ماہنامہ الفاران
ماہِ محرم الحرام - ۱۴۴۷
نیا اسلامی سال اور ہماری ترجیحات
محترم جناب مفتی عبداللہ خالد صاحب قاسمی خیرآبادی، ایڈیٹر :ماہنامہ مظاہر علوم ،سہارنپور
ہم آپ نئے اسلامی سال کی دہلیزپرکھڑے ہیں ،اس موقع سے زندہ دل قوموں کی طرح ہمیں خود احتسابی سے کام لینا ہوگا اور دیکھنا ہوگا کہ سالِ گذشتہ دینی ملی اور قومی لحاظ سے ہمارا کیسا گزرا،کیا ہم نے اپنے لئے کچھ ترجیحات متعین کی تھیں ؟ ان پر کتنا عمل ہوا؟اور اس سے سبق حاصل کرتے ہوئے نئے اسلامی سال کے آغاز سے اب ہماری ترجیحات کیا ہونی چاہئیں اور انھیں ہم کس طرح بروئے کار لائیں کہ خاطر خواہ فائدہ ہو۔
ہر نیا سال دنیا کی تمام قوموں کے لئے نئے عہد و پیمان اور نئی امنگوں اور حوصلوں کا سال ہوتا ہے، ہر سال کی شروعات میں کچھ نئے عزائم کئے جاتے ہیں اور از سر نو زندگی کو بہتر سے بہتر بنانے کی فکر کی جاتی ہے ، آئیے !ہم دیکھتے ہیں کہ بحیثیت ایک مسلم قوم کے اس نئے سال پر ہماری ترجیحات اور عزائم کیا ہونے چاہئیں،کسی بھی مذہب سے تعلق رکھنے والا پڑھا لکھا اور سلجھا ہوا آدمی اپنے گزرے سال کا احتساب اور اگلے سال کی منصوبہ بندی ضرور کرتا ہے، تبھی یہ ممکن ہوتا ہے کہ گزرے ایام میں جو غلطیاں اور کوتاہیاں ہوئیں، ان سے آئندہ بچا جاسکے،نیز گزشتہ سال جن اہداف کو حاصل نہ کیا جاسکا، آئندہ سال ان اہداف کے حصول کی کوشش اور جدوجہد کو اور بڑھا دیا جائے، زندگی کی گاڑی تبھی آگے بڑھتی اور انسان ترقی کرپاتا ہے۔
انسانی زندگی کی مختلف جہات ہیں، لیکن اس کی زندگی کا سب سے اہم پہلو وہ ہے جو اسے رب سے جوڑتا اور اس کی روح کو جِلا بخشتا ہے،اس میں خود احتسابی اور معرفت خداوندی کا احساس جگاتا ہے ، آج شاید مسلمانوں کی توجہ اسی جہت پرسب سے کم ہے۔ نتیجہ مسلمانوں کا ہر معاملے میں خواہ وہ انفرادی معاملہ ہو یا اجتماعی مسئلہ ہر جگہ رب سے تعلق انتہائی کمزور اور مجموعی حالت نہایت ناگفتہ بہ ہے، مسلم معاشرے میں اسلام کا صرف نام ہی نظر آتا ہے، عملی اور اطلاقی حیثیت میں دین اپنی روح کے ساتھ جلوہ گر نہیں ہے، دوسری جانب حکم ہے کہ اسلام میں پورے کے پورے داخل ہوجاؤ اور شیطان کی پیروی نہ کرو، جبکہ حقیقت حال یہ ہے کہ اسلام تو محض نام کا ہے اور شیطان کی پیروی میں لوگ آگے ہیں۔ آج مسلمانوں کا طرزِ حیا ت تقریباً اسلام سے کوسوں دور ہے، قرآن جب پورے کے پورے اسلام میں داخل ہونے کی بات کرتا ہے تو وہ دراصل سو فی صدی اسلام کا تقاضا کرتا ہے، یعنی اللہ کے ساتھ ایک مسلمان کا معاملہ فرماں بردارانہ، مطیعانہ، اور مکمل ہونا چاہیے، عقائد میں بھی، فرائض وعبادات میں بھی، طرزِ معاشرت میں بھی، طریقہ زندگی میں بھی، مسلمان کو اپنے ہر عمل کے ذریعے یہ جائزہ لیتے رہنا چاہیے کہ کیا اس کا یہ عمل اس کے تعلق کو مضبوط کررہا ہے یا نہیں!
