ماہنامہ الفاران
ماہِ شوال المکرم - ۱۴۴۶
رسم ورواج کو بڑھاوا دیتا آج کا مسلمان !!
عالی جناب جاوید اختر بھارتی صاحب، سابق سکریٹری: یو پی بنکر یونین،محمدآباد گوہنہ ،ضلع مئو، یو پی
آج پیسے کا بول بالا ہے ، پیسہ والوں کا بول بالا ہے ، دین کی بات مذہب کی بات ، شریعت کی بات بس لوگوں کے ہونٹوں تک رہتی ہے ،، سب لوگ اپنے من کی روایت چاہتے ہیں اور جب نہیں ملتی ہے تو خود ہی روایت قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں پھر ان کا چرچا ہوتا ہے اور خوب تبصرہ ہوتا ہے کہ واہ کیا بات ہے کیا کام کیا،، ارے وہ کام کیا جو اب تک کسی نے نہیں کیا،، مطلب یہ ہے کہ اب دنیا کے لوگ نام و نمود کے پیچھے بھاگ رہے ہیں ، شہرت کے پیچھے بھاگ رہے ہیں ، ایک طرف ہم اصلاح معاشرہ کا پروگرام کراتے ہیں تو دوسری طرف معاشرے کے لوگوں کے لئے زحمت و مصیبت کھڑی کرتے ہیں، ایک طرف بارات کو غلط کہتے ہیں ( اور ہے بھی غلط) مگر دوسری طرف کوئی بارات میں شامل ہونے کے لئے کہتا ہے تو دل گارڈن گارڈن ہوجاتاہے ، ایک طرف جہیز کو لعنت کہا جاتا ہے تو دوسری طرف اس لعنت کو ٹرکوں پر لاد کر لے جایا جاتاہے ، ایک طرف لڑکی کے باپ کے وہاں ولیمہ و طعام نہ کرنے کا ذکر کیا جاتا ہے تو دوسری طرف لڑکے کے ہمراہ لڑکی کے باپ کے دروازے پر دو دو چار چار سو آدمیوں کو لے کر جانے کے لئے ضد بھی کیا جاتا ہے ۔
بعض مرتبہ طے تمام کے دوران تلخیاں اس قدر بڑھ جاتی ہیں کہ رشتہ داری قائم ہونے سے پہلے ہی تعلقات تک منقطع ہوجاتاہے ،، ایک طرف کہا جاتا ہے کہ رسم ورواج میں اس قدر اضافہ ہوگیاہے کہ جس کے پاس چار چھہ بیٹیاں ہیں تو زبانی طور پر رحمت اور ماحول و کمر توڑ مہنگائی کے نتیجے میں زحمت ہی سمجھا جاتا ہے ،، کیوں نہیں آواز اٹھائی جاتی ہے کہ بارات و جہیز بند ہونا چاہئے ، کیوں نہیں آواز اٹھائی جاتی ہے کہ لڑکی کا باپ داماد کو نقدی رقم نہیں دے گا ، کیوں نہیں آواز اٹھائی جاتی ہے کہ لڑکی کے باپ کے گھر دیگ پتیلہ ہانڈی نہیں چڑھے گی ولیمہ و طعام نہیں ہوگا ،، اگر یہ آواز نہیں اٹھائی جاسکتی ہے تو پھر ہر سال ہزاروں کی تعداد میں جبہ و دستار سجانے کا کیا مطلب،، اور کیا فائدہ ہے ،، عجیب حال ہے علماء کرام سے بڑے گہرے تعلقات رکھے جاتے ہیں ، قوم و ملّت کے نام پر بنی ہوئی تنظیموں کو چندے دئیے جاتے ہیں ، ان کی اپیلوں پر بھیڑ جمع کی جاتی ہے اور جب بیٹے بیٹیوں کی شادیاں کی جاتی ہیں تو شرعی قوانین و ضوابط اور احکام خداوندی کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں شائد اسی لئے بڑی تنظیموں کو چندے کی رقم دی جاتی ہے کہ اس کے ذمہ داران اور علماء کرام کی زبانیں بند رہیں اور ہم اپنی دولت و فراوانی کے زعم و نشے میں چور ہوکر جو چاہے کریں،، اور آج مسلم معاشرے میں ایسا ہی ہو رہا ہے ،، لڑکا کالا ہی کیوں نہ ہو اسے بیوی برق دم گوری انگاری چاہئے ، ایک دم نئی عمر کی چاہئے۔
نتیجہ یہ ہے کہ جس لڑکی کا رنگ سانولا ہے تو اس لڑکی کے باپ کو دن رات پسینہ چھوٹتا رہتاہے،، بے شمار لڑکیاں آج بیٹھی ہوئی ہیں صرف اس وجہ سے کہ رنگ سانولا ہے،، اور جو عورتیں رشتہ دیکھنے جاتی ہیں وہ بھی بے غیرت ہوتی ہیں ان کا ضمیر مردہ ہوچکا ہے انہیں اس بات کا بھی احساس نہیں رہتاہے کہ ہم حوا کی بیٹیاں ہیں بلکہ ان کا طرز عمل یہ ہوتاہے کہ وہ لڑکی دیکھنے نہیں بلکہ نمائش میں یا کسی مول میں سامان کی خریداری کرنے جاتی ہیں ناک ٹیڑھی ہے ، نظر ترچھی ہے ، آنکھ چھوٹی ہے ، پیشانی خوب ٹھیک نہیں ہے، دانت بڑے بڑے ہیں ، ہونٹ موٹے موٹے ہیں یہ حال ہے آج کی عورتوں کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ سانولی رنگ کی لڑکی مایوس ہوجاتی ہے اس کا باپ بھی مایوس ہوجاتاہے اور خون کے آنسو روتا ہے اب اسی کے دل سے پوچھنے لائق ہے کہ بیٹی رحمت ہوتی ہے یا زحمت ہوتی ہے ،، ایک ساتھ نو نو بہنوں نے خودکشی کی ، انگنت لڑکیاں طوائف خانوں میں فروخت کی گئیں اور آج یہ حال ہے کہ غیر مسلموں کے ساتھ شادیاں کررہی ہیں آخر کب آنکھ کھلے گی ،، ملت کی بیٹیوں کے قدم بہکنے لگے کون ذمہ دار ہے ؟ لائن لگاکر آج مسلم لڑکیاں مرتد ہورہی ہیں کون ذمہ دار ہے ؟ ہر لڑکی کے باپ کے پاس تو اتنی دولت نہیں ہے کہ وہ اپنی بیٹی کو دولت کی ڈولی میں وداع کرے پھر اس کی بیٹی سسرال جاکر کپڑا ایسے بانٹے کہ ہر کپڑے کے جوڑے کے ساتھ سونے کا زیور بھی بانٹے ،، اور نہیں تو جلسہ کرائیں گے مولانا سے تقریر کرائیں گے کہ نکاح اتنا آسان کرو کہ زنا مشکل ہو جائے اور دولت کا نشہ ، چودھراہٹ ایسی ، سوچ اور نظریہ ایسا کہ کسی کا دل ٹوٹتا ہے تو ٹوٹ جائے ، کسی کے لئے پریشانی بڑھتی ہے تو بڑھ جائے لیکن ہماری شادی مہنگی سے مہنگی ہوگی بھلے اوروں کے لئے نکاح مشکل ہو جائے ،،
یہ حال ہے آجکل مسلمانوں کے شادی بیاہ کا ،، جتنا چاہے دولت لٹا لو جتنی چاہے فضول خرچی کرلو لیکن ایک باپ کے سامنے جب قاضی لڑکی سے نکاح کی اجازت مانگتا ہے تو اجازت دیتے ہوئے لڑکی کا پورا وجود ہل جاتاہے اور وہ لرزہ براندام ہوجاتی ہے کہ اس گھر میں پیدا ہوئی ، ماں نے مجھے دودھ پلایا اور ماں باپ دونوں نے مل کر مجھے پال پوس کر بڑا کیا میری ہر خواہش کو پورا کیا لیکن آج سے ولدیت ختم ،، زوجیت کا سلسلہ شروع اب کہیں نام لکھا جائے گا تو فلاں بنت فلاں نہیں بلکہ فلاں زوجہ فلاں لکھا جائے گا ،، جس گھر میں میں پیدا ہوئی اسی گھر میں اب میں مہمان بن کر آؤں گی ،، آج سے میری وہ زندگی شروع ہوگئی کہ کبھی اتفاقاً میرا باپ اور میرا شوہر دونوں ایک ساتھ پانی مانگ دیں تو مجھے باپ کو نہیں پہلے شوہر کی خدمت میں پانی پیش کرنا ہوگا ،، اجازت کے وقت اور نکاح کے وقت، ایجاب وقبول کے وقت باپ کے پیروں تلے زمین کھسک جاتی ہے اس کا دل دھڑک دھڑک کر کہتا ہے کہ ہارے قسمت ، پالے کوئی اور لے کوئی قسمت ،، صبر اس بات پر ہوتا ہے کہ یہی قانون قدرت ہے ،، یاد رکھنا چاہئے کہ جس کسی کی