ماہنامہ الفاران

ماہِ ذی الحجہ - ۱۴۴۶

ماہ ذی الحجہ کا پہلا عشرہ اور قربانی کے احکام و مسائل

جناب حضرت مولانا ابو سعد صاحب ندوی،استاذ: مدرسہ نورالمعارف، مولانا علی میاں نگر، دیا گنج، ضلع ارریہ

محترم قارئین کرام اسلامی تعلیمات کے مطابق ماہ ذی الحجہ کا پہلا عشرہ نہایت عظمت و فضیلت کا حامل ہے ۔ قرآن کریم اور متعدد احادیث میں ذی الحجہ کے دس دنوں کی خاص فضیلت وارد ہوئی ہے ۔سورۃ الفجر میں اللہ تبارک و تعالی نے ذی الحجہ کی دس راتوں کی قسم کھائی ہے۔(والفجر وليال عشر) حضرت ابن عباس، قتادہ، مجاہد، سدی ،ضحاک ،کلبی ائمہ تفسیر کے نزدیک مذکورہ آیت میں ذی الحجہ کی ابتدائی دس راتیں مراد ہیں
امام ابن کثیر فرماتے ہیں ،المراد بهاعشر ذي الحجه كما قاله بن عباس وابن الزبير ومجاهد وغير واحد من السلف والخلف ۔دس راتوں سے مراد ذی الحجہ کا پہلا عشرہ ہے جیسا کہ ابن عباس ابن زبیر مجاہد اور ان کے علاوہ سلف و خلف نے کہا ہے۔ اس سے معلوم ہوا ماہ ذی الحجہ کا ابتدائی عشرہ اسلام میں خاص اہمیت کا حامل ہے، حج کا سب سے اہم رکن وقوف عرفہ اسی عشرہ میں ادا کیا جاتا ہے ،جو اللہ تعالی کے خاص فضل و کرم حاصل کرنے کا زرین موقع ہے ،ان ایام میں مسلمانوں کو ذکر و تلاوت، صوم وصلاۃ اور قربانی، تکبیر و تہلیل کا اہتمام کرنا چاہیے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عبادت کرنے کے لیے اللہ تعالی کے نزدیک سب دنوں میں عشرہ ذی الحجہ سب سے افضل ہے، اس کے ہر دن کا روزہ ایک سال کے روزوں کے برابر اور ہر رات کی عبادت شب قدر کے برابر ہے۔ (رواه الترمذی وابن ماجه بسند ضعيف عن ابي هريره )
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کوئی دن ایسا نہیں جس میں نیک عمل اللہ تعالی کے یہاں ان دس دنوں کے عمل سے زیادہ محبوب اور پسندیدہ (رواه الترمذي واحمد )
یوم عرفہ اور باری تعالی کا آسمان دنیا پر نازل ہونا
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (افضل الايام يوم عرفة )رواه حبان
ایک موقع پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ کے نزدیک عشرہ ذی الحجہ سے افضل کوئی دن نہیں ہے ایک آدمی نے سوال کیا یا رسول اللہ یہ دن افضل ہیں یا اتنے دن اللہ کے راستے میں جہاد کرنا ،تو آپ نے فرمایا اللہ کے راستے میں جہاد کرنے سے افضل ہے، اللہ کے نزدیک عرفہ کے دن سے زیادہ کوئی افضل دن نہیں اس دن اللہ تعالی آسمان دنیا پر نزول فرماتے ہیں، پس آسمان والوں کے سامنے زمین والوں پر فخر کرتے ہوئے فرماتے ہیں میرے ان بندوں کو دیکھو گرد و غبار سے آلود ہیں، دور دراز راستوں سے میری رحمت کی آس لیے ہوئے آتے ہیں، انہوں نے میرا عذاب نہیں دیکھا چنانچہ عرفہ کے دن سے زیادہ جہنم سے آزاد ہونے والا کوئی دن نہیں دیکھا گیا
‌ عرفہ کے دن کا روزہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عرفہ کے روزہ کے تعلق سے قوی امید ہے کہ اللہ تعالی ایک سال کے اگلے اور پچھلے گناہوں کو بخش دے۔

