ماہنامہ الفاران
ماہِ محرم الحرام - ۱۴۴۷
ماہ محرم الحرام کے حقائق و فضائل اور خرافات و بدعات ۔
محترم جناب محمد عادل صاحب ارریاوی، جامع مسجد،سیسونا،جوکی ہاٹ،ضلع ارریہ
قارئین کرام !
ماہ محرم اپنی فضیلت و عظمت، حرمت و برکت اور مقام و مرتبہ کے لحاظ سے انفرادی خصوصیت کاحامل ہے،
ایک سال بارہ مہینے کا ہوتا ہے، ان میں سے چار مہینے حرمت والے ہیں، جن میں سے تین مہینے مسلسل ہیں یعنی ذوالقعدہ،ذوالحجہ. محرم اورایک مہینہ رجب کا ہے، جو جمادی الثانی اور ماہ شعبان کے درمیان آتا ہے،
یوں تو اس ماہ میں کی جانے والی ہر عبادت قابل قدر اور باعث اجر ہے لیکن کچھ لوگ اس مہینہ کو رنج والم کا مہینہ سمجھتے ہیں اور اس میں شادی بیاہ اور خوشی ومسرت کے کاموں سے پرہیز کرتے ہوۓ مختلف قسم کے سوگ مناتے ہیں، جیسا کہ کالا لباس پہننا ،عورتوں کا زیب و زینت اور بناؤ سنگھار چھوڑ دینا،نوحہ خوانی اور ماتم گری کرناوغیرہ وغیرہ، ان لوگوں کا یہ خیال غلط ہے کیونکہ احادیث مبارکہ میں اس کے بہت سارے فضائل وارد ہوۓ ہیں، لہٰذا اس مہینہ کو غم کا مہینہ سمجھایا کہناقطعا درست نہیں ہے،
بعض لوگوں میں یہ بات مشہور ہوگئی ہے کہ محرم کا مہینہ خصوصاً محرم کے شروع کے دس دنوں میں شادی بیاہ اور خوشی کی تقریبات وغیرہ کرنا حرام ہے ، اس مہینہ میں خوشی کی تقریبات کرنے میں خیر و برکت نہیں ہوتی اور وہ کام منحوس ہوجاتا ہے، اس زعم فاسدمیں بعض پڑھے لکھے لوگ بھی مبتلاء ہیں،جب کہ یہ سوچ غلط ہے، کیونکہ شریعت میں ایسی کوئی بات نہیں ہے، شریعت میں محرم یا کسی دوسرے مہینہ میں نکاح سے منع نہیں کیا گیا ہےاورنہ ہی اس مہینہ میں زیادہ عبادت کرنے کا حکم دیا گیا ہے، ویسے نکاح بھی ایک عبادت ہے، کیونکہ نکاح سے اللہ کا قرب اور تقویٰ نصیب ہوتا ہے ، ایک حدیث میں آیا ہے کہ جب آدمی شادی کرتا ہے تو اس کا آدھا دین مکمل ہوجاتا ہے تو اس کو چاہئے کہ باقی آدھے کے معاملہ میں اللّٰہ تعالیٰ سے ڈرے لہذا اس ماہ میں نکاح کرنا ممنوع نہیں ہے ۔ ( شعب الایمان ج ۴۔ ص ۳۸۳)۔
محرم الحرام کی بدعات میں تعزیہ داری کی بدعت بہت ہی عام ہے، عوام الناس مقبرے کی شکل میں کہیں بہترین لکڑی کا تعزیہ اور کہیں بانس و کاغذ کا تعزیہ بناتے ہیں، اس میں دو قبریں ہوتی ہیں، ایک کی نسبت حضرت سیدنا حسن رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے کی جاتی ہے اور اس کا رنگ سبز ہوتا ہے دوسری قبر کو حضرت سیدنا حسین رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے منسوب کرتے ہیں اس کارنگ لال یا گلابی ہوتا ہے، اسی طرح عَلم یا جھنڈا ہے لمبی لکڑی یا لمبے بانس پر رنگین کپڑے پہنائے جاتے ہیں اور اس کے بالائی حصہ پر کوئی چمکدار پنجہ لگاتے ہیں، کہیں حضرت فاطمہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہا سے منسوب کر کے بی بی کا جھنڈا اور کہیں حضرت عباس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے نسبت کر کے عباس کا جھنڈا کہا جاتا ہے،لیکن زیادہ تر علاقوں میں حضرت سیدنا حسین رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کا جھنڈا کہا جاتا ہے اور مخصوص جگہوں پر ان کو نصب کرتے ہیں۔
اور کہیں گڑھا کھود کر اس میں آگ جلا کر کوئی نا ہنجار وشرابی اس جھنڈے کو لے کر اس آگ سے آر پار ہوتا رہتا ہے اور یہ کہتا ہے کہ اب اس کے جسم میں سیدنا حسین کی روح، عبد القادر جیلانی رحمتہ الله کی روح، شہدائے کربلا کی روح حلول کر گئی ہے ( خدا ان رسومات سے بچائے کہیں یہ دنیا ہی میں دوزخ ہی کا پیش خیمہ نہ ہو کہ جس کو آگے جہنم میں جلنا ہے خدا اسے دنیا ہی سے جلانا شروع کر دئے )۔