آج پوری امت بہت ساری مشکلات و مصائب میں گھری ہوئی ہے ،مسلم قوم کا جینا دوبھر ہورہا ہے ،وجہ اس کی کیا صرف یہ ہے کہ دشمنان اسلام نے عرصۂ حیات تنگ کر رکھا ہے ،ہر ہر مرحلۂ حیات پر سازشوں اور دسیسہ کاریوں کے جال بُن دیئے گئے ہیں؟ نہیں ،نہیں! وجہ صرف یہ ہر گز نہیں ہے بلکہ ایک وجہ اور بھی ہے جس کی طرف ہماری غفلت شعار طبیعت متوجہ نہیں ہونے دیتی ،آئیے اس نئے سال کے آغاز پر اسی پہلو کو اجاگر کرکے نئے عہدو پیمان سے نیا سال شروع کرتے ہیں۔
اسلامی تاریخ میں نئے ہجری سال کی تاریخ کے باب پر نظر ڈالئے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ اسلام کا طریقۂ کارنئے سال کے استقبال پرکیا رہا ہے۔ اسلامی ہجری سال کا پہلا مہینہ محرم ہے جس میں روزہ رکھنے کی ہدایت دی گئی ہے، اور مسلمانوںکو یہ حکم ہے کہ سنت نبوی کااتباع کرتے ہوئے نو اور دس یا دس اور گیارہ محرم کا روزہ رکھیں، روزہ جہاں ایک طرف ہمیں برائیوں سے دور کرتا ہے وہیں دوسری طرف ہمیں خود احتسابی کے لئے بھی تحریک دیتا ہے، ہمیں ہماری ذمہ داریوں کی یاد دہانی کراتا ہے ، اسلامی ہجری سال کے استقبال کے اس طریقۂ کار سے نہ صرف یہ کہ ہماری زندگیوں میں متوقع مثبت تبدیلی آتی ہے بلکہ یہ ہماری زندگیوں میں خوشحالی و ترقی کیلئے بھی راہ ہموار کرتاہے۔
آئیے…! اس نئے اسلامی سال کی ابتدا پر یہ عزم کریں کہ اس سال رب سے اپنے تعلق کو مضبوط کریں گے اور اللہ کے اس حکم پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کہ’’ اسلام میں پورے پورے داخل ہوجاؤ!‘‘
مدارس دینیہ برصغیر میں اسلام کی بقا، دینی شعائر اور اسلامی تشخص کو برقرار رکھنے کے لیے دور حاضر میں سب سے کارگراور مفید دینی ادارے ہیں ،اسلام کی جو شکل اس وقت ملک میں ہمارے سامنے ہے وہ در اصل انھیں مدارس اسلامیہ کا فیضان ہے ،اگر یہ دینی مدارس اور اسلام کے مضبوط قلعے نہ ہوتے تو یقیناً زمانے کی مسموم فضاؤں سے متأثر ہوکر یہ گلستانِ سدا بہار بھی خزاں آشنا ہوچکے ہوتے ،دین اور اسلام کی اصلی اور صحیح سچی تصویر ناپید ہوچکی ہوتی، ہندوستانی تاریخ میں ایک ایسا خطرناک دور آیا ہے جب علماء اسلام نے اسلام اور دینی شعائر کے تحفظ کے لیے باقاعدہ غور و فکر کرکے ایک تحریک کی شکل میں مدارس اسلامیہ کے قیام کا فیصلہ فرمایا اور وقت کے اہم تقاضے کو پورا کیااور ماحول و زمانے میں غیر اسلامی افکار و نظریات کو خلل انداز نہ ہونے دیا،نامساعد حالات اور معاشرہ کو اخلاق سوز ماحول سے بچانے کے لیے بزرگان دین اور علمائے اسلام نے مسلم معاشرہ کی ایک معتد بہ تعداد کو مدارس اسلامیہ کے اندر داخل کردیا جس سے ان کا دین و ایمان، اسلامی اخلاق اور صحیح افکار و نظریات زمانے کی خرد برد سے محفوظ رہے،اور ہمارا ملک امن و امان کا گہوارہ بن کر ترقی کرتا رہا۔
قارئین کرام کو یاد ہوگا کہ کچھ سال پہلے حکومت ہند کے خفیہ اطلاعات جمع کرنے والے ادارہ انٹلی جنس بیورو (I.B.)نے ایک رپورٹ پیش کی تھی جس میں ملک بھر میں پھیلے ہوئے مدارس کی تعداد، ان میں پڑھانے والے اساتذہ اور پڑھنے والے طلبہ کی مکمل تعداد تک موجود تھی، رپورٹ میں کہا گیاتھا کہ ملک کی گیارہ ریاستوں میں کل ۲۹۰۷۸ (انتیس ہزار اٹھتر)مدارس ہیں، جن میں ۶۹۹۴۵(انہترہزار نو سو پینتالیس) اساتذہ پڑھاتے ہیں اور ۱۷۱۵۰۲۶(سترہ لاکھ پندرہ ہزار چھبیس) طلبہ پڑھتے ہیں، اس رپورٹ میں اس وقت کی وزارت داخلہ پر یہ زور دیا گیا تھاکہ وہ ان ناجائز مدارس پر دھاوا بول دے۔
۱۹۹۹ء میں بھی اسی طرح کی ایک شرانگیز رپورٹ آئی تھی ، ایک ہندو صحافی راجیوچترویدی نے لکھا تھا کہ اسلامی مدرسوں میں آتنک واد کی تعلیم دی جارہی ہے ،اس رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ملک کے ۵۳۵(پانچ سو پینتیس) اضلاع میں سے ۲۱۰(دوسودس) کے مدارس میں آئی ایس آئی کے افراد بھرپور طریقے سے سرگرم عمل ہیں۔
مندرجہ بالا رپورٹیں اور اسی طرح کی نہ جانے کتنی شرانگیز تحریریں ماضی میں مدارس کے تعلق سے سامنے آتی رہی ہیں اور حکومت ہند نے باقاعدہ ان کا ایکشن لیا اور مدارس پر شکنجہ کسنے کے لیے باضابطہ قانون سازی کی مہم چلائی لیکن بر وقت مسلمانوں کی بیداری اور احتجاج سے اس طرح کی شر انگیز اور نفرت آمیز رپورٹوں کا کذب سامنے آیاکیونکہ ان رپورٹوں میں مدارس اسلامیہ دینیہ پرلگائے گئے بے جا الزامات کا حقیقت سے دور دور کا تک بھی واسطہ نہیں تھا اور ہندوستانی ہی نہیں بلکہ عالمی تاریخ اس پر گواہ ہے کہ امن وامان کی بحالی اور ملک و ملت کی تعمیر میں ان مدارس اسلامیہ کا جوکردار رہا ہے اس کی مثال تاریخ عالم میں نہیں مل سکتی۔
مدارس اسلامیہ کے سلسلے میں حکومت ہند اور ارباب حکومت کی دشمنی کی ایک طویل کہانی ہے اور ماضی میں عملی طور پر حکومت کی طرف سے اس کا اظہار بھی متعدد بار متعدد مقامات پر ہوچکا ہے۔
برصغیر کے یہ مدارس عوام کے لگائے ہوئے وہ پودے ہیں جو اہل عزیمت کی قربانیوں اور عوام کا تعاون پاکر تناور درخت بنے ہیں،یہ مدارس اسلامیہ ملک وملت کے لئے اللہ رب العزت کی طرف سے ایک عظیم نعمت ہیں ان کی قدر ملک وملت کا اخلاقی فریضہ ہے ،دنیا کے موجودہ حالات کے پس منظر میں ان مدارس کا وجود امت اسلامیہ کے لئے خاص فضل الٰہی ہے ،اس کی قدردانی یہی ہے کہ تمام اہل وطن ان سے زیادہ سے زیادہ قرب پیدا کریں ۔
