ماہنامہ الفاران
ماہِ محرم الحرام - ۱۴۴۷
اوقاف کی شرعی حیثیت اورمتنازع ترمیمی بل کے نقصانات
جناب حضرت مولانا ابو سعد صاحب ندوی،استاذ: مدرسہ نورالمعارف، مولانا علی میاں نگر، دیا گنج، ضلع ارریہ
اسلام دنیا کا وہ واحد مذہب ہے جس نے زندگی کے تمام مراحل میں بنی نو ع انسان کی رہنمائی کی ہے، زندگی گزارنے کے سنہرے اصول اور پاکیزہ تعلیمات دی ہے، سماج اور معاشرے میں بسنے والے تمام طبقات کو یکساں حیثیت اور عزت و شرافت سے جینے کا حق فراہم کیا ہے۔
خاص طور سے ان افراد کو جو مالی اعتبار سے کمزور ہیں، ذرائع آمدنی کا کوئی راستہ نہیں ، اکتساب مال کے اہل ہی نہیں ، ان کے لیے اظہار ہمدردی اور معاشرتی انصاف کے لیے مختلف اقدامات پر زور دیا ہے ،تاکہ کوئی بے بسی، کسمپرسی اور گھٹ گھٹ کر زندگی گزارنے پر مجبور نہ ہوں اسلام نے رؤساءو اغنیاء پر زکوۃ و صدقات فرض کیے، انسان سے کوئی کمی ہو جائے تو اس کی تلافی کے لیے مالی کفارہ ، کسی کو لباس کی ضرورت ہو تو کپڑا مہیا کرنا ،علاج و معالجہ کے لیے مطلوبہ رقم نہ ہو تو امداد و تعاون کرنا ،کسی بھوکے کو کھانا کھلا دینا، اتنا ہی نہیں بلکہ فرمایا کہ بیوہ اور یتیم کے لیے کمانے والا مجاہد فی سبیل اللہ کی طرح ہے یہ صدقات کی مختلف شکلیں ہیں ۔
ایک دوسری صورت یہ ہے کہ ایسا کار خیر کیا جائے جس کا فائدہ دیر پااور صدقہ کرنے والے کو طویل مدت تک پہنچتا رہے ایسے صدقہ کی حدیث میں ترغیب دی گئی ہے اللہ کے نبی نے فرمایا کہ جب انسان انتقال کر جاتا ہے تو عمل کا سارا رشتہ ٹوٹ جاتا ہے سوائے تین صورتوں کے جن میں سے ایک صدقۂ جاریہ ہے مثلا کسی نے کنواں کھدوایا، مسجد یا دینی اداروں کی تعمیر میں حصہ لیا، دینی کتابیں شائع کی، مسافر خانےیا ہاسپٹل بنوائے ،مساجد میں مصحف رکھوائے، مجاہدین کے لیے اسلحہ اور سواری کا انتظام کیا ایسے صدقۂ کی نوعیت کو صدقۂ جاریہ کہتے ہیں۔
اسی کی ایک شکل وقف ہے ،وقف کے معنی کسی شیء کو روک لینا اور اس کا نفع وقف کرنے والے کے منشا کے مطابق سب کے لیے یا کسی خاص فرد کے لیے مقرر کر دینا ،وقف اور صدقہ میں بنیادی فرق یہ ہے کہ صدقہ میں مستحق کو براہ راست اصل مال کی ملکیت سونپ دی جاتی ہے اور تصرف کا حق دیا جاتا ہے ،مگر اوقاف میں اصل مال کو باقی رکھا جاتا ہے اور منفعت میں عامۃ المسلمین یا خاص افراد و قبائل کو شریک کیا جاتا ہے۔
