ماہنامہ الفاران

ماہِ ذی الحجہ - ۱۴۴۶

اپنا ایجنڈہ خود طے کیجئے!

محترم جناب مفتی خالد انور پورنوی صاحب ،المظاہری جنرل سکریٹری؛رابطہ مدارس اسلامیہ عربیہ بہار

آزادی کے75 سال بعدبھی ہماراایجنڈہ واضح اورصاف نہیں ہے، بے مقصدجیناہماری زندگی کا مقصدبن کررہ گیاہے،نہ مشن ہے اورنہ پلاننگ، نہ ٹھوس اورمضبوط لائحہ عمل،ہمیں کیاکرناہے ہم نے ابھی تک طے نہیں کیاہے ؟ کرنے کے بہت سے کام ہیں جوہم نہیں کررہے ہیںاورجوکچھ کررہے ہیں اس میں ہوا بازی اور بیان بازی زیادہ ہوتی ہے اورنہ اس میں کوئی مقصدپیش نظرہوتاہے، اس کے نتیجہ میں ہم تباہی کی آخری منزل تک پہونچ چکے ہیں،اور ہنوز یہ سلسلہ جاری ہے۔
دنیامیں جتنی بھی قومیں آبادہیں،ان تمام میں صرف ہم مسلمانوں کویہ فخرحاصل یہ ہے کہ ان کی تعلیمات اور تواریخ جوں کاتوں محفوظ ہے ہیں؛حالانکہ دیگرمذاہب کی طرح اس میں بھی غیروں نے تحریف اورتبدیلی کی بڑی کوششیں کیں،لیکن انہیں اس میں کامیابی نہیں ملی،وہ اسی لئے چونکہ اسلام قیامت تک کیلئے ہے اوراُسے قیامت تک اپنی اصلی حالت میں باقی رہناہے۔ہاں یہ افسوس کامقام ہے کہ جن کی تاریخیں ابھی تک محفوظ ہیں، انہوں نے ہی تواریخ کوپڑھنا،اوراس کی روشنی میں لائحہ عمل طے کرناچھوڑدیاہے۔ ہم اس دنیامیں کیوں بھیجے گئے؟امامت کیلئے،یادوسروں کی اقتدا کیلئے، قیادت کرنے کیلئے یادوسروں کے پیچھے چلنے کیلئے،دوسروں پراحکامات نافذ کرنے کیلئے یادوسروں کے احکام اپنے اوپرنافذکروانے کیلئے، ہماری پیدائش اورہماری تخلیق کامقصدہی امامت،قیادت اورسیادت ہے ،اوردنیامیں احکاماتِ الٰہی کی تنفیذ کیلئے دستوروآئین کی شکل میں اللہ نے ہمیں ایک کتاب بھی دی ہے،مگرہم نے ہی اسے پڑھنااوراس کے مطابق عملی اقدامات کرنا چھوڑ د یاہے۔
تعلیم ہمارے لئے سب سے بنیادی چیزہے،زمانہ جاہلیت کے اس دورمیں جہاں دنیاکی ساری برائیا ں پائی جاتی ہیں،اللہ کی طرف سے سب سے پہلاحکم یہی نازل ہوتاہے کہ پڑھواورتعلیم کواپناؤ،چونکہ تعلیم ہی ایسی چیزہے جس کے ذریعہ انسان صحیح اوربُرے میں تمیزکرسکتاہے،اوربہترمستقبل کے فیصلہ کرسکتا ہے ، مگرسچرکمیٹی رپور ٹ نے ہم مسلمانوں کو آئینہ دکھادیاہے کہ مسلمانوں میں شرح خواندگی سب سے کم ہے، مدارس میں صرف چار فیصدی بچے ہی پڑھتے ہیں،جبکہ عصری درسگاہوں ،اسکولوں،کالجزاوریونیورسیٹیوں میں ہماری تعدادانگلیوں پر گنے جانے کے لائق ہے،اعلیٰ تعلیم میں ہماری شمولیت بالکل ہی نا کے برابر ہے ۔ ظاہرہے جو قوم تعلیمی اعتبارسے اتنازیادہ پسماندہ ہوگی نہ وہ اپنا ایجنڈہ واضح کرپائے گی اورنہ اس کے مطابق بہترمستقبل کے فیصلہ کرسکتی ہے۔