نئے اسلامی سال کے آغاز پر ہماری ترجیحات کا ایک حصہ یہ بھی ہبنا چاہئے کہ اسلامی تعلیم کے حصول کے لئے خود بھی اقدام کریں اور خصوصی توجہ کے ساتھ اپنے بچوں کو ان مدارس کی طرف راغب کریں اگر ایسا نہیں ہوتا ہے تو یہ اس عظیم نعمت کی ناقدری ہوگی اور اسلام دشمنی کے اس ماحول میں اسلامی تعلیمات اور اسلامی تشخصات کو اپنے ہاتھوں مٹانے کے مترادف ہوگا۔
اللہ تعالی تمام مسلمانوں کو ایسے نازک وقت میں حالات کا صحیح ادراک کرنے کی توفیق عطا فرمائے ، اور امروز کی شورش میں اندیشۂ فردا کا احساس عنایت فرمادے۔(آمین)
ہر نیا سال دنیا کی تمام قوموں کے لئے نئے عہد و پیمان اور نئی امنگوں اور حوصلوں کا سال ہوتا ہے، ہر سال کی شروعات میں کچھ نئے عزائم کئے جاتے ہیں اور از سر نو زندگی کو بہتر سے بہتر بنانے کی فکر کی جاتی ہے ، آئیے !ہم دیکھتے ہیں کہ بحیثیت ایک مسلم قوم کے اس نئے سال پر ہماری ترجیحات اور عزائم کیا ہونے چاہئیں،کسی بھی مذہب سے تعلق رکھنے والا پڑھا لکھا اور سلجھا ہوا آدمی اپنے گزرے سال کا احتساب اور اگلے سال کی منصوبہ بندی ضرور کرتا ہے، تبھی یہ ممکن ہوتا ہے کہ گزرے ایام میں جو غلطیاں اور کوتاہیاں ہوئیں، ان سے آئندہ بچا جاسکے،نیز گزشتہ سال جن اہداف کو حاصل نہ کیا جاسکا، آئندہ سال ان اہداف کے حصول کی کوشش اور جدوجہد کو اور بڑھا دیا جائے، زندگی کی گاڑی تبھی آگے بڑھتی اور انسان ترقی کرپاتا ہے۔
انسانی زندگی کی مختلف جہات ہیں، لیکن اس کی زندگی کا سب سے اہم پہلو وہ ہے جو اسے رب سے جوڑتا اور اس کی روح کو جِلا بخشتا ہے،اس میں خود احتسابی اور معرفت خداوندی کا احساس جگاتا ہے ، آج شاید مسلمانوں کی توجہ اسی جہت پرسب سے کم ہے۔ نتیجہ مسلمانوں کا ہر معاملے میں خواہ وہ انفرادی معاملہ ہو یا اجتماعی مسئلہ ہر جگہ رب سے تعلق انتہائی کمزور اور مجموعی حالت نہایت ناگفتہ بہ ہے، مسلم معاشرے میں اسلام کا صرف نام ہی نظر آتا ہے، عملی اور اطلاقی حیثیت میں دین اپنی روح کے ساتھ جلوہ گر نہیں ہے، دوسری جانب حکم ہے کہ اسلام میں پورے کے پورے داخل ہوجاؤ اور شیطان کی پیروی نہ کرو، جبکہ حقیقت حال یہ ہے کہ اسلام تو محض نام کا ہے اور شیطان کی پیروی میں لوگ آگے ہیں۔ آج مسلمانوں کا طرزِ حیا ت تقریباً اسلام سے کوسوں دور ہے، قرآن جب پورے کے پورے اسلام میں داخل ہونے کی بات کرتا ہے تو وہ دراصل سو فی صدی اسلام کا تقاضا کرتا ہے، یعنی اللہ کے ساتھ ایک مسلمان کا معاملہ فرماں بردارانہ، مطیعانہ، اور مکمل ہونا چاہیے، عقائد میں بھی، فرائض وعبادات میں بھی، طرزِ معاشرت میں بھی، طریقہ زندگی میں بھی، مسلمان کو اپنے ہر عمل کے ذریعے یہ جائزہ لیتے رہنا چاہیے کہ کیا اس کا یہ عمل اس کے تعلق کو مضبوط کررہا ہے یا نہیں!
