ماہنامہ الفاران
ماہِ ذی الحجہ - ۱۴۴۶
قربانی: تسلیم وایثار کی معراج
محترم جناب حضرت مولانا کبیر الدین فاران صاحب مظاہری،ناظم اعلی؛ مدرسہ قادریہ مسروالا(ہماچل پردیش)صدر؛ابوالحسن علی ایجوکیشنل اینڈ ویلفیر ٹرسٹ(پورنیہ)بہار
قربانی محض ریت و رواج نہیں بلکہ تجدیدِ ایمان و عمل اور اللہ کے ما سوا کی محبت کو قربان کرنے کا نام ہے۔
پھر خدا کا دستور ہے کہ جو اس کا مقرب اور محبوب ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ کا معاملہ اسکے ساتھ وہ نہیں ہوتا جو عام انسانوں کے ساتھ ہے بلکہ اسکو آزمائش اور امتحان کی سخت سے سخت منزلوں سے گزرنا پڑتا ہے، قدم قدم پر جاں نثاری،تسلیم و رضااور خودسپردگی کا مظاہرہ کرنا پڑتا ہے۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ہم گروہِ انبیاء اپنے اپنے مراتب کے اعتبار سے امتحان کی صعوبتوں میں ڈالے جاتے ہیں۔
قربانی ئ عید الاضحی بھی ایک عاشقِ حقیقی اور تقرب الی اللہ کی آزمائش میں پورے اترنے اور دعوائے عاشقی میں کامل ہونے کی ایک باپ بیٹے کی داستان ہے، جس کو دنیا والد کی شکل میں حضرت ابراہیمؑ اور بیٹے کی صورت میں حضرت اسمٰعیل ؑکے نام سے جانتی ہے
اس وقت کا بادشاہ”نمرود“ اس علاقہ کا فرماں روا تھا جو صرف بادشاہ یا حکمراں ہی نہیں بلکہ خدائی کا دعویدارتھا جس کی عبادت ہر شخص پر ضروری تھی۔اس ماحول میں خدا نے اپنے برگزیدہ پیغمبر حضرت ابراہیم ؑ کو پیدا کیا تا کہ گمراہوں کو راہِ راست پر لائیں اور گناہوں کی دلدل میں پھنسے انسانوں کو صحیح سمت دکھائیں۔
تاریخ کا مشہور واقعہ ہے کہ جب حضرت ابراہیمؑ پل کر جوان ہوئے تو سب سے پہلے اس وقت کی سب سے بڑی طاقت،نمرود سے واسطہ پڑا۔ نمرود نے ہزار کوششیں کیں کہ ابراہیم ؑ بھی اوروں کی طرح مجھے خدا کہے اور میری عبادت کیلئے سر جھکائے مگر حضرت ابراہیم ؑ نے نمرود کی باطل خدائی نہ صرف یہ کہ تسلیم کرنے سے انکار کیا بلکہ آج کی زبان میں اس کے خلاف علمِ بغاوت بھی بلند کردیا۔
حضرت ابراہیم ؑنے نمرود سے کہا! اگر تمہارا دعوئے خدائی درست ہے تو میرا خدا وہ ہے جو ہر روز سورج کو مشرق سے طلوع کرتا ہے اگر تیری خدائی کا دعویٰ واقعی سچّا ہے تو سورج مغرب کی طرف سے اُگا کردکھا۔(سورہ بقرہ)
یہ وقت تھا جب بڑے بڑے سورما نمرود کی باطل خدائی کے سامنے سر نگوں ہو کر اس کی خدائی پر مہرِ تصدیق ثبت کر چکے تھے،ایسی وقت میں حضرت ابراہیم ؑ نے حق کی آواز بلند کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی جس کے نتیجہ میں مادّی طاقت کے نشہ میں چور”نمرود“ نے آپ کو دہکتی آگ میں ڈالنے کا حکم دے دیا کہا حرقوہ وانصرواٰلھتکم لیکن آپ کے تیور میں کوئی شکن نہ آیا آپ نے حق کی خاطرشعلوں میں کودنا پسند کیا لیکن باطل کے سامنے سر نہ جھکایا۔
عقل ہے،محوِ،تماشا ئے لبِ بام ابھی
یہیں آکر سچے عاشق کی قربانیوں اور آزمائشوں کا سلسلہ ختم نہیں ہوتا بلکہ جب بڑھاپے کی عمر پہنچی اور ۶۸ سال کے ہو گئے اس وقت تک آپ کو کوئی اولاد نہ تھی خواہش تھی کہ اس پیغامِ حق کا کوئی امین اور رکھوالا ہو۔جس ملت کی بنیاد آپ کے ہاتھوں رکھی گئی تھی وہ اس کو چلاسکے اور باقی رکھ سکے۔
بڑی آرزؤں، تمناؤں اور دعاؤں کے بعد اللہ تعالیٰ نے ایک خوب صورت اور عمدہ سیرت کا بچہّ عطا فرمایا جس کا نام ”اسمٰعیل“ رکھا امیدوں کا یہ مرکز،بڑھاپے کا یہ سہارا، جب جوان ہوا تو امتحان کی ایک منزل آئی، عشق و محبت کی آزمائش ایسی آزمائش جس کا نظارہ چشم فلک نے پہلے کبھی نہ دیکھا تھا۔
خدا کی طرف سے خواب میں حکم ملتا ہے ابراہیمؑ! اپنے آخری سہارے سے بھی دستبردار ہو جاؤ میری راہ میں اپنی چہیتی اولاد کو قربان کردو۔
آپ نے تعمیلِ حکم میں ذبح کرنے کے لئے اسمٰعیل ؑکو پیشانی کے بل لٹا دیا غیب سے ندا آئی، اے ابراہیمؑ! تونے اپنے خواب کو سچا کر دکھایا ہم اسی طرح مخلصوں کو بدلہ دیتے ہیں۔(الصٰفت آیت ۰۰۱تا ۷۰۱)
کس فخر سے،کرتا ہے ترا تذکرہ قرآں
چنانچہ اللہ تعالیٰ کو آپ کی عظیم قربانی اور وفا شعار ی اس قدر پسند آئی کہ رہتی دنیا تک باپ کو ”خلیل اللہ“ اور بیٹے کو ذبیح اللہ کے پیارے لقب سے زندہئ و جاوید بنا دیا اور ہر سال سنّتِ ابراہیمی کو بصورتِ قربانی واجب قرار دے دیا۔
ایثار و قربانی کا یہ پرو صرف عید الاضحی کے دن تک کے لئے ہی نہیں بلکہ سراپا زندگی ہی قربانی کا ایک نمونہ ہے حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسمٰعیلؑ کی پوری زندگی اس بات کا سبق ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بندوں کی زندگی آزمائشوں سے پُر اور ہمہ تن قربانی ہے۔
قربانی محض ریت و رواج نہیں بلکہ تجدیدِ ایمان و عمل اور اللہ کے ما سوا کی محبت کو قربان کرنے کا نام ہے۔
سنتِ ابراہیمی کی تعمیل میں شجاعت و مردانگی، حق پرستی، حق آگہی کے جلوے اور کمالِ عبدیت کے عکس نظر آتے ہیں، اپنے لاڈلے کی گردن پر اپنے ہی ہاتھوں چھری چلائی ہے اور بیٹے نے رب کے حکم کی تعمیل اور والد کے اشارے پر سر تسلیم خم کیا، اس میں گویا تعلیم ہے کہ آپ اس وقت تک مؤحد نہیں ہو سکتے جب تک کہ اللہ کی راہ میں اپنی جان و مال قربان نہ کردیں۔
بھائی چارگی کا یہ تہوارایک خدا کی عبدیت اور حکمرانی انسانیت کا احترام، جزبہئ اخوت، بدلہ،انتقام سے نفرت، بڑائی سے پاک خدا پر بھروسہ،حق کی نصرت و حمایت،باطل کے خلاف صدا، برابری اور مساوات، کردار سازی، پاک بازی جان لیواؤں کے ساتھ حسن سلوک اور ملک میں صالح نظام اور درست معاشرہ کے لئے قربانی کا جذبہ لیکر آتا ہے۔ بطور خاص یاد رکھئے! جانور کی قربانی حضرت ابراہیم ؑکی سنت ہے تو وہیں نفرتوں،کبر،بڑائی اور خود نمائی کو ذبح کرنا سرورکونین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک سنت ہے۔
نفس کی قربانیوں کا، عید الاضحی نام ہے