ماہنامہ الفاران
ماہِ شوال المکرم - ۱۴۴۶
غیبت ایک سنگین گناہ۔قرآن و حدیث کی روشنی میں تفصیلی جائزہ
جناب مولانا ارشد کبیر خاقان صاحب مظاہری، ناظم:مدرسہ نورالمعارف،مولانا علی میاں نگر، دیا گنج،ضلع ارریہ، و جنرل سکریٹری:ابوالحسن علی ایجوکیشنل اینڈ ویلفیر ٹرسٹ
اسلام ایک ایسا مکمل ضابطہئ حیات ہے جو انسان کو اخلاقی، روحانی، سماجی اور معاشرتی اقدار کا درس دیتا ہے۔ اس میں ہر اچھے کام کی ترغیب دی گئی ہے اور برے کاموں سے منع کیا گیا ہے۔ انہی برے کاموں میں سے ایک“غیبت”ہے، جو معاشرے میں بگاڑ پیدا کرتی ہے، انسانی تعلقات کو نقصان پہنچاتی ہے، بے چینی اور نفرت کے ساتھ تفرقے کا باعث بنتی ہے، یہ نہ صرف اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے بلکہ اسناسی اخلاقیات کے بھی منافی ہے۔ غیبت کو قرآن و حدیث میں ایک گھناؤناگناہ اور انتہائی مذموم عمل قرار دیا گیا اور اس سے بچنے کی سخت تاکید کی گئی ہے۔ اس مضمون میں ہم غیبت کی تعریف، اس کی مذمت، اس کے اثرات اور اس سے بچنے کے طریقوں پرقرآن و سنت کی روشنی میں تفصیل سے بات کریں گے۔
غیبت کی تعریف اور مذمت قرآن کی روشنی میں:
غیبت کا لفظی معنی ہے ''پیٹھ پیچھے بات کرنا''۔ شرعی اصطلاح میں غیبت کی تعریف یہ ہے کہ کسی شخص کی غیر موجودگی میں اس کی ایسی بات کی جائے جو اسے ناگوار گزرے، خواہ وہ بات اس کے بارے میں سچی ہو یا جھوٹی۔ قرآن پاک میں غیبت کی تعریف ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے: ''وَلاَ یَغْتَبْ بَعْضُکُمْ بَعْضًا أَیُحِبُّ أَحَدُکُمْ أَنْ یَأْکُلَ لَحْمَ أَخِیہِ مَیْتًا فَکَرِہْتُمُوہُ'' (الحجرات: 12) ترجمہ: ''اور تم میں سے کوئی کسی کی غیبت نہ کرے۔ کیا تم میں سے کوئی یہ پسند کرے گا کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے؟ تم تو اسے ناگوار گزرو گے۔''اس آیت میں غیبت کو اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانے کے مترادف قرار دیا گیا ہے، جو اس عمل کی شدید مذمت کو ظاہر کرتا ہے۔
غیبت کا مفہوم:
کسی کی غیر موجودگی میں اُس کی برائی بیان کرنا یا اُس کی عیب جوئی کرنا ہے، چاہے وہ عیب سچ ہو یا جھوٹ۔ غیبت کرنے سے فرد کے کردار اور اخلاق پر منفی اثرات پڑتے ہیں اور یہ معاشرتی تعلقات کو بھی نقصان پہنچاتی ہے۔ غیبت کی نوعیت اور اس کے اثرات کو سمجھنا اسلامی تعلیمات کے مطابق انتہائی اہم ہے تاکہ ہم اس گناہ سے بچ سکیں۔
حدیث میں غیبت کی مذمت:
احادیثِ نبویہ میں بھی غیبت کو شدید گناہ قرار دیا گیا ہے اور اس سے بچنے کی تاکید کی گئی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے غیبت کی حقیقت کو واضح کرتے ہوئے فرمایا:”کیا تم جانتے ہو کہ غیبت کیا ہے؟“صحابہ نے عرض کیا:”اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔”آپ ﷺ نے فرمایا:“کسی کے پیٹھ پیچھے ایسی بات کرنا جو اسے ناگوار گزرے۔”صحابہ نے پوچھا:“اگر وہ بات حقیقت میں اس میں موجود ہو تب بھی؟”آپ ﷺ نے فرمایا:“اگر وہ بات اس میں موجود ہے تو یہی غیبت ہے اور اگر وہ بات اس میں نہیں ہے تو یہ بہتان (تہمت) ہے۔“(مسلم، حدیث: 2589)یہ حدیث واضح کرتی ہے اور اس بات پر زور دیتی ہے کہ کسی شخص کے غیر موجودگی میں اس کے عیبوں کا ذکر کرنا، چاہے وہ سچ ہی کیوں نہ ہو، غیبت کے زمرے میں آتا ہے اور اگر وہ بات جھوٹ ہو تو یہ بہتان اور زیادہ بڑا گناہ بن جاتا ہے۔
غیبت کے معاشرتی اور اخلاقی اثرات:
غیبت کا عمل معاشرے میں بے شمار منفی اثرات مرتب کرتا ہے، یہ صرف فرد کے لیے نقصان دہ نہیں ہوتی، بلکہ یہ پورے معاشرے کی فلاح و بہبود پر بھی اثر انداز ہوکرمعاشرہ کے امن و سکون کو برباد کر دیتی ہے،جیسے:(1)اعتماد کا ختم ہونا: جب لوگ یہ جان لیں کہ ان کی غیر موجودگی میں ان کے بارے میں بات کی جاتی ہے، تو وہ دوسروں پر سے اعتماد کھو دیتے ہیں۔(2) رشتوں کی خرابی: غیبت کی وجہ سے خاندانی اور سماجی رشتے خراب ہو جاتے ہیں۔ لوگ ایک دوسرے سے دور ہو جاتے ہیں۔ (3)نفرت اور کدورت: غیبت سے لوگوں کے دلوں میں ایک دوسرے کے لیے نفرت پیدا ہوتی ہے، جو معاشرے میں تفرقے کا باعث بنتی ہے۔ (4)اخلاقی پستی: غیبت کرنے والا شخص اخلاقی طور پر گر جاتا ہے۔ اس کی شخصیت میں منافقت اور بے حسی پیدا ہو جاتی ہے۔ غیبت کرنے سے معاشرتی تعلقات میں دراڑیں پڑتی ہیں، نفرت اور کدورت بڑھتی ہیں اور لوگوں میں اعتماد کی کمی واقع ہوتی ہے۔ غیبت کی عادت رکھنے والے افراد عموماً دوسروں کی عزت نفس کو مجروح کرتے ہیں اور معاشرتی ہم آہنگی کو خراب کرتے ہیں۔غیبت کا ایک اور اثر یہ ہوتا ہے کہ اس سے دلوں میں بغض اور حسد بڑھتا ہے۔ جب ہم کسی کی برائی بیان کرتے ہیں، تو ہمارے دل میں اُس شخص کے لیے نفرت اور ناپسندیدگی بڑھتی ہے، جو کہ اسلام میں ممنوع ہے۔
غیبت کی چند اہم صورتیں درج ذیل ہیں:
(1) زبان سے غیبت: یہ سب سے عام صورت ہے، جس میں ہم کسی کے بارے میں منفی باتیں زبان سے کرتے ہیں۔ (2) تحریر میں غیبت: آج کل سوشل میڈیا اور دیگر فورمز پر کسی کی برائی یا عیب بیان کرنا بھی غیبت میں شمار ہوتا ہے۔ (3) عکاسی یا تصویر کے ذریعے غیبت: اگر کسی کی تصویر یا ویڈیو کو کسی کے عیب کی نشاندہی کے لیے استعمال کیا جائے، تو یہ بھی غیبت کے مترادف ہے۔
غیبت کے نقصانات:
غیبت نہ صرف دینی طور پر ایک گناہ ہے بلکہ اس کے سماجی اور نفسیاتی نقصانات بھی بہت زیادہ ہیں۔
دینی نقصان:
(1) غیبت کرنے والا اللہ کی نافرمانی کرتا ہے۔(2) اس کا نیک اعمال کا ذخیرہ غیبت کے شکار شخص کو منتقل ہو جاتا ہے۔(3) قیامت کے دن غیبت کرنے والے کو سخت حساب دینا ہوگا۔
سماجی نقصان:
(1) غیبت لوگوں کے درمیان بدگمانی اور نفرت پیدا کرتی ہے۔(2) اس سے رشتہ داروں، دوستوں اور ساتھیوں کے درمیان تعلقات خراب ہو جاتے ہیں۔ (3) معاشرتی انتشار اور بدامنی کا سبب بنتی ہے۔
نفسیاتی نقصان:
(1) غیبت کرنے والا اندرونی طور پر منفی جذبات میں مبتلا رہتا ہے۔(2) اس کا ذہن دوسروں کی برائیاں تلاش کرنے میں مصروف رہتا ہے، جس سے ذہنی سکون ختم ہو جاتا ہے۔(3) وہ خود بھی لوگوں کی نظر میں گر جاتا ہے، کیونکہ جو دوسروں کی برائی کرتا ہے، لوگ اس پر اعتماد نہیں کرتے۔
غیبت سے بچنے کے طریقے:
غیبت سے بچنا ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے۔ اس کے لیے درج ذیل اقدامات کیے جا سکتے ہیں:
سب سے اہم طریقہ یہ ہے کہ ہم اللہ سے ڈر کر اپنی زبان اور عمل پر قابو پائیں۔اس لئے کہ اللہ کے نیک بندے اپنی زبان کی حفاظت کرتے ہیں اور بے مقصد باتوں سے پرہیز کرتے ہیں،اپنے عیوب پر غور کریں اوردوسروں کی برائی سے بچنے کی کوشش کرتے رہیں، ہمیشہ اپنے بھائی کی عزت اور شان کی حفاظت کرنے کی کوشش کریں اور اس کے بارے میں کوئی ایسی بات نہ کریں جو وہ خود پسند نہ کرے۔گاہ بگاہ اپنے اعمال کا محاسبہ کرتے رہیں تاکہ غیبت جیسے گناہ سے بچاجا سکے۔ نیک اور دیندار لوگوں کی صحبت اختیار کرنے سے انسان کے اخلاق بہتر ہوتے ہیں اور وہ غیبت جیسے گناہوں سے بچ سکتا ہے۔جبکہ برے لوگوں کی صحبت میں غیبت عام ہو جاتی ہے۔اگر کسی مجلس میں غیبت ہو رہی ہو تو اسے روکنے کی کوشش کریں یا وہاں سے اٹھ جائیں،ہر وقت یہ یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کو دیکھ رہا ہے۔ غیبت کرنے سے پہلے سوچیں کہ کیا یہ عمل اللہ کو پسند ہے؟،ہر انسان کے حقوق ہیں۔
اس کی غیر موجودگی میں اس کے بارے میں بات کرنا اس کے حق کو پامال کرنا ہے۔زبان ایک بہت بڑی نعمت ہے، لیکن اگر اسے قابو میں نہ رکھا جائے تو یہ تباہی کا باعث بن سکتی ہے۔ اگر کوئی آپ کے بارے میں غیبت کرے تو اسے معاف کر دیں۔ اس طرح آپ خود بھی غیبت سے بچ سکتے ہیں۔ اچھی صحبت اختیار کریں: ایسے لوگوں کے ساتھ اٹھیں بیٹھیں جو غیبت جیسے قبیح عمل سے پرہیز کرتے ہوں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:”جو شخص اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہو، اسے چاہیے کہ وہ اچھی بات کرے یا خاموش رہے۔“(بخاری، حدیث: 6018)
غیبت کا عذاب:
غیبت کا عذاب دنیا اور آخرت میں دونوں جگہ ملتا ہے۔ دنیا میں بھی انسان کی عزت کم ہو جاتی ہے اور لوگ اس سے بدگمان ہو جاتے ہیں، جبکہ آخرت میں اس کے گناہ کی سزا سخت ہو سکتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''غیبت کرنے والے کا حساب قیامت کے دن لیا جائے گا، اور اس کا بدلہ ان لوگوں سے لیا جائے گا جن کی وہ غیبت کرتے ہیں۔'' (ترمذی)
غیبت کی توبہ:
اگر کوئی شخص غیبت کر بیٹھے تو اسے فوراً اللہ سے توبہ کرنی چاہیے۔ توبہ کا طریقہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے معافی مانگی جائے اور آئندہ ایسا نہ کرنے کا عہد کیا جائے۔ اگر ممکن ہو تو جس شخص کی غیبت کی گئی ہو اس سے بھی معافی مانگ لی جائے۔
ماحصل:
غیبت ایک سنگین گناہ ہے جو نہ صرف دینی اعتبار سے نقصان دہ ہے بلکہ سماجی اور نفسیاتی طور پر بھی انسان کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتا ہے، یہ انسان کو اللہ کی ناراضگی میں مبتلا کرتا ہے،اسلام نے ہمیں باہمی محبت، اخوت اور حسنِ اخلاق کا درس دیا ہے، جس میں غیبت کی کوئی گنجائش نہیں۔ اس لئے اس گناہ سے بچنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔ اس کے اثرات نہ صرف فرد کی روحانیت پر منفی اثر ڈالتے ہیں، بلکہ یہ پورے معاشرتی تانے بانے کو بھی متاثر کرتے ہیں۔ اسلام میں ہر شخص کی عزت و حرمت کا خیال رکھا جانا ضروری ہے، اور غیبت سے بچنا ایک اہم عبادت ہے جو انسان کو اللہ کے قریب لاتی ہے۔ہمیں چاہیے کہ اپنی زبان کی حفاظت کریں، اپنی اصلاح کی کوشش کریں اور اللہ کے خوف کو اپنے دل میں رکھیں تاکہ ہم غیبت جیسی لعنت سے محفوظ رہ سکیں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی زبان کی حفاظت کرنے اور غیبت سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
غیبت کی تعریف اور مذمت قرآن کی روشنی میں:
غیبت کا لفظی معنی ہے ''پیٹھ پیچھے بات کرنا''۔ شرعی اصطلاح میں غیبت کی تعریف یہ ہے کہ کسی شخص کی غیر موجودگی میں اس کی ایسی بات کی جائے جو اسے ناگوار گزرے، خواہ وہ بات اس کے بارے میں سچی ہو یا جھوٹی۔ قرآن پاک میں غیبت کی تعریف ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے: ''وَلاَ یَغْتَبْ بَعْضُکُمْ بَعْضًا أَیُحِبُّ أَحَدُکُمْ أَنْ یَأْکُلَ لَحْمَ أَخِیہِ مَیْتًا فَکَرِہْتُمُوہُ'' (الحجرات: 12) ترجمہ: ''اور تم میں سے کوئی کسی کی غیبت نہ کرے۔ کیا تم میں سے کوئی یہ پسند کرے گا کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے؟ تم تو اسے ناگوار گزرو گے۔''اس آیت میں غیبت کو اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانے کے مترادف قرار دیا گیا ہے، جو اس عمل کی شدید مذمت کو ظاہر کرتا ہے۔
غیبت کا مفہوم:
کسی کی غیر موجودگی میں اُس کی برائی بیان کرنا یا اُس کی عیب جوئی کرنا ہے، چاہے وہ عیب سچ ہو یا جھوٹ۔ غیبت کرنے سے فرد کے کردار اور اخلاق پر منفی اثرات پڑتے ہیں اور یہ معاشرتی تعلقات کو بھی نقصان پہنچاتی ہے۔ غیبت کی نوعیت اور اس کے اثرات کو سمجھنا اسلامی تعلیمات کے مطابق انتہائی اہم ہے تاکہ ہم اس گناہ سے بچ سکیں۔
حدیث میں غیبت کی مذمت:
احادیثِ نبویہ میں بھی غیبت کو شدید گناہ قرار دیا گیا ہے اور اس سے بچنے کی تاکید کی گئی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے غیبت کی حقیقت کو واضح کرتے ہوئے فرمایا:”کیا تم جانتے ہو کہ غیبت کیا ہے؟“صحابہ نے عرض کیا:”اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔”آپ ﷺ نے فرمایا:“کسی کے پیٹھ پیچھے ایسی بات کرنا جو اسے ناگوار گزرے۔”صحابہ نے پوچھا:“اگر وہ بات حقیقت میں اس میں موجود ہو تب بھی؟”آپ ﷺ نے فرمایا:“اگر وہ بات اس میں موجود ہے تو یہی غیبت ہے اور اگر وہ بات اس میں نہیں ہے تو یہ بہتان (تہمت) ہے۔“(مسلم، حدیث: 2589)یہ حدیث واضح کرتی ہے اور اس بات پر زور دیتی ہے کہ کسی شخص کے غیر موجودگی میں اس کے عیبوں کا ذکر کرنا، چاہے وہ سچ ہی کیوں نہ ہو، غیبت کے زمرے میں آتا ہے اور اگر وہ بات جھوٹ ہو تو یہ بہتان اور زیادہ بڑا گناہ بن جاتا ہے۔
غیبت کے معاشرتی اور اخلاقی اثرات:
غیبت کا عمل معاشرے میں بے شمار منفی اثرات مرتب کرتا ہے، یہ صرف فرد کے لیے نقصان دہ نہیں ہوتی، بلکہ یہ پورے معاشرے کی فلاح و بہبود پر بھی اثر انداز ہوکرمعاشرہ کے امن و سکون کو برباد کر دیتی ہے،جیسے:(1)اعتماد کا ختم ہونا: جب لوگ یہ جان لیں کہ ان کی غیر موجودگی میں ان کے بارے میں بات کی جاتی ہے، تو وہ دوسروں پر سے اعتماد کھو دیتے ہیں۔(2) رشتوں کی خرابی: غیبت کی وجہ سے خاندانی اور سماجی رشتے خراب ہو جاتے ہیں۔ لوگ ایک دوسرے سے دور ہو جاتے ہیں۔ (3)نفرت اور کدورت: غیبت سے لوگوں کے دلوں میں ایک دوسرے کے لیے نفرت پیدا ہوتی ہے، جو معاشرے میں تفرقے کا باعث بنتی ہے۔ (4)اخلاقی پستی: غیبت کرنے والا شخص اخلاقی طور پر گر جاتا ہے۔ اس کی شخصیت میں منافقت اور بے حسی پیدا ہو جاتی ہے۔ غیبت کرنے سے معاشرتی تعلقات میں دراڑیں پڑتی ہیں، نفرت اور کدورت بڑھتی ہیں اور لوگوں میں اعتماد کی کمی واقع ہوتی ہے۔ غیبت کی عادت رکھنے والے افراد عموماً دوسروں کی عزت نفس کو مجروح کرتے ہیں اور معاشرتی ہم آہنگی کو خراب کرتے ہیں۔غیبت کا ایک اور اثر یہ ہوتا ہے کہ اس سے دلوں میں بغض اور حسد بڑھتا ہے۔ جب ہم کسی کی برائی بیان کرتے ہیں، تو ہمارے دل میں اُس شخص کے لیے نفرت اور ناپسندیدگی بڑھتی ہے، جو کہ اسلام میں ممنوع ہے۔
غیبت کی چند اہم صورتیں درج ذیل ہیں:
(1) زبان سے غیبت: یہ سب سے عام صورت ہے، جس میں ہم کسی کے بارے میں منفی باتیں زبان سے کرتے ہیں۔ (2) تحریر میں غیبت: آج کل سوشل میڈیا اور دیگر فورمز پر کسی کی برائی یا عیب بیان کرنا بھی غیبت میں شمار ہوتا ہے۔ (3) عکاسی یا تصویر کے ذریعے غیبت: اگر کسی کی تصویر یا ویڈیو کو کسی کے عیب کی نشاندہی کے لیے استعمال کیا جائے، تو یہ بھی غیبت کے مترادف ہے۔
غیبت کے نقصانات:
غیبت نہ صرف دینی طور پر ایک گناہ ہے بلکہ اس کے سماجی اور نفسیاتی نقصانات بھی بہت زیادہ ہیں۔
دینی نقصان:
(1) غیبت کرنے والا اللہ کی نافرمانی کرتا ہے۔(2) اس کا نیک اعمال کا ذخیرہ غیبت کے شکار شخص کو منتقل ہو جاتا ہے۔(3) قیامت کے دن غیبت کرنے والے کو سخت حساب دینا ہوگا۔
سماجی نقصان:
(1) غیبت لوگوں کے درمیان بدگمانی اور نفرت پیدا کرتی ہے۔(2) اس سے رشتہ داروں، دوستوں اور ساتھیوں کے درمیان تعلقات خراب ہو جاتے ہیں۔ (3) معاشرتی انتشار اور بدامنی کا سبب بنتی ہے۔
نفسیاتی نقصان:
(1) غیبت کرنے والا اندرونی طور پر منفی جذبات میں مبتلا رہتا ہے۔(2) اس کا ذہن دوسروں کی برائیاں تلاش کرنے میں مصروف رہتا ہے، جس سے ذہنی سکون ختم ہو جاتا ہے۔(3) وہ خود بھی لوگوں کی نظر میں گر جاتا ہے، کیونکہ جو دوسروں کی برائی کرتا ہے، لوگ اس پر اعتماد نہیں کرتے۔
غیبت سے بچنے کے طریقے:
غیبت سے بچنا ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے۔ اس کے لیے درج ذیل اقدامات کیے جا سکتے ہیں:
سب سے اہم طریقہ یہ ہے کہ ہم اللہ سے ڈر کر اپنی زبان اور عمل پر قابو پائیں۔اس لئے کہ اللہ کے نیک بندے اپنی زبان کی حفاظت کرتے ہیں اور بے مقصد باتوں سے پرہیز کرتے ہیں،اپنے عیوب پر غور کریں اوردوسروں کی برائی سے بچنے کی کوشش کرتے رہیں، ہمیشہ اپنے بھائی کی عزت اور شان کی حفاظت کرنے کی کوشش کریں اور اس کے بارے میں کوئی ایسی بات نہ کریں جو وہ خود پسند نہ کرے۔گاہ بگاہ اپنے اعمال کا محاسبہ کرتے رہیں تاکہ غیبت جیسے گناہ سے بچاجا سکے۔ نیک اور دیندار لوگوں کی صحبت اختیار کرنے سے انسان کے اخلاق بہتر ہوتے ہیں اور وہ غیبت جیسے گناہوں سے بچ سکتا ہے۔جبکہ برے لوگوں کی صحبت میں غیبت عام ہو جاتی ہے۔اگر کسی مجلس میں غیبت ہو رہی ہو تو اسے روکنے کی کوشش کریں یا وہاں سے اٹھ جائیں،ہر وقت یہ یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کو دیکھ رہا ہے۔ غیبت کرنے سے پہلے سوچیں کہ کیا یہ عمل اللہ کو پسند ہے؟،ہر انسان کے حقوق ہیں۔
اس کی غیر موجودگی میں اس کے بارے میں بات کرنا اس کے حق کو پامال کرنا ہے۔زبان ایک بہت بڑی نعمت ہے، لیکن اگر اسے قابو میں نہ رکھا جائے تو یہ تباہی کا باعث بن سکتی ہے۔ اگر کوئی آپ کے بارے میں غیبت کرے تو اسے معاف کر دیں۔ اس طرح آپ خود بھی غیبت سے بچ سکتے ہیں۔ اچھی صحبت اختیار کریں: ایسے لوگوں کے ساتھ اٹھیں بیٹھیں جو غیبت جیسے قبیح عمل سے پرہیز کرتے ہوں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:”جو شخص اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہو، اسے چاہیے کہ وہ اچھی بات کرے یا خاموش رہے۔“(بخاری، حدیث: 6018)
غیبت کا عذاب:
غیبت کا عذاب دنیا اور آخرت میں دونوں جگہ ملتا ہے۔ دنیا میں بھی انسان کی عزت کم ہو جاتی ہے اور لوگ اس سے بدگمان ہو جاتے ہیں، جبکہ آخرت میں اس کے گناہ کی سزا سخت ہو سکتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''غیبت کرنے والے کا حساب قیامت کے دن لیا جائے گا، اور اس کا بدلہ ان لوگوں سے لیا جائے گا جن کی وہ غیبت کرتے ہیں۔'' (ترمذی)
غیبت کی توبہ:
اگر کوئی شخص غیبت کر بیٹھے تو اسے فوراً اللہ سے توبہ کرنی چاہیے۔ توبہ کا طریقہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے معافی مانگی جائے اور آئندہ ایسا نہ کرنے کا عہد کیا جائے۔ اگر ممکن ہو تو جس شخص کی غیبت کی گئی ہو اس سے بھی معافی مانگ لی جائے۔
ماحصل:
غیبت ایک سنگین گناہ ہے جو نہ صرف دینی اعتبار سے نقصان دہ ہے بلکہ سماجی اور نفسیاتی طور پر بھی انسان کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتا ہے، یہ انسان کو اللہ کی ناراضگی میں مبتلا کرتا ہے،اسلام نے ہمیں باہمی محبت، اخوت اور حسنِ اخلاق کا درس دیا ہے، جس میں غیبت کی کوئی گنجائش نہیں۔ اس لئے اس گناہ سے بچنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔ اس کے اثرات نہ صرف فرد کی روحانیت پر منفی اثر ڈالتے ہیں، بلکہ یہ پورے معاشرتی تانے بانے کو بھی متاثر کرتے ہیں۔ اسلام میں ہر شخص کی عزت و حرمت کا خیال رکھا جانا ضروری ہے، اور غیبت سے بچنا ایک اہم عبادت ہے جو انسان کو اللہ کے قریب لاتی ہے۔ہمیں چاہیے کہ اپنی زبان کی حفاظت کریں، اپنی اصلاح کی کوشش کریں اور اللہ کے خوف کو اپنے دل میں رکھیں تاکہ ہم غیبت جیسی لعنت سے محفوظ رہ سکیں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی زبان کی حفاظت کرنے اور غیبت سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین