ماہنامہ الفاران

ماہِ صفر المظفر - ۱۴۴۷

امت کی بہو بیٹیوں کا فتنۂ ارتداد اور اس کا سد باب

محترم جناب محمد عادل صاحب ارریاوی، جامع مسجد،سیسونا،جوکی ہاٹ،ضلع ارریہ

قارئین کرام!
اس وقت سوشل میڈیا کے خونی پنجوں میں نوجوان گرفتار ہیں ان کا مستقبل داؤ پر لگا ہوا ہے نوجوان لڑکیاں گھروں سے بھاگ رہی ہیں جنسی جرائم عام ہوتے جارہے ہیں اسلام کے بارے میں شک و شبہ میں ڈالا جا رہا ہے الحاد اور بے دینی کو فروغ مل رہا ہے
حضرت مولانا علی میاں ندوی فرماتے ہیں کہ اگر کسی ماں کی گود سے بچہ چھین لیا جائے تو کہرام مچ جاتا ہے اور آج ایماندار ماؤں کی گود سے بچے غیر ایمانی ذہن سازی کر کے چھینے جا رہے ہیں۔ (از : مکاتب کی اہمیت )
بڑی تیزی کے ساتھ حالات ہمارے بچوں کے لئے خطر ناک بنتے جارہے ہیں اگر ہم ادھر توجہ نہ دیں تو ارتداد اور الحاد کا فتنہ ہماری نسلوں کو تباہ کر دے گا جس کے آثار شروع ہو چکے ہیں یہ وہ نازک وقت ہے کہ خواب غفلت سے باہر نکل کر نسلوں کی حفاظت کے لئے کام کریں کہ بچے غلط سوسائٹی قابل نفرت صحبتیں اور گندے ماحول میں وقت گزار رہے ہیں جس کا نتیجہ سوائے تباہی اور بربادی کے کچھ نہیں۔
ملک کے مختلف علاقوں سے یہ روح فرسا خبریں آرہی ہیں کہ مسلمان لڑکیاں غیر مسلم لڑکوں سے شادی کر رہی ہیں اور اپنا دین و ایمان ضمیر و حیا بیچ کر اپنے خاندان اور اپنے سماج اور معاشرے پر بدنامی کا داغ لگا رہی ہیں اس طرح کے اکے دُکے واقعات پہلے بھی پیش آتے رہے ہیں لیکن کچھ عرصہ سے باضابطہ پلاننگ کے ساتھ مسلمان لڑکیوں کو جال میں پھنسایا جارہا ہے اور آئے دن ان لڑکیوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔
آج کل اخباروں میں اور سوشل میڈیا پر لڑکیوں کے مرتد ہونے اور گھر سے بھاگ کر غیر مسلم لڑکوں سے شادی کرنے کی خبریں بکثرت آرہی ہیں اور ملک کے مختلف گوشوں سے آرہی ہیں اس کے مختلف اسباب ہو سکتے ہیں ان میں سے ایک بڑا سبب آزادی نسواں ہے تعلیم نسواں اور آزادی نسواں کے نام پر اسلام دشمن عناصر نے بہت ہی ہوشیاری سے عورتوں کو گھروں سے باہر نکالا جب کہ اسلامی تہذیب میں پردہ کی ایک خاص اہمیت ہے اسلام کا ماننا ہے کہ عورت کی عصمت دنیا کی سب سے قیمتی سرمایہ ہے یونیورسٹی اور کالج کے مخلوط نظام تعلیم نے پردہ کو ایک بوجھ گردانا بالآخر ہماری مسلمان بہنیں پردے سے آزاد ہو گئیں۔
سوشل میڈیا کے اس دور میں ایمان کے ڈاکو خاموش طریقے سے ہماری آنے والی نسلوں کو الحاد کی طرف ڈھکیل رہے ہیں اپنی اولاد کو ایمان کے ڈاکوؤں سے بچائیں تاکہ ہماری آئندہ نسلوں میں بھی دین باقی رہے ایک مسلمان کے لئے اولا د صرف ایک دنیوی نعمت ہی نہیں بلکہ آخرت کا سرمایہ اور صدقہ جاریہ ہیں بشرطیکہ وہ صاحب ایمان ہو اس وقت ساری دنیا میں ملحدین کی تعداد سوشل میڈیا کے ذریعہ تیزی سے بڑھ رہی ہے اور اس کا شکار عام مسلمان گھرانوں کے جواں سال بچے بچیاں ہو رہے ہیں نوجوانوں تک رسائی کا سب سے بڑا ذریعہ کمپیوٹر اور موبائل فون ہے۔
اپنی اولاد کو برباد ہونے سے بچانا والدین کی ذمہ داری ہے خصوصاً اس دور میں جب کہ ٹکنالوجی عروج پر ہے جب سے موبائل میں نیٹ آیا ہے تنہائی کے گناہ بہت بڑھ گئے ہیں فحاشیت کے مناظر اس میں دیکھے جا رہے ہیں اور جو اس میں پھنس جاتا ہے پھر وہ آسانی کے ساتھ نکلتا نہیں اور جو عریانیت کے مناظر دیکھ رہے ہیں اس کا اثر ان کے دل و دماغ پر پڑے گا ویسی ہی اس کی سوچ بنے گی خیالات گندے تو اس کا اثر کردار پر پڑے گا والدین کو اس جانب توجہ کرنے کی ضرورت ہے۔