حکومت میں شیئرینگ یاحکومت میں حصہ داری یقیناموجودہ حالات میں ممکن نہیں ہے،آرایس ایس نے نوے سال پہلے اس کی پلاننگ کی تھی اوراب اس کاپھل کھارہی ہے،اورہماری مجبوری یہ ہے کہ جوکام نوے سال بعدکرنی ہے،ہوابازی،بیان بازی،جملہ بازی نوے سال پہلے ہی شروع کردیتے ہیں، اس لئے بات وہ ہونی چائیے جس پر عمل ممکن بھی ہو،من گھڑت قصوں اورجھوٹی باتوں نے ہمیں بہت نقصان پہونچا یا ہے،اس لئے اس سے دُوررہ کرسب سے پہلاایجنڈہ ہم تعلیم کو بنائیں،تعلیم عام کس طرح ہو،امیروغریب مسلم بچوں کیلئے تعلیم سستا کس طرح ہو،اس پرسوچنے ،صحیح قدم اٹھانے اورمضبوط پلاننگ کے ساتھ آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔
مشن اورمکمل پلان کے تحت مکاتب کاقیام ہمارادوسراایجنڈہ ہو،افسوس یہ ہے کہ چھوٹی ،بڑی تنظیموں کی جانب سے مکاتب کے قیام پر باتیں ہوتی ہیں،تجاویز منظورکی جاتی ہیں،اخبارات میں بیان شائع ہوجاتے ہیں ، دنیامیں بھرمیں مکاتب کے نام پرپبلیسٹی کی جاتی ہے ،اور بس!زمینی سطح پرسومیں سے دس فیصدی کام بھی سامنے نہیں آتاہے،اورنہ مکاتب کومنظم کرنے کی کوششیں کی جاتی ہیں،حالانکہ اگر مضبوط پلان کے تحت مکاتب قائم کئے جائیں ،باصلاحیت اورتربیت یافتہ اساتذہ اورعلماء وفضلاء کومامورکیاجائے، دینی تعلیم کے ساتھ،عصری علوم ، بالخصوص آٹھویں تک کے نصاب کوشامل کرکے اس میںلچک پیداکردی جائے تو نہ صرف تعلیمی اعتبارسے مضبوطی آئیگی،بلکہ مکاتب کے اساتذہ کو اگر درسِ قرآن ،درسِ حدیث کے ساتھ عوامی رابطہ مہم کی بھی ذمہ داری دے دی جائے تو زمینی سطح پر باہمی ربط واتحادکی وجہ سے دیگرمضبوط پلاننگ کی کامیابی میں بھی مددفراہم ہوگی۔
ہم یہ نہیں کہتے کہ ہندوستان کی چھوٹی،بڑی تنظیموں کے سربراہان اوربالخصوص قوم وملت کادردرکھنے والے علماء کرام کام نہیں کررہے ہیں،قوم وملت سے ان کا گہرارشتہ ہے اور ان کی سربلندی کیلئے ان کی خدمات کادائرہ بہت ہی وسیع ہیں؛ہاں مگرمشن اورمضبوط پلاننگ کی کمی کی وجہ سے تاریخ ساز کامیابی نہیں مل پارہی ہے،ملک کی جوصورتِ حال ہے اُسے دیکھ کر یقیناکسی خیرکی توقع ہم نہیں کرسکتے ہیں،ایسے میں ہمارے لئے لازم ہوگیاہے کہ بے مقصداورانفرادی،انفرادی محنت اورجدو جہد کے بجائے مقصدکوسامنے رکھ کر اجتماعی جدوجہد کریں، مگر ا س کیلئے آپسی تال میل بڑھانے کے ساتھ ،مسلکوں ، مکتبوں سے اوپر اٹھ کر کسی ایک امیرکی امارت قبول کرنی ہوگی ،یہ کام دشواربھی ہے اورانسانی نفس کے خلاف بھی؛لیکن ہم نہیں سمجھتے کہ اس کے بغیراب کوئی چارہ کار ہے !
مسلمانوں کی اپنی پارٹی ہو،اپنی قیادت ہو،اورحکومت بھی ہماری ہی ہو،یہ ایک خواب ہے،جوکچھ لوگ شیخ چلی کی طرح دن میں دیکھتے ہیں،اورزمینی محنت کئے بغیر سوشل میڈیامیں اس کی تشہیر کردینا ہی کافی سمجھتے ہیں،اس کے نتیجہ میں فرقہ پرستوں کوفرقہ پرستی کی سیاست کرنے ،اور اپنی سیاست کو چمکانے میں فائدہ تو مل جاتاہے اور ہم جہاں کھڑے تھے اس سے بھی پیچھے ہوتے جاتے ہیں۔اس میں کامیابی ممکن ہونے کی کیاشکل ہوگی؟اس پر غور و فکر ہوناچاہئے اور بند کمروں میں اس کی پلاننگ ہونی چاہئے ؛مگر ہمیں اس سچائی کا اعتراف کرناچاہئے کہ موجودہ حالات میں اپنی حکومت یاحکومت میں پاور تو دور، ووٹ دینے کے بھی ہم قابل نہیں ہیں،اورنہ اب ہماری ضرورت محسوس کی جارہی ہے،یوپی الیکشن میں بھی ہم نے دیکھا ، اورگجرات الیکشن میں اس کاخوب نظارہ ہوا،اس لئے سرِدست ہماراایجنڈہ یہ ہوکہ : ہمارے افرادکیسے بڑھیں؟ اورزمینی طاقت میں اضافہ کس طرح ہو؟اس پرتوجہ مبذول کی جانی چائیے،غیرمسلموں میں سے پچھڑی ذاتی کے لوگ ہمارے انتظار میں ہیں ، ان سے تال میل کرکے زمینی طاقت کومضبوط کرسکتے ہیں،صرف شورمچائیں گے اور اپنی قیادت کا خوبصورت نعرہ لگاکر دوسروں کو جگائیں گے تو نقصان اپناہی ہوگا،یہ کڑوی سچائی ضرور ہے ؛لیکن اسے قبول کرنے میں ہی فائدہ ہے۔ ووٹنگ میں سوفیصد حصہ داری کو ہم اپناایجنڈہ بنائیں، گاوں، دیہاتوں، قصبوں،اور شہروں میں جاجاکر مسلمانوں کو جگائیں،کہ وہ ہرحالت میں ووٹنگ میں حصہ لیں ،ووٹر آئی کارڈ،آدھار کارڈ بنوائیں،اور اپنے ووٹ کا صحیح استعمال کریں،اس لئے کہ آج بھی مسلمانوں میں سے چالیس فیصدی لوگ ہی ووٹ دیتے ہیں،اور اکثر لوگ نہ ووٹ کی طاقت سے واقفیت رکھتے ہیں،اور نہ ووٹ دینے کو ضروری سمجھتے ہیں،اس پر اگر ہم پوری مضبوطی سے توجہ دیں،اور دلتوں،پچھڑی ذاتی کے لوگوں کو بھی اپنے ساتھ شامل کرلیں،تو یہ خاموش پلاننگ ایک بہترین انقلاب پیش کرے گی اور اپنی پسند کی حکومت اور پسند کے لوگوں کے منتخب کرنے میں مددفراہم ہوگی۔
ہندوستان میں اقلیت میں صرف مسلمان نہیں ہیں،سکھ بھی ہیں،عیسائی بھی اوردیگرقومیں بھی،جس طرح کے مسائل مسلمانوں کے ہیں،عیسائیوں کے بھی ہیں،اوردیگراقلیتوں کے بھی ،مگرکبھی بھی مسلمانوں کی طرح وہ لوگ سڑکوں پرنہیں آئے،اورنہ کھلااجلاس کے ذریعہ دنیاکواپنی پلاننگ سے باخبرکرنے کی کوشش کی ،بلکہ بہت ہی خوبصورت اندازمیں اپنے مشن اورمقاصد کو بروئے کارلانے کیلئے اسکولوں،کالجوں،اسپتالوں اور دیگر فلاحی و رفا ہی اداروں کوقائم کیا،اور ہتھیارکے طورپر استعمال کرکے پوری دنیامیںاپنی طاقت کا لوہا منوایا ، آج جتنے منظم اندازمیں کرسچنوں،عیسائیوں کے اسکولس ،کا لجز اوراسپتا لیں ہندوستان کے کونے کونے میں قائم ہیں اورپوری مضبوطی سے اپنے مشن پرعمل پیراہیں،دوسری قوموں کے نہیں ہیں،یہی وجہ ہے کہ تمام طبقات کے لوگ ان اسکولوں اوراسپتالوں کی طرف رجوع کررہے ہیں،اورہم مسلمانوں کے پاس نہ اسکولس ہیں، نہ کالجزاورنہ ہاسپٹلس اوراگرہیں بھی تو اتنے غیرمنظم اوربلاکسی پلان کے اپنے بھی اس کی طرف رجوع نہیں کرتے ہیں۔
ہم مسلمان ہیں ،اللہ نے ہمیں دینی اور اخروی نعمتوں سے مالامال تو کیا ہی ہے،دنیوی نعمتوں میں بھی کسی سے کمزور نہیں بنایاہے،ہاں مگر ہماری طاقتیں یکجانہیں ہیں ؛اس لئے ہم بے طاقت،کمزور،اور تہی دست نظر آرہے ہیں ،اگر آج بھی ہماری تمام طاقتیںایک جگہ جمع ہوجائیں،اوراپناایجنڈہ بناکر زمینی سطح پر محنت کرناشروع کردیں،تو دنیاکی کوئی بھی بڑی سے بڑی طاقت ہمار امقابلہ نہیں کرپا ئے گی،اور نہ ہی نفرت کے سوداگروں کو نفرت کی راج نیتی کرنے کا موقع فراہم ہوگا۔
اللہ نے کچھ لوگوں کو مال ودولت سے نوازاہے،توکچھ لوگوں کو علم وفضل کی دولت سے،کچھ لوگ تجارت، زراعت اور دوسرے کاروبار میں لگے ہوئے ہیں،تو کچھ لوگ پڑھنے ،پڑھانے میں،کچھ لوگ مدرسوں میں درس وتدریس کی ذمہ داری نبھارہے ہیں،تو کچھ لوگ اسکولوں،کالجوں،یونیورسیٹیوں یاکوچنگ وکانوینٹ میں طالبانِ علوم کی علمی پیاس بجھانے میں مصروف ہیں،اور مسلمانوں میں سے ہی کچھ لوگ سیاست کے میدان میں ہیں اور وہ کسی حلقہ کے ایم پی ،ایم ایل،مکھیا،یاوارڈممبر وکانسلرہیں،اللہ نے سب کو کام بانٹ دیئے ہیں،اور سب اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہیں،مگر ہم سب کے ذہن میں ہماراایجنڈہ ہر وقت موجودرہناچاہئے کہ دنیاکا جو بھی کام کریں،مگر اسلام اور مسلمانوں کی سربلندی ہمارااہم مقصد ہو!
آئیے !ہم بھی سوچیں،آپ بھی سوچیں،اوراسلام کی سربلندی کیلئے حکمت ِعملی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے ایجنڈوں کو زمین میں اتارنے کیلئے عملی جدوجہدشروع کردیں!!
میری زندگی کا مقصدتیرے دیں کی سرفرازی
میں اسی لئے مسلماں ،میں اسی لئے نمازی

دیگر تصانیف

امیدوں کا چراغ

مٹی کا چراغ

کہاں گئے وہ لوگ

تذکیر و تانیث

مجلس ادارت

team

سرپرست

حضرت الحاج مولانا کبیر الدین فاران صاحب مظاہری

team

مدیر مسئول

مولانا ارشد کبیر خاقان صاحب مظاہری

team

مدیر

مفتی خالد انور پورنوی صاحب قاسمی