ماہنامہ الفاران

ماہِ محرم الحرام - ۱۴۴۷

اردو زبان! ہم بھارتیوں کی زبان، ہماری ثقافتی میراث

محترم جناب مفتی عبد الاحد صاحب قاسمی، ناظم تعلیمات: جامعہ مدنیہ،سبل پور،پٹنہ

وہ عطر دان سا لہجہ مِرے بزرگوں کا
رچی بسی ہوئی اردو زبان کی خوشبو
ملک بھارت کے باشندوں کو بے وقوف بنایا گیا، اردو کو مسلمانوں کی زبان اور ہندی کو ہندؤوں کی زبان قرار دے کر آپس میں تفریق کو ہوا دی گئی، اور جب اردو زبان کو پاکستان نے اپنی سرکاری زبان قرار دیا تو انتشار پسندوں کو مزید حوصلہ ملا، اور بھارت کی زرخیز مٹی سے نمودار ہونے والی، رنگ برنگی تہذیبوں اور ثقافتوں سے عطر کشید کرنے والی، مختلف ادیان و مذاہب اور اقوام و ملل کی آپسی محبت، یگانگت اوراتحاد و ہم آہنگی کا مظہر ، کبھی ریختہ، کبھی لشکری اور کبھی اردو کہلانے والی زبان نفرتوں اور رقابتوں کا شکار ہوگئی۔ ملاؔ، بنا دیا ہے اسے بھی محاذ جنگ
اک صلح کا پیام تھی اردو زباں کبھی
پوری دنیا میں بھارت کو یہ طغرہ امتیاز حاصل ہے کہ یہاں سب سے زیادہ زبانیں بولی جاتی ہیں، ڈھیر ساری زبانیں، ہر زبان کے کئی لہجے اور سب کا رسم الخط الگ الگ ، مختلف رنگ اور مختلف نسل کے لوگ، مختلف تہذیبوں اور مختلف ادیان کے ماننے والے ، افکار اور فلسفوں کی ایک وسیع دنیا اپنے اندر سمونے والی اس ملک کی مٹی نے ہی اردو زبان کو جنم دیا ہے، اس کو پروان چڑھایا ہے، یہ بھارت کی اپنی زبان ہے، اسے کوئی بدیسی اور پردیسی لیکر اس دھرتی پر نہیں آیا، ہمیں فخر کے ساتھ کہنا چاہیے کہ یہ ہماری اپنی زبان ہے، اسی کے دوش پر بیٹھ کر ہم نے کہا تھا: ”سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا“، اسی کے راستے ہم نے دشمن کو للکارتے ہوئے کہا تھا : ”دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے“، اسی نے ہمیں ”انقلاب زندہ باد“ کا لافانی نعرہ دیا، اسی نے ”اقبال“ دیا ، اسی نے ”غالب“ دیا، اسی نے ”آزاد“ دیا، اسی نے ٘”فراق“، ”ولی رام ولی“، ”دیوانہ“، ”پروانہ“ اور ”راقم“ دیا، عشق و محبت سے لبریز جذبات کی فراوانی ہو، یا کسی کے حسن و جمالِ جہاں آرا کی خیرہ چشمی، درد و الم اور کرب و غم کے آنسو ہوں یا ہجر و فراق اور بے وفا کا جفا ہو،ادیب اورشاعر، عاشقِ زار اور ٹوٹے ہوئے دل اسی زبان کا سہارا لیتے ہیں، اس کا رنگ اور آہنگ اپنے پناہ گزینوں کے جذبات کو الفاظ کا جامہ پہنانے میں بھرپور ساتھ دیتا ہے، اسی زبان نے فلمی دنیا کو لازوال گانے دیے، ”داغ دہلوی“ اسی لیے فخریہ کہا کرتے تھے: ”اردو“ ہے جس کا نام ہمی جانتے ہیں داغ سارے جہاں میں دھوم ”ہماری زباں“ کی ہے
اور جناب منیش شکلا صاحب نے اچھی ترجمانی کی: بات کرنے کا حسیں طور طریقہ سیکھا ۔ہم نے اردو کے بہانے سے سلیقہ سیکھا اور کیا خوب کہا احمد وصی صاحب نے: وہ کرے بات تو ہر لفظ سے خوشبو آئے ،ایسی بولی وہی بولے جسے اردو آئے یہ بھارت کی زبان ہے، بھارت کے باشندوں کی زبان ہے، کسی دھرم اور مذہب کی زبان نہیں ہے، سید رفیق مارہروی لکھتے ہیں : ”ہندوستان کی عام فہم زبان صرف ایک ہے جو دو رسم الخط میں لکھی جاتی ہے، ناگری حروف کا جامہ پہن کر وہ ہندی کہلاتی ہے اور فارسی حروف میں جب رقم ہوتی ہےتو اسے اردو کہتے ہیں۔ گاندھی جی نے اسی زبان کو ہندوستانی کہا تھا، یہ ہندو اور مسلمانوں کی صدہا سال کی یکجائی و یکجہتی کا نعم البدل ہے“۔
آگے لکھتے ہیں: بہادر سپرو کا قول تھا کہ ”اردو زبان ہندو اور مسلمانوں کا ناقابل تسلیم ترکہ ہے“۔ مولوی عبدالحق صاحب کا فرمانا ہے کہ ”اردو کی تنظیم و ترتیب میں اگر ہندوؤں کی شرکت نہ ہوتی تو یہ وجود میں ہی نہیں آسکتی تھی“۔ (ہندوؤں میں اردو:ص۳۔۵۔ سید رفیق مارہروی)
یہ کسی قوم کی خوش ذوقی اور سلیقہ مندی کی علامت ہے کہ اس نے اس زبان کو بھرپور طریقے سے برتا، اس کو اپنی بول چال اور افہام و تفہیم کا ، اپنے ادب اور لٹریچر اور اپنی تصنیف و تالیف اور صحافت و ابلاغ کا ذریعہ بنالیا، اس کو ٹوٹ کر چاہا، اس سے جی بھر کر پیار کیا، گویا اس نے اس کو زندہ رکھا ، اس کو جوان رکھا، اس کی آبیاری کرتی رہی، وہ قوم تو اس ملک کی اور ملک کی اس زبان کی محسن ہے، کیا کل کوئی قوم انگلش یا کسی خاص زبان کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنالے تو ہم اس کو اسی قوم سے جوڑ دیں گے؟ اس کو انگریز قرار دے دیں گے؟ اس کے سرچشمہ سے اس کو کاٹ دیں گے؟ نہیں ، ہرگز نہیں۔ اسی طرح اگر کسی دشمن دیش میں ہندی زبان رائج ہوجائے تو کیا ہندی غیرملکی اور قابل نفرت زبان بن جائے گی؟ نہیں ، ہرگز نہیں۔ آج پورے دیش پر ان مدرسوں کا احسان ہے جس نے کسی درجے میں اردو زبان کے محاذ کو سنبھال رکھا ہے، اگر یہ مدرسے نہ ہوتے تو یقینی طور پر اردو زبان ہندوستان سے نابود ہوچکی ہوتی، یقینا اس خالص بھارتی زبان کی حفاظت میں مدارس اسلامیہ کا بہت بڑا رول ہے۔
ابھی تہذیب کا نوحہ نہ لکھنا ،ابھی کچھ لوگ اردو بولتے ہیں لیکن افسوس کی بات ہے کہ حکومت کو اس زبان کی حفاظت میں جو کردار ادا کرنا چاہیے تھا وہ اسے بالکل پیش نہ کرسکی، اور اس لاپرواہی میں بھارتی عوام برابر کی شریک ہے، ایک صاحب نے برجستہ مجھ سے کہا کہ علماء کو اپنی زبان بدلنی چاہیے، وہ خالص اردو میں گفتگو کرتے ہیں جو عوام کی سمجھ سے باہر ہوتی ہے، میں نے کہا: آپ کی بات ایک حد تک صحیح ہے کہ علماء کو عوامی زبان میں بات کرنی چاہیے، لیکن پھر اردو زبان کا کیا ہوگا؟ عوام کو بھی چاہیے کہ وہ اردو زبان سیکھیں تاکہ علماء کی بات کو سمجھ سکیں ، لیکن یہاں مسئلہ اس سے بھی زیادہ اہم ہے اور وہ اردو زبان کے تحفظ کا مسئلہ ہے، آپ کو علماء کی زبان سمجھنی ہو یا نہ سمجھنی ہو، پھر بھی تحفظِ اردو کی خاطر آپ کو یہ خالص بھارتی زبان سیکھنی چاہیے۔ یہ سراسر مغالطہ ہے کہ اردو زبان مسلمانوں کی، یا پاکستان کی، یا علماء مدارس کی زبان ہے، اس مغالطے سے باہر آنا اور باہر لانا وقت کی ضرورت ہے۔
دوسری طرف ہم ان کو دیکھتے ہیں جو اردو زبان کی روٹی کھاتے ہیں، اردو ہی ان کا روزگار ہے، لیکن جب ان سے ملیے ، ان سے بات کیجیے، ان کے ماحول کا جائزہ لیجیے تو ان کی عادات سے، اطوار سے ، کردار سے، گفتار سے انگلش ہی ٹپکتی ہے، اور اگر یہ غلطی سے اردو بولنے لگ جائیں تو تلفظ کی ایسی غلطیاں کرتے ہیں کہ دل کرتا کہ یہ اردونہ ہی بولیں تو اچھا، در اصل یہ وہ لوگ ہیں جو شعور، احساس اور سنجیدگی کے ساتھ اردو زبان سے منسلک نہیں ہوئے، بلکہ فکر معاش اور ڈگریوں کے وزن نے ان کو اس راستے پر لا کھڑا کیا، یہ خود احساس کمتری میں مبتلا ہیں، انگلش سے مرعوب ہیں ، اس اجنبی زبان (انگریزی) کو علم و ثقافت کی برتری کا معیار سمجھتے ہیں، ان پر افسوس بھی آتا ہے اور رحم بھی، بھلا زبان کا جاننا اور وہ بھی اجنبی زبان ، یہ کوئی معیار ہے؟ ایک اجنبی زبان کو فخر سے اور بے وجہ استعمال کررہے اور اپنی مادری زبان سے یکسر بے نیازی برت رہے ہیں ، یہ فکری افلاس کے کس پائدان پر پہنچ چکے ہیں؟!
بس یہی کہا جائے گا: سب مرے چاہنے والے ہیں، مرا کوئی نہیں، میں بھی اس ملک میں اردو کی طرح رہتا ہوں
سب کو ہوش کے ناخن لینا چاہیے، مغالطے سے باہر آنا چاہیے، اپنی زبان، اپنی پہچان اور اپنی میراث کے تئیں باحمیت اور غیرت مند ہونا چاہیے، ہمیں اردو بولنے ، لکھنے اور برتنے میں شرم نہیں آنی چاہیے، بلکہ ان لوگوں پر شرم آنی چاہیے جو اردو زبان کے سلسلے میں احساس کمتری کے شکار ہیں اور غیروں کی زبان کو فخریہ استعمال کرتے ہیں۔
تو آئیے، آج سے ہم عہد کریں کہ ہم اردو بولیں گے، اردو پڑھیں گے، اردو لکھیں گے، اردو اخبارات و رسائل اور کتابیں خریدیں گے، اردو کتابوں کا تحفہ دیں گے، اردو کی ترقی و ترویج کے لیے جو لوگ میدان میں ڈٹے ہوئے ہیں یعنی اردو کے سپاہی اور اردو کے مجاہدین کا ساتھ دیں گے اور ان کی پشت بناہی کریں گے۔ ان شاء اللہ۔

دیگر تصانیف

امیدوں کا چراغ

مٹی کا چراغ

کہاں گئے وہ لوگ

تذکیر و تانیث

مجلس ادارت

team

سرپرست

حضرت الحاج مولانا کبیر الدین فاران صاحب مظاہری

team

مدیر مسئول

مولانا ارشد کبیر خاقان صاحب مظاہری

team

مدیر

مفتی خالد انور پورنوی صاحب قاسمی