تعزیے اور جھنڈے یکم محرم سے نو محرم تک مخصوص جگہوں پر کھڑے کئے جاتے ہیں اور ۱۰ محرم کے دن محلوں، گلیوں اور سڑکوں پر ان کی نمائش ہوتی ہے، لوگ ان پر نذر و نیاز چڑھاتے ہیں، ان سے منتیں اور مرادیں مانگتے ہیں،اس کے علاوہ بہت سے مشرکانہ عمل کا،مرتکب ہوکر اسلامی تعلیمات کی عملی مخالفت اور غضب الہی کا مستحق بنتے ہیں۔ افسوس ہے کہ آج مسلمانوں کو اس حکم کا خیال اور پاس نہیں رہا۔ اپنے طریقہ کار میں، وضع قطع میں، لباس پوشاک میں، اٹھنے بیٹھنے کے انداز میں ، کھانے پینے کے طریقوں میں،غرض کہ زندگی کے ہر کام میں ہم نے غیر مسلموں کے ساتھ مشابہت اختیار کر لی ہے۔ ان کی طرح کا لباس پہن رہے ہیں، ان کی زندگی کی طرح اپنی زندگی کا نظام بناتے ہیں،ان کی طرح کھاتے پیتے ہیں، ان کی طرح بیٹھتے ہیں، زندگی کے ہر کام میں ان کی نقالی کو ہم نے ایک فیشن بنالیا ہے،
آپ اندازہ کریں کہ حضور اقدس صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے عاشوراء کے دن روزہ رکھنے میں یہودیوں کے ساتھ مشابہت کو پسند نہیں فرمایا۔ اس سے سبق ملتا ہے کہ ہم نے زندگی کے دوسرے شعبوں میں غیر مسلموں کی جو نقالی اختیار کر رکھی ہے خدا کیلئے اس کو چھوڑ دیں اور جناب رسول اللہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے طریقوں کی نقالی کریں، ان لوگوں کی نقالی نہ کریں جو روزانہ تمہاری تضحیک کرتے ہیں، جنہوں نے تم پر ظلم و استبداد کا شکنجہ کس رکھا ہے ،جو تمہیں تمہارا حق و حقوق دینے کو تیار نہیں ، ان کی نقالی کر کے آخر تمہیں کیا حاصل ہوگا ؟
ہاں دنیا میں بھی ذلت ہوگی اور آخرت میں بھی رسوائی ہوگی حدیث بھی یہی ہے من تشبہ بقوم فھو منہ ۔ اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کو اس سے محفوظ رکھے. آمین ثم آمین یارب العالمین
ماہ محرم اپنی فضیلت و عظمت، حرمت و برکت اور مقام و مرتبہ کے لحاظ سے انفرادی خصوصیت کاحامل ہے،
ایک سال بارہ مہینے کا ہوتا ہے، ان میں سے چار مہینے حرمت والے ہیں، جن میں سے تین مہینے مسلسل ہیں یعنی ذوالقعدہ،ذوالحجہ. محرم اورایک مہینہ رجب کا ہے، جو جمادی الثانی اور ماہ شعبان کے درمیان آتا ہے،
یوں تو اس ماہ میں کی جانے والی ہر عبادت قابل قدر اور باعث اجر ہے لیکن کچھ لوگ اس مہینہ کو رنج والم کا مہینہ سمجھتے ہیں اور اس میں شادی بیاہ اور خوشی ومسرت کے کاموں سے پرہیز کرتے ہوۓ مختلف قسم کے سوگ مناتے ہیں، جیسا کہ کالا لباس پہننا ،عورتوں کا زیب و زینت اور بناؤ سنگھار چھوڑ دینا،نوحہ خوانی اور ماتم گری کرناوغیرہ وغیرہ، ان لوگوں کا یہ خیال غلط ہے کیونکہ احادیث مبارکہ میں اس کے بہت سارے فضائل وارد ہوۓ ہیں، لہٰذا اس مہینہ کو غم کا مہینہ سمجھایا کہناقطعا درست نہیں ہے،
بعض لوگوں میں یہ بات مشہور ہوگئی ہے کہ محرم کا مہینہ خصوصاً محرم کے شروع کے دس دنوں میں شادی بیاہ اور خوشی کی تقریبات وغیرہ کرنا حرام ہے ، اس مہینہ میں خوشی کی تقریبات کرنے میں خیر و برکت نہیں ہوتی اور وہ کام منحوس ہوجاتا ہے، اس زعم فاسدمیں بعض پڑھے لکھے لوگ بھی مبتلاء ہیں،جب کہ یہ سوچ غلط ہے، کیونکہ شریعت میں ایسی کوئی بات نہیں ہے، شریعت میں محرم یا کسی دوسرے مہینہ میں نکاح سے منع نہیں کیا گیا ہےاورنہ ہی اس مہینہ میں زیادہ عبادت کرنے کا حکم دیا گیا ہے، ویسے نکاح بھی ایک عبادت ہے، کیونکہ نکاح سے اللہ کا قرب اور تقویٰ نصیب ہوتا ہے ، ایک حدیث میں آیا ہے کہ جب آدمی شادی کرتا ہے تو اس کا آدھا دین مکمل ہوجاتا ہے تو اس کو چاہئے کہ باقی آدھے کے معاملہ میں اللّٰہ تعالیٰ سے ڈرے لہذا اس ماہ میں نکاح کرنا ممنوع نہیں ہے ۔ ( شعب الایمان ج ۴۔ ص ۳۸۳)۔