یہ بات واضح رہے کہ اس صورت میں نہ وقف کرنے والے کی ملکیت باقی رہتی ہے نہ مستحقین اس کی بیع و شراء کر سکتے ہیں نہ ہدیۃ اور عاریۃکسی کو دے سکتے ہیں نہ ہی اس کو منتقل کیا جا سکتا ہے، بلکہ وقف کی ہوئی شے کے بارے میں اسلامی تصور یہ ہے کہ وہ اللہ کی ملکیت ہو جاتی ہے جس سے اصل شے میں کسی طرح کے تصرفات کا امکان باقی نہیں رہتا۔ اسلام میں وقف کا ثبوت دور نبوی ہی سے ملتا ہے جب آپ ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے تو حضرت سہل اور سہیل رضی اللہ عنہما کا باغ خرید کر مسجد نبوی کی تعمیر کی، اس سے متصل دینی تعلیم کے لیے ایک چبوترا (جس کو عربی میں صفہ کہتے ہیں )بنایا یہ دونوں آپ کی وقف کی ہوئی جائیداد میں قائم ہوئے، حضرت عثمان نے بئر رومہ خریدا اور مسلمانوں کے لیے وقف کر دیا، حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے اپنا باغ وقف کیا حضرت ابو طلحہ انصاری کا باغ وقف کرنا بہت مشہور ہے ،اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا آپ جہاں چاہیں صرف کریں، حضرت عمر نے اپنے دور خلافت میں خیبر کی زمین کو عوامی ضروریات کے لیے وقف کیا ،بعض صحابہ کرام نے جہاد کے لیے عمدہ گھوڑے اور اسلحہ خرید کر وقف کیے حتی کہ وقف کی اہمیت اور فضیلت کو لوگوں نے جب سمجھا تو درختوں تک کو وقف کیا جب یہ دائرہ وسیع تر ہوتا گیا ہندوستان میں بھی مسلمانوں نے اپنی بڑی بڑی اور قیمتی جائیدادیں وقف کیں اور آج بھی وقف کا سلسلہ جاری ہے۔
اوقاف سے اسلام کے مالیاتی نظام میں بے پناہ استحکام آیا، جس سے اسلامی تاریخ کے ہر دور میں غریبوں اور مسکینوں کی ضروریات پوری پوری ہوئی، انہیں معاشی طور پر خود کفیل بنانے علوم و فنون سے آراستہ کرنے میں مددملی ،مریضوں پریشان حالوں کی حاجت روائی کی گئی اور اصحاب علم و فضل کی کفالت میں بھی اسلامی وقف کا بہت اہم رول ہے۔
لیکن بڑے تأسف اور حیرت کی بات ہے کہ ہندوستان میں وقف پراپرٹیز کے ساتھ جو ظالمانہ سلوک اور مجرمانہ رویہ اپنایا گیا ہے امت مسلمہ آج اسی کا خمیازہ بھگت رہی ہے ،تقریبا مسلمانوں کے پچاس فیصد اوقاف وہ ہیں جن پر حکومت اور برادران وطن کا قبضہ ہے، کہیں پر وقف پراپرٹیز کو بیچ دیا گیا ہے ،تو کہیں خود اس کی دیکھ بھال کرنے والے اس پر حاوی ہیں اور ناجائز فائدہ اٹھا رہے ہیں اور اب تو حکومت ان اوقا ف پر دخل اندازی کرنے کے لئے نت نئے منصوبے تیار کر رہی ہے،ایسے وقت میں جب کہ اوقاف کے وجود کو خطرہ لاحق ہے، مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ بروقت اس کی حفاظت کے لیے ٹھوس اقدام کیے جائیں اور قانونی دائرے میں رہ کر حفاظتی تدابیر اختیار کیے جائیں ،حالیہ حکومت کی طرف سے پیش کردہ وقف ترمیمی بل کو لوک سبھا اور راجیہ سبھاسے منظوری مل چکی ہے، اس کی سنگینی اور خطرات کو سمجھ کر اس کا سد باب کیا جائے۔۔
یہاں پر ہم چند حکومتی ترمیمات اور اس کے مشمولات کو بالاختصار سپرد قرطاس کرتے ہیں قارئین خود فیصلہ کریں گے کہ موجودہ ترمیمات اوقاف کے وجود کے لیے کتنا خطرناک ثابت ہو سکتی ہے
یہ بات آپ کے گوش گزار کرنا ضروری ہے کہ 1995 وقف ایکٹ اور اس کی 2013 کی ترمیمات نے ان جائیدادوں کو چلانے کے لیے قانونی ڈھانچہ تشکیل دیا تھا، اور ریاستی وقف بورڈ وجود میں لائے گئے تھے جس سے اوقاف کی نگرانی ہو رہی ہے ،مگر مرکزی حکومت کا کہنا ہے کہ وسیع پیمانے پراب بھی اوقاف میں بدانتظامی اور قانونی تنازعات موجود ہیں جس کےباعث وقف ایکٹ میں ترمیم کرنے کی ضرورت ہے۔ (١) نئی ترمیم سے سب سے بڑی تبدیلی یہ ہوگی کہ اب ہر کوئی جائیداد عطیہ نہیں کر سکے گا جائیداد عطیہ کرنے کی اہلیت کے لیے کم از کم پانچ سال تک اسلام کا پیروکار ہونا ضروری ہے ۔
(٢) ترمیم شدہ قانون میں ضلع کلیکٹر کو جائیدادوں کا سروے کرنے کی اجازت دی گئی ہے اگر وقف کا دعوی سرکاری اراضی سے ہے تو کلیکٹر سے اوپر کا ایک افسر دعوے کی تحقیقات کر کے حکومت کو رپورٹ پیش کرے گا۔
(٣)ترمیم شدہ بل کے سب سے متنازع پہلو یہ ہے کہ وقت بورڈ میں غیر مسلم ممبران کو شامل کرنے کی شرط ہے کہ بورڈ میں 13 غیر مسلم ارکان شامل ہو سکتے ہیں کم از کم دو غیر مسلم ارکان کا ہونا ضروری ہے جن کو ریاستی وقف بورڈ نہیں بلکہ ریاستی حکومت نامزد کرے گی۔ (٤) ایک شق یہ بھی ہے خاندانی وقف بنانے سے پہلے وقف کرنے والے شخص کو یقینی بنانا ہوگا کہ تمام ورثہ بالخصوص خواتین کو حصہ مل گیا ہے۔ (٥) اس کے علاوہ تمام متولی (وقف جائیداد کے منتظمین) چھ ماہ کے اندر مرکزی حکومت کے پورٹل پر جائیداد کی تفصیلات درج کریں۔ (٦)وقف ادارے جن کی سالانہ آمدنی ایک لاکھ سے زیادہ ہے ریاست کے مقرر کردہ اڈیٹرز سے لازمی طور پر آڈٹ کرنا ہوگا (٧)نیا قانون کہتا ہے کہ وقف بائی یوزر کو مستقبل میں ختم کر دیا جائے گا ،بائی یوزر کامطلب یہ ہے کہ اگر لمبے عرصے سے کوئی جائیداد مسجد ،درگاہ اور قبرستان کے طور پر استعمال میں ہے تو وقف تسلیم کیا جائے گا، لیکن ایک متضاد شوشہ یہ پیدا کیا گیا ہے کہ 2025 سے قبل کسی وقت بائی یوزر میں تنازع پیدا ہو جائے تو وقف نہیں مانا جائے گا بلکہ کاغذات دکھانے ہوں گے، جبکہ بہت سی پرانی جائیداد ایسی ہیں جن کے کاغذات موجود نہیں ہیں ان سب کے لیےشدید خطرہ ہے اور یہ ماضی کے اوقاف کو ہڑپنے کی ایک کوشش ہے، جبکہ فرقہ پرست عناصر آئے دن بلا دلیل مساجد پرہندو مذہبی مقام ہونے کا دعوی کر تے ہیں، ہندو پریشد نے ساڑھے تین ہزار مساجد پر دعویداری کی فہرست بنا رکھی ہے۔
(٨) ترمیم شدہ قانون میں limitation actکااطلاق ہوگا یعنی اگر بارہ سال یا اس سے زیادہ کسی کا اوقاف کی زمین قبضہ رہاتو اس کی ملکیت تسلیم کر لی جائے گی ،یعنی وقف جائیداد سے ناجائز قبضے کو ہٹانے کی راہ کو ختم کر دی گئی ہے۔
(٩) اگر کسی زمانے میں کسی غیر مسلم نے زمین وقف کی تھی وہ اب تک مسجد یا قبر ستان یا مسافر خانے میں زیر استعمال ہے تو وقف کے دائرے سے باہر ہو جائیں گے۔ قابل غو ر بات ہے اسلامی اوقاف سے بائی یوزر کو ختم کر دیا جائے گا لیکن ہندوؤں بدھسٹوں سکھوں اور دیگر مذاہب کی املاک کے لیے وقف بائی یوزر تسلیم کیا جائے گا ،اسی طرح limitation actمیں بھی مسلمانوں کے لیے حکومت کا دوہرا رویہ ہےکہ باقی مذاہب کے اوقاف میں Limitation actنافذ نہیں ہوگا۔
(١٠)ہندو انڈومینٹ (جو ہندو اوقاف کی شکل ہے) میں یہ ضروری ہے کہ اس کے ہر رکن ہندو ہوگا پہلے شرط تھی کہ وقف بورڈ کا چیف ایگزیکیوٹیو مسلمان ہوگا اور وقف بورڈ کی سفارش پر اس کا تقرر ہوگا لیکن اب دونوں حذف کر دیا گیا ہے۔
( ١١)پہلے ایسا تھا کہ اگر وقف کے قانون سے دوسرے قانون کا تعارض اور ٹکڑاؤ ہو تو وقف کے قانون کو ترجیح دی جائے گی مگر اس نئے قانون میں اس کو بھی ختم کر دیا ہے
ان کے علاوہ اور شقیں ہیں اختصار کی غرض سے انہیں چند کو بتانے کی کوشش کی ہے اگر کسی کو کچھ کمی یاقابل اصلاح کوئی بات ملے مطلع کریں میں شکر گزا ر رہونگا بہرحال انہیں خامیوں اور غیر انصاف قوانین سے ناراضگی ظاہر کرنے کے لیے مسلمان مختلف مقامات پر مختلف انداز سے احتجاج اور مظاہرے کر رہے ہیں خاص طور سے مسلم پرسنل اللہ بورڈ کی قیادت میں بڑے پیمانے پر مظاہرے جاری ہیں ہمیں بھرپور تعاون کرنے کی ضرورت ہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعاگو ہیں کہ دشمن کےمذموم ا ور ناپاک کوششوں کو ناکام بنادے۔
خاص طور سے ان افراد کو جو مالی اعتبار سے کمزور ہیں، ذرائع آمدنی کا کوئی راستہ نہیں ، اکتساب مال کے اہل ہی نہیں ، ان کے لیے اظہار ہمدردی اور معاشرتی انصاف کے لیے مختلف اقدامات پر زور دیا ہے ،تاکہ کوئی بے بسی، کسمپرسی اور گھٹ گھٹ کر زندگی گزارنے پر مجبور نہ ہوں اسلام نے رؤساءو اغنیاء پر زکوۃ و صدقات فرض کیے، انسان سے کوئی کمی ہو جائے تو اس کی تلافی کے لیے مالی کفارہ ، کسی کو لباس کی ضرورت ہو تو کپڑا مہیا کرنا ،علاج و معالجہ کے لیے مطلوبہ رقم نہ ہو تو امداد و تعاون کرنا ،کسی بھوکے کو کھانا کھلا دینا، اتنا ہی نہیں بلکہ فرمایا کہ بیوہ اور یتیم کے لیے کمانے والا مجاہد فی سبیل اللہ کی طرح ہے یہ صدقات کی مختلف شکلیں ہیں ۔
ایک دوسری صورت یہ ہے کہ ایسا کار خیر کیا جائے جس کا فائدہ دیر پااور صدقہ کرنے والے کو طویل مدت تک پہنچتا رہے ایسے صدقہ کی حدیث میں ترغیب دی گئی ہے اللہ کے نبی نے فرمایا کہ جب انسان انتقال کر جاتا ہے تو عمل کا سارا رشتہ ٹوٹ جاتا ہے سوائے تین صورتوں کے جن میں سے ایک صدقۂ جاریہ ہے مثلا کسی نے کنواں کھدوایا، مسجد یا دینی اداروں کی تعمیر میں حصہ لیا، دینی کتابیں شائع کی، مسافر خانےیا ہاسپٹل بنوائے ،مساجد میں مصحف رکھوائے، مجاہدین کے لیے اسلحہ اور سواری کا انتظام کیا ایسے صدقۂ کی نوعیت کو صدقۂ جاریہ کہتے ہیں۔
اسی کی ایک شکل وقف ہے ،وقف کے معنی کسی شیء کو روک لینا اور اس کا نفع وقف کرنے والے کے منشا کے مطابق سب کے لیے یا کسی خاص فرد کے لیے مقرر کر دینا ،وقف اور صدقہ میں بنیادی فرق یہ ہے کہ صدقہ میں مستحق کو براہ راست اصل مال کی ملکیت سونپ دی جاتی ہے اور تصرف کا حق دیا جاتا ہے ،مگر اوقاف میں اصل مال کو باقی رکھا جاتا ہے اور منفعت میں عامۃ المسلمین یا خاص افراد و قبائل کو شریک کیا جاتا ہے۔
یہ بات واضح رہے کہ اس صورت میں نہ وقف کرنے والے کی ملکیت باقی رہتی ہے نہ مستحقین اس کی بیع و شراء کر سکتے ہیں نہ ہدیۃ اور عاریۃکسی کو دے سکتے ہیں نہ ہی اس کو منتقل کیا جا سکتا ہے، بلکہ وقف کی ہوئی شے کے بارے میں اسلامی تصور یہ ہے کہ وہ اللہ کی ملکیت ہو جاتی ہے جس سے اصل شے میں کسی طرح کے تصرفات کا امکان باقی نہیں رہتا۔ اسلام میں وقف کا ثبوت دور نبوی ہی سے ملتا ہے جب آپ ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے تو حضرت سہل اور سہیل رضی اللہ عنہما کا باغ خرید کر مسجد نبوی کی تعمیر کی، اس سے متصل دینی تعلیم کے لیے ایک چبوترا (جس کو عربی میں صفہ کہتے ہیں )بنایا یہ دونوں آپ کی وقف کی ہوئی جائیداد میں قائم ہوئے، حضرت عثمان نے بئر رومہ خریدا اور مسلمانوں کے لیے وقف کر دیا، حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے اپنا باغ وقف کیا حضرت ابو طلحہ انصاری کا باغ وقف کرنا بہت مشہور ہے ،اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا آپ جہاں چاہیں صرف کریں، حضرت عمر نے اپنے دور خلافت میں خیبر کی زمین کو عوامی ضروریات کے لیے وقف کیا ،بعض صحابہ کرام نے جہاد کے لیے عمدہ گھوڑے اور اسلحہ خرید کر وقف کیے حتی کہ وقف کی اہمیت اور فضیلت کو لوگوں نے جب سمجھا تو درختوں تک کو وقف کیا جب یہ دائرہ وسیع تر ہوتا گیا ہندوستان میں بھی مسلمانوں نے اپنی بڑی بڑی اور قیمتی جائیدادیں وقف کیں اور آج بھی وقف کا سلسلہ جاری ہے۔
اوقاف سے اسلام کے مالیاتی نظام میں بے پناہ استحکام آیا، جس سے اسلامی تاریخ کے ہر دور میں غریبوں اور مسکینوں کی ضروریات پوری پوری ہوئی، انہیں معاشی طور پر خود کفیل بنانے علوم و فنون سے آراستہ کرنے میں مددملی ،مریضوں پریشان حالوں کی حاجت روائی کی گئی اور اصحاب علم و فضل کی کفالت میں بھی اسلامی وقف کا بہت اہم رول ہے۔
لیکن بڑے تأسف اور حیرت کی بات ہے کہ ہندوستان میں وقف پراپرٹیز کے ساتھ جو ظالمانہ سلوک اور مجرمانہ رویہ اپنایا گیا ہے امت مسلمہ آج اسی کا خمیازہ بھگت رہی ہے ،تقریبا مسلمانوں کے پچاس فیصد اوقاف وہ ہیں جن پر حکومت اور برادران وطن کا قبضہ ہے، کہیں پر وقف پراپرٹیز کو بیچ دیا گیا ہے ،تو کہیں خود اس کی دیکھ بھال کرنے والے اس پر حاوی ہیں اور ناجائز فائدہ اٹھا رہے ہیں اور اب تو حکومت ان اوقا ف پر دخل اندازی کرنے کے لئے نت نئے منصوبے تیار کر رہی ہے،ایسے وقت میں جب کہ اوقاف کے وجود کو خطرہ لاحق ہے، مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ بروقت اس کی حفاظت کے لیے ٹھوس اقدام کیے جائیں اور قانونی دائرے میں رہ کر حفاظتی تدابیر اختیار کیے جائیں ،حالیہ حکومت کی طرف سے پیش کردہ وقف ترمیمی بل کو لوک سبھا اور راجیہ سبھاسے منظوری مل چکی ہے، اس کی سنگینی اور خطرات کو سمجھ کر اس کا سد باب کیا جائے۔۔
یہاں پر ہم چند حکومتی ترمیمات اور اس کے مشمولات کو بالاختصار سپرد قرطاس کرتے ہیں قارئین خود فیصلہ کریں گے کہ موجودہ ترمیمات اوقاف کے وجود کے لیے کتنا خطرناک ثابت ہو سکتی ہے
یہ بات آپ کے گوش گزار کرنا ضروری ہے کہ 1995 وقف ایکٹ اور اس کی 2013 کی ترمیمات نے ان جائیدادوں کو چلانے کے لیے قانونی ڈھانچہ تشکیل دیا تھا، اور ریاستی وقف بورڈ وجود میں لائے گئے تھے جس سے اوقاف کی نگرانی ہو رہی ہے ،مگر مرکزی حکومت کا کہنا ہے کہ وسیع پیمانے پراب بھی اوقاف میں بدانتظامی اور قانونی تنازعات موجود ہیں جس کےباعث وقف ایکٹ میں ترمیم کرنے کی ضرورت ہے۔ (١) نئی ترمیم سے سب سے بڑی تبدیلی یہ ہوگی کہ اب ہر کوئی جائیداد عطیہ نہیں کر سکے گا جائیداد عطیہ کرنے کی اہلیت کے لیے کم از کم پانچ سال تک اسلام کا پیروکار ہونا ضروری ہے ۔
(٢) ترمیم شدہ قانون میں ضلع کلیکٹر کو جائیدادوں کا سروے کرنے کی اجازت دی گئی ہے اگر وقف کا دعوی سرکاری اراضی سے ہے تو کلیکٹر سے اوپر کا ایک افسر دعوے کی تحقیقات کر کے حکومت کو رپورٹ پیش کرے گا۔
(٣)ترمیم شدہ بل کے سب سے متنازع پہلو یہ ہے کہ وقت بورڈ میں غیر مسلم ممبران کو شامل کرنے کی شرط ہے کہ بورڈ میں 13 غیر مسلم ارکان شامل ہو سکتے ہیں کم از کم دو غیر مسلم ارکان کا ہونا ضروری ہے جن کو ریاستی وقف بورڈ نہیں بلکہ ریاستی حکومت نامزد کرے گی۔ (٤) ایک شق یہ بھی ہے خاندانی وقف بنانے سے پہلے وقف کرنے والے شخص کو یقینی بنانا ہوگا کہ تمام ورثہ بالخصوص خواتین کو حصہ مل گیا ہے۔ (٥) اس کے علاوہ تمام متولی (وقف جائیداد کے منتظمین) چھ ماہ کے اندر مرکزی حکومت کے پورٹل پر جائیداد کی تفصیلات درج کریں۔ (٦)وقف ادارے جن کی سالانہ آمدنی ایک لاکھ سے زیادہ ہے ریاست کے مقرر کردہ اڈیٹرز سے لازمی طور پر آڈٹ کرنا ہوگا (٧)نیا قانون کہتا ہے کہ وقف بائی یوزر کو مستقبل میں ختم کر دیا جائے گا ،بائی یوزر کامطلب یہ ہے کہ اگر لمبے عرصے سے کوئی جائیداد مسجد ،درگاہ اور قبرستان کے طور پر استعمال میں ہے تو وقف تسلیم کیا جائے گا، لیکن ایک متضاد شوشہ یہ پیدا کیا گیا ہے کہ 2025 سے قبل کسی وقت بائی یوزر میں تنازع پیدا ہو جائے تو وقف نہیں مانا جائے گا بلکہ کاغذات دکھانے ہوں گے، جبکہ بہت سی پرانی جائیداد ایسی ہیں جن کے کاغذات موجود نہیں ہیں ان سب کے لیےشدید خطرہ ہے اور یہ ماضی کے اوقاف کو ہڑپنے کی ایک کوشش ہے، جبکہ فرقہ پرست عناصر آئے دن بلا دلیل مساجد پرہندو مذہبی مقام ہونے کا دعوی کر تے ہیں، ہندو پریشد نے ساڑھے تین ہزار مساجد پر دعویداری کی فہرست بنا رکھی ہے۔
(٨) ترمیم شدہ قانون میں limitation actکااطلاق ہوگا یعنی اگر بارہ سال یا اس سے زیادہ کسی کا اوقاف کی زمین قبضہ رہاتو اس کی ملکیت تسلیم کر لی جائے گی ،یعنی وقف جائیداد سے ناجائز قبضے کو ہٹانے کی راہ کو ختم کر دی گئی ہے۔
(٩) اگر کسی زمانے میں کسی غیر مسلم نے زمین وقف کی تھی وہ اب تک مسجد یا قبر ستان یا مسافر خانے میں زیر استعمال ہے تو وقف کے دائرے سے باہر ہو جائیں گے۔ قابل غو ر بات ہے اسلامی اوقاف سے بائی یوزر کو ختم کر دیا جائے گا لیکن ہندوؤں بدھسٹوں سکھوں اور دیگر مذاہب کی املاک کے لیے وقف بائی یوزر تسلیم کیا جائے گا ،اسی طرح limitation actمیں بھی مسلمانوں کے لیے حکومت کا دوہرا رویہ ہےکہ باقی مذاہب کے اوقاف میں Limitation actنافذ نہیں ہوگا۔
(١٠)ہندو انڈومینٹ (جو ہندو اوقاف کی شکل ہے) میں یہ ضروری ہے کہ اس کے ہر رکن ہندو ہوگا پہلے شرط تھی کہ وقف بورڈ کا چیف ایگزیکیوٹیو مسلمان ہوگا اور وقف بورڈ کی سفارش پر اس کا تقرر ہوگا لیکن اب دونوں حذف کر دیا گیا ہے۔
( ١١)پہلے ایسا تھا کہ اگر وقف کے قانون سے دوسرے قانون کا تعارض اور ٹکڑاؤ ہو تو وقف کے قانون کو ترجیح دی جائے گی مگر اس نئے قانون میں اس کو بھی ختم کر دیا ہے
ان کے علاوہ اور شقیں ہیں اختصار کی غرض سے انہیں چند کو بتانے کی کوشش کی ہے اگر کسی کو کچھ کمی یاقابل اصلاح کوئی بات ملے مطلع کریں میں شکر گزا ر رہونگا بہرحال انہیں خامیوں اور غیر انصاف قوانین سے ناراضگی ظاہر کرنے کے لیے مسلمان مختلف مقامات پر مختلف انداز سے احتجاج اور مظاہرے کر رہے ہیں خاص طور سے مسلم پرسنل اللہ بورڈ کی قیادت میں بڑے پیمانے پر مظاہرے جاری ہیں ہمیں بھرپور تعاون کرنے کی ضرورت ہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعاگو ہیں کہ دشمن کےمذموم ا ور ناپاک کوششوں کو ناکام بنادے۔





