ماہنامہ الفاران
ماہِ ذی الحجہ - ۱۴۴۶
حج بیت اللّٰہ اور اس کے اہم تقاضے
محترم جناب محمد عادل صاحب ارریاوی، جامع مسجد،سیسونا،جوکی ہاٹ،ضلع ارریہ
قارئین کرام ۔ حج اسلام کا وہ عظیم الشان رکن ہے جس کے ہرہر پہلو سے عشق خداوندی اور محبت ایزدی کا اظہار ہوتا ہے، حج کا سفر سیر و تفریح نہیں بلکہ بندہ کی جانب سے جذبہ عاشقی کا بھر پور مظاہرہ ہے ۔ حاجی احرام باندھ کر گویا اعلان کرتا ہے کہ اب وہ دنیوی تعلقات سے آزاد ہوکر اپنے محبوب حقیقی سے لو لگانے کیلئے رخت سفر باندھ چکا ہے ۔ اب اس کی زبان پر ایک ہی رٹ لگی ہے لبیک اللہم لبیک (اے پروردگارمیں حاضر ہوں حاضر ہوں ) وہ مکہ مکرمہ میں دیوانہ وار بیت اللّٰہ شریف کا طواف کرکے اپنے جذبہ عشق کو سکون عطا کرتا ہے، اسی طرح اسے حکم ہے کہ وہ صفاو مروہ کے درمیان سعی کرے پھر یہی عشق حقیقی انھیں منیٰ وعرفات اور مزدلفہ کی وادیوں میں لےجاتا ہے ۔ بالآخر وہ بارگاہ ایژدی میں قربانی کرکے گویا اپنی جان کا نذرانہ محبوب کی خدمت میں پیش کرتا ہے
الغرض سفرحج کا ہر لمحہ عشق و محبت کا آئینہ دار اور بندہ کی جانب سے محبوب حقیقی سے سچی انسیت کا کھلا مظاہرہ ہواکرتا ہے ۔
یہ بات نہایت افسوسناک ہے کہ آج کل حج جیسی پر عظمت عبادت میں ریا کاری ،شہرت طلبی اسراف اور منکرات پر جیسی قبیح رسمیں عروج پکڑتی جارہی ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ پیشین گوئی پوری طرح صادق آرہی ہے کہ آخری زمانہ میں چار طرح کے لوگ حج کریں گے۔ ا=بادشاہ تفریح کی غرض سے ۲= امراء تجارت کے مقصد سے ۔ ۳=فقراء بھیک مانگنے کیلئے ۔۴= قراء اور علماء شہرت طلبی کیلئے ۔ (احیاء العلوم جلد ? صفحہ?)
یہ غیر شرعی التزامات حاجی کے سفر پر نکلنےسے کافی دنوں پہلے سے شروع ہو جاتے ہیں۔ حاجی طویل دعوتیں کرتے ہیں۔ کہیں کہیں قوالی کی محفلیں بھی منعقد کی جاتی ہیں اور بجائے اس کے کہ احکام حج کو سیکھا یہاں اس کے برعکس بازار تماشہ طے کیا جاتا ہے، فضول اور لایعنی باتوں اور لمبی ملاقاتوں میں وقت ضائع کیا جاتا ہے، پھر جانے والے دن سارے خاندان کے افراد مرد وعورت جمع ہوتے ہیں۔ اسی پر بس نہیں بلکہ ایک ایک حاجی کو ائیر پورٹ تک چھوڑنے کیلئے پچاسوں افراد جاتے ہیں ،جن میں بے پردہ عورتیں حتی کہ چھوٹے چھوٹے بچے بھی شامل ہوتے ہیں جو ائیر پورٹ پر شور و غوغا، فوٹو گرافی اور بے حجابی کے نظارے سے ماحول غیر اسلامی بناتے ہیں ، دیکھنے میں ایسا محسوس ہوتاہے کہ یہاں ایک ہنگامہ بپا ہے،ایک ایسا میلہ لگا رہتا ہے جس میں عبادت کا جذبہ برائے نام اور سیر و تفریح اصل مقصود ہو جاتی ہے، حاجی کو پھولوں سے لاد کر اس کے ساتھ تصاویر کھنچوائی جاتی ہیں اور بعض لوگ تو با قاعدہ ویڈیو فلم میکر کو ساتھ لے کر جاتے ہیں جو ان سب مناظر کو کیمرے میں محفوظ کرنے کا فریضہ انجام دیتا ہے۔ گویا کہ پہلے ہی مرحلے میں اللہ رب العزت کی نافرمانی سامنے آتی ہے جس سےحج کے سفر کی روح نکال دی جاتی ہے۔ پھر بہت سے لوگ حج کے ارکان کی ادائیگی کے وقت بھی جائز ونا جائز کی طرف قطعاً دھیان نہیں دیتے۔
بیت اللہ شریف میں حجر اسود کے بوسہ کیلئے اس قدر اژدحام ہوتا ہے کہ مرد و عورت کا امتیاز و لحاظ باقی نہیں رہتا ،عورتیں بے حیائی کے ساتھ غیر مردوں کے درمیان گھس جاتی ہیں، مرد بھی بے محابا اجنبی عورتوں پر گرے پڑتے ہیں،اختلاطی کیفیت اللہ کی پناہ ،جبکہ اس طریقہ بد پر عامل ہوکر حجر اسود کا استلام ثواب نہیں بلکہ گناہ ہے۔ کیونکہ اگر بوسہ لینے کا موقع نہ ہو تو دور سے اشارہ کر کے ہاتھ چوم لینے سے بھی بعینہ وہی ثواب ملتا ہے تو گناہ کے ارتکاب سے کیا فائدہ؟ اس مقدس اور مبارک مقام پر اس بے حیائی کا اظہار حد درجہ مذموم اور قابل ترک ہے۔ حج کے ہر ہر لمحہ میں اس طرح کی بے حیائی کے کاموں سے مکمل اجتناب کرنا چاہئے، اسی طرح اپنی نظر کی حفاظت میں لوگ بڑی کوتاہی کرتے ہیں،یہ بڑی محرومی اور بدبختی کی بات ہے کہ انسان وہاں جا کر بھی اپنے نفس کو قابو میں نہ رکھ سکے۔
پھر جوں جوں واپسی کا وقت قریب آتا جاتا ہے۔ بہت سے حجاج اپنا مابقیہ وقت طواف و زیارت سے زیادہ حرم کے بازاروں اور جدہ کی مارکیٹوں میں گزارنے لگتے ہیں اور وقت کو غنیمت نہ جان کر احباب اور رشتہ داروں کیلئے تحفہ و تحائف خریدنے میں مصروف ہوتے ہیں جو بجائے خود نہایت بے حسی اور محرومی کی بات ہے، گھر والوں کیلئے تحفہ تحائف لانا خرید اور فروخت ممنوع نہیں لیکن اس میں وقت کا ضرورت سے زیادہ ضیاع جذبہ حج کے منافی ہے اور اس سے بچنا لازم ہے۔
اس کے بعد جب حاجی فریضہ حج ادا کر کے وطن واپس ہوتا ہے تو پہلے ہی سے اس کے استقبال کیلئے ائیر پورٹ پہنچنے والے رشتہ دار (جن میں مرد و عورت سب شامل ہوتے ہیں) معصیت اور نافرمانی کی چیزیں فوٹو اور ویڈیو کیمرے اسی طرح پھولوں اور نوٹوں کے ہار لئے تیار رہتے ہیں اور اطاعت خداوندی کا عہد کر کے لوٹنے والا حاجی آتے ہی ان معاصی میں مبتلا ہو کر قبولیت دعا کی سعادت سے محروم ہو جاتا ہے۔ اس لئے کہ حدیث میں ہے کہ حجاج سے گھر لوٹنے اور گناہوں میں مبتلا ہونے سے پہلے دعا کراؤ۔ پھر گھر آ کر جو رسمیں اپنائی جاتی ہیں وہ سب بھی حج کی روح سے میل نہیں کھاتیں ۔ امام غزالی نے لکھا ہے کہ حج مبرور و مقبول کی نشانی یہ ہے کہ حاجی دنیا سے بے رغبت آخرت کی یاد میں مستغرق اور دوبارہ زیارت حرمین شریفین کا شوق لے کر لوٹے۔ اگر یہ جذبات نہیں ہیں تو سمجھ لے کہ اس کا حج مبرور نہیں ہے۔ (احیاء العلوم )