آج پوری امت بہت ساری مشکلات و مصائب میں گھری ہوئی ہے ،مسلم قوم کا جینا دوبھر ہورہا ہے ،وجہ اس کی کیا صرف یہ ہے کہ دشمنان اسلام نے عرصۂ حیات تنگ کر رکھا ہے ،ہر ہر مرحلۂ حیات پر سازشوں اور دسیسہ کاریوں کے جال بُن دیئے گئے ہیں؟ نہیں ،نہیں! وجہ صرف یہ ہر گز نہیں ہے بلکہ ایک وجہ اور بھی ہے جس کی طرف ہماری غفلت شعار طبیعت متوجہ نہیں ہونے دیتی ،آئیے اس نئے سال کے آغاز پر اسی پہلو کو اجاگر کرکے نئے عہدو پیمان سے نیا سال شروع کرتے ہیں۔
اسلامی تاریخ میں نئے ہجری سال کی تاریخ کے باب پر نظر ڈالئے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ اسلام کا طریقۂ کارنئے سال کے استقبال پرکیا رہا ہے۔ اسلامی ہجری سال کا پہلا مہینہ محرم ہے جس میں روزہ رکھنے کی ہدایت دی گئی ہے، اور مسلمانوںکو یہ حکم ہے کہ سنت نبوی کااتباع کرتے ہوئے نو اور دس یا دس اور گیارہ محرم کا روزہ رکھیں، روزہ جہاں ایک طرف ہمیں برائیوں سے دور کرتا ہے وہیں دوسری طرف ہمیں خود احتسابی کے لئے بھی تحریک دیتا ہے، ہمیں ہماری ذمہ داریوں کی یاد دہانی کراتا ہے ، اسلامی ہجری سال کے استقبال کے اس طریقۂ کار سے نہ صرف یہ کہ ہماری زندگیوں میں متوقع مثبت تبدیلی آتی ہے بلکہ یہ ہماری زندگیوں میں خوشحالی و ترقی کیلئے بھی راہ ہموار کرتاہے۔
آئیے…! اس نئے اسلامی سال کی ابتدا پر یہ عزم کریں کہ اس سال رب سے اپنے تعلق کو مضبوط کریں گے اور اللہ کے اس حکم پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کہ’’ اسلام میں پورے پورے داخل ہوجاؤ!‘‘
مدارس دینیہ برصغیر میں اسلام کی بقا، دینی شعائر اور اسلامی تشخص کو برقرار رکھنے کے لیے دور حاضر میں سب سے کارگراور مفید دینی ادارے ہیں ،اسلام کی جو شکل اس وقت ملک میں ہمارے سامنے ہے وہ در اصل انھیں مدارس اسلامیہ کا فیضان ہے ،اگر یہ دینی مدارس اور اسلام کے مضبوط قلعے نہ ہوتے تو یقیناً زمانے کی مسموم فضاؤں سے متأثر ہوکر یہ گلستانِ سدا بہار بھی خزاں آشنا ہوچکے ہوتے ،دین اور اسلام کی اصلی اور صحیح سچی تصویر ناپید ہوچکی ہوتی، ہندوستانی تاریخ میں ایک ایسا خطرناک دور آیا ہے جب علماء اسلام نے اسلام اور دینی شعائر کے تحفظ کے لیے باقاعدہ غور و فکر کرکے ایک تحریک کی شکل میں مدارس اسلامیہ کے قیام کا فیصلہ فرمایا اور وقت کے اہم تقاضے کو پورا کیااور ماحول و زمانے میں غیر اسلامی افکار و نظریات کو خلل انداز نہ ہونے دیا،نامساعد حالات اور معاشرہ کو اخلاق سوز ماحول سے بچانے کے لیے بزرگان دین اور علمائے اسلام نے مسلم معاشرہ کی ایک معتد بہ تعداد کو مدارس اسلامیہ کے اندر داخل کردیا جس سے ان کا دین و ایمان، اسلامی اخلاق اور صحیح افکار و نظریات زمانے کی خرد برد سے محفوظ رہے،اور ہمارا ملک امن و امان کا گہوارہ بن کر ترقی کرتا رہا۔
