ماہنامہ الفاران
ماہِ ربیع الثانی - ۱۴۴۵
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کائنات کی ہر شئی کے لیے رحمت ہیں
محترم جناب حضرت مفتی محمد خالد حسین نیموی صاحب قاسمی، صدر جمعیت علمائ بیگو سرائے و رکن الاتحاد العالمی لعلماء المسلمین ،دوحہ،قطر
ابتدائے آفرینش سے لے کر اب تک انسانیت کی تاریخ میں جس شخصیت نے اپنی رحمت و رافت، شفقت و مہربانی، عفو و کرم اور ہمدردی و غم گساری سے پورے عالم کو سب سے زیادہ متاثر کیا. وہ ہستی نبی آخر الزماں رحمۃ للعالمین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس ہے.
آپ کے ان عظیم الشان اوصاف و کمالات کی عکاسی کرتے ہوئے اللہ رب العالمین نے ارشاد فرمایا :وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ (الانبیاء: 107) یعنی ہم نے آپ کو سارے جہاں کے لیے رحمت بنا کر مبعوث فرمایا. دوسری جگہ ارشاد فرمایا: لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ(التوبہ :۱۲۸) ترجمہ:بیشک تمہارے پاس تم میں سے وہ عظیم رسول تشریف لے آئے؛ جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا بہت بھاری گزرتا ہے، وہ تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے، مسلمانوں پر بہت مہربان، رحمت فرمانے والے ہیں ۔
اللہ رب العالمین کی طرف سے ملنے والے ان تمغہائے امتیاز کا اثر یہ ہوا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے ہر پہلو میں آپ کی صفتِ رحمت کی جلوہ گری نظر آتی ہے .آپ کی شفقت و مہربانی کی چھاپ حیات مبارکہ کے ہر شعبے پر نما یاں طور پر محسوس کی جا سکتی ہے.
یوں تو آپ جامع الکلمات اور مجمع الاوصاف ہیں. اللہ تعالی نے آپ کو بے شمار خوبیوں سے سرفراز فرمایا؛ لیکن ان تمام اوصاف کے مابین آپکی صفت رحمت ایک ممتاز مقام رکھتی ہے. آپ رحمتِ مجسم ہیں؛ لیکن صرف انسانوں کے لیے ہی نہیں بلکہ کائنات کے ایک ایک ذرے کے لیے ؛ شجر و حجر کے لیے؛ بحر و بر کے لیے ، نباتات و جمادات کے لیے ؛ یعنی کائنات کے ہر شیی کے لیے. آپ کی رحمت کا فیض ہر شخص تک پہنچا اور کائنات کی ہر چیز آپ کی رحمت سے مستفیض ہوئی. اور تاہنوز ہورہی ہے. دوست تو دوست آپ کے دشمن؛ بلکہ آپ کے خون کے پیاسے بھی آپ کے فیضان رحمت سے محروم نہیں رہے.سلام اس پر جو دنیا کے لیے رحمت ہی رحمت ہے
سلام اس پر کہ جس کی ذات فخر آدمیت ہے.
اس سلسلہ کے کچھ خاص اور نمایاں واقعات کتب حدیث اور مستند تاریخوں کے حوالے سے رقم کیے جارہے ہیں.
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا: (یا رسول اللہ!) مشرکین کے خلاف بد دعا کر دیجیے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے لعنت کرنے والا بنا کر مبعوث نہیں کیا گیا، مجھے تو سراپا رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے۔
قِيلَ: يا رَسُولَ اللهِ، ادْعُ علَى المُشْرِكِينَ قالَ: إنِّي لَمْ أُبْعَثْ لَعَّانًا، وإنَّما بُعِثْتُ رَحْمَةً. ( صحیح مسلم، 2599)
ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مجھے سراپا رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے؛ عذاب بنا کر نہیں بھیجا گیا ۔‘‘(بیہقی، شعب الإيمان، 2 /144، حدیث نمبر : 1403، )
روئے مبارک کا فیضان :
آپ کی صفت رحمت کا ظہور بچپن ہی سے ہونے لگا تھا اور اپنے اور پرائے سب آپ کی رحمت سے فیض یاب ہونے لگے تھے. چنا نچہ حافظ ابن عساکر نے اپنی کتاب تاریخ ابن عساکر میں آپ کے بچپنے کے حوالے سے ایک روایت نقل کی ہے. راوی جلہمہ بن عرفطہ کہتے ہیں کہ میں مکہ اس حال میں پہنچا کہ لوگ قحط سے دو چار تھے، قریش نے آپ کے چچا ابو طالب سے گذارش کی کہ پورا علا قہ قحط کا شکار ہے. بال بچے، مویشی چوپائے سب بھکمری کی زد میں ہیں. چلیے بارش کی دعاء فرما دیجیے! چنانچہ ابو طالب ایک بچہ کو ساتھ لے کر برآمد ہوئے. یہ بچہ ایسا ابر آلود سورج معلوم ہورہا تھا؛ جس سے گھنا با دل ابھی ابھی چھٹا ہو!! اردگرد اور بھی بچے تھے. ابو طالب اس معصوم بچے کا ہاتھ پکڑ کر مسجد حرام لے آئے اور اس کی پیٹھ کعبہ کی دیوار سے لگا دی. بچے نے ان کی انگلی پکڑ رکھی تھی. اسی حالت میں ابو طالب بچے کے توسط سے دعاء کرنے لگے. ادھر فضا کا یہ منظر تھا کہ اس وقت آسان پر بادل کا ایک ٹکڑا بھی نہ تھا ، لیکن دیکھتے ہی دیکھتے ادھر ادھر سے بادل کی آمد شروع ہوئی اور ایسی موسلا دھار بارش ہوئی کہ وادی جل تھل ہو گیا اور شہر و بیابان شاداب ہو گئے. یہ بچہ کوئی اور نہیں تھا؛ بلکہ ہمارے آقا و مولا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تھے. بعد میں خواجہ ابوطالب نے اس واقعہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے آپ کی شان میں کہا: وأبيض يستقى الغمام بوجهه. ثمال الیتامی عصمۃللأرامل یعنی وہ ایسے حسین و جمیل اور خوبصورت ہیں کہ ان کے چہرے سے بارش کا فیضان طلب کیا جاتا ہے. وہ یتیموں کے ماوی اور بیواؤں کے محافظ ہیں۔(المواهب اللدنية ج1 ص48)
بعض تاریخی روایات کے مطابق آں حضرت کی شیر خوارگی کے زمانے میں بھی آپ کے رخ انور کے وسیلے سے دعاء کی گئی اور اللہ تعالیٰ نے موسلا دھار بارش نازل فرمائی. اس واقعہ کے بعد بھی کئی مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے بارش کی دعاء کی اور فوری طور پر بارش ہوئی.
امام بخاری نے صحیح بخاری میں اس واقعہ کو یوں بیان فرمایا ہے :
حضرت عبداللہ بن دینار ؓفرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کو یہ شعر پڑھتے ہوئے سنا: ’’وہ گورے (مکھڑے والے ﷺ) جن کے چہرے کے توسل سے بارش مانگی جاتی ہے، یتیموں کے والی، بیواؤں کے سہارا ہیں۔‘‘
حضرت عمر بن حمزہ کہتے ہیں کہ حضرت سالم (بن عبد ﷲ بن عمرؓ) نے اپنے والد ماجد سے روایت کی کہ کبھی میں شاعر کی اس بات کو یاد کرتا اور کبھی حضور نبی اکرم ﷺکے چہرہ اقدس کو تکتا کہ اس (رخِ زیبا) کے توسل سے بارش مانگی جاتی؛ تو آپ ﷺ(منبر سے) اُترنے بھی نہ پاتے کہ سارے پرنالے بہنے لگتے۔ مذکورہ بالا شعر حضرت ابوطالب کا ہے۔ ( بخاری، حدیث نمبر 963 )
دشمنوں کے ساتھ حسنِ سلوک:
آپ کے رحم و کرم سے نہ صرف یہ کہ اپنے متعلقین، متبعین اور دوست و احباب مستفیض ہوئے؛ بلکہ آپ نے اپنے خون کے پیاسوں اور اپنے جانی دشمنوں کے ساتھ بھی رحم وکرم کا برتاؤ کیا.
آپ کی پوری زندگی اس بات پر شاہد عدل ہے؛ کہ آپ نے اپنی ذات کے لئے کبھی کسی سے بدلہ نہیں لیا. جنگ بدر میں عظیم الشان فتح کے بعد دشمن کی صف سے (70)ستر افراد گرفتار ہوئے، یہ سارے دشمنانِ خدا پکڑ کرلائے گئے. اور رسول اللہ کی خدمت میں پیش کیے گئے. یہ سب کے سب کفر کے سرغنہ اور بد معاشوں کے سردار تھے.
آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان سے بدلہ لے سکتے تھے؛ لیکن ان سے بدلہ لینے کے بجائے آپ نے ان کے ساتھ بهترین سلوک فرمایا اور بالآخر ان سب کو رہا فرما دیا.سلام اس پر کہ جس نے بے کسوں کی دستگیری کی
سلام اس پر کہ جس نے بادشاہی میں فقیری کی
سلام اس پرکہ اسرار محبت جس نے سکھلائے
سلام اس پر کہ جس نے زخم کھا کر پھول برسائے
سلام اس پر کہ جس نے خوں کے پیاسوں کو قبائیں دیں
سلام اس پر کہ جس نے گالیاں سن کر دعائیں دیں.
قیدیوں کے ساتھ رحمت و شفقت :
ایسے زمانے میں جب دشمن کے قیدیوں کو قتل کر دیا جاتا تھا؛ آپ نے نہ صرف یہ کہ ان کی خبر گیری کی تاکید کی، بلکہ یہ حکم فرمایا کہ ان قیدیوں کے ساتھ نرمی اور شفقت کا سلوک کیا جائے اور ان کے آرام کا پورا پورا خیال رکھاجائے۔
صحابۂ کرام جو اپنے آقا کی طرف سے آنے والے ہر حکم اور نصیحت پر عمل کرنا اپنی سعادت سمجھتے تھے. انھوں نے اس شان کے ساتھ اس حکم پر عمل کیا کہ تاریخ عالم اس کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے۔
ایک قیدی ابو عزیر بن عمیر(جو حضرت مصعب بن عمیر کے بھائی ہیں) کی روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ کے حکم کی وجہ سے انصار مجھے تو پکی ہوئی روٹی دیتے تھے؛ لیکن خود کھجور وغیرہ کھا کر گذارہ کر لیتے تھے اور کئی دفعہ ایسا ہوتا تھا کہ ان کے پاس اگر روٹی کا چھوٹا ٹکڑا بھی ہوتا تھا تو وہ مجھے دے دیتے تھے اور خود نہیں کھاتے تھے اور اگر میں کبھی شرم کی وجہ سے واپس کردیتا تو وہ اصرار کے ساتھ پھر مجھ کو دے دیتے تھے۔
ان قیدیوں میں ایک شخص سہیل بن عمرو بھی تھا جو قریش کے سرداروں میں سے تھا اور اس کی زبان بہت تیز اور کلام بہت پُر اثر تھا. یہ آنحضرت ﷺ کے خلاف تقریریں کیا کرتا تھا۔ اب وہ قید ہو کر مسلمانوں کے قبضہ میں تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مشورہ دیا کہ اس کے اگلے دانت نکلوا دینے چاہئیں تاکہ یہ آنحضرت ﷺ کے خلاف فتنہ انگیز تقاریر نہ کرسکے۔ آنحضرت ﷺ نے اس تجویز کو ناپسند کرتے ہوئے فرمایا کہ میں اگر اس کے عضو بگاڑوں تو اگرچہ میں نبی ہوں؛ لیکن خدا اس کی جزا میں میرے اعضاء بھی بگاڑ ے گا ۔ اور اسے معاف کرتے ہوئے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو مخاطب بنا کر فرمایا:عمر تمہیں کیا معلوم کہ خدا آئندہ اسے ایسے مقام پر کھڑا کرے جو قابل تعریف ہو۔
چنانچہ فتح مکہ کے موقعہ پرسہیل بن عمرمسلمان ہو گیا اور آنحضرت ﷺ کی وفات پر اس نے متزلزل لوگوں کو بچانے کے لیے اسلام کی تائید میں نہایت پراثر خطبے دیے جس سے بہت سے ڈگمگاتے ہوئے لوگ بچ گئے۔اور اسلام پر ثابت قدم رہے. (رضی اللہ عنہ) ( الاستیعاب ، 2 / 230 اسد الغابہ ، 2 / 557 ، سیرت حلبیہ ، 2 / 267 ، 268ملخصاً)
غزوہ حنین میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے چھ ہزار قیدیوں کو رہا کردیا گیا اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان کو پہننے کے لئے لباس عنایت فرمائے۔
حاتم طائی کی بیٹی جب گرفتار ہوکر آئی تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے عزت سے مسجد کے ایک گوشے میں اس کوٹھہرایا اور فرمایا کہ کوئی تمہارے شہر کا آجائے تو اس کے ساتھ تم کو رخصت کردوں گا۔ چنانچہ چند روز کے بعد سفر کے سامان کے ساتھ انہیں ان کے بھائی عدی بن حاتم کے پاس اس کے معتمد شخص کے ساتھ شام بھجوادیا۔( اسدالغابۃ ج۳؍ص۵۰۶؍ عدی بن حاتم،مطبوعہ دارالفکر))
غیر مسلم کے جنازے کے ساتھ آپ کی مدارات:
ایک مرتبہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سے ایک یہودی کاجنازہ گذرا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے ہوئے تھے جب جنازہ پر نظر پڑی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو گئے، صحابہٴ کرام نے عرض کیا یا رسول اللہ !یہ تو ایک یہودی اور غیر مسلم کا جنازہ تھا،اس کے احترام میں کھڑے ہونے کی کیا ضرورت تھی ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا أَلَیْسَتْ نَفْسًا (بخاری، حدیث نمبر : 1312)
” کیا وہ انسان نہیں ہے “ یہاں اگر چہ کسی مسلمان کا جنازہ نہیں تھا؛ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم احترام انسانیت کے پیغام کو عام کرنے کے لیے اس کے احترام اور اس کے پسماندگان کی دل دہی کے لیے جنازہ کو دیکھ کر کھڑے ہو گئے ، آں حضرت کے اس اسوہ سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ کفر وشرک کے باوجود آدمیت کے اوصاف اور ان کا احترام باقی رہتا ہے.
غلاموں پر رسول اللہ کی رحمت و شفقت:
آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے غلاموں کے ساتھ نیک برتاؤ کی تاکید کی ہے، خواہ وہ کافر ہوں یا مسلمان ہو ، حضرت ابوذرفرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: جن کو اللہ تعالی نے تمہارا دست نگر اور ماتحت بنایا ہے، وہ تمہارے بھائی ہیں یعنی لونڈی، غلام اور خدمت گار، اس کو وہ اپنے کھانے میں سے کھلائے، اپنے کپڑے میں سے پہنائے، اس کو ایسے کام کی تکلیف نہ دے جس سے وہ تھک جائے، اگر اسے ایسے کام کی تکلیف دے جس سے وہ تھک جائے تو پھر خود اس کی امداد کرے یعنی ہاتھ بٹائے ۔ (صحیح بخاری کتاب الوصایا)
ایک شخص نے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں غلام کا قصور کتنی مرتبہ معاف کروں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے، کچھ جواب نہ دیا، اس نے دوبارہ یہی پوچھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پھر خاموش رہے تیسری مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر روز ستر بار معاف کرو (ترمذی :۲/۱۶)
حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جو الفاظ آخری وقت تک زبانِ مبارک پر جاری تھے اور جس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم خالقِ حقیقی سے جاملے، وہ یہ الفاظ تھے: الصلوٰةَ، الصلوٰةَ، اِتَّقُوْاللہ فِیْمَا مَلَکَتْ أیْمَانُکُمْ ”نماز کا خیال رکھو، اپنے زیر دست غلاموں کے بارے میں اللہ سے ڈرو!“(سنن ابی داود/الأدب 133 (5156)سلام اس پر کہ جس نے جھولیاں بھردیں فقیروں کی
سلام اس پر کہ جس نے مشکیں کھول دیں اسیروں کی
قحط سالی کے زمانے میں دشمنوں پر آپ کی رحمت ورافت:
مکہ میں ایک دفعہ شدید قحط پڑ گیا اور وہاں کے لوگ غذا اور غلہ کی قلت کے باعث شدید تکلیف کا شکار ہو گئے ۔ خصوصاً غرباء کا تو برا حال تھا۔ یہ وہ لوگ تھے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی جان کے سخت دشمن تھے اور جنہوں نے رسول اللہ ﷺ اور آپ کے ساتھیوں کو شدید تکالیف میں مبتلا کر رکھا تھا؛ لیکن آنحضرت ﷺ اپنے دشمنوں کو اس تکلیف میں دیکھ کر بےچین ہو جاتے ہیں۔ ان کے لیے بارانِ رحمت کی دعاء کرتے ہیں اور اپنے صحابی حضرت ثمامہ بن اثال کے ذریعے غلہ بھجوانے کا انتظام فرماتے ہیں. (اسد الغابۃ :1/295)
مفتوح قوم کے ساتھ رحمت ورافت :
فتح مکہ کے موقعہ پر آن حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دشمنوں کے ساتھ اس طور پر عفو و کرم کا معاملہ فرمایا کہ جس کی نظیر پیش کرنے سے تاریخ انسانی قاصر ہے. آپ نے اس موقع پر ایسے دشمنوں کو بھی معاف کر دیا، جنہوں نے بیسیوں مسلمانوں کو قتل کیا تھا یا کروایا تھا. جنھوں نے سینکڑوں فرزندان توحید کو اذیت دے دے کر گھربار سے نکالا تھا. جنہوں نے دین اسلام کو تباہ کرنے اور مسلمانوں کو برباد کرنے کیلئے حبشہ، شام، نجد اور یمن تک کے سفر کیے تھے؛ جنہوں نے بارہا مدینہ منورہ پر حملہ کرکے مسلمانوں کو بے چینی میں مبتلا کیا تھا. یعنی وہ تمام لوگ جو مسلمانوں کو فنا کرنے میں زر سے، مال سے، زور سے، تدبیر سے، ہتھیار سے، تیر وتبر اور تیغ و تفنگ سے اسلام کو مٹانے کی ہر ممکن کوشش کی تھی. ان سب کو رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ارشاد: لا تثریب علیکم الیوم اذهبوا انتم الطلقاء. کہ آج تم میں سے کسی کو اس کے کیے کی سزا نہیں ملے گی. جاؤ تم سب آزاد ہو، کے ذریعے سب کو یک بارگی معاف فرمادیا. ،
حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ (فتح مکہ کے احوال بیان کرتے ہوئے) فرماتے ہیں کہ حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ سے کہا: آج کا دن قتل عام کا دن ہے۔ آج کعبہ کی حرمت بھی حلال ہوجائے گی۔ حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ نے یہ بات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بتائی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: سعد نے غلط کہا ہے۔ آج تو اللہ تعالیٰ کعبہ کو عظمت عطا فرمائے گا۔ اور آج کعبہ کو غلاف پہنایا جائے گا. اور اس کی حرمت میں اضافہ ہوگا ۔‘‘ ( بخاری، کتاب المغازی)
ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’آج کا دن رحمت کا دن ہے، اللہ تعالیٰ آج قریش کو عزت سے نوازے گا۔‘‘(بخاری، کتاب المغازی)
منافقین کے ساتھ رحمت ورافت:
عبداللہ بن ابی بن سلول منافقین کا سردار تھا۔ بظاہر تو یہ ایمان لانے کا دعویٰ کرتا تھا لیکن اس کا دل ایمان کی دولت سے خالی تھا۔ یہ آنحضرت ﷺ کے ساتھ سخت کینہ اور بغض رکھتا تھا۔ جہاں بھی اسے موقع ملتا یہ اسلام اور آنحضرت ﷺ سے اپنی نفرت کا اظہار کرتااوراپنے قول و فعل سے اسلام کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتا۔ اس کی فتنہ انگیزی سےسب مسلمان واقف تھے۔ رحمت عالم حضرت محمد رسول اللہﷺ نے اس کی گستاخیوں اور شوخیوں کو کمال صبر سے برداشت کیا اور ہمیشہ ہی صرف نظر فرماتے رہے۔
ایک جنگ کے موقعہ پر تو اس کی گستاخی نے بد ترین شکل اختیار کر لی. اس نے اپنے بارے میں یہ باور کرانا چاہاکہ وہ مدینہ کا معزز ترین شخص ہے اور نبی کریم ﷺ کو نعوذ باللہ مدینہ کا ذلیل ترین شخص قرار دیا اور اس نے اس ناپاک ادارے کا اظہار کیا کہ وہ آنحضرت ﷺ کو مدینہ سے نکال دے گا۔ اس بات کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ان الفاظ میں کیا ہے:
یَقُوۡلُوۡنَ لَئِنۡ رَّجَعۡنَاۤ اِلَی الۡمَدِیۡنَۃِ لَیُخۡرِجَنَّ الۡاَعَزُّ مِنۡہَا الۡاَذَلَّ۔(المنافقون:9)
اس کی اس گستاخانہ حرکت نے صحابہ کے دلوں کو زخمی کر دیا۔ وہ چاہتے تھے کہ اس گستاخ رسول کو اس کی گستاخی کی سزا ملنی چاہیے۔ بعض ان میں سے اس کے قتل کا ارادہ کرنے لگے. یہاں تک کہ اس رئيس المنافقین کے لڑکے عبداللہ جو مخلص صاحب ایمان تھے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنے باپ کو اس گستاخی پر قتل کرنے کی اجازت چاہی۔ لیکن قربان جائیں اس رحمت مجسم پر کہ آپ نے نہ صرف یہ کہ ابن سلول کو سز ا دینے کی اجازت نہیں دی بلکہ بدستور اس کے ساتھ رحمت، شفقت اور احسان کا سلوک فرماتے رہے۔ جب وہ فوت ہوا تو آپؐ نے اپنی قمیص اس کے کفن کے لیے عنایت فرمائی اور اس کی نماز جنازہ پڑھانے کے لیے تشریف لے گئے۔ (صحیح مسلم. حدیث نمبر 2774)
غیر مسلموں کے ساتھ رافت و رحمت :
حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے کسی معاہد (جن غیر مسلموں کے ساتھ اسلامی حکومت کا معاہدہ ہو) کو (بغیر کسی جرم کے) قتل کیا تو وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں سونگھے گا؛ حالانکہ جنت کی خوشبو چالیس سال کی مسافت تک محسوس ہو رہی ہو گی ۔‘‘(ابن ماجہ: کتاب الدیات ، باب من قتل معاہدا 2/896)
امام بیہقی روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خبر دار! جس شخص نے کسی معاہد (ذمی) پر ظلم کیا یا اُس کے حق میں کمی کی یا اُسے کوئی ایسا کام دیا؛ جو اُس کی طاقت سے باہر ہو، یا اُس کی دلی رضامندی کے بغیر کوئی چیز اُس سے لے لی، تو قیامت کے دن میں اُس کی طرف سے جھگڑا کروں گا. (ابوداود:کتاب الجہاد،باب ما يومر من انضمام العسكر3/95)
زہر کھلانے والی پر مہربانی :
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے لوگوں کو بھی زندگی کا آبِ حیات پیش کیا؛ جنہوں نے آپکی زندگی کے خاتمہ کے لیے زہر کھلانے کی کوشش کی تھی. چنا نچہ یہودی سردار سلام ابن مشکم کی بیوی زینب بنت حارث نے آپ کی زندگی کے خاتمہ کے لئے زہر ملا