ہونا یہ چاہیئے کہ حج انسان کے اعمال میں انقلاب اطاعت کی توفیق اور معاصی سے مکمل احتراز کا ذریعہ بن جائے ،جبھی سفر حج کا واقعی فائدہ حاصل ہو سکتا ہے۔ اللہ ربّ العزت ہم سب کو عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرماۓ۔ آمین ثم آمین یارب العالمین
الغرض سفرحج کا ہر لمحہ عشق و محبت کا آئینہ دار اور بندہ کی جانب سے محبوب حقیقی سے سچی انسیت کا کھلا مظاہرہ ہواکرتا ہے ۔
یہ بات نہایت افسوسناک ہے کہ آج کل حج جیسی پر عظمت عبادت میں ریا کاری ،شہرت طلبی اسراف اور منکرات پر جیسی قبیح رسمیں عروج پکڑتی جارہی ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ پیشین گوئی پوری طرح صادق آرہی ہے کہ آخری زمانہ میں چار طرح کے لوگ حج کریں گے۔ ا=بادشاہ تفریح کی غرض سے ۲= امراء تجارت کے مقصد سے ۔ ۳=فقراء بھیک مانگنے کیلئے ۔۴= قراء اور علماء شہرت طلبی کیلئے ۔ (احیاء العلوم جلد ? صفحہ?)
یہ غیر شرعی التزامات حاجی کے سفر پر نکلنےسے کافی دنوں پہلے سے شروع ہو جاتے ہیں۔ حاجی طویل دعوتیں کرتے ہیں۔ کہیں کہیں قوالی کی محفلیں بھی منعقد کی جاتی ہیں اور بجائے اس کے کہ احکام حج کو سیکھا یہاں اس کے برعکس بازار تماشہ طے کیا جاتا ہے، فضول اور لایعنی باتوں اور لمبی ملاقاتوں میں وقت ضائع کیا جاتا ہے، پھر جانے والے دن سارے خاندان کے افراد مرد وعورت جمع ہوتے ہیں۔ اسی پر بس نہیں بلکہ ایک ایک حاجی کو ائیر پورٹ تک چھوڑنے کیلئے پچاسوں افراد جاتے ہیں ،جن میں بے پردہ عورتیں حتی کہ چھوٹے چھوٹے بچے بھی شامل ہوتے ہیں جو ائیر پورٹ پر شور و غوغا، فوٹو گرافی اور بے حجابی کے نظارے سے ماحول غیر اسلامی بناتے ہیں ، دیکھنے میں ایسا محسوس ہوتاہے کہ یہاں ایک ہنگامہ بپا ہے،ایک ایسا میلہ لگا رہتا ہے جس میں عبادت کا جذبہ برائے نام اور سیر و تفریح اصل مقصود ہو جاتی ہے، حاجی کو پھولوں سے لاد کر اس کے ساتھ تصاویر کھنچوائی جاتی ہیں اور بعض لوگ تو با قاعدہ ویڈیو فلم میکر کو ساتھ لے کر جاتے ہیں جو ان سب مناظر کو کیمرے میں محفوظ کرنے کا فریضہ انجام دیتا ہے۔ گویا کہ پہلے ہی مرحلے میں اللہ رب العزت کی نافرمانی سامنے آتی ہے جس سےحج کے سفر کی روح نکال دی جاتی ہے۔ پھر بہت سے لوگ حج کے ارکان کی ادائیگی کے وقت بھی جائز ونا جائز کی طرف قطعاً دھیان نہیں دیتے۔
بیت اللہ شریف میں حجر اسود کے بوسہ کیلئے اس قدر اژدحام ہوتا ہے کہ مرد و عورت کا امتیاز و لحاظ باقی نہیں رہتا ،عورتیں بے حیائی کے ساتھ غیر مردوں کے درمیان گھس جاتی ہیں، مرد بھی بے محابا اجنبی عورتوں پر گرے پڑتے ہیں،اختلاطی کیفیت اللہ کی پناہ ،جبکہ اس طریقہ بد پر عامل ہوکر حجر اسود کا استلام ثواب نہیں بلکہ گناہ ہے۔ کیونکہ اگر بوسہ لینے کا موقع نہ ہو تو دور سے اشارہ کر کے ہاتھ چوم لینے سے بھی بعینہ وہی ثواب ملتا ہے تو گناہ کے ارتکاب سے کیا فائدہ؟ اس مقدس اور مبارک مقام پر اس بے حیائی کا اظہار حد درجہ مذموم اور قابل ترک ہے۔ حج کے ہر ہر لمحہ میں اس طرح کی بے حیائی کے کاموں سے مکمل اجتناب کرنا چاہئے، اسی طرح اپنی نظر کی حفاظت میں لوگ بڑی کوتاہی کرتے ہیں،یہ بڑی محرومی اور بدبختی کی بات ہے کہ انسان وہاں جا کر بھی اپنے نفس کو قابو میں نہ رکھ سکے۔
پھر جوں جوں واپسی کا وقت قریب آتا جاتا ہے۔ بہت سے حجاج اپنا مابقیہ وقت طواف و زیارت سے زیادہ حرم کے بازاروں اور جدہ کی مارکیٹوں میں گزارنے لگتے ہیں اور وقت کو غنیمت نہ جان کر احباب اور رشتہ داروں کیلئے تحفہ و تحائف خریدنے میں مصروف ہوتے ہیں جو بجائے خود نہایت بے حسی اور محرومی کی بات ہے، گھر والوں کیلئے تحفہ تحائف لانا خرید اور فروخت ممنوع نہیں لیکن اس میں وقت کا ضرورت سے زیادہ ضیاع جذبہ حج کے منافی ہے اور اس سے بچنا لازم ہے۔
اس کے بعد جب حاجی فریضہ حج ادا کر کے وطن واپس ہوتا ہے تو پہلے ہی سے اس کے استقبال کیلئے ائیر پورٹ پہنچنے والے رشتہ دار (جن میں مرد و عورت سب شامل ہوتے ہیں) معصیت اور نافرمانی کی چیزیں فوٹو اور ویڈیو کیمرے اسی طرح پھولوں اور نوٹوں کے ہار لئے تیار رہتے ہیں اور اطاعت خداوندی کا عہد کر کے لوٹنے والا حاجی آتے ہی ان معاصی میں مبتلا ہو کر قبولیت دعا کی سعادت سے محروم ہو جاتا ہے۔ اس لئے کہ حدیث میں ہے کہ حجاج سے گھر لوٹنے اور گناہوں میں مبتلا ہونے سے پہلے دعا کراؤ۔ پھر گھر آ کر جو رسمیں اپنائی جاتی ہیں وہ سب بھی حج کی روح سے میل نہیں کھاتیں ۔ امام غزالی نے لکھا ہے کہ حج مبرور و مقبول کی نشانی یہ ہے کہ حاجی دنیا سے بے رغبت آخرت کی یاد میں مستغرق اور دوبارہ زیارت حرمین شریفین کا شوق لے کر لوٹے۔ اگر یہ جذبات نہیں ہیں تو سمجھ لے کہ اس کا حج مبرور نہیں ہے۔ (احیاء العلوم )
ہونا یہ چاہیئے کہ حج انسان کے اعمال میں انقلاب اطاعت کی توفیق اور معاصی سے مکمل احتراز کا ذریعہ بن جائے ،جبھی سفر حج کا واقعی فائدہ حاصل ہو سکتا ہے۔ اللہ ربّ العزت ہم سب کو عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرماۓ۔ آمین ثم آمین یارب العالمین