ماہنامہ الفاران

ماہِ جمادی الاول - ۱۴۴۶

مصنوعی ذہانت (AI) سے استفادہ کا مسئلہ

جناب مفتی عبدالاحد قاسمی صاحب، ناظم تعلیمات جامعہ مدنیہ سبل پور، پٹنہ

”Artificial Intelligence“ ”AI“ یعنی مصنوعی ذہانت کا تعارف: ”اے آئی“ ایک ایسا علم اور عمل جس کی مدد سے کمپیوٹر یا کمپیوٹر بیسڈ روبوٹس کو انسانوں کی طرح کام کرنے کے قابل بنایا جاتا ہے، یعنی یہ انسانوں کی طرح سن سکتے ہیں، بول سکتے ہیں اور ذہن استعمال کر سکتے ہیں۔ Artificial Intelligence میں آئے دن تجربات کیے جا رہے ہیں اور اس ٹیکنالوجی کو استعمال کرنے والے روبوٹس یا بوٹس بہت تیزی سے انسانوں کی طرح سیکھنے، سمجھنے اور جواب دینے کے قابل ہوتے جا رہے ہیں۔ اس عمل کو Self Learning کہا جاتا ہے۔ ماہرین کے مطابق مصنوعی ذہانت کے ذریعہ سے مشین کو جذبات سمجھنے اور جذبات کی عکاسی کرنے کے قابل بھی بنایا جا چکا ہے۔ (ایس ایم فیضان الحسن)
مصنوعی ذہانت (Artificial Intelligence) اس وقت زندگی کے مختلف میدانوں میں استعمال ہونے والی ایک اہم ٹکنالوجی ہے، یوں تو اس ٹکنالوجی کا استعمال زندگی کے متعدد کاموں میں ایک عرصہ سے ہو رہا ہے، مثال کے طور گیس سلنڈر بک کرانے یا ٹول فری نمبر پر کسی خدمت کے لئے رابطہ کرنے میں اس مصنوعی ذہانت کی بنیاد پر مشین انسان کو قدم بہ قدم رہنمائی کر رہی ہوتی ہے، اس سے آگے بڑھ کر دیکھا جائے تو واشنگ مشین ، برتن دھونے کی مشین اور کیلکو لیٹر کے ذریعہ حسابات جیسی چیزوں میں اس ٹکنالوجی کا استعمال عام انسانوں کی زندگی میں داخل ہے، نئی نسل بڑی سرعت کے ساتھ Chat GPT کا استعمال کر رہی ہے، اور تعلیم و معیشت جیسے میدانوں میں اس کے فوائد کے ساتھ تلبیس اور تزویر نیز مجرمانہ سرگرمیوں اور نفرت و عداوت کی اشاعت میں اس کا خطر ناک استعمال ہونے لگا ہے ، ChatGPT کا استعمال اس طرح ہوتا ہے کہ آپ اس اپلی کیشن پر جو سوال تحریر کریں گے، وہ ایک تعلیم یافتہ انسان کی مانند آپ کے سوال کا جواب بہت مرتب انداز میں سیکنڈوں میں تحریر کر دے گا، مصنوعی ذہانت کا استعمال اب معیشت و تجارت، قانونی صلاح، اور طب و علاج کے میدان میں بڑے پیمانہ پر ہونے کے امکانات ہیں، اور ترقی یافتہ علاقوں میں استعمال شروع بھی ہو چکا ہے، اسی مصنوعی ذہانت کی ایک شکل روبوٹ ہے، جسے کسی انسانی شکل، یا کسی دوسری شکل یا کسی باکس اور ڈبہ وغیرہ کی شکل میں رکھ کر اس سے انسانی کام لئے جاسکتے ہیں، جنگوں میں بغیر پائلٹ کے جہاز اسی AI کے ذریعہ کامیابی کے ساتھ استعمال ہو رہے ہیں، اسپتالوں اور ہوٹلوں میں روبوٹ کے ذریعہ اہم خدمات اور مشورے فراہم کئے جارہے ہیں، اسکول میں روبوٹ کے ذریعہ انسانی انداز سے کلاسز کی جارہی ہیں۔
اے آئی“ سے متعلق فقہ اکیڈمی انڈیا کی جانب سے مرتب کیے گئے سوالات کے جوابات : سوال (۱)مصنوعی ذہانت اور AI کا استعمال کرنا کیسا ہے؟ کیا اس طرح کی علمی اور معلوماتی سہولیات سے بڑھ چڑھ کر استفادہ کرنا چاہئے ، یااس بابت تحفظ رکھنا چاہئے؟ جواب: ” اے آئی“ (مصنوعی ذہانت) کی حیثیت ایک آلہ کی ہے، جس کو صحیح طریقے سے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے اور غلط طریقے سے بھی۔ لہذا فی نفسہ اس کا استعمال مباح ہوگا۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ھُوَ الَّذِي خَلَقَ لَكُم مَّا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا ثُمَّ اسْتَوَىٰ إِلَى السَّمَاءِ فَسَوَّاهُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ ۚ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ سورة البقرة: ۲۹] ترجمہ: وہی ہے جس نے زمین میں جو کچھ ہے تمہارے لئے پیدا کیا، پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا، چناچہ ان کو سات آسمانوں کی شکل میں ٹھیک ٹھیک بنادیا، اور وہ ہر چیز کا پورا علم رکھنے والا ہے۔ یعنی زمین کی ساری چیزیں انسان کے نفع کے لیے اور اس سے دینی اور دنیوی فائدہ حاصل کرنے کےلیےبنائی گئی ہیں، اس سے آیت سے اکثر حنفیہ اور شوافع نے اباحۃ اشیاء پر استدلال کیا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں:(روح المعاني: ۱ / ۲۱۵۔ مكتبه امداديه ملتان) (المبسوط: ۲۴/ ۷۷۔ کتاب الإكراه ،باب تعدي العامل۔ ط: دارالمعرفۃ، بیروت۔ لبنان) (الاشباہ و النظائر لابن نجیم: ۲۵۲، ۲۵۳ ۔ الفن الأول في القواعد الكلية۔ النوع الأول ۔ القاعدة الثالثة: اليقين لا يزول بالشك) (الاشباہ و النظائر لابن نجیم مع شرحہ الحموی: ۲۵۲، ۲۵۳ ۔ الفن الأول في القواعد الكلية۔ النوع الأول ۔ القاعدة الثالثة: اليقين لا يزول بالشك۔ تحقیق و تعلیق: المفتی محمد یوسف التاؤلوی) (فتوی نمبر : 144503100953۔ دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن) لیکن مباح کو مباح کے ہی درجے میں رہنے دینا چاہیے، مباح کو عملی طور پرواجب بنالینا اور اپنے اعصاب پرسوار کرلینا صحیح نہیں ہے، لہذاچند باتوں کا خیال رکھیے :
اس کے عادی مت بنیے، اس کو ضرورت مت بنائیے، اپنی تخلیقی صلاحیت کا استعمال کیجیے، اس کے منفی اثرات سے ہمیشہ چوکنا رہیے، مصنوعی ذہانت کی طاقت بہت زیادہ ہے ، اور مصنوعی ذہانت میں عظیم چیزیں حاصل کرنے کی بہت زیادہ صلاحیت ہے،لیکن بدقسمتی سے اگر یہ مشینیں غلط ہاتھوں میں چلی جاتی ہیں، تو اس کے بہت زیادہ سنگین نتائج ہوسکتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اس کے غلط استعمال کا امکان بہت زیادہ ہے۔ (ماخوذ از ماہنامہ ھادیہ ای میگزین: شمارہ فروری ۲۰۲۴ء۔ کالم ای-استاذ۔ کالم نگار: زہرہ فاطمہ )
سوال(۲) مصنوعی ذہانت کے اپلی کیشن Chat GPT کے ذریعہ تیار کردہ تحریر و کتاب کو اپنی جانب صرف اس بنیاد پر منسوب کرنا اورحق تصنیف رکھنا کیا درست کہلائے گا، کہ وہ تحریر اور کتاب متعلقہ شخص نے اپنے سوالات کے ذریعہ تیار کرائی ہے؟
جواب: اگر ”چیٹ جی پی ٹی“ ایک سوال کا جواب اس طرح دیتا ہو کہ اسی سوال کو متعدد بار کیا جائے تو ہر بار ایک ہی مضمون پیش کرتا ہو تو اس صورت میں نہ تو اپنی طرف منسوب کرنا صحیح ہے اور نہ ہی حق تصنیف رکھنا، کیوں کہ اس صورت میں یہ بات واضح ہے کہ یہ مصنوعی ذہانت کا ایک طے شدہ مضمون ہے جو اس متعین سوال کے جواب میں آتا ہے، ارادی طور پر یا اتفاقی طور پروہی سوال کوئی بھی پیش کرے گا تو اس کے سامنے وہ طے شدہ مضمون آجائے گا۔
اور اگردوسری صورت ہو وہ یہ کہ ایک متعین سوال کو جب بھی مصنوعی ذہانت کے حوالے کیا جائے تو وہ ہر بار ایک نیا مضمون پیش کرے ، تو اس صورت میں اس مضمون کا دریافت کرنے والا متعلقہ شخص ہی ہوگا، اور اسے حق تصنیف ملنا چاہیے، البتہ اس صورت میں بھی اپنی جانب منسوب کرنا صحیح نہیں ہوگا، کیوں کہ بہرحال وہ اس مضمون کا موجد نہیں ہے، اس کی دماغی کاوش اور فکری صلاحیتوں کا کوئی دخل نہیں، صرف سوال کی حد تک۔ یہ مضمون مصنوعی ذہانت کی طرف ہی منسوب ہوگا، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اس مضمون کا مصنوعی ذہانت کی طرف منسوب ہونا بھی محل نظر ہے، کیوں کہ مصنوعی ذہانت بھی اس مضمون کو ان کتابوں سے چراکر ہی پیش کررہی ہے جن کتابوں کا مواد اس میں شامل کیا گیا ہے۔ چراکر اس لیے کہ مصنوعی ذہانت جن کتابوں سے مواد لیتی ہے اس کا حوالہ نہیں دیتی، لہذا یہ علمی سرقہ کے زمرے میں آتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ مصنفین کی جانب سے مصنوعی ذہانت کے خلاف عدالتوں میں علمی سرقہ کی شکایتیں درج کی جاچکی ہیں۔
(کالم نگار: بینا شاہ۔ مضمون: ’کیا معلوم یہ مضمون بھی مصنوعی ذہانت نے ہی لکھا ہو‘۔ یہ مضمون 7 اکتوبر 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔) (لائیو ٹی وی: آج نیوز ۔ویب ڈیسک۔ لائف اسٹائل 11 جولائی 2023) ۔ خلاصہ یہ کہ مصنوعی ذہانت کی گردن تو خود پھنسی ہوئی ہے، تو پھر چور سے چوری کرنا کہاں سے درست ہوجائے گا؟ قانونا تو مصنوعی ذہانت کو بھی مضامین باحوالہ پیش کرنا چاہیے، اور سوال کے ذریعے مضمون حاصل کرنے والے شخص کو مضمون کی نسبت اپنی جانب نہیں کرنا چاہیے۔ عقلی، شرعی اور اخلاقی طور پر بھی یہ درست نہیں ہے۔
ملاحظہ فرمائیں: ( آل عمران: ۱۸۸) (صحیح بخاری: 5219، صحیح مسلم: 2130) (صحیح مسلم: 110) ( مسلم: 61). (شرح النووي على مسلم (2/ 50). (ماخوذ از : علمی سرقہ: تحریر: عمر اثری ابن عاشق علی اثری۔ اردو محفل فورم:- اکتوبر 15، 2017۔ )
حضرت مولانا مفتی احمد خان پوریؒکے بارے میں منقول ہے: فتاوی نویسی کی مشق کرنے والے طلبا کو بار بار یہ نصیحت فرماتے ہیں کہ جو عبارت جس کتاب سے لی ہے اس کتاب کا نام ضرور لکھو، چاہے تم نے چھوٹے رسالہ ہی سے عبارت کیوں نہ لی ہو، ایسا ہر گز نہ کرو کہ تم چھوٹے رسالہ سے عبارت لو اور اس رسالہ کا حوالہ نہ لکھو؛ بلکہ اپنی بات بڑی کتاب کی طرف منسوب کرنے کے لیے اس چھوٹے رسالہ میں موجود بڑی کتاب کا حوالہ لکھ دو اس سے علم میں بے برکتی ہوتی ہے۔
(محمود الفتاوی -: ۱ / ۲۲۷،۲۲۸، باب چہارم: ذوق فتوی نویسی۔ بشکریہ :مفتی ندیم احمد انصاری بانی و صدر الفلاح انٹر نیشنل فاؤنڈیشن)

دیگر تصانیف

امیدوں کا چراغ

مٹی کا چراغ

کہاں گئے وہ لوگ

تذکیر و تانیث

مجلس ادارت

team

سرپرست

حضرت الحاج مولانا کبیر الدین فاران صاحب مظاہری

team

مدیر مسئول

مولانا ارشد کبیر خاقان صاحب مظاہری

team

مدیر

مفتی خالد انور پورنوی صاحب قاسمی