قربانی کی فضیلت اوراس کا ثواب
قربانی اسلام میں ایک مہتم بالشان عبادت ہے، اور یہ طریقہ تمام سابقہ آسمانی مذاہب میں رہا ہےء اگرچہ اس کی صورت و ہیئت آج سے مختلف رہی ہو, کیونکہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے (ولكل امة جعلنا منسكا ليذكر اسم الله علي ما رزقهم من بهيمة الأنعام) اور ہر امت کے لیے ہم نے ایک قربانی مقرر فرمائی تاکہ وہ اس بات پر اللہ کا نام یاد کریں کہ اس نے انہیں بے زبان چوپایوں سےرزق دیا
جب حضرت ابراہیم نے راہ خداوندی میں غایت درجہ کا خلوص وللہیت اور جذبہ فنا في اللہ کے ساتھ اپنے فرزند کی قربانی پیش کی تو اللہ تعالی کو بے انتہا پسند آیا اور( وتركنا عليه في الاخرين )کہہ کر متاخرین اور بعد میں آنے والوں کے لیے اسوہ اور نمونہ بنا دیا اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا ما هي الاضاحي يا رسول الله قال هي سنه ابيكم ابراهيم قال فما لنا فيها قال بكل شعره حسنه اللہ کے نبی سے پوچھا گیا کہ یہ قربانی کیا ہے اس کی حقیقت کیا ہے آپ نے فرمایا کہ یہ تمہارے باپ ابراہیم کی سنت ہے سائل نے پوچھا کہ ہمارے لیے اس میں کیا اجر وثواب ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر بال کے بدلے ایک نیکی یعنی قربانی کا عمل اللہ تعالی سے قریب ہونے کا اللہ کا تقرب حاصل کرنے کا ایک بہترین ذریعہ ہے، اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عید کے دن کوئی بندہ کوئی بھی عمل ایسا نہیں کرتا جو اللہ تعالی کو خون بہانے سے یعنی قربانی کرنے سے زیادہ محبوب ہو، قربانی قیامت کے دن اپنے سینگوں ،بالوں ،کھروں کے ساتھ آئے گی یعنی جیسا جانور قربان کیا ہے ویسا ہی قیامت کے دن ملے گا ،اس کا کوئی بےکار عضو بھی ضائع نہیں ہوگا ۔
سینگ بال اور کھر جو پھینک دیے جاتے ہیں وہ بھی ضائع نہیں ہوں گے ،قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ کے ہاں قبول ہو جاتی ہے یعنی اللہ تعالی اس پر ثواب عنایت فرماتے ہیں ۔
قربانی کے احکام
ائمہ ثلاثہ کے نزدیک قربانی سنت ہے ،اور حنفیہ کے نزدیک واجب، چونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مواظبت تامہ کے ساتھ قربانی کی ہے، اور صحابہ کرام کا بھی یہی معمول تھا ۔ جو شخص استطاعت اور مالی وسعت کے باوجود قربانی نہ کرے اس کے لیے سخت وعید ہے( من كان له سعة أن يضحي فلم يضحي فلا يقربن مصلانا )جو کوئی استطاعت اور صاحب حیثیت ہونے کے باوجود قربانی نہ کرے، ایسا شخص میری عید گاہ کے قریب بھی نہ آئے ،قربانی کرنے والے کو چاہیے کہ عمدہ موٹا اور فربہ جانور کی قربانی کرے۔
فقہاء کرام نے گوشت کی عمدگی کا سب سے پہلے لحاظ کیا ہے باقی چیزوں کو دوسرے نمبر پر رکھا ہے . تمام ائمہ متفق ہیں کہ قربانی کے جانور کا جوان ہونا ضروری ہے بچے کی قربانی درست نہیں اور جانور اس وقت جوان ہوتے ہیں جب اس کے دودھ کے دانت ٹوٹتے ہیں ،حدیثوں میں مسنہ جانور کی قربانی کا حکم دیا ہے مسنہ کے معنی بڑی عمر کاجانور، مراد جوان ہے، اور اونٹ پانچ سال میں گائے بھینس دو سال میں بھیڑ بکری ایک سال میں جوان ہوتے ہیں ،پس اس سے کم عمر کے جانور کی قربانی درست نہیں ہے البتہ بھیڑ دنبہ اگر چھ ماہ یا زیادہ عمر کا ہو اور اتنا فربہ ہو کہ اگر سال بھر کی بھیڑوں میں چھوڑ دیا جائے تو دور سے چھوٹا معلوم نہ ہو ،ایسے بھیڑ کی قربانی درست ہے ۔
بڑے جانور اونٹ گائے بیل بھینس وغیرہ میں سات افراد تک مساھمت کر سکتے ہیں اور بکری بھیڑ دنبہ وغیرہ میں ایک فرد کی طرف سے کن جانوروں کی قربانی جائز نہیں۔ عیب دار جانور کی قربانی جائز نہیں، جن عیوب کی بنا پر قربانی درست نہیں ہے مندرجہ ذیل ہیں :
وہ جانور جو اتنا لنگڑا ہو کہ فقط تین پاؤں سے چلتا ہو چوتھا پاؤں زمین پر رکھتا ہی نہ ہو ،یا چوتھا پاؤں رکھتا تو ہو مگر اس سے چل نہ سکتا ہو، تو اس کی قربانی درست نہیں، وہ واضح لنگڑا ہے، اور جو چلتے وقت لنگڑا پاؤں ٹیک کر چلتا ہو چلنے میں اس پیرسےسہارا لیتا ہو اگرچہ لنگڑا کر چلتا ہو اس کی قربانی درست ہے ۔ وہ جانور جو اندھا یا کانا ہو یعنی ایک آنکھ کی تہائی یا اس سے زیادہ روشنی چلی گئی ہو تو اس کی قربانی درست نہیں

ایسا بیمار جانور جو گھاس نہ کھاتا ہو اس کی قربانی بھی درست نہیں ۔ ایسا دبلا مریل جانور جس کی ہڈیوں میں گودا نہ رہا ہو اس کی علامت یہ ہے کہ وہ کھڑا نہ ہو پاتا ہو ۔ جس جانور کا سینگ بالکل جڑ سے ٹوٹ جائے اس کی قربانی درست نہیں ،البتہ پیدائشی سینگ نہ ہو یا سینگ کا خول اتر گیا ہو ،یا اصل سینگ کا کچھ حصہ ٹوٹ گیا ہو تو قربانی درست ہے ۔ قربانی کے جانور کی دم اور کان تہائی سے زیادہ کٹے نہ ہوں تو قربانی درست ہے ۔
عمل قربانی میں اگر جانور کے اندر کوئی عیب پیدا ہو جائے مثلا ‌جانور کو گراتے وقت پیر ٹوٹ جائے یا کچھ نقصان ہو جائے تو اس جانور کی قربانی درست ہے۔

دیگر تصانیف

امیدوں کا چراغ

مٹی کا چراغ

کہاں گئے وہ لوگ

تذکیر و تانیث

مجلس ادارت

team

سرپرست

حضرت الحاج مولانا کبیر الدین فاران صاحب مظاہری

team

مدیر مسئول

مولانا ارشد کبیر خاقان صاحب مظاہری

team

مدیر

مفتی خالد انور پورنوی صاحب قاسمی