ماہنامہ الفاران
ماہِ جمادی الاول - ۱۴۴۶
نماز سنت کے مطابق پڑھایئے؟
جناب مولانا ارشد کبیر خاقان صاحب مظاہری،ناظم مدرسہ نور المعارف،مولانا علی میاں نگر،دیا گنج،ضلع ارریہ،بہار، جنرل سکریٹری؛ابوالحسن علی ایجوکیشنل اینڈ ویلفیر ٹرسٹ(پورنیہ)بہار
کون نہیں جانتا کہ آج امت مسلمہ آسمانی، فضائی، زمینی آزمائشوں اور مظالم کا شکار ہے، آپسی دوریاں اور باہمی منافرت نے اسکے دن کا آرام اور رات کا سکون چھین لیا ہے، وہ ہر محاذ پر شکست خوردہ اور مظلومیت کی ایک تصویر بنی ہوئی ہے۔ وجوہات میں نمازوں کا سنت نبوی کے مطابق نہ پڑھنا اور پڑھانا ہے جب کہ نمازوں کو ٹھیک ٹھیک سنتوں کے مطابق ادا کرنا ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے اور اسکے بغیر ہماری نمازیں سنت کے انوار و برکات سے محروم رہتی ہیں ان میں سے نمازوں میں صف بندی سے بے اعتنائی ہے جس پر باہمی انسیت اور آپسی محبت موقوف ہے۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق نماز میں صفوں کی درستگی دلوں کو جوڑنے اور آپسی محبت کا سبب اور دنیوی زندگی کے ہر محاذ پر اتحاد و یگانگت کا سبب بتایا جسکو ترک کرنے سے امت کی ہوائیں اکھڑ گئی ہیں۔ اگر امت محمد یہ کھوئے وقار کی بازیابی اور مظلومیت سے پناہ اور محبت و یگانگت کے قلعہ میں محفوظ ہونا چاہتی ہے تو انہیں مسجد کے اعمال سے اپنے کو مرصع کرنا پڑے گا خاص طور پر نماز کے اہتمام میں صفوں کی درستگی تکبیر تحریمہ سے قبل لازم پکڑنا پڑے گا۔
حضرت محمدﷺ جب نماز کیلئے کھڑے ہوتے تو آپ تکبیر کہنے سے پہلے دائیں بائیں لوگوں کو کندھے برابر رکھنے کا حکم فرماتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کوئی شخص آگے پیچھے نہ ہو ورنہ ان میں پھوٹ پڑ جائیگی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے صفیں جوڑ لیا کر وکندھے سے کندھے ملالیا کروتا کہ بکری کے بچوں جیسے شیطان تمہارے درمیان گھس کر نہ کھڑے ہو جائیں۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک روز دوران نماز دیکھا کہ ایک شخص کا سینہ صف سے باہر نکلا ہوا ہے آپ نے ارشاد فرمایا تم کو اپنے مونڈ ھے برابر کر لینے چاہئیں ورنہ اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں میں پھوٹ ڈال دے گا، بخاری ومسلم کی روایت ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنی صفیں سیدھی رکھو ورنہ اللہ تعالیٰ تمہارے چہروں میں فرق پیدا کر دیگا۔
خلیفہ دوم حضرت عمر بن الخطاب نے اپنے دور خلافت میں ایک آدمی صرف اسی غرض سے مقرر کر رکھا تھا کہ اسوقت تک اللہ اکبر نہیں کہتے جب تک صفوں کے درمیان سے نمائندے کی آواز نہ سن لیتے کہ صفیں درست ہو گئیں، اسی طرح آپ ﷺ اسوقت تک نماز شروع نہ فرماتے جب تک صفیں درست نہ ہو جاتیں۔
