ماہنامہ الفاران

ماہِ جمادی الاول - ۱۴۴۶

فقراء کی رعایت مزاج نبوی کا اہم حصہ

محترم جناب حضرت مولانا کبیر الدین فاران صاحب مظاہری،ناظم اعلی؛ مدرسہ قادریہ مسروالا(ہماچل پردیش)صدر؛ابوالحسن علی ایجوکیشنل اینڈ ویلفیر ٹرسٹ(پورنیہ)بہار

مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی میاں ندوی ؒ رقمطراز ہیں ”رسول اللہﷺ کی اس ہجرت کی سب سے پہلی بات یہ ثابت ہوتی ہے کہ دعوت اور عقیدہ کی خاطر ہر عزیز ومحبوب او ر ہر مانو س ومرغوب شیئ اور ہر اس چیز کو جس سے محبت کرنے،جس کو ترجیح دینے اور جس سے،بہر صورت وابستہ رہنے کا جذبہ انسان کی فطرت سلیم میں داخل ہے،بے دریغ قربان کیا جاسکتاہے،لیکن ان دنوں اول الذکر چیزوں میں سے کسی چیز کو ترک نہیں کیا جاسکتا۔
مکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جائے ولادت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام ؓ کے مرکز ووطن کے علاوہ دلوں کے لیے مقناطیس کی سی کشش رکھتاتھا۔اس لیے کہ اسی شہر میں ”بیت اللہ“ہے جس کی محبت ان کی روح اور خون میں پیوست تھی۔ لیکن ان میں سے کسی ایک چیز نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اور صحابہ کرام ؓ کو ترک وطن اور اہل وعیال کو خیر باد کہنے سے با ز نہیں رکھا کیونکہ زمین اس عقیدہ ودعوت کے لیے بالکل تنگ ہوچکی تھی اور مکہ والے ان دونوں چیزوں سے منہ پھیر چکے تھے۔
معاشرہ میں تنگی وفراخی کیساتھ رہنے والے سبھی طرح کے افراد موجودہیں۔یہ دونوں حالتیں ابتلاء و آزمائش کے لیے اللہ تعالیٰ نے سُوْرَۃُ الْعَنْکَبُوْتِ میں فرمایاہے کہ ”اپنے بندوں میں سے جسکی چاہتا ہے روزی کشادہ کرتاہے اور جس کی چاہتاہے تنگ کردیتاہے بیشک اللہ تعالیٰ ہر چیز سے پورے طور پر واقف ہے“۔
اللہ تعالیٰ نے مالدار طبقہ کو کمزور طبقہ کیساتھ نصرت،دادودہش اور موقع کی ضروریات کی تکمیل کی ہدایت فرمائی ہے اور دارین کی سرخ روئی حاصل کرنے کا نسخہ کیمیا بتایا ہے۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ”کھجور کا آدھا حصہ ہی کسی محتاج کو دیکر جہنم کی آگ سے نجات حاصل کرو (نسائی)
محتاج ومسکین سے محبت ومرُوَّت اور نرم لہجہ سے بات کرنے کی حدیث پا ک میں جا بجا ہدایت ہے۔ابن ماجہ اور مسند حاکم میں حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ ”لوگو! مساکین سے محبت رکھو کیونکہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس طرح دعا مانگتے ہوئے سنا کہ”اے اللہ!مجھے مسکین بنا کر زندہ رکھ،مسکین کی حالت میں موت دے اور میدان حشر میں مساکین کے زمرہ میں اٹھا۔
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم فقراء صحابہ کرام کی بڑی توقیر فرماتے اور بہت تسلی دیتے اور بلند مقام ورتبہ پر فائز فرماتے۔چنانچہ حضرت بلال ؓ کو اسلام کے مؤذن اول کے منصب ِ جلیل سے سرفراز فرمایا،حضرت عمار بن یاسر کے پورے خاندان کو دنیا ہی میں جنت کی بشارت سنائی اور نابینا صحابی ؓ حضرت عبد اللہ بن مکتوم ؓ کو اسلام کے مؤذن ثانی کا رتبہ بلند عطا فرمایا بلکہ ایک مرتبہ تو مدینہ سے اپنی عد م موجودگی میں مدینہ منورہ کا گورنراور مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا امام مقرر فرمایا (الرحیق المختوم) مساکین اور فقیروں کے حقوق، عزت واکرام، نرم اور محبت آمیز گفتگو کے علاوہ امدادواعانت ہے۔
”مجمع الزوائد“میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”تم میں سے کوئی کسی فقیر کو واپس نہ کرے اگر چہ اس کے دونوں ہاتھ میں کنگن دیکے“حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ام مجیدؓ سے فرمایا! ”اگر گھر میں جلے کھُر کے سوا کچھ نہ پاؤتو فقیر کو وہی دے دو“اگر کسی کے پاس فقیر کو دینے کے لیے کچھ نہ ہوتو اسے جھڑکے نہیں بلکہ کتاب وسنت کو سامنے رکھتے ہوئے ”معاف کیجئے یا بَارَکَ اللّٰہُ فِیْکَ کا جملہ ماثور کہدے۔
فقراء کی حق تلفی اور ادائے حقوق میں کوتاہی سے اللہ تعالیٰ کی، عمر میں بے برکتی اور آفت ارضی وسماوی کے ذریعہ مالی نقصان اور جانی تباہی کا تکو ینی طور پر قوی امکان ہے۔امام بیہقی نے دلائل النبوۃ میں لکھا ہے کہ حضرت ام المؤمنین ام سلمہ ؓ کے یہاں گوشت کا ہدیہ آیا حضرت ام سلمہ ؓ نے گوشت کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے طاق میں رکھوادیا اتنے میں ایک فقیر آیا اس نے صدا لگائی کچھ خیرات دے دو،اللہ برکت دے۔گھر والوں نے جواب دیا اللہ ہمیں اور تجھے بھی برکت دے۔یہ جواب سن کر فقیر چلا گیا حضور اکرم ﷺ گھر تشریف لائے فرمایا کچھ کھانے کو ہے؟حضرت ام سلمہ ؓنے اسی خادمہ سے کہا جس سے طاق میں گوشت رکھوایاتھا، جاؤ گوشت لے آؤ خادمہ گئی تو اس نے طاق میں ایک سفید پتھر کے سوا اور کچھ نہ پایا۔آپ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا،فقیر کو نہ دینے کی وجہ سے وہ گوشت پتھر بن گیا۔ حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ بسااوقات فرشتے مالداروں کا امتحان لینے فقیر ومحتاج کی شکل میں آتے ہیں شکر گزار کو برکت کی دعاء اور کفران نعمت کرنے والوں کو مال چھننے اور تباہ ہونے کی بد دعا دیتے ہیں (بخاری)
اس لیے ہر حال میں سائل کو کچھ نہ کچھ دینا چاہیے اور نہ ہونے کی صور ت میں نرمی سے معذرت کردینی چاہیے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا پاک ارشاد ہے ”کہ تمہارے کمزوروں ہی کے سبب تمہاری مدد کی جاتی ہے اور تمہیں رز ق ملتا ہے۔
حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے ایک دفعہ کسی نے پوچھا کہ آپ نے پہلی دفعہ سید نا خلیل اللہ ﷺکو کیسے دیکھا؟بلال رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں مکے کے لوگوں کو بہت ہی کم جانتا تھا۔ کیونکہ غلام تھا اور عرب میں غلاموں سے نازیبا سلوک عام تھا، انکی استطاعت سے بڑھ کے ان سے کام لیا جاتا تھا تو مجھے کبھی اتنا وقت ہی نہیں ملتا تھا کہ باہر نکل کے لوگوں سے ملوں، لہٰذا مجھے حضور پاک یا اسلام یا اس طرح کی کسی چیز کا قطعی علم نہ تھا۔
ایک دفعہ مجھے سخت بخار نے دبوچ لیا۔شدید جاڑے کا موسم تھا اور انتہائی ٹھنڈ کی شدت نے مجھے کمزور کر دیا، لہٰذا میں نے لحاف اوڑھا اور لیٹ گیا۔ ادھر میرا مالک دیکھنے آیا کہ میں جَو پیس رہا ہوں یا نہیں، وہ مجھے لحاف اوڑھے لیٹا دیکھ کر آگ بگولا ہو گیا۔ اس نے لحاف اتارا اور سزا کے طورپر میری قمیض بھی اتروا دی اور مجھے کھلے صحن میں دروازے کے پاس بٹھا دیا کہ یہاں بیٹھ کر جَو پیس۔
اب سخت سردی، اوپر سے بخار اور اتنی مشقت والا کام، میں روتا جاتا تھا اور جَو پیستا جاتا تھا۔ کچھ ہی دیر میں دروازے پر دستک ہوئی، میں نے اندر آنے کی اجازت دی تو ایک نہایت متین اور پر نور چہرے والا شخص اندر داخل ہوا اور پوچھا کہ جوان کیوں روتے ہو؟ جواب میں میں نے کہا کہ جاؤ اپنا کام کرو، تمہیں اس سے کیا میں جس وجہ سے بھی روؤں، یہاں پوچھنے والے بہت ہیں لیکن مداوا کوئی نہیں کرتا۔
قصہ مختصر کہ بلال نے رحمۃللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کو کافی سخت جملے کہے۔ فخر موجودات صلی اللہ علیہ وسلم یہ جملے سن کر چل پڑے، بلال نے کہا کہ بس؟ میں نہ کہتا تھا کہ پوچھتے سب ہیں مداوا کوئی نہیں کرتا۔
محبوب رب العالمین صلی اللہ علیہ وسلم یہ سن کر بھی چلتے رہے۔ بلال کہتے ہیں کہ دل میں جو ہلکی سی امید جاگی تھی کہ یہ شخص کوئی مدد کرے گا وہ بھی گئی۔ لیکن بلال کو کیا معلوم کہ جس شخص سے اب اسکا واسطہ پڑا ہے وہ رحمۃللعالمین ہیں۔
بلال کہتے ہیں کہ کچھ ہی دیر میں وہ شخص واپس آ گیا۔ اس کے ایک ہاتھ میں گرم دودھ کا پیالہ اور دوسرے میں کھجوریں تھیں۔ اس نے وہ کھجوریں اور دودھ مجھے دیا اور کہا کھاؤ پیو اور جا کے سو جاؤ۔
میں نے کہا تو یہ جَو کون پیسے گا؟ نہ پِسے۔ تو مالک بوقت صبح بہت مارے گا۔ اس نے کہا تم سو جاؤ یہ پسے ہوئے مجھ سے لے لینا۔
بلال سو گئے اور فخر دوعالم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ساری رات ایک اجنبی حبشی غلام کے لیے چکی پیسی۔
صبح بلال کو پسے ہوئے جو دئے اور چلے گئے۔ دوسری رات پھر ایسا ہی ہوا، دودھ اور دوا بلال کو دی اور ساری رات چکی پیسی۔ ایسا تین دن مسلسل کرتے رہے جب تک کہ بلال ٹھیک نہ ہو گئے۔یہ تھا وہ تعارف جس کے بطن سے اس لافانی عشق نے جنم لیا کہ آج بھی بلال کو صحابیِ ئرسول بعد میں، عاشقِ رسول پہلے کہا جاتا ہے، انھوں نے حضور کے وصال کے بعد اذان دینا بند کر دی کیونکہ جب اذان میں ’اَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ‘ تک پہنچتے تو حضور کی یاد میں ہچکیاں بندھ جاتی تھیں اور زار و قطار رونے لگتے تھے۔

دیگر تصانیف

امیدوں کا چراغ

مٹی کا چراغ

کہاں گئے وہ لوگ

تذکیر و تانیث

مجلس ادارت

team

سرپرست

حضرت الحاج مولانا کبیر الدین فاران صاحب مظاہری

team

مدیر مسئول

مولانا ارشد کبیر خاقان صاحب مظاہری

team

مدیر

مفتی خالد انور پورنوی صاحب قاسمی