اسلام اور اس کی تعلیمات میں اجنبی مرد و عورت یا لڑکے اور لڑکیوں کے درمیان دوستی کا کوئی تصور ہی نہیں ہے دین اسلام زنا اور حرام کاری کے اس چور دروازے کو حرام قرار دیتا ہے اور صورت حال یہ ہے کہ نو خیز اور کم سن طلبہ و طالبات کے درمیان گرل فرینڈ اور بوائے فرینڈ کی ملعون روایت فیشن زدہ روشن خیال اور مہذب ہونے کی علامت بن چکی ہے اس ماحول میں سب سے پہلے دل و نگاہ کی پاکیزگی حیا اور جھجک ختم ہو جاتی ہے اس کی جگہ بے غیرتی اور بے باکی بے شرمی و بے حیائی ان میں سرایت کرتی ہیں دھیرے دھیرے گفت و شنید بوس و کنار اور ہم آغوش ہوتے ہوئے نوبت وہاں تک پہنچ جاتی ہے جس کو بیان نہیں کیا جاسکتا جنسی تسکین حاصل کئے بغیر انھیں قرار نہیں ملتا آخر کار وہ وقت آتا ہے کہ شرم و حیا اور غیرت کو چاک کر کے لڑکیاں خود اپنے والدین کو اپنی پسند سے آگاہ کرتی ہیں اور انھیں سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں اگر وہ مان جائیں تو ٹھیک ورنہ یہ لڑکیاں گھروں سے بھاگ کر یا مرتد ہو کر اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ کورٹ میریج کر کے اپنے والدین اور پورے خاندان کی عزت کو داغدار بنا دیتی ہیں
آج کم سن طلبہ و طالبات کے درمیان گرل فرینڈ اور بوائے فرینڈ کی ملعون روایت کو روشن خیالی اور مہذب ہونے کی علامت سمجھا جا رہا ہے اور اس کو پیار کا نام دے دیا گیا اسلام میں اجنبی مرد و عورت یعنی گرل فرینڈ اور بوائے فرینڈ کے درمیان پیار و محبت یا دوستی کا کوئی جواز ہی نہیں ہے لبرل ازم اور روشن خیالی کی اس دنیا میں گرل فرینڈ اور بوائے فرینڈ کا مطلب آزاد شہوت رانی ہے جب چاہے جہاں چاہے جنسی ہوس پوری کرنے میں کوئی قباحت نہیں۔
اسکولوں کالجوں اور یونیورسٹی کے نو عمر طلبہ وطالبات کا اپنے گھروں سے تو کالج کے نام نکلنا پڑھائی کے نام پر پارکوں میں جانا یا ڈیٹنگ پر جانا وغیرہ لڑکیاں بھولی بھالی ہوتی ہیں یہ چند ڈیٹ کچھ فلموں اور تھوڑے بہت تحفے تحائف سے اپنا جسم مردوں کے حوالے کر دیتی ہیں لڑکیاں یاد رکھیں کہ اکثر لڑکے گرل فرینڈ سے شادی نہیں کرتے اور جس سے شادی کرنا چاہتے ہیں اس کو گرل فرینڈ نہیں بناتے۔
اسلام میں میاں بیوی کے علاوہ اجنبی مرد و عورت کے درمیان جنسی تعلق زنا کہلاتا ہے زناعظیم گناہ اور بدترین جرم ہے عام طور پر معاشرہ میں صرف بدکاری کو زنا سمجھا جاتا ہے جب کہ نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے حرام دیکھنے حرام سننے حرام پکڑنے اور حرام جگہ تک چل کر جانے کو بھی زنا سے تعبیر فرمایا ہے اس لئے کہ یہ مبادیات زنا ہیں جس کے بعد آدمی عملاً زنا میں مبتلا ہو جاتا ہے زنا نہایت ہی فتیح اور موجب کفر عمل ہے۔
خدارا اب بھی وقت ہے اپنی اولادوں کو جہنم کی آگ سے بچانے کی کوشش کریں ان کی آخرت کی فکر کریں کہیں ایسا نہ ہو کہ کل قیامت کے دن باعث جہنم نہ بن جاۓ۔ اللہ ربّ العزت ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ عطافرماۓ ہم سب کا خاتمہ ایمان پر کریں آمین یارب العالمین۔۔

دیگر تصانیف

امیدوں کا چراغ

مٹی کا چراغ

کہاں گئے وہ لوگ

تذکیر و تانیث

مجلس ادارت

team

سرپرست

حضرت الحاج مولانا کبیر الدین فاران صاحب مظاہری

team

مدیر مسئول

مولانا ارشد کبیر خاقان صاحب مظاہری

team

مدیر

مفتی خالد انور پورنوی صاحب قاسمی