حدیث شریف میں ہے جس طرح تیر کمان سے چھوڑنے کیلئے بالکل سیدھانشا نہ لگایا جاتا ہے اور آدمی اسوقت سیدھا کھڑا ہوتا ہے آپ بالکل اسی طرح صفوں کو درست فرماتے تھے ایڑیاں بالکل سیدھی ہوں، سینے بالکل برابر ہوں، کندھے ملے ہوئے ہوں کیونکہ رسول اللہﷺ نے فرمایاد دیکھو آگے پیچھے نہ ہونا ور نہ دل آگے پیچھے ہو جائیں گے۔بلکہ اسکے ذریعہ مسلمانوں کو اس بات کا پابند بنایا جاتا ہے کہ دیکھو! جس طرح تم یہاں کھڑے ہو اسی طرح زندگی کے ہر میدان میں سیدھے رہو۔
اسلئے ائمہ کرام کو چاہئے کہ وہ نماز۔ کہ تمامترا حکامات کے ساتھ صفوں کی درستگی کا بھی اہتمام فرمادیں تا کہ امت مسلمہ افتراق وانتشار کی لعنت سے اپنے آپ کو محفوظ کر سکے اس کیلئے ضروری ہی کہ منصب امامت پر ایسے شخص فائز ہوں جو صحیح معنی میں رسول اللہ نے کی نیابت کے فرائض انجام دے سکیں۔ آج دیکھا جارہا ہے کہ صفوں کی درستگی سے بے اعتنائی خواص کے اندر بھی پائی جارہی ہے جامعات اور اداروں کی مساجد میں بھی اسکا اہتمام نہیں ہو رہا ہے۔
اسی طرح اکثر مساجد میں دیکھا جاتا ہے کہ نماز میں سورتیں سنت کے مطابق نہیں پڑھی جاتی یہی وجہ ہے کہ آج ہماری نمازیں نورانیت سے خالی ہوتی جارہی ہے جب کہ فقہ کی کتابوں میں پانچوں نمازوں میں سورتوں کی ترتیب مقرر ہے مثلا طوال مفصل یعنی سورۃ حجرات سے سورۃ بروج تک فجر، ظہر میں، اوساط مفصل یعنی سورہ بروج سے سورہ لم یکن تک عصر اور عشاء میں اور قصار مفصل مغرب میں یعنی لم یکن سے سورۃ ناس تک پڑھنا مسنون ہے۔
نماز جمعہ اور نماز عیدیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قرآت آنحضرت نے کبھی کبھی جمعہ کے دن نماز فجر کی پہلی رکعت میں سورۃ سجدہ اور دوسری میں سورۃ دھر تلاوت فرماتے تھے اسی طرح نماز جمعہ کی رکعت اولی میں سورۃ اعلی اور ثانیہ میں سورۃ غاشیہ تلاوت فرماتے تھے اس کے علاوہ کبھی کبھی جمعہ کی رکعت اولیٰ میں سورۃ جمعہ اور رکعت ثانیہ میں سورۃ منافقون بھی تلاوت فرمائی ہے لہذا یہی مسنون اور مستحب ہے سنت مؤکدہ نہیں ہے۔ (شامی جلد ا ص ۸۰۵) لہذا اس پر مداومت نہ کریں تا کہ عوام اس کو واجب اور سنت مؤکدہ سمجھ لیں۔
در مختار میں ہے ویکرہ التعین کا السجدۃ وہل اتی الفجر کل جمعۃ بل یندب قرأتہا احیانا یعنی خاص سورتوں کو مقرر کر لینا کہ جمعہ کے روز صبح کی نماز میں سورۃ سجدہ اور سورۃ دھر کو ہی پڑھے یہ مکروہ ہے۔ مستحب یہ ہے کہ کبھی کبھی ان کو بھی پڑھ لیاکریں شامی میں ہے فیستحب ان یقر ذلک احیانا تبرکا بالماثور نمازوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے جو سورتیں پڑھنی ثابت ہیں کبھی کبھی برکت اور ثواب کی نیت سے ان کا پڑھنا مستحب ہے (شامی جلد ا ص۸۰۵)
اس لئے ائمہئ کرام کو چاہئے کہ اس پر مواظبت نہ کریں کبھی کبھی پڑھ لیا کریں در مختار میں ہے کہ ان سورتوں کو پابندی سے پڑھنا مکروہ ہے کبھی کبھی پڑھنا مستحب ہے۔ (شامی جلد اص (۸۰۵) البتہ طوال مفصل اوساط مفصل اور قصار مفصل کی رعایت کرتے ہوئے سورتوں کا انتخاب کریں تا کہ نماز سنت کے مطابق ہو۔
حضرت نعمان بن بشیر بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ یہ عیدیں کی نماز اور جمعہ کی نماز میں سبح اسم ربک الاعلی اور ھل اتک حدیث الغاشیۃ کی قرآت فرماتے تھے حضرت نعمان نے یہ بھی بیان کیا کہ جب عید اور جمعہ ایک دن میں جمع ہو جاتے (یعنی عیدیا بقر عید جمعہ کے دن ہوتی) تو آنحضرت ﷺ عید کی بھی اور جمعہ کی بھی) دونوں نمازوں میں یہی دونوں سورتیں پڑھتے یعنی رکعت اولی میں سورہ اعلیٰ اور ثانیہ میں سورۃ غاشیہ تلاوت فرماتے تھے۔ (مسلم شریف،مشکوۃ شریف ص ۰ ۸ باب القراۃ فی الصلوۃ، مظاہر حق جدید ص ۵۹۶ ج۱) وما توفیقی الا باللہ
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق نماز میں صفوں کی درستگی دلوں کو جوڑنے اور آپسی محبت کا سبب اور دنیوی زندگی کے ہر محاذ پر اتحاد و یگانگت کا سبب بتایا جسکو ترک کرنے سے امت کی ہوائیں اکھڑ گئی ہیں۔ اگر امت محمد یہ کھوئے وقار کی بازیابی اور مظلومیت سے پناہ اور محبت و یگانگت کے قلعہ میں محفوظ ہونا چاہتی ہے تو انہیں مسجد کے اعمال سے اپنے کو مرصع کرنا پڑے گا خاص طور پر نماز کے اہتمام میں صفوں کی درستگی تکبیر تحریمہ سے قبل لازم پکڑنا پڑے گا۔
حضرت محمدﷺ جب نماز کیلئے کھڑے ہوتے تو آپ تکبیر کہنے سے پہلے دائیں بائیں لوگوں کو کندھے برابر رکھنے کا حکم فرماتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کوئی شخص آگے پیچھے نہ ہو ورنہ ان میں پھوٹ پڑ جائیگی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے صفیں جوڑ لیا کر وکندھے سے کندھے ملالیا کروتا کہ بکری کے بچوں جیسے شیطان تمہارے درمیان گھس کر نہ کھڑے ہو جائیں۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک روز دوران نماز دیکھا کہ ایک شخص کا سینہ صف سے باہر نکلا ہوا ہے آپ نے ارشاد فرمایا تم کو اپنے مونڈ ھے برابر کر لینے چاہئیں ورنہ اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں میں پھوٹ ڈال دے گا، بخاری ومسلم کی روایت ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنی صفیں سیدھی رکھو ورنہ اللہ تعالیٰ تمہارے چہروں میں فرق پیدا کر دیگا۔
خلیفہ دوم حضرت عمر بن الخطاب نے اپنے دور خلافت میں ایک آدمی صرف اسی غرض سے مقرر کر رکھا تھا کہ اسوقت تک اللہ اکبر نہیں کہتے جب تک صفوں کے درمیان سے نمائندے کی آواز نہ سن لیتے کہ صفیں درست ہو گئیں، اسی طرح آپ ﷺ اسوقت تک نماز شروع نہ فرماتے جب تک صفیں درست نہ ہو جاتیں۔
حدیث شریف میں ہے جس طرح تیر کمان سے چھوڑنے کیلئے بالکل سیدھانشا نہ لگایا جاتا ہے اور آدمی اسوقت سیدھا کھڑا ہوتا ہے آپ بالکل اسی طرح صفوں کو درست فرماتے تھے ایڑیاں بالکل سیدھی ہوں، سینے بالکل برابر ہوں، کندھے ملے ہوئے ہوں کیونکہ رسول اللہﷺ نے فرمایاد دیکھو آگے پیچھے نہ ہونا ور نہ دل آگے پیچھے ہو جائیں گے۔بلکہ اسکے ذریعہ مسلمانوں کو اس بات کا پابند بنایا جاتا ہے کہ دیکھو! جس طرح تم یہاں کھڑے ہو اسی طرح زندگی کے ہر میدان میں سیدھے رہو۔
اسلئے ائمہ کرام کو چاہئے کہ وہ نماز۔ کہ تمامترا حکامات کے ساتھ صفوں کی درستگی کا بھی اہتمام فرمادیں تا کہ امت مسلمہ افتراق وانتشار کی لعنت سے اپنے آپ کو محفوظ کر سکے اس کیلئے ضروری ہی کہ منصب امامت پر ایسے شخص فائز ہوں جو صحیح معنی میں رسول اللہ نے کی نیابت کے فرائض انجام دے سکیں۔ آج دیکھا جارہا ہے کہ صفوں کی درستگی سے بے اعتنائی خواص کے اندر بھی پائی جارہی ہے جامعات اور اداروں کی مساجد میں بھی اسکا اہتمام نہیں ہو رہا ہے۔
اسی طرح اکثر مساجد میں دیکھا جاتا ہے کہ نماز میں سورتیں سنت کے مطابق نہیں پڑھی جاتی یہی وجہ ہے کہ آج ہماری نمازیں نورانیت سے خالی ہوتی جارہی ہے جب کہ فقہ کی کتابوں میں پانچوں نمازوں میں سورتوں کی ترتیب مقرر ہے مثلا طوال مفصل یعنی سورۃ حجرات سے سورۃ بروج تک فجر، ظہر میں، اوساط مفصل یعنی سورہ بروج سے سورہ لم یکن تک عصر اور عشاء میں اور قصار مفصل مغرب میں یعنی لم یکن سے سورۃ ناس تک پڑھنا مسنون ہے۔
نماز جمعہ اور نماز عیدیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قرآت آنحضرت نے کبھی کبھی جمعہ کے دن نماز فجر کی پہلی رکعت میں سورۃ سجدہ اور دوسری میں سورۃ دھر تلاوت فرماتے تھے اسی طرح نماز جمعہ کی رکعت اولی میں سورۃ اعلی اور ثانیہ میں سورۃ غاشیہ تلاوت فرماتے تھے اس کے علاوہ کبھی کبھی جمعہ کی رکعت اولیٰ میں سورۃ جمعہ اور رکعت ثانیہ میں سورۃ منافقون بھی تلاوت فرمائی ہے لہذا یہی مسنون اور مستحب ہے سنت مؤکدہ نہیں ہے۔ (شامی جلد ا ص ۸۰۵) لہذا اس پر مداومت نہ کریں تا کہ عوام اس کو واجب اور سنت مؤکدہ سمجھ لیں۔
در مختار میں ہے ویکرہ التعین کا السجدۃ وہل اتی الفجر کل جمعۃ بل یندب قرأتہا احیانا یعنی خاص سورتوں کو مقرر کر لینا کہ جمعہ کے روز صبح کی نماز میں سورۃ سجدہ اور سورۃ دھر کو ہی پڑھے یہ مکروہ ہے۔ مستحب یہ ہے کہ کبھی کبھی ان کو بھی پڑھ لیاکریں شامی میں ہے فیستحب ان یقر ذلک احیانا تبرکا بالماثور نمازوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے جو سورتیں پڑھنی ثابت ہیں کبھی کبھی برکت اور ثواب کی نیت سے ان کا پڑھنا مستحب ہے (شامی جلد ا ص۸۰۵)
اس لئے ائمہئ کرام کو چاہئے کہ اس پر مواظبت نہ کریں کبھی کبھی پڑھ لیا کریں در مختار میں ہے کہ ان سورتوں کو پابندی سے پڑھنا مکروہ ہے کبھی کبھی پڑھنا مستحب ہے۔ (شامی جلد اص (۸۰۵) البتہ طوال مفصل اوساط مفصل اور قصار مفصل کی رعایت کرتے ہوئے سورتوں کا انتخاب کریں تا کہ نماز سنت کے مطابق ہو۔
حضرت نعمان بن بشیر بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ یہ عیدیں کی نماز اور جمعہ کی نماز میں سبح اسم ربک الاعلی اور ھل اتک حدیث الغاشیۃ کی قرآت فرماتے تھے حضرت نعمان نے یہ بھی بیان کیا کہ جب عید اور جمعہ ایک دن میں جمع ہو جاتے (یعنی عیدیا بقر عید جمعہ کے دن ہوتی) تو آنحضرت ﷺ عید کی بھی اور جمعہ کی بھی) دونوں نمازوں میں یہی دونوں سورتیں پڑھتے یعنی رکعت اولی میں سورہ اعلیٰ اور ثانیہ میں سورۃ غاشیہ تلاوت فرماتے تھے۔ (مسلم شریف،مشکوۃ شریف ص ۰ ۸ باب القراۃ فی الصلوۃ، مظاہر حق جدید ص ۵۹۶ ج۱) وما توفیقی الا باللہ