ذات سے جس کسی کا دل ٹوٹے گا ، دل دکھے گا ، زندگی تباہ ہوگی تو قدرت کے وہاں دیر ہے اندھیر نہیں اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا ،، ہلدی پتائی، پیلے رنگ کے کپڑے کی پہنائی ، ٹوپی کی رکھوائی، بارات کی اگوانی و اگوائی اور وداعی، جوتا کی چرائی ، سہرا کی پڑھائی، نوشہ کی انگنائی، پیسوں کی لٹائی و اٹھائی اور عورتوں کے میلے کی لگوائی وغیرہ وغیرہ ،, شریعت سے اس کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔
،، عجیب حال ہے ایک مولوی کہتا ہے کہ بارات آئے گی تو میں نکاح نہیں پڑھاؤں گا تو اسی کے ساتھ بلکہ اسی کے ادارے کا دوسرا ذمہ دار جھولا رجسٹر لے کر تیار رہتاہے کہ میں پڑھاؤں گا ، آج بہت سے مولوی ایسے بھی ہیں جو بارات کے لئے منع کہاں سے کریں گے بلکہ وہ خود انجمن بنا کر بارات میں سہرا پڑھتے ہیں بدلے میں انہیں پیسہ ملتا ہے ،، لاک ڈاؤن کے دور میں سب کو شریعت یاد آرہی تھی ، سب کو سنت یاد آرہی تھی ، سب کے اندر فضول خرچیوں سے رکنے کا جذبہ نظر آرہا تھا جیسے ہی لاک ڈاؤن ختم ہوا تو سنت بس نکاح کے وقت تک کے لئے محدود ہوگئی اور شادی کارڈ پر نکاح مسنون کی شکل میں تحریر تک محدود ہوگئی ،، اس سے تو ایسا ہی لگتا ہے کہ مسلمانوں کو راہ راست پر آنے اور لانے کے لئے سرکاری ڈنڈے کی ہی ضرورت ہے ،، بڑھتی ہوئی مہنگائی ، فضولیات ، رسم ورواج اور لڑکیوں کی چھنٹائی کا انجام برا ہی ہوگا لڑکیاں مایوسیوں کا شکار ہوں گی پھر باپ کی پگڑی اچھالی اور روندی جائے گی اور خاندان کی رسوائی و بے عزتی ہوگی اور یہ سب سلسلہ شروع ہوچکا ہے اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر علاقے ہر بستی میں کمیٹی تشکیل دی جائے اور یہ تجویز رکھی جائے کہ رشتہ داری پہلے خود اپنے علاقے میں قائم کی جائے ، لڑکے اور لڑکیوں کو بہت زیادہ چھانٹا نہ جائے ، بہت زیادہ کمی نہ نکالا جائے ، امیر و غریب کا بہت زیادہ خیال نہ رکھا جائے ، بارات کو فوراً ختم کیا جائے اور جہیز کا مطالبہ نہ کیا جائے اور ایسا نہ کرنے کی صورت میں بڑے بڑے جلسے ، بڑے بڑے اسٹیج ، اصلاح معاشرہ کانفرنس یہ سب بے سود ہیں، بیکار ہیں ۔
بعض مرتبہ طے تمام کے دوران تلخیاں اس قدر بڑھ جاتی ہیں کہ رشتہ داری قائم ہونے سے پہلے ہی تعلقات تک منقطع ہوجاتاہے ،، ایک طرف کہا جاتا ہے کہ رسم ورواج میں اس قدر اضافہ ہوگیاہے کہ جس کے پاس چار چھہ بیٹیاں ہیں تو زبانی طور پر رحمت اور ماحول و کمر توڑ مہنگائی کے نتیجے میں زحمت ہی سمجھا جاتا ہے ،، کیوں نہیں آواز اٹھائی جاتی ہے کہ بارات و جہیز بند ہونا چاہئے ، کیوں نہیں آواز اٹھائی جاتی ہے کہ لڑکی کا باپ داماد کو نقدی رقم نہیں دے گا ، کیوں نہیں آواز اٹھائی جاتی ہے کہ لڑکی کے باپ کے گھر دیگ پتیلہ ہانڈی نہیں چڑھے گی ولیمہ و طعام نہیں ہوگا ،، اگر یہ آواز نہیں اٹھائی جاسکتی ہے تو پھر ہر سال ہزاروں کی تعداد میں جبہ و دستار سجانے کا کیا مطلب،، اور کیا فائدہ ہے ،، عجیب حال ہے علماء کرام سے بڑے گہرے تعلقات رکھے جاتے ہیں ، قوم و ملّت کے نام پر بنی ہوئی تنظیموں کو چندے دئیے جاتے ہیں ، ان کی اپیلوں پر بھیڑ جمع کی جاتی ہے اور جب بیٹے بیٹیوں کی شادیاں کی جاتی ہیں تو شرعی قوانین و ضوابط اور احکام خداوندی کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں شائد اسی لئے بڑی تنظیموں کو چندے کی رقم دی جاتی ہے کہ اس کے ذمہ داران اور علماء کرام کی زبانیں بند رہیں اور ہم اپنی دولت و فراوانی کے زعم و نشے میں چور ہوکر جو چاہے کریں،، اور آج مسلم معاشرے میں ایسا ہی ہو رہا ہے ،، لڑکا کالا ہی کیوں نہ ہو اسے بیوی برق دم گوری انگاری چاہئے ، ایک دم نئی عمر کی چاہئے۔
نتیجہ یہ ہے کہ جس لڑکی کا رنگ سانولا ہے تو اس لڑکی کے باپ کو دن رات پسینہ چھوٹتا رہتاہے،، بے شمار لڑکیاں آج بیٹھی ہوئی ہیں صرف اس وجہ سے کہ رنگ سانولا ہے،، اور جو عورتیں رشتہ دیکھنے جاتی ہیں وہ بھی بے غیرت ہوتی ہیں ان کا ضمیر مردہ ہوچکا ہے انہیں اس بات کا بھی احساس نہیں رہتاہے کہ ہم حوا کی بیٹیاں ہیں بلکہ ان کا طرز عمل یہ ہوتاہے کہ وہ لڑکی دیکھنے نہیں بلکہ نمائش میں یا کسی مول میں سامان کی خریداری کرنے جاتی ہیں ناک ٹیڑھی ہے ، نظر ترچھی ہے ، آنکھ چھوٹی ہے ، پیشانی خوب ٹھیک نہیں ہے، دانت بڑے بڑے ہیں ، ہونٹ موٹے موٹے ہیں یہ حال ہے آج کی عورتوں کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ سانولی رنگ کی لڑکی مایوس ہوجاتی ہے اس کا باپ بھی مایوس ہوجاتاہے اور خون کے آنسو روتا ہے اب اسی کے دل سے پوچھنے لائق ہے کہ بیٹی رحمت ہوتی ہے یا زحمت ہوتی ہے ،، ایک ساتھ نو نو بہنوں نے خودکشی کی ، انگنت لڑکیاں طوائف خانوں میں فروخت کی گئیں اور آج یہ حال ہے کہ غیر مسلموں کے ساتھ شادیاں کررہی ہیں آخر کب آنکھ کھلے گی ،، ملت کی بیٹیوں کے قدم بہکنے لگے کون ذمہ دار ہے ؟ لائن لگاکر آج مسلم لڑکیاں مرتد ہورہی ہیں کون ذمہ دار ہے ؟ ہر لڑکی کے باپ کے پاس تو اتنی دولت نہیں ہے کہ وہ اپنی بیٹی کو دولت کی ڈولی میں وداع کرے پھر اس کی بیٹی سسرال جاکر کپڑا ایسے بانٹے کہ ہر کپڑے کے جوڑے کے ساتھ سونے کا زیور بھی بانٹے ،، اور نہیں تو جلسہ کرائیں گے مولانا سے تقریر کرائیں گے کہ نکاح اتنا آسان کرو کہ زنا مشکل ہو جائے اور دولت کا نشہ ، چودھراہٹ ایسی ، سوچ اور نظریہ ایسا کہ کسی کا دل ٹوٹتا ہے تو ٹوٹ جائے ، کسی کے لئے پریشانی بڑھتی ہے تو بڑھ جائے لیکن ہماری شادی مہنگی سے مہنگی ہوگی بھلے اوروں کے لئے نکاح مشکل ہو جائے ،،
یہ حال ہے آجکل مسلمانوں کے شادی بیاہ کا ،، جتنا چاہے دولت لٹا لو جتنی چاہے فضول خرچی کرلو لیکن ایک باپ کے سامنے جب قاضی لڑکی سے نکاح کی اجازت مانگتا ہے تو اجازت دیتے ہوئے لڑکی کا پورا وجود ہل جاتاہے اور وہ لرزہ براندام ہوجاتی ہے کہ اس گھر میں پیدا ہوئی ، ماں نے مجھے دودھ پلایا اور ماں باپ دونوں نے مل کر مجھے پال پوس کر بڑا کیا میری ہر خواہش کو پورا کیا لیکن آج سے ولدیت ختم ،، زوجیت کا سلسلہ شروع اب کہیں نام لکھا جائے گا تو فلاں بنت فلاں نہیں بلکہ فلاں زوجہ فلاں لکھا جائے گا ،، جس گھر میں میں پیدا ہوئی اسی گھر میں اب میں مہمان بن کر آؤں گی ،، آج سے میری وہ زندگی شروع ہوگئی کہ کبھی اتفاقاً میرا باپ اور میرا شوہر دونوں ایک ساتھ پانی مانگ دیں تو مجھے باپ کو نہیں پہلے شوہر کی خدمت میں پانی پیش کرنا ہوگا ،، اجازت کے وقت اور نکاح کے وقت، ایجاب وقبول کے وقت باپ کے پیروں تلے زمین کھسک جاتی ہے اس کا دل دھڑک دھڑک کر کہتا ہے کہ ہارے قسمت ، پالے کوئی اور لے کوئی قسمت ،، صبر اس بات پر ہوتا ہے کہ یہی قانون قدرت ہے ،، یاد رکھنا چاہئے کہ جس کسی کی ذات سے جس کسی کا دل ٹوٹے گا ، دل دکھے گا ، زندگی تباہ ہوگی تو قدرت کے وہاں دیر ہے اندھیر نہیں اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا ،، ہلدی پتائی، پیلے رنگ کے کپڑے کی پہنائی ، ٹوپی کی رکھوائی، بارات کی اگوانی و اگوائی اور وداعی، جوتا کی چرائی ، سہرا کی پڑھائی، نوشہ کی انگنائی، پیسوں کی لٹائی و اٹھائی اور عورتوں کے میلے کی لگوائی وغیرہ وغیرہ ،, شریعت سے اس کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔
،، عجیب حال ہے ایک مولوی کہتا ہے کہ بارات آئے گی تو میں نکاح نہیں پڑھاؤں گا تو اسی کے ساتھ بلکہ اسی کے ادارے کا دوسرا ذمہ دار جھولا رجسٹر لے کر تیار رہتاہے کہ میں پڑھاؤں گا ، آج بہت سے مولوی ایسے بھی ہیں جو بارات کے لئے منع کہاں سے کریں گے بلکہ وہ خود انجمن بنا کر بارات میں سہرا پڑھتے ہیں بدلے میں انہیں پیسہ ملتا ہے ،، لاک ڈاؤن کے دور میں سب کو شریعت یاد آرہی تھی ، سب کو سنت یاد آرہی تھی ، سب کے اندر فضول خرچیوں سے رکنے کا جذبہ نظر آرہا تھا جیسے ہی لاک ڈاؤن ختم ہوا تو سنت بس نکاح کے وقت تک کے لئے محدود ہوگئی اور شادی کارڈ پر نکاح مسنون کی شکل میں تحریر تک محدود ہوگئی ،، اس سے تو ایسا ہی لگتا ہے کہ مسلمانوں کو راہ راست پر آنے اور لانے کے لئے سرکاری ڈنڈے کی ہی ضرورت ہے ،، بڑھتی ہوئی مہنگائی ، فضولیات ، رسم ورواج اور لڑکیوں کی چھنٹائی کا انجام برا ہی ہوگا لڑکیاں مایوسیوں کا شکار ہوں گی پھر باپ کی پگڑی اچھالی اور روندی جائے گی اور خاندان کی رسوائی و بے عزتی ہوگی اور یہ سب سلسلہ شروع ہوچکا ہے اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر علاقے ہر بستی میں کمیٹی تشکیل دی جائے اور یہ تجویز رکھی جائے کہ رشتہ داری پہلے خود اپنے علاقے میں قائم کی جائے ، لڑکے اور لڑکیوں کو بہت زیادہ چھانٹا نہ جائے ، بہت زیادہ کمی نہ نکالا جائے ، امیر و غریب کا بہت زیادہ خیال نہ رکھا جائے ، بارات کو فوراً ختم کیا جائے اور جہیز کا مطالبہ نہ کیا جائے اور ایسا نہ کرنے کی صورت میں بڑے بڑے جلسے ، بڑے بڑے اسٹیج ، اصلاح معاشرہ کانفرنس یہ سب بے سود ہیں، بیکار ہیں ۔