ماہنامہ الفاران
ماہِ شوال المکرم - ۱۴۴۶
عورت حقائق اور حقوق کے آئینہ میں
حضرت مولانا کبیرالدین فاران صاحب مظاہری، ناظم مدرسہ قادریہ مسروالا،ہماچل پردیش، و صدر:ابوالحسن علی ایجوکیشنل اینڈ ویلفیر ٹرسٹ(رجسٹرڈ)
نسل انسانی کی گاڑی جن دو پہیوں پر چلتی ہے ان میں ایک مرد اور دوسری عورت ہے دونوں میں سے اگر ایک اپنا کام کرنابند کر دے تو زندگی کا یہ حسین سفر ادھورا ہی نہیں بلکہ یہ زندگی اجیرن بن جاتے ہے۔
سفر کو منزل مقصود تک پہنچانے میں عورت کے تعاون اور ہمدردی کا اہم کردار ہے، خوبصورت، پُر رونق اور لطف بھری زندگی کا تصور عورت کے بغیر ناممکن ہے۔
در حقیقت عورت ایک اہم ذات،بے بدل نعمت اور خدائی تحفہ ہے کہ مرد ساری عمر عورتوں میں گھرا رہتا ہے”عورت“ کبھی ماں کبھی بیوی، کبھی بہن اور کبھی بیٹی کے روپ میں اس کے ساتھ رہتی ہے سائے کی طرح رہتی ہے۔
اس سلسلہ میں دانشوروں،روحانی پیشواؤں اور مذہبی کتب میں مختلف آرا آئی ہیں جو لائق ستائش بھی ہیں اور قابل عبرت و نصائح بھی۔
امیلٹن نے لکھا ہے''عورت سب سے اچھا اور سب سے آخری آسمانی تحفہ ہے'' باربولوڈ نے کہا ہے ''عورت صرف)جاسن) زیبائش ہی نہیں بلکہ آدھا ایمان بھی ہے جو مصیبت اور غم کو کم کرنے کے لیے پیدا کی گئی ہے''
عورت دراصل مرد کا حقیقی لباس ہے، مرد کا عورت سے بڑا کوئی دوست نہیں دنیا اور اس کی تمام چیزیں خوبصورت ہیں مگر مرد کیلئے سب سے زیادہ خوبصورت تحفہ نیک اور پاک دامَن عورت ہے۔
سمویل نے لکھا ہے، ''خوبصورت عورت کو دیکھنے سے آنکھ، لیکن نیک دل عورت کو دیکھنے سے دل خوش ہوتا ہے۔
حضرت خدیجۃ الکبریٰ کا فرمان ہے، ''عورتوں کی خوبی دو باتوں میں ہے ایک یہ کہ کوئی غیر نہ دیکھے اور دوسری یہ کہ وہ کسی کو نہ دیکھے''
مائکلور کا کہنا ہے، ''ایک مرد کو تعلیم دینا صرف اس کو ہی پڑھانا ہے لیکن ایک عورت کو تعلیم دے کر آپ ایک کنبہ کو با شعور بنا دیتے ہیں ''
ہرابرت لسنر نے لکھا ہے، ''عورت نے سب سے پہلے حضرت آدم سے بھول کرائی تھی اُس وقت سے وہی ہوتا آ رہا ہے اور آج بھی یہی دیکھنے میں آ رہا ہے کہ عورت نے مرد پر حکومت کی، شیطان نے عورت پر اور اسی طرح عورت اور شراب سب کو احمق بناتی ہے عورت کا دل مردکے دماغ پرحکومت کرتا ہے''
حضرت علی نے کہا ہے، ''عورت میں اگر شر اور خرابی ہے مگر اس سے بڑھ کر خرابی یہ ہے کہ عورت کے بغیر زندگی گزاری جائے ''
غریب سے غریب گھر کو نیک عورت جنت کا نمونہ بنا دیتی ہے عورت مرد کے لیے ایک لباس کی حیثیت رکھتی ہے''
ٹالشٹائی نے لکھا ہے کہ ''میں عورت کے بارے میں اپنی سچی رائے اُس وقت دوں گا جب میرا ایک پاؤں قبر میں ہوگا پھر میں اپنی رائے دے سکوں گا تو تابوت میں کود کر اس کا ڈھکن بند کر لوں گا اور اندر سے پکاروں گا اب میرے ساتھ جو چاہے کر لو''
وید میں ہے ''عورتوں سے دوستی ممکن نہیں، باپ کی جائیداد میں لڑکی وارث نہیں اور جھوٹ بولنا عورت کی خاصیت ہے''
چاناکیہ نیتی میں ہے جھوٹ بولنا، بغیر سوچے سمجھے کام کرنا، فریب، بیوقوفی، لالچ، ناپاکی اور بے رحمی عورت کے عیبوں میں سے ایک ہے
در اصل بعض اوقات جب عور ت اپنی اصل سرست پر آتی ہے تو پانی میں آگ لگادیتی ہے۔ بھرے مجمع کو بے آبرو کرنا،شوہر اور سسرال ہی نہیں بلکہ ماں باپ،بھائی بہن کو بے آبرو کرنا حتیٰ کہ جنمی اولاد کے ساتھ بے رحمی اور کھلواڑ کرنے میں بھی اسے ادنیٰ درجے کہ ہچکچاہٹ نہیں ہوتی۔
چاناکیہ نیتی میں ہے آگ، پانی، جاہل، سانپ، خاندان شاہی اور عورت یہ سب ہلاکت کے باعث ہیں اور ان سے ہمیشہ محتاط رہنا چاہیے۔ رامائن تلسی داس میں ہے ''چار طرح کے لوگوں اور چار چیزوں کو پیٹنے کا حکم دیا ہے۔ ڈھول، بیوقوف، شُودر اور عورت'' فیکل نے کہا ہے ''عورت کی زبان اس کی تلوار ہے اور وہ کبھی اسے زنگ آلود نہیں ہونے دیتی''
در اصل ہم عورت سے چار چیزیں چاہتے ہیں۔ اس کے دل میں نیکی ہو، اس کے چہرے میں حیا ہو، اس کی زبان میں مٹھاس ہو اور اس کے ہاتھ سدا کام میں لگے رہیں۔ ماہرین نے لکھا ہے، ''مرد کا امتحان عورت سے اور عورت کا روپے پیسے سے اور روپے کا امتحان آگ سے ہوتا ہے'' یہ حقیقت بھی ہے کہ قدرت کی یہ عظیم ہستی جسے یہ فخر حاصل ہے کہ اس کے ذریعے نسل انسانی وجود میں آئی،انبیاء،اولیاء،کو ان کی کوکھ نے جنم دیا ہر دور میں مظلومیت کا شکاررہی ہے۔ ظالم مزاج اور بدچلن شوہر کی وجہ سے یہ خانہ بدوش اور بعض اوقات غلط فیصلہ پر بھی مجبور ہوجاتی ہے۔
تاریخ کے ایک لمبے عرصے سے عورت پر ظلم ہوتا آ رہا ہے۔ ہر قوم اور ہر شعبے میں عورت مظلوم تھی۔ یونان میں، روم میں، مصر میں، عراق میں، بھارت میں، چین میں، عرب میں ہر جگہ اس پر ظلم و ستم ہو رہا تھا۔ بازاروں اور میلوں میں اس کی خرید و فروخت ہوتی تھی۔ جانوروں سے بدتر اس کے ساتھ سلوک کیا جاتا تھا۔ یونان میں ایک لمبے وقت تک یہ بحث جاری رہی کہ اس کے اندر روح ہے بھی یا نہیں۔ عرب والے تو اس کے وجود ہی کو توہین سمجھتے تھے۔ کچھ سخت دل لوگ اپنی بیٹیوں کو زندہ دفن کر دیتے تھے۔
بھارت میں شوہر کی چتا پر اس کی بیوہ جل کر بھسم ہو جاتی تھی۔ ناستک اسے جرم کا نمونہ سمجھتے تھے۔ اس کے ساتھ تعلق کوگناہ کا دروازہ اور گناہ کا نمونہ سمجھا جاتا تھا۔ اس کے ساتھ تعلق رکھنے کو روحانی ترقی کے راستے میں رکاوٹ سمجھا جاتا تھا۔
دنیا کی بیشتر تہذیبوں میں اسے سماج میں کوئی مقام حاصل نہیں تھا۔ وہ نظرانداز اور اوھم سمجھا جاتا تھا۔ اسے اقتصادی اور سیاسی حقوق حاصل نہ تھے۔ وہ اپنی مرضی سے لین دین اور کوئی اقتصادی مداخلت نہیں کر سکتی تھی۔ وہ شادی سے پہلے باپ کی، پھر شوہر کی اور اس کے بعد بیٹے کے زیرِ سرپرستی رہتی تھی۔ ان کی حکمرانی کو چیلنج کرنے کی اسے اجازت نہیں تھی۔ ان کے ذریعہ کیے گئے ظلم و ستم پر اس کی کہیں سنوائی نہیں تھی۔
اسے فریاد اور اعتراض کرنے کا بھی حق حاصل نہ تھا اور آج بھی ترقی اور آزادی کے نام پر عورت کی حیثیت ایک کھلونا جیسی بن کر رہ گئی ہے۔ اسے نائٹ کلبوں، فحاشی کے اڈوں، جسم فروشی کے کوٹھوں، ساحل سمندر کی سیاحتی جگہوں اور پارکوں کی زینت بنا دی گئی ہے۔ محلوں اور ہوٹلوں کی رقاصہ بنا دی گئی تھی۔ سستی شہرت اور پبلسٹی کی خاطر ذریعے سرعام اس کو نیلام کیا جا رہا ہے اور اس کی دلکش شباب کو نچوڑ کر اور اس کے جذبات کو چوس کر تندور کی نذر کر دیا گیا ہے۔
یہ ظلم اور بہیمانہ سلوک اگر نئی تہذیب کی دَیْن ہے تو وہی صنف نازک کا خاتون خانہ سے محفلوں کے پری ہونے کی سزا بھی ہے۔
در حقیقت عورت ماں، بہن، بیٹی اور بیوی کی حیثیت سے آنے والی نسل کو سنوارنے کے پاک، مرتب اور باعزت فریضے سے غافل ہوکر وہ دفاتر، دکانوں، ریسیپشن کاؤنٹرز پر مسکراہٹ بیچتی ہے۔ آج ان کی حیثیت انہی کے کردار اور نظریات کی وجہ سے بکاؤ مال کی سی ہو کر رہ گئی ہے۔
رحمت للعالمین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دنیا کی تمام چیزیں عارضی فائدے کی ہیں اور دنیا کی بہترین فائدے کی چیز نیک عورت ہے۔
مذہب اسلام نے عورت کی خداداد صلاحیتوں کے پیشِ نظر مرد پر اس کے حقوق کی ادائیگی کی سخت تاکید فرمائی ہے۔
اسلام میں ماں کی اطاعت کو سب سے اونچا درجہ دیا گیا ہے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جنت ماں کے قدموں کے نیچے ہے۔
بیٹی کی حیثیت سے اس پر شفقت واجب ہے، ٍ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سے جس کے پاس تین لڑکیاں یا تین بہنیں ہوں اور وہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کرے تو وہ جنت میں داخل ہو گا۔ بیوی کے شکل میں اس کی دلجوئی اور رفاقت اسلامی تعلیمات کا اہم فریضہ ہے۔ اللہ کا فرمان ہے تاکہ تم ان کے پاس آرام اور سکون پا سکو اور تمہارے درمیان محبت اور شفقت پیدا کر دی۔
دوسری جگہ قرآن شریف میں ہے: 'اُن کے ساتھ بھلے طریقے سے زندگی گزارو، اگر تم اُنہیں ناپسند کرتے ہو تو ہو سکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں ناپسند ہو اور اللہ نے اُس میں بہت سی بھلائی رکھ دی ہو۔ قرآن نے عورتوں کو مارنے اور اُنہیں بھلا بُرا کہنے سے منع فرمایا ہے۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیم ہے، ''ایمان والوں میں سب سے بہترین ایمان والا شخص وہ ہے جس کے اخلاق سب سے اچھے ہوں، اور تم میں سے بہترین وہ ہیں جو اپنی عورتوں کے حق میں بہترین ہوں ''
انسانی برابری کے لحاظ سے عورت اور مرد میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اسلام میں عورت کو شوہر کے انتخاب کا حق دیا گیا ہے۔ اسلام نے نکاح کے معاملے میں لڑکی کے ولی اور سرپرست کو اہمیت ضرور دی ہے لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا ہے کہ نکاح کا انعقاد اُس لڑکی کی اجازت سے ہی ہوگا۔
اسی طرح اسلام ایک عورت کے نان ونفقہ کو اس کے شوہر پر لازم کرتاہے۔ شادی سے پہلے لڑکی کی پرورش کی تمام ذمہ داری والد پر ہے اور شادی کے بعد اُس کے نان ونفقہ کی ذمہ داری اُس کے شوہر پر آتی ہے۔ اگر عورت مالدار ہے تو اُس کے لئے شوہر نوکر بھی مہیا کرے گا۔ اگر بیوی اپنے شوہر کے رشتہ داروں کے ساتھ مشترکہ خاندان میں نہیں رہنا چاہتی ہو تو اس کو دوسرے گھر میں رہائش دینا ضروری ہے۔
اسلام نے بے قصور اور بغیر وجہ عورت کو طلاق دینا سخت گناہ اور نفرت کی چیز قرار دیا ہے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا!حلال چیزوں میں سب سے بدترین چیز طلاق ہے اور طلاق اتنا برا ہے کہ اس سے عرش کانپ جاتاہے۔
لیکن اگر عورت نافرمان اور بدچلن ہو، بیوی اور شوہر کے درمیان سمجھانے اور منانے پر بھی آپسی تعلق صحیح نہ ہو، اوردونوں کے رشتہ داروں کی کوششیں بھی ناکام ہو جائیں، صلح کا ہر دروازہ بند ہوتا نظر آئے تو مرد کے لیے طلاق دینا جائز ہے اور اس کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ تین طلاق تین ماہ کے دوران دی جائیں۔ ناچاقی اور ناانصافی کی صورت میں دونوں کی زندگی اجیرن بن جانے سے بہتر خوبصورتی سے جدائی ہے۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لوگو!اپنی بیوی کے متعلق اللہ سے ڈرتے رہو۔ خدا کے نام کی ذمہ داری سے تم نے اسے بیوی بنایا اور خدا کے کلام سے تم نے ان کا جسم حلال کیا۔ تمہارا حق عورت پر یہ ہے کہ تمہارے بستر پر غیر مرد کو نہ آنے دے۔ عورت کا حق تم پر یہ ہے کہ اس کو اچھی طرح رکھو، اچھا کھلاؤ اور عمدہ پہناؤ۔
حدیث شریف میں ہے بہترین بیوی وہ ہے کہ جب تم اسے دیکھو تو تمہارا دل خوش ہو جائے۔ جب تم اسے کسی بات کا حکم دو تو وہ تمہاری فرمابرداری کرے،جب تم گھر میں نہ ہو تو وہ تمہارے مال اور اپنی ذات کی حفاظت کرے۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! انسان میں کامل ترین وہ شخص ہے جو سب سے زیادہ بااخلاق ہو اور تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنی عورت کے لیے بہتر ہو۔ محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عورتیں پسلی سے پیدا کی گئی ہیں اور وہ ٹیڑھی ہیں اگر تم پسلی کو سیدھا کرنا چاہو گے تو وہ ٹوٹ جائے گی اس لیے تم عورت کے حقوق کے بارے میں وصیت قبول کرو، ان کے ساتھ حسن سلوک اور اچھے برتاؤ کی نصیحت پلے باندھ لو۔
سفر کو منزل مقصود تک پہنچانے میں عورت کے تعاون اور ہمدردی کا اہم کردار ہے، خوبصورت، پُر رونق اور لطف بھری زندگی کا تصور عورت کے بغیر ناممکن ہے۔
در حقیقت عورت ایک اہم ذات،بے بدل نعمت اور خدائی تحفہ ہے کہ مرد ساری عمر عورتوں میں گھرا رہتا ہے”عورت“ کبھی ماں کبھی بیوی، کبھی بہن اور کبھی بیٹی کے روپ میں اس کے ساتھ رہتی ہے سائے کی طرح رہتی ہے۔
اس سلسلہ میں دانشوروں،روحانی پیشواؤں اور مذہبی کتب میں مختلف آرا آئی ہیں جو لائق ستائش بھی ہیں اور قابل عبرت و نصائح بھی۔
امیلٹن نے لکھا ہے''عورت سب سے اچھا اور سب سے آخری آسمانی تحفہ ہے'' باربولوڈ نے کہا ہے ''عورت صرف)جاسن) زیبائش ہی نہیں بلکہ آدھا ایمان بھی ہے جو مصیبت اور غم کو کم کرنے کے لیے پیدا کی گئی ہے''
عورت دراصل مرد کا حقیقی لباس ہے، مرد کا عورت سے بڑا کوئی دوست نہیں دنیا اور اس کی تمام چیزیں خوبصورت ہیں مگر مرد کیلئے سب سے زیادہ خوبصورت تحفہ نیک اور پاک دامَن عورت ہے۔
سمویل نے لکھا ہے، ''خوبصورت عورت کو دیکھنے سے آنکھ، لیکن نیک دل عورت کو دیکھنے سے دل خوش ہوتا ہے۔
حضرت خدیجۃ الکبریٰ کا فرمان ہے، ''عورتوں کی خوبی دو باتوں میں ہے ایک یہ کہ کوئی غیر نہ دیکھے اور دوسری یہ کہ وہ کسی کو نہ دیکھے''
مائکلور کا کہنا ہے، ''ایک مرد کو تعلیم دینا صرف اس کو ہی پڑھانا ہے لیکن ایک عورت کو تعلیم دے کر آپ ایک کنبہ کو با شعور بنا دیتے ہیں ''
ہرابرت لسنر نے لکھا ہے، ''عورت نے سب سے پہلے حضرت آدم سے بھول کرائی تھی اُس وقت سے وہی ہوتا آ رہا ہے اور آج بھی یہی دیکھنے میں آ رہا ہے کہ عورت نے مرد پر حکومت کی، شیطان نے عورت پر اور اسی طرح عورت اور شراب سب کو احمق بناتی ہے عورت کا دل مردکے دماغ پرحکومت کرتا ہے''
حضرت علی نے کہا ہے، ''عورت میں اگر شر اور خرابی ہے مگر اس سے بڑھ کر خرابی یہ ہے کہ عورت کے بغیر زندگی گزاری جائے ''
غریب سے غریب گھر کو نیک عورت جنت کا نمونہ بنا دیتی ہے عورت مرد کے لیے ایک لباس کی حیثیت رکھتی ہے''
ٹالشٹائی نے لکھا ہے کہ ''میں عورت کے بارے میں اپنی سچی رائے اُس وقت دوں گا جب میرا ایک پاؤں قبر میں ہوگا پھر میں اپنی رائے دے سکوں گا تو تابوت میں کود کر اس کا ڈھکن بند کر لوں گا اور اندر سے پکاروں گا اب میرے ساتھ جو چاہے کر لو''
وید میں ہے ''عورتوں سے دوستی ممکن نہیں، باپ کی جائیداد میں لڑکی وارث نہیں اور جھوٹ بولنا عورت کی خاصیت ہے''
چاناکیہ نیتی میں ہے جھوٹ بولنا، بغیر سوچے سمجھے کام کرنا، فریب، بیوقوفی، لالچ، ناپاکی اور بے رحمی عورت کے عیبوں میں سے ایک ہے
در اصل بعض اوقات جب عور ت اپنی اصل سرست پر آتی ہے تو پانی میں آگ لگادیتی ہے۔ بھرے مجمع کو بے آبرو کرنا،شوہر اور سسرال ہی نہیں بلکہ ماں باپ،بھائی بہن کو بے آبرو کرنا حتیٰ کہ جنمی اولاد کے ساتھ بے رحمی اور کھلواڑ کرنے میں بھی اسے ادنیٰ درجے کہ ہچکچاہٹ نہیں ہوتی۔
چاناکیہ نیتی میں ہے آگ، پانی، جاہل، سانپ، خاندان شاہی اور عورت یہ سب ہلاکت کے باعث ہیں اور ان سے ہمیشہ محتاط رہنا چاہیے۔ رامائن تلسی داس میں ہے ''چار طرح کے لوگوں اور چار چیزوں کو پیٹنے کا حکم دیا ہے۔ ڈھول، بیوقوف، شُودر اور عورت'' فیکل نے کہا ہے ''عورت کی زبان اس کی تلوار ہے اور وہ کبھی اسے زنگ آلود نہیں ہونے دیتی''
در اصل ہم عورت سے چار چیزیں چاہتے ہیں۔ اس کے دل میں نیکی ہو، اس کے چہرے میں حیا ہو، اس کی زبان میں مٹھاس ہو اور اس کے ہاتھ سدا کام میں لگے رہیں۔ ماہرین نے لکھا ہے، ''مرد کا امتحان عورت سے اور عورت کا روپے پیسے سے اور روپے کا امتحان آگ سے ہوتا ہے'' یہ حقیقت بھی ہے کہ قدرت کی یہ عظیم ہستی جسے یہ فخر حاصل ہے کہ اس کے ذریعے نسل انسانی وجود میں آئی،انبیاء،اولیاء،کو ان کی کوکھ نے جنم دیا ہر دور میں مظلومیت کا شکاررہی ہے۔ ظالم مزاج اور بدچلن شوہر کی وجہ سے یہ خانہ بدوش اور بعض اوقات غلط فیصلہ پر بھی مجبور ہوجاتی ہے۔
تاریخ کے ایک لمبے عرصے سے عورت پر ظلم ہوتا آ رہا ہے۔ ہر قوم اور ہر شعبے میں عورت مظلوم تھی۔ یونان میں، روم میں، مصر میں، عراق میں، بھارت میں، چین میں، عرب میں ہر جگہ اس پر ظلم و ستم ہو رہا تھا۔ بازاروں اور میلوں میں اس کی خرید و فروخت ہوتی تھی۔ جانوروں سے بدتر اس کے ساتھ سلوک کیا جاتا تھا۔ یونان میں ایک لمبے وقت تک یہ بحث جاری رہی کہ اس کے اندر روح ہے بھی یا نہیں۔ عرب والے تو اس کے وجود ہی کو توہین سمجھتے تھے۔ کچھ سخت دل لوگ اپنی بیٹیوں کو زندہ دفن کر دیتے تھے۔
بھارت میں شوہر کی چتا پر اس کی بیوہ جل کر بھسم ہو جاتی تھی۔ ناستک اسے جرم کا نمونہ سمجھتے تھے۔ اس کے ساتھ تعلق کوگناہ کا دروازہ اور گناہ کا نمونہ سمجھا جاتا تھا۔ اس کے ساتھ تعلق رکھنے کو روحانی ترقی کے راستے میں رکاوٹ سمجھا جاتا تھا۔
دنیا کی بیشتر تہذیبوں میں اسے سماج میں کوئی مقام حاصل نہیں تھا۔ وہ نظرانداز اور اوھم سمجھا جاتا تھا۔ اسے اقتصادی اور سیاسی حقوق حاصل نہ تھے۔ وہ اپنی مرضی سے لین دین اور کوئی اقتصادی مداخلت نہیں کر سکتی تھی۔ وہ شادی سے پہلے باپ کی، پھر شوہر کی اور اس کے بعد بیٹے کے زیرِ سرپرستی رہتی تھی۔ ان کی حکمرانی کو چیلنج کرنے کی اسے اجازت نہیں تھی۔ ان کے ذریعہ کیے گئے ظلم و ستم پر اس کی کہیں سنوائی نہیں تھی۔
اسے فریاد اور اعتراض کرنے کا بھی حق حاصل نہ تھا اور آج بھی ترقی اور آزادی کے نام پر عورت کی حیثیت ایک کھلونا جیسی بن کر رہ گئی ہے۔ اسے نائٹ کلبوں، فحاشی کے اڈوں، جسم فروشی کے کوٹھوں، ساحل سمندر کی سیاحتی جگہوں اور پارکوں کی زینت بنا دی گئی ہے۔ محلوں اور ہوٹلوں کی رقاصہ بنا دی گئی تھی۔ سستی شہرت اور پبلسٹی کی خاطر ذریعے سرعام اس کو نیلام کیا جا رہا ہے اور اس کی دلکش شباب کو نچوڑ کر اور اس کے جذبات کو چوس کر تندور کی نذر کر دیا گیا ہے۔
یہ ظلم اور بہیمانہ سلوک اگر نئی تہذیب کی دَیْن ہے تو وہی صنف نازک کا خاتون خانہ سے محفلوں کے پری ہونے کی سزا بھی ہے۔
در حقیقت عورت ماں، بہن، بیٹی اور بیوی کی حیثیت سے آنے والی نسل کو سنوارنے کے پاک، مرتب اور باعزت فریضے سے غافل ہوکر وہ دفاتر، دکانوں، ریسیپشن کاؤنٹرز پر مسکراہٹ بیچتی ہے۔ آج ان کی حیثیت انہی کے کردار اور نظریات کی وجہ سے بکاؤ مال کی سی ہو کر رہ گئی ہے۔
رحمت للعالمین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دنیا کی تمام چیزیں عارضی فائدے کی ہیں اور دنیا کی بہترین فائدے کی چیز نیک عورت ہے۔
مذہب اسلام نے عورت کی خداداد صلاحیتوں کے پیشِ نظر مرد پر اس کے حقوق کی ادائیگی کی سخت تاکید فرمائی ہے۔
اسلام میں ماں کی اطاعت کو سب سے اونچا درجہ دیا گیا ہے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جنت ماں کے قدموں کے نیچے ہے۔
بیٹی کی حیثیت سے اس پر شفقت واجب ہے، ٍ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سے جس کے پاس تین لڑکیاں یا تین بہنیں ہوں اور وہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کرے تو وہ جنت میں داخل ہو گا۔ بیوی کے شکل میں اس کی دلجوئی اور رفاقت اسلامی تعلیمات کا اہم فریضہ ہے۔ اللہ کا فرمان ہے تاکہ تم ان کے پاس آرام اور سکون پا سکو اور تمہارے درمیان محبت اور شفقت پیدا کر دی۔
دوسری جگہ قرآن شریف میں ہے: 'اُن کے ساتھ بھلے طریقے سے زندگی گزارو، اگر تم اُنہیں ناپسند کرتے ہو تو ہو سکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں ناپسند ہو اور اللہ نے اُس میں بہت سی بھلائی رکھ دی ہو۔ قرآن نے عورتوں کو مارنے اور اُنہیں بھلا بُرا کہنے سے منع فرمایا ہے۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیم ہے، ''ایمان والوں میں سب سے بہترین ایمان والا شخص وہ ہے جس کے اخلاق سب سے اچھے ہوں، اور تم میں سے بہترین وہ ہیں جو اپنی عورتوں کے حق میں بہترین ہوں ''
انسانی برابری کے لحاظ سے عورت اور مرد میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اسلام میں عورت کو شوہر کے انتخاب کا حق دیا گیا ہے۔ اسلام نے نکاح کے معاملے میں لڑکی کے ولی اور سرپرست کو اہمیت ضرور دی ہے لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا ہے کہ نکاح کا انعقاد اُس لڑکی کی اجازت سے ہی ہوگا۔
اسی طرح اسلام ایک عورت کے نان ونفقہ کو اس کے شوہر پر لازم کرتاہے۔ شادی سے پہلے لڑکی کی پرورش کی تمام ذمہ داری والد پر ہے اور شادی کے بعد اُس کے نان ونفقہ کی ذمہ داری اُس کے شوہر پر آتی ہے۔ اگر عورت مالدار ہے تو اُس کے لئے شوہر نوکر بھی مہیا کرے گا۔ اگر بیوی اپنے شوہر کے رشتہ داروں کے ساتھ مشترکہ خاندان میں نہیں رہنا چاہتی ہو تو اس کو دوسرے گھر میں رہائش دینا ضروری ہے۔
اسلام نے بے قصور اور بغیر وجہ عورت کو طلاق دینا سخت گناہ اور نفرت کی چیز قرار دیا ہے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا!حلال چیزوں میں سب سے بدترین چیز طلاق ہے اور طلاق اتنا برا ہے کہ اس سے عرش کانپ جاتاہے۔
لیکن اگر عورت نافرمان اور بدچلن ہو، بیوی اور شوہر کے درمیان سمجھانے اور منانے پر بھی آپسی تعلق صحیح نہ ہو، اوردونوں کے رشتہ داروں کی کوششیں بھی ناکام ہو جائیں، صلح کا ہر دروازہ بند ہوتا نظر آئے تو مرد کے لیے طلاق دینا جائز ہے اور اس کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ تین طلاق تین ماہ کے دوران دی جائیں۔ ناچاقی اور ناانصافی کی صورت میں دونوں کی زندگی اجیرن بن جانے سے بہتر خوبصورتی سے جدائی ہے۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لوگو!اپنی بیوی کے متعلق اللہ سے ڈرتے رہو۔ خدا کے نام کی ذمہ داری سے تم نے اسے بیوی بنایا اور خدا کے کلام سے تم نے ان کا جسم حلال کیا۔ تمہارا حق عورت پر یہ ہے کہ تمہارے بستر پر غیر مرد کو نہ آنے دے۔ عورت کا حق تم پر یہ ہے کہ اس کو اچھی طرح رکھو، اچھا کھلاؤ اور عمدہ پہناؤ۔
حدیث شریف میں ہے بہترین بیوی وہ ہے کہ جب تم اسے دیکھو تو تمہارا دل خوش ہو جائے۔ جب تم اسے کسی بات کا حکم دو تو وہ تمہاری فرمابرداری کرے،جب تم گھر میں نہ ہو تو وہ تمہارے مال اور اپنی ذات کی حفاظت کرے۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! انسان میں کامل ترین وہ شخص ہے جو سب سے زیادہ بااخلاق ہو اور تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنی عورت کے لیے بہتر ہو۔ محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عورتیں پسلی سے پیدا کی گئی ہیں اور وہ ٹیڑھی ہیں اگر تم پسلی کو سیدھا کرنا چاہو گے تو وہ ٹوٹ جائے گی اس لیے تم عورت کے حقوق کے بارے میں وصیت قبول کرو، ان کے ساتھ حسن سلوک اور اچھے برتاؤ کی نصیحت پلے باندھ لو۔