ماہنامہ الفاران

ماہِ صفر المظفر - ۱۴۴۷

یہ اسرائیلی نہیں فرعونی ہیں!

محترم جناب مفتی ہمایوں اقبال صاحب ندوی، نائب صدر، جمعیت علماء، ارریہ

مصر کی ایک ویڈیوسوشل میڈیا میں تیزی سے وائرل ہورہی ہے۔اسمیں یہ منظر دیکھا جارہا ہے کہ فلسطینی سرحد سے قریب بسنے والے مصری لوگ پلاسٹک کی بوتلوں میں اناج، دودھ، دال چاول بھر کر سمندر کے حوالہ کررہے ہیں، انہیں یہ امید ہے کہ غزہ تک آج نہ کل یہ مدد پہونچے گی اور کسی بھوکے کی جان بجے گی۔بظاہر یہ ایک خیالی عمل ہے،یقین کے ساتھ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ یہ بوتلیں ساحل غزہ سے ہمکنار ہوں گی، اور صہیونی فوجی جو اہل غزہ پر کربلائی ناکہ بندی کئے ہوئے ہیں،پانی بھی نہیں لینے دے رہے ہیں، وہ انہیں یہاں پہونچنےبھی دیں گے؟
بہر کیف بوتل پہونچے یا نہیں اسمیں تو شک ہے مگر ! یہ بات یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ اہل مصرنے اپنے اس خوبصورت عمل کے ذریعےدنیا کو دواہم پیغامات دینے میں کامیابی حاصل کرلی ہے ۔
ایک یہ کہ انسان کی جان بہت قیمتی ہے، اس کے بچاؤ کی ہرممکن تدبیر ہونی چاہئے،تمام راستے بند بھی ہوجائیں پھر بھی کوشش کا دروازہ بند نہیں ہونا چاہئے، اسرائیل نے غزہ کی مکمل ناکہ بندی کررکھی ہے،امدادی سامان سے لدی گاڑیاں سرحد پر کھڑی ہیں، داخلے کی اجازت نہیں ہے،ایک دانہ نہیں پہونچنے دیا جارہا ہے، مسلسل بمباری ہورہی ہے، کوئی صورت اور سبیل نہیں ہے تو سمندر کی لہروں سے کام لیا جائے اور انسانی جان بچا نے کا فریضہ انجام دیا جائے۔
سمندر میں بوتل ڈالکردوسرا معنوی پیغام یہ دیا ہے کہ اسرائیلی ناکہ بندی یہ کوئی عام جنگی چال اور جال نہیں ہے بلکہ یہ درحقیقت فلسطینی مسلمانوں کی نسل کشی ہے،ابتک انسٹھ ہزار پانچ سو ستاسی فلسطینی شہید ہوچکے ہیں، ایک لاکھ بیالیس ہزار چار سو اٹھانوے زخمی ہیں، باوجود اس کے یہ سلسلہ رک نہیں رہا ہے، غزہ میں اس وقت خواتین اور بچے ہی نظر آرہے ہیں، اب انہیں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، امدادی کیمپ پر آنے والوں کو بھی نہیں بخشا جارہا ہے، اس وقت خاص طور پر نشانہ وہ بچے ہیں اور انہیں بھوکے ماردینا چاہتا ہے، فلسطینی پناہ گزینوں کی ایجنسی اونروا کی تازہ رپورٹ کے مطابق دس لاکھ سے زائد بچے شدید بھوک کا شکار ہیں۔حاصل یہ کہ مصریوں نے یہ پیغام دیا ہےکہ جس طرح فرعون نے بنی اسرائیل کی نسل کشی شروع کی تھی، قوم بنی اسرائیل کے ہر بچہ کو جو پیدا ہوتا تھا ماردیا جاتا ، بالکل اسی طرح صہیونی حکومت فلسطینی ہر بچہ کو ختم کردینا چاہتا ہے، اس موقع پرجب حضرت موسی علیہ السلام کی ولادت ہوئی تو خدا کے حکم پر ان کی والدہ نے انہیں صندوق میں ڈال کر سمندر میں ڈال دیا تھا، اس طرح سے ان کی جان کی حفاظت ہوئی ہے،اسی طرح ہم نےبھی سمندر کا سہارا لیاہے، ان بھوکے بچوں کی جان بچائے کے کی یہ آخری سعی ہم کی ہے۔
اس عجیب و غریب عمل کے ذریعہ قوم بنی اسرائیل اورفرعون کا تاریخی واقعہ بھی ہرزبان پر جاری ہےجو قران میں لکھا ہوا ہے،نیز تورات میں بھی مذکور ہےکہ:فرعون نے ایک خواب دیکھا تھا جس کی تعبیر نجومیوں نے یہ بتلائی کہ بنی اسرائیل میں ایک بچہ پیدا ہوگا وہ تمہاری سلطنت کے زوال کا سبب بنے گا، اپنی بادشاہت کی حفاظت کے لئے فرعون نے پولس پھیلا دی، جو بچہ پیدا ہوتا وہ ذبح کردیا جاتا، انہی دنوں حضرت موسی علیہ السلام پیدا ہوئے تو اللہ نے آپ کی والدہ ماجدہ کے دل میں ڈالا کہ اسے صندوق میں ڈال کر دریا میں ڈالیں ،قران کریم سورہ قصص میں اللہ کا یہ وعدہ لکھا ہوا ہے کہ اس بچے کو ہم واپس تمہارے پہونچادیں گے اور ایک عمر دیکر مقام نبوت ورسالت سے سرفراز کریں گے، بالآخر ایسا ہی ہوا، حضرت موسی علیہ السلام سمندر میں ڈالے گئے، صندوق لہرے کھاتا فرعون کے محل تک پہونچ گیا، فرعون کی بیوی کے سامنے اسے کھولا گیا، دیکھا تو اسمیں ایک حسین وجمیل نومولود بچہ موجود ہے، اسے بھی قتل کرنا چاہا، بیوی نے منع کر دیا، اس طرح حضرت موسی علیہ السلام کی جان بچائی گئی اور آپ کی ہمشیرہ کی رہنمائی کے ذریعے اللہ رب العزت نے پھر آپ کو اپنی والدہ کی گود تک پہونچادیا ہے۔
مصری بھائیوں نےاس جانب بھی دنیا کی توجہ مبذول کرائی ہےکہ غزہ کے بچوں کی بھی سمندر کے ذریعے جان بچائی جائے یہ کل کی تاریخ میں نتن یاہو فرعون حکومت کے خاتمے کا سامان بنیں گے، اور پھر اسی سمندر میں وقت کے فرعون کوغرق ہوجانا ہے،واقعی ان دونوں واقعات میں بڑی مماثلت نظر آتی ہے۔
آج صہیونیوں جو خود کو اسرائیلی کہتے ہیں، قوم بنی اسرائیل سے تعلق رکھنےکا کھوکھلا دعوی کرتے ہیں، یہ محض زبانی جمع خرچ ہے،ان کا عمل انہیں قوم بنی اسرائیل کے ساتھ نہیں فرعون کے ساتھ کھڑا کرتا ہے۔یہ اسرائیلی نہیں ہیں بلکہ فرعونی ہیں۔
اسرائیل یہ حضرت یعقوب علیہ السلام کا لقب ہے،ان کی اولاد کی مختلف شاخیں ہوئیں یہ سبھی بنی اسرائیل کہلائے،حضرت موسی علیہ السلام اسی قوم میں پیدا ہوئے، حضرت یوسف علیہ السلام کے زمانے سے یہ مصر میں آباد ہوئے،اور ابتدا میں انہیں خوب عزت حاصل رہی، پھر حالات نے کروٹ لی اور قبطی جو وہاں کے قدیم رہائشی تھے اور فرعون کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے،ان کے مقابلے میں بنی اسرائیل کی حیثیت غلاموں کی سی تھی، مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی کی تحقیق کے مطابق تین ہزار قبل مسیح سے شروع ہوکر عہد سکندر اعظم تک فراعنہ کے اکتیس خاندان مصر پر حکمران رہے ہیں، فرعون یہ نام نہیں ہے بلکہ شاہان مصر کا لقب ہے۔ فرعون کی دشمنی بنی اسرائیل سے حکومت کے لئے ہی تھی، موجودہ وقت میں یہ صہیونی جو خود کو یعقوب علیہ السلام کی اولاد اور اسرائیلی کہتے ہیں یہ دراصل فرعون کا کردا ادا کررہے ہیں ، جس طرح فرعونیوں نے بنی اسرائیل کو غلام بنایا تھا اسی طر۵ یہ فلسطینیوں سے سلوک کرتے ہیں،جس طرح فرعون نے بنی اسرائیل کی نسل کشی کی تھی،اور بچوں کو مارا تھا اسی طرح یہ فلسطینی بچوں تک کو اب ختم ۔کردینا چاہتے ہیں۔

دیگر تصانیف

امیدوں کا چراغ

مٹی کا چراغ

کہاں گئے وہ لوگ

تذکیر و تانیث

مجلس ادارت

team

سرپرست

حضرت الحاج مولانا کبیر الدین فاران صاحب مظاہری

team

مدیر مسئول

مولانا ارشد کبیر خاقان صاحب مظاہری

team

مدیر

مفتی خالد انور پورنوی صاحب قاسمی