محرم الحرام کی بدعات میں تعزیہ داری کی بدعت بہت ہی عام ہے، عوام الناس مقبرے کی شکل میں کہیں بہترین لکڑی کا تعزیہ اور کہیں بانس و کاغذ کا تعزیہ بناتے ہیں، اس میں دو قبریں ہوتی ہیں، ایک کی نسبت حضرت سیدنا حسن رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے کی جاتی ہے اور اس کا رنگ سبز ہوتا ہے دوسری قبر کو حضرت سیدنا حسین رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے منسوب کرتے ہیں اس کارنگ لال یا گلابی ہوتا ہے، اسی طرح عَلم یا جھنڈا ہے لمبی لکڑی یا لمبے بانس پر رنگین کپڑے پہنائے جاتے ہیں اور اس کے بالائی حصہ پر کوئی چمکدار پنجہ لگاتے ہیں، کہیں حضرت فاطمہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہا سے منسوب کر کے بی بی کا جھنڈا اور کہیں حضرت عباس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے نسبت کر کے عباس کا جھنڈا کہا جاتا ہے،لیکن زیادہ تر علاقوں میں حضرت سیدنا حسین رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کا جھنڈا کہا جاتا ہے اور مخصوص جگہوں پر ان کو نصب کرتے ہیں۔
اور کہیں گڑھا کھود کر اس میں آگ جلا کر کوئی نا ہنجار وشرابی اس جھنڈے کو لے کر اس آگ سے آر پار ہوتا رہتا ہے اور یہ کہتا ہے کہ اب اس کے جسم میں سیدنا حسین کی روح، عبد القادر جیلانی رحمتہ الله کی روح، شہدائے کربلا کی روح حلول کر گئی ہے ( خدا ان رسومات سے بچائے کہیں یہ دنیا ہی میں دوزخ ہی کا پیش خیمہ نہ ہو کہ جس کو آگے جہنم میں جلنا ہے خدا اسے دنیا ہی سے جلانا شروع کر دئے )۔
تعزیے اور جھنڈے یکم محرم سے نو محرم تک مخصوص جگہوں پر کھڑے کئے جاتے ہیں اور ۱۰ محرم کے دن محلوں، گلیوں اور سڑکوں پر ان کی نمائش ہوتی ہے، لوگ ان پر نذر و نیاز چڑھاتے ہیں، ان سے منتیں اور مرادیں مانگتے ہیں،اس کے علاوہ بہت سے مشرکانہ عمل کا،مرتکب ہوکر اسلامی تعلیمات کی عملی مخالفت اور غضب الہی کا مستحق بنتے ہیں۔ افسوس ہے کہ آج مسلمانوں کو اس حکم کا خیال اور پاس نہیں رہا۔ اپنے طریقہ کار میں، وضع قطع میں، لباس پوشاک میں، اٹھنے بیٹھنے کے انداز میں ، کھانے پینے کے طریقوں میں،غرض کہ زندگی کے ہر کام میں ہم نے غیر مسلموں کے ساتھ مشابہت اختیار کر لی ہے۔ ان کی طرح کا لباس پہن رہے ہیں، ان کی زندگی کی طرح اپنی زندگی کا نظام بناتے ہیں،ان کی طرح کھاتے پیتے ہیں، ان کی طرح بیٹھتے ہیں، زندگی کے ہر کام میں ان کی نقالی کو ہم نے ایک فیشن بنالیا ہے،
آپ اندازہ کریں کہ حضور اقدس صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے عاشوراء کے دن روزہ رکھنے میں یہودیوں کے ساتھ مشابہت کو پسند نہیں فرمایا۔ اس سے سبق ملتا ہے کہ ہم نے زندگی کے دوسرے شعبوں میں غیر مسلموں کی جو نقالی اختیار کر رکھی ہے خدا کیلئے اس کو چھوڑ دیں اور جناب رسول اللہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے طریقوں کی نقالی کریں، ان لوگوں کی نقالی نہ کریں جو روزانہ تمہاری تضحیک کرتے ہیں، جنہوں نے تم پر ظلم و استبداد کا شکنجہ کس رکھا ہے ،جو تمہیں تمہارا حق و حقوق دینے کو تیار نہیں ، ان کی نقالی کر کے آخر تمہیں کیا حاصل ہوگا ؟
ہاں دنیا میں بھی ذلت ہوگی اور آخرت میں بھی رسوائی ہوگی حدیث بھی یہی ہے من تشبہ بقوم فھو منہ ۔ اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کو اس سے محفوظ رکھے. آمین ثم آمین یارب العالمین





