر مسئول

مولانا ارشد کبیر خاقان صاحب مظاہری

team

مدیر

مفتی خالد انور پورنوی صاحب قاسمی