قارئین کرام کو یاد ہوگا کہ کچھ سال پہلے حکومت ہند کے خفیہ اطلاعات جمع کرنے والے ادارہ انٹلی جنس بیورو (I.B.)نے ایک رپورٹ پیش کی تھی جس میں ملک بھر میں پھیلے ہوئے مدارس کی تعداد، ان میں پڑھانے والے اساتذہ اور پڑھنے والے طلبہ کی مکمل تعداد تک موجود تھی، رپورٹ میں کہا گیاتھا کہ ملک کی گیارہ ریاستوں میں کل ۲۹۰۷۸ (انتیس ہزار اٹھتر)مدارس ہیں، جن میں ۶۹۹۴۵(انہترہزار نو سو پینتالیس) اساتذہ پڑھاتے ہیں اور ۱۷۱۵۰۲۶(سترہ لاکھ پندرہ ہزار چھبیس) طلبہ پڑھتے ہیں، اس رپورٹ میں اس وقت کی وزارت داخلہ پر یہ زور دیا گیا تھاکہ وہ ان ناجائز مدارس پر دھاوا بول دے۔
۱۹۹۹ء میں بھی اسی طرح کی ایک شرانگیز رپورٹ آئی تھی ، ایک ہندو صحافی راجیوچترویدی نے لکھا تھا کہ اسلامی مدرسوں میں آتنک واد کی تعلیم دی جارہی ہے ،اس رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ملک کے ۵۳۵(پانچ سو پینتیس) اضلاع میں سے ۲۱۰(دوسودس) کے مدارس میں آئی ایس آئی کے افراد بھرپور طریقے سے سرگرم عمل ہیں۔
مندرجہ بالا رپورٹیں اور اسی طرح کی نہ جانے کتنی شرانگیز تحریریں ماضی میں مدارس کے تعلق سے سامنے آتی رہی ہیں اور حکومت ہند نے باقاعدہ ان کا ایکشن لیا اور مدارس پر شکنجہ کسنے کے لیے باضابطہ قانون سازی کی مہم چلائی لیکن بر وقت مسلمانوں کی بیداری اور احتجاج سے اس طرح کی شر انگیز اور نفرت آمیز رپورٹوں کا کذب سامنے آیاکیونکہ ان رپورٹوں میں مدارس اسلامیہ دینیہ پرلگائے گئے بے جا الزامات کا حقیقت سے دور دور کا تک بھی واسطہ نہیں تھا اور ہندوستانی ہی نہیں بلکہ عالمی تاریخ اس پر گواہ ہے کہ امن وامان کی بحالی اور ملک و ملت کی تعمیر میں ان مدارس اسلامیہ کا جوکردار رہا ہے اس کی مثال تاریخ عالم میں نہیں مل سکتی۔
مدارس اسلامیہ کے سلسلے میں حکومت ہند اور ارباب حکومت کی دشمنی کی ایک طویل کہانی ہے اور ماضی میں عملی طور پر حکومت کی طرف سے اس کا اظہار بھی متعدد بار متعدد مقامات پر ہوچکا ہے۔
برصغیر کے یہ مدارس عوام کے لگائے ہوئے وہ پودے ہیں جو اہل عزیمت کی قربانیوں اور عوام کا تعاون پاکر تناور درخت بنے ہیں،یہ مدارس اسلامیہ ملک وملت کے لئے اللہ رب العزت کی طرف سے ایک عظیم نعمت ہیں ان کی قدر ملک وملت کا اخلاقی فریضہ ہے ،دنیا کے موجودہ حالات کے پس منظر میں ان مدارس کا وجود امت اسلامیہ کے لئے خاص فضل الٰہی ہے ،اس کی قدردانی یہی ہے کہ تمام اہل وطن ان سے زیادہ سے زیادہ قرب پیدا کریں ۔
نئے اسلامی سال کے آغاز پر ہماری ترجیحات کا ایک حصہ یہ بھی ہبنا چاہئے کہ اسلامی تعلیم کے حصول کے لئے خود بھی اقدام کریں اور خصوصی توجہ کے ساتھ اپنے بچوں کو ان مدارس کی طرف راغب کریں اگر ایسا نہیں ہوتا ہے تو یہ اس عظیم نعمت کی ناقدری ہوگی اور اسلام دشمنی کے اس ماحول میں اسلامی تعلیمات اور اسلامی تشخصات کو اپنے ہاتھوں مٹانے کے مترادف ہوگا۔
اللہ تعالی تمام مسلمانوں کو ایسے نازک وقت میں حالات کا صحیح ادراک کرنے کی توفیق عطا فرمائے ، اور امروز کی شورش میں اندیشۂ فردا کا احساس عنایت فرمادے۔(آمین)





