ماہنامہ الفاران
ماہِ جمادی الاول - ۱۴۴۶
جنگ آزادی میں علماء کرام کی خدمات
جناب مولانا تبریز عالم قاسمی صاحب، استاذ دارالعلوم، حیدرآباد
اٹھارہویں صدی کے وسط میں سلطنت مغلیہ کا آفتاب مائل بہ غروب تھا اور انگریزی اقتدار کی گھٹائیں دن بدن گاڑھی ہورہی تھیں ، انگریز جب ہندوستان پہنچے تھے تو تاجروں کی حیثیت سے پہنچے تھے اور عام لوگوں نے انھیں ایک معمولی تاجر کے سوا اور کچھ نہیں سمجھا؛ لیکن ان کی نیت صاف نہیں تھی، انھوں نے اپنوں کی کمزوری اور آپسی نااتفاقی سے فائدہ اٹھاکر اپنی شاطرانہ اور عیارانہ چالوں کے ذریعہ یہاں کے سیاہ وسفید کے مالک ہوگئے اور ہندوستانی قوم کو غلامی کی غیر مرئی زنجیروں میں قید کرنے میں کامیاب ہوگئے، یہاں کی دولت و ثروت کوبے دریغ لوٹنے لگے، یہاں کے باشندوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنے لگے اور یہاں کی تہذیب سے کھلواڑ کرنے لگے اور اس کا سلسلہ مزید بڑھتا ہی گیا، پانی جب سر سے اوپر ہوگیا، تو ہندوستانیوں کے دلوں میں آزادیٴ وطن کا جذبہ پیدا ہوا اور سب سے پہلے مسلمانوں نے اس خطرے کی سنگینی کو محسوس کیا، سراج الدولہ اور سلطان ٹیپوں شہید اور دیگر مسلم فرماں روا اپنی تمام ترقوتوں کے ساتھ جان ہتھیلی پر رکھ کر میدانِ جنگ میں کود پڑے اور یوں تحریک آزادی کی ابتداء ہوئی پھر یہ تحریک رکی نہیں بلکہ اس نے زور پکڑنا شروع کیا اور اب علماء ہند کفن باندھ کر انگریزوں کو للکار نے لگے اور یہ ایسی جماعت تھی جس کی جفا کشی عزائم و ہمم ، صبر آزمائی ، دور اندیشی اور ایثار و قربانی نے اس دور کی تاریخ کو انقلاب آفریں بنادیا اور مولانا شاہ عبد العزیز دہلوی ، مولانا اسمٰعیل شہید، مولانا عبد الحئی اور آگے چل کر علماء دیوبند ، مولانا قاسم نانوتوی، شیخ الہند، مولانا گنگوہی، حافظ ضامن شہید ، مولانا حسین احمد مدنی اور مفتی کفایت اللہ اور مولانا آزاد وغیرہ جیسے پیکر استقلال اور کوہ گراں پیدا ہوئے ، جنھوں نے اپنی تقریروں، تحریروں؛ بلکہ اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے آزادیٴ وطن کی بنیاد رکھی۔
انھیں علماء کرام کی جلائی ہوئی مشعل کی روشنی میں ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی بہادر شاہ ظفر کی قیادت میں لڑی گئی جس میں ہندوستان کے ہر فرقے کے لوگ شامل تھے؛ لیکن یہ جنگ ناکام ہوئی اور ناکامی کی قیمت سب سے زیادہ مسلمانوں کو چکانی پڑی، تقریبا دولاکھ مسلمان شہید ہوگئے جن میں تقریبا باون ہزارعلماء تھے ان کی جائدادیں لوٹ لی گئیں،اس قدر جانی و مالی نقصان کے باوجود تحریک آزادی کا سلسلہ مختلف شکلوں میں جاری رہا اور بالآخر ہمارا ملک تمام فرقوں ، بالخصوص مسلمانوں اور خاص طور سے علماء کی جہد مسلسل اور پیہم کو شش اور جانی ومالی قربانی کے بعد ۱۵/اگست ۱۹۴۷ء کو آزاد ہوگیا، اور ۲۶/جنوری ۹۵۰ ۱ ء سے جمہوری ملک قرار دیا گیا اور دستور کو سیکولر دستورکا نام دیا گیا۔
مجاہدین آزادی کے سامنے تحریک آزادی کا مقصد صرف سیاسی آزادی نہیں تھا؛ بلکہ ایسے نظام حکومت کا خواب تھا، جس میں اس ملک کے تمام شہریوں کو مذہبی، سماجی اور اقتصادی آزادی حاصل ہو؛تاکہ بغیر کسی مذہبی علاقائی اور لسانی تفریق کے سماجی نابرابری، جہالت، غربت ، ظلم و تشدد اور فرقہ وارانہ تعصبات سے بری سماج وجود میں آسکے اور ہر شہری آبرو مندانہ زندگی گذار سکے، غور کیجیے ملک آزاد ہوئے تقریبا ۶۶/سال ہوگئے؛ لیکن کیا انگریزوں کے چلے جانے کے بعد ہمارے معاشرے کو انگریزی تہذیب و تمدن سے آزادی مل سکی، ۱۹۴۷ء میں ملک کے لوگوں کے درمیان مل جل کررہنے کا جو سمجھوتہ ہوا تھا کیا وہ کامیاب ہوتا ہوا نظر آرہا ہے، کیا سماجی نابرابری کی خلیج پاٹ دی گئی ،کیا ہر مذہب والے کومذہبی آزادی مل سکی؟بد عنوانی ،کرپشن، سرکاری خزانے کی لوٹ، اشیاء خوردونوش میں ملاوٹ، دہشت گردی و فرقہ پرستی جیسی غیر قانونی باتوں سے ملک آزاد ہوسکا؟ ذرا آگے بڑھیے، آزادی کے بعد ایک مخصوص فرقے کے ارد گرد گھیراتنگ کیا جانے لگا، گزشتہ ۵۰/۶۰/سالوں میں ملک کی سب سے بڑی اقلیت کے ساتھ جو امتیازی سلوک کیا گیا اس کے نتیجے میں جمہوریت پر اعتماد برقرار نہ رہا اس دوران ملک کا اخلاقی زوال اس سطح تک پہنچ گیا کہ ملک کے ہر محکمہ اور ملک کے ہر ادارے میں بے ایمانی، رشوت خوری اور ناجائز طریقے سے دولت سمیٹنے کا طوفان سا آگیا، اب ہر روز ایک نئی بدعنوانی کا پردہ فاش ہورہا ہے ، سیاست ایک نفع بخش پیشہ بن گئی،ملک کی فوج کے کچھ افراد شک کے دائرے میں آگئے، محب وطن کو غدار وطن کہا جانے لگا، مسلمانوں کے ساتھ ہر سطح پر اور تمام شعبہ ہائے حیات میں نا انصافی کی گئی، تعلیمی اور اقتصادی طور سے انھیں قعر مذلت میں ڈھکیل دیا گیا ، ۱۹۶۱ء سے فسادات کا سلسلہ چل پڑا ، جانی و مالی دونوں اعتبار سے انھیں نقصان پہنچایا گیا، فاشسٹ تنظیموں اور سیکوریٹی فورسز کو کھلی چھوٹ مل گئی کہ وہ مسلمانوں کے خون میں آزادی سے ہاتھ رنگا کریں ، دہشت گردی کے نام پر بے قصور مسلمانوں کو سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا گیا، ان کی عبادت گاہوں کو نشانہ بنایا گیا، فرضی ان کاوٴنٹر کا کھیل کھیلا گیا، غرضیکہ ہر میدان میں ایک مخصوص فرقے کو پیچھے رکھنے کی سازشیں کی گئیں ، کیا مجاہدین آزادی نے ایسی ہی جمہوریت کا خواب اپنی آنکھوں میں سجایا تھا؟
دوسری طرف جاں باز اور ایثار شیوہ علماء اور مجاہدینِ آزادی کی خدمات اور ان کی سر فروشی کے آثار ونشانات تاریخ کے اوراق سے مٹانے کی انتھک کوشش جاری ہیں اور یہ باور کرایا جارہا ہے کہ ملک کی آزادی میں مسلمانوں کا کوئی خاص رول نہیں ہے اور جشن آزادی اور جشن جمہوریہ کے موقع پر صرف گاندھی ، نہر و، سبھاش چندربوس، بھگت سنگھ وغیرہ کا نام پوری طاقت سے لیا جاتاہے، او ر ہماری نئی نسل ان کے دام فریب میں پھنس بھی رہی ہے، آج ہماری نسل اپنے بزرگوں اور آباء و اجداد کی قربانیوں کی تاریخ سے ناواقف ہے، انھیں علماء دیوبند کی جفاکشی ، علماء صادق پور کی سرفروشی کا علم نہیں، انھیں سراج الدولہ، شیر میسور ٹیپور سلطان کی وطن پرستی سے واقفیت نہیں، آج نئی نسل چاہے وہ مسلمان ہوں یا برادران وطن سب یہ سمجھتے ہیں کہ ۲۶/جنوری اور ۱۵/اگست ہماری قومی تاریخ میں مسرت کے دنوں میں سے ایک دن ہے، اس میں شک نہیں کہ واقعی یہ دن فرحت و شادمانی کے دن ہیں؟ لیکن ہم نئی نسل پر یہ بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم اپنے اکابر و اسلاف کی قربانیوں کی تاریخ پڑھیں، ان کی حیات و خدمات کا جائزہ لیں، ان کی صفات و خصوصیات اپنے اندر جذب کرکے اس کے نقش قدم پر چلنے کا حوصلہ پیدا کریں اور برادران وطن کو علماء اور مسلمان مجاہدین کی وطن پرستی،اور وطن کے لیے جذبہ صادق اور تڑپ سے روشناس کرائیں، انھیں بتائیں کہ اگر آزادی وطن کی تاریخ سے علماء کرام کی خدمات کو نکال دیا جائے تو تاریخ آزادی کی روح ختم ہوجائے گی ، علماء کرام کے کردار کیسے تھے، محمد میاں صاحب کی زبانی سنیے لکھتے ہیں:
”البتہ اسی اغراض پرستی اور طوائف الملوکی کے دور میں تحقیق و تفتیش کی ندرت آفرینی اورتلاش و جستجو کی عجائب نوازی، ہمیں ایک جماعت سے روشناس کراتی ہے ، جس کے جذبات مقدس ، مقاصد بلند اور جس کی جدوجہد ہر قسم کے شبہ سے پاک ہے، بادشاہوں ، شاہزادوں ، نوابوں اور راجاوٴں کے متعلق بجا طور پر جاگیر شاہی کی زریں تمناوٴں کا شبہ کیا جاسکتا ہے؛لیکن اس جماعت کا دامن ایسے تمام داغوں سے پاک ہے یہ جماعت نہ اقتدار کی، نہ حکومت و سلطنت کی آروز مند، نہ اعزازو اکرام اور اعلی خطابات کی ہوس اس کے دامنوں سے الجھی ہوئی، اس کے سامنے صرف وطن ہے ، باشندگان وطن ہیں، وطن عزیزکی حفاظت ، اہل وطن کی ہمدردی اور اپنے ملک کی تعمیر و ترقی ہے یہی ان کا نصب العین ہے ، اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنے اس دین ومذہب کی حفاظت بھی ضروری سمجھتے ہیں، جس سے ان کے پاک نفوس میں یہ پاکیزہ جذبات پیدا کیے” یہ علماء ہند کی جماعت ہے“وہ جماعت کہ اگراس کے فکر سلیم اور جذبہ صادق کا اعتراف نہ کیا جائے، اور اگر تاریخی واقعات کی ترتیب اور ان کے سلسلہ میں سے اس جماعت کی سنہری زنجیر کو نکال دیا جائے تو نہ صرف یہ کہ با اخلاص اور ایثار شیوہ جماعت کے حق میں ، ناانصافی ہوگی؛ بلکہ حق یہ ہے کہ وطن عزیز کے حق میں خیانت اور ایثار و قربانی کو پوری تاریخ پر ایک بہت بڑا ظلم ہوگا اس جماعت نے اٹھارہویں صدی کے وسط سے رفتار زمانہ کو بھانپ کر جو نظریہ مرتب کیا وطن عزیز کی ترقی اورکامیابی کے لیے جو تدبیریں سوچیں اور جس طرح ان پرعمل کیا وہ ایک ناقابل فراموش حقیقت ہے“(علماء ہند کا شاندار ماضی :۵۷)
مسلمان اور علماء آزادی وطن کی لڑائی میں دوسروں کے ساتھ برابر کے شریک رہے ہیں اس کا انکارناممکن ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم تحریر وتقریر کے ذریعہ تقاریب و پروگراموں کے توسط سے لوگوں کو روشناس کرائیں اس کے لیے ایک مضبوط مسلم سیاسی قیادت کی بھی ضرورت معلوم ہوتی ہے ، جس کے لیے سارے آپسی اختلافات مٹانے ہوں گے بہتر معلوم ہوتا ہے کہ اس سلسلے میں مشہور کا لم نگار برائے راشٹریہ سہارا محفوظ الرحمان مرحوم کی تحریر کا اقتباس نقل کرکے مضمون ختم کیا جائے۔
”اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ موجودہ حالات میں ایک مضبوط قیادت ہی مسلمانوں کے درد کا درماں بن سکتی ہے ، ایک ایثار پیشہ، بے لوث قیادت ہی ان میں بیساکھیوں کی بجائے اپنے پاوٴں پر آپ کھڑے ہونے کے ذوق جنوں کی آبیاری کرسکتی ہے ، نامساعد حالات کے سامنے سپرانداز ہوتے چلے جانے کے بجائے ان میں ان سے پنجہ آزمائی کی خفیہ اہلیت کو بیدارکرنے کی کوشش کرسکتی ہے اور جو کچھ کھو گیا ہے اس کی بازیافت کا ولولہ بھی پیدا کرسکتی ہے؛ لیکن یہ خواب کل بھی تعبیر سے تہی تھا، آج بھی اس کی خوش کن تعبیر حقیقت کا روپ دھارنے سے گریزاں نظر آرہی ہے ؛ لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ مسلمانوں میں ایک مضبوط اور ایثار پیشہ قیادت ابھر ہی نہیں سکتی، یہ ناممکن نہیں ہے ، وہ وقت ضرور آئے گا ، جب ہم اور آپ اس خواب کو حقیقت بنتا دیکھیں گے، آواز وہی باوزن کہلاتی ہے جو اسمبلیوں اور پارلیمنٹ کے ایوانوں میں گونجتی ہے جو اخباروں کے صفحات میں پڑھی اور الیکٹرانک میڈیا کی نشریات میں سنی جاتی ہے ، مسلمانوں کو اپنی سیاسی تنظیم کے ذریعہ اپنی آواز میں یہ وزن پیدا کرنا ہوگا ، یہی وہ راستہ ہے جو انھیں حقوق کی بازیافت اور عزت و توقیر کی منزل مراد تک پہنچا سکتا ہے“
انھیں علماء کرام کی جلائی ہوئی مشعل کی روشنی میں ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی بہادر شاہ ظفر کی قیادت میں لڑی گئی جس میں ہندوستان کے ہر فرقے کے لوگ شامل تھے؛ لیکن یہ جنگ ناکام ہوئی اور ناکامی کی قیمت سب سے زیادہ مسلمانوں کو چکانی پڑی، تقریبا دولاکھ مسلمان شہید ہوگئے جن میں تقریبا باون ہزارعلماء تھے ان کی جائدادیں لوٹ لی گئیں،اس قدر جانی و مالی نقصان کے باوجود تحریک آزادی کا سلسلہ مختلف شکلوں میں جاری رہا اور بالآخر ہمارا ملک تمام فرقوں ، بالخصوص مسلمانوں اور خاص طور سے علماء کی جہد مسلسل اور پیہم کو شش اور جانی ومالی قربانی کے بعد ۱۵/اگست ۱۹۴۷ء کو آزاد ہوگیا، اور ۲۶/جنوری ۹۵۰ ۱ ء سے جمہوری ملک قرار دیا گیا اور دستور کو سیکولر دستورکا نام دیا گیا۔
مجاہدین آزادی کے سامنے تحریک آزادی کا مقصد صرف سیاسی آزادی نہیں تھا؛ بلکہ ایسے نظام حکومت کا خواب تھا، جس میں اس ملک کے تمام شہریوں کو مذہبی، سماجی اور اقتصادی آزادی حاصل ہو؛تاکہ بغیر کسی مذہبی علاقائی اور لسانی تفریق کے سماجی نابرابری، جہالت، غربت ، ظلم و تشدد اور فرقہ وارانہ تعصبات سے بری سماج وجود میں آسکے اور ہر شہری آبرو مندانہ زندگی گذار سکے، غور کیجیے ملک آزاد ہوئے تقریبا ۶۶/سال ہوگئے؛ لیکن کیا انگریزوں کے چلے جانے کے بعد ہمارے معاشرے کو انگریزی تہذیب و تمدن سے آزادی مل سکی، ۱۹۴۷ء میں ملک کے لوگوں کے درمیان مل جل کررہنے کا جو سمجھوتہ ہوا تھا کیا وہ کامیاب ہوتا ہوا نظر آرہا ہے، کیا سماجی نابرابری کی خلیج پاٹ دی گئی ،کیا ہر مذہب والے کومذہبی آزادی مل سکی؟بد عنوانی ،کرپشن، سرکاری خزانے کی لوٹ، اشیاء خوردونوش میں ملاوٹ، دہشت گردی و فرقہ پرستی جیسی غیر قانونی باتوں سے ملک آزاد ہوسکا؟ ذرا آگے بڑھیے، آزادی کے بعد ایک مخصوص فرقے کے ارد گرد گھیراتنگ کیا جانے لگا، گزشتہ ۵۰/۶۰/سالوں میں ملک کی سب سے بڑی اقلیت کے ساتھ جو امتیازی سلوک کیا گیا اس کے نتیجے میں جمہوریت پر اعتماد برقرار نہ رہا اس دوران ملک کا اخلاقی زوال اس سطح تک پہنچ گیا کہ ملک کے ہر محکمہ اور ملک کے ہر ادارے میں بے ایمانی، رشوت خوری اور ناجائز طریقے سے دولت سمیٹنے کا طوفان سا آگیا، اب ہر روز ایک نئی بدعنوانی کا پردہ فاش ہورہا ہے ، سیاست ایک نفع بخش پیشہ بن گئی،ملک کی فوج کے کچھ افراد شک کے دائرے میں آگئے، محب وطن کو غدار وطن کہا جانے لگا، مسلمانوں کے ساتھ ہر سطح پر اور تمام شعبہ ہائے حیات میں نا انصافی کی گئی، تعلیمی اور اقتصادی طور سے انھیں قعر مذلت میں ڈھکیل دیا گیا ، ۱۹۶۱ء سے فسادات کا سلسلہ چل پڑا ، جانی و مالی دونوں اعتبار سے انھیں نقصان پہنچایا گیا، فاشسٹ تنظیموں اور سیکوریٹی فورسز کو کھلی چھوٹ مل گئی کہ وہ مسلمانوں کے خون میں آزادی سے ہاتھ رنگا کریں ، دہشت گردی کے نام پر بے قصور مسلمانوں کو سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا گیا، ان کی عبادت گاہوں کو نشانہ بنایا گیا، فرضی ان کاوٴنٹر کا کھیل کھیلا گیا، غرضیکہ ہر میدان میں ایک مخصوص فرقے کو پیچھے رکھنے کی سازشیں کی گئیں ، کیا مجاہدین آزادی نے ایسی ہی جمہوریت کا خواب اپنی آنکھوں میں سجایا تھا؟
دوسری طرف جاں باز اور ایثار شیوہ علماء اور مجاہدینِ آزادی کی خدمات اور ان کی سر فروشی کے آثار ونشانات تاریخ کے اوراق سے مٹانے کی انتھک کوشش جاری ہیں اور یہ باور کرایا جارہا ہے کہ ملک کی آزادی میں مسلمانوں کا کوئی خاص رول نہیں ہے اور جشن آزادی اور جشن جمہوریہ کے موقع پر صرف گاندھی ، نہر و، سبھاش چندربوس، بھگت سنگھ وغیرہ کا نام پوری طاقت سے لیا جاتاہے، او ر ہماری نئی نسل ان کے دام فریب میں پھنس بھی رہی ہے، آج ہماری نسل اپنے بزرگوں اور آباء و اجداد کی قربانیوں کی تاریخ سے ناواقف ہے، انھیں علماء دیوبند کی جفاکشی ، علماء صادق پور کی سرفروشی کا علم نہیں، انھیں سراج الدولہ، شیر میسور ٹیپور سلطان کی وطن پرستی سے واقفیت نہیں، آج نئی نسل چاہے وہ مسلمان ہوں یا برادران وطن سب یہ سمجھتے ہیں کہ ۲۶/جنوری اور ۱۵/اگست ہماری قومی تاریخ میں مسرت کے دنوں میں سے ایک دن ہے، اس میں شک نہیں کہ واقعی یہ دن فرحت و شادمانی کے دن ہیں؟ لیکن ہم نئی نسل پر یہ بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم اپنے اکابر و اسلاف کی قربانیوں کی تاریخ پڑھیں، ان کی حیات و خدمات کا جائزہ لیں، ان کی صفات و خصوصیات اپنے اندر جذب کرکے اس کے نقش قدم پر چلنے کا حوصلہ پیدا کریں اور برادران وطن کو علماء اور مسلمان مجاہدین کی وطن پرستی،اور وطن کے لیے جذبہ صادق اور تڑپ سے روشناس کرائیں، انھیں بتائیں کہ اگر آزادی وطن کی تاریخ سے علماء کرام کی خدمات کو نکال دیا جائے تو تاریخ آزادی کی روح ختم ہوجائے گی ، علماء کرام کے کردار کیسے تھے، محمد میاں صاحب کی زبانی سنیے لکھتے ہیں:
”البتہ اسی اغراض پرستی اور طوائف الملوکی کے دور میں تحقیق و تفتیش کی ندرت آفرینی اورتلاش و جستجو کی عجائب نوازی، ہمیں ایک جماعت سے روشناس کراتی ہے ، جس کے جذبات مقدس ، مقاصد بلند اور جس کی جدوجہد ہر قسم کے شبہ سے پاک ہے، بادشاہوں ، شاہزادوں ، نوابوں اور راجاوٴں کے متعلق بجا طور پر جاگیر شاہی کی زریں تمناوٴں کا شبہ کیا جاسکتا ہے؛لیکن اس جماعت کا دامن ایسے تمام داغوں سے پاک ہے یہ جماعت نہ اقتدار کی، نہ حکومت و سلطنت کی آروز مند، نہ اعزازو اکرام اور اعلی خطابات کی ہوس اس کے دامنوں سے الجھی ہوئی، اس کے سامنے صرف وطن ہے ، باشندگان وطن ہیں، وطن عزیزکی حفاظت ، اہل وطن کی ہمدردی اور اپنے ملک کی تعمیر و ترقی ہے یہی ان کا نصب العین ہے ، اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنے اس دین ومذہب کی حفاظت بھی ضروری سمجھتے ہیں، جس سے ان کے پاک نفوس میں یہ پاکیزہ جذبات پیدا کیے” یہ علماء ہند کی جماعت ہے“وہ جماعت کہ اگراس کے فکر سلیم اور جذبہ صادق کا اعتراف نہ کیا جائے، اور اگر تاریخی واقعات کی ترتیب اور ان کے سلسلہ میں سے اس جماعت کی سنہری زنجیر کو نکال دیا جائے تو نہ صرف یہ کہ با اخلاص اور ایثار شیوہ جماعت کے حق میں ، ناانصافی ہوگی؛ بلکہ حق یہ ہے کہ وطن عزیز کے حق میں خیانت اور ایثار و قربانی کو پوری تاریخ پر ایک بہت بڑا ظلم ہوگا اس جماعت نے اٹھارہویں صدی کے وسط سے رفتار زمانہ کو بھانپ کر جو نظریہ مرتب کیا وطن عزیز کی ترقی اورکامیابی کے لیے جو تدبیریں سوچیں اور جس طرح ان پرعمل کیا وہ ایک ناقابل فراموش حقیقت ہے“(علماء ہند کا شاندار ماضی :۵۷)
مسلمان اور علماء آزادی وطن کی لڑائی میں دوسروں کے ساتھ برابر کے شریک رہے ہیں اس کا انکارناممکن ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم تحریر وتقریر کے ذریعہ تقاریب و پروگراموں کے توسط سے لوگوں کو روشناس کرائیں اس کے لیے ایک مضبوط مسلم سیاسی قیادت کی بھی ضرورت معلوم ہوتی ہے ، جس کے لیے سارے آپسی اختلافات مٹانے ہوں گے بہتر معلوم ہوتا ہے کہ اس سلسلے میں مشہور کا لم نگار برائے راشٹریہ سہارا محفوظ الرحمان مرحوم کی تحریر کا اقتباس نقل کرکے مضمون ختم کیا جائے۔
”اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ موجودہ حالات میں ایک مضبوط قیادت ہی مسلمانوں کے درد کا درماں بن سکتی ہے ، ایک ایثار پیشہ، بے لوث قیادت ہی ان میں بیساکھیوں کی بجائے اپنے پاوٴں پر آپ کھڑے ہونے کے ذوق جنوں کی آبیاری کرسکتی ہے ، نامساعد حالات کے سامنے سپرانداز ہوتے چلے جانے کے بجائے ان میں ان سے پنجہ آزمائی کی خفیہ اہلیت کو بیدارکرنے کی کوشش کرسکتی ہے اور جو کچھ کھو گیا ہے اس کی بازیافت کا ولولہ بھی پیدا کرسکتی ہے؛ لیکن یہ خواب کل بھی تعبیر سے تہی تھا، آج بھی اس کی خوش کن تعبیر حقیقت کا روپ دھارنے سے گریزاں نظر آرہی ہے ؛ لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ مسلمانوں میں ایک مضبوط اور ایثار پیشہ قیادت ابھر ہی نہیں سکتی، یہ ناممکن نہیں ہے ، وہ وقت ضرور آئے گا ، جب ہم اور آپ اس خواب کو حقیقت بنتا دیکھیں گے، آواز وہی باوزن کہلاتی ہے جو اسمبلیوں اور پارلیمنٹ کے ایوانوں میں گونجتی ہے جو اخباروں کے صفحات میں پڑھی اور الیکٹرانک میڈیا کی نشریات میں سنی جاتی ہے ، مسلمانوں کو اپنی سیاسی تنظیم کے ذریعہ اپنی آواز میں یہ وزن پیدا کرنا ہوگا ، یہی وہ راستہ ہے جو انھیں حقوق کی بازیافت اور عزت و توقیر کی منزل مراد تک پہنچا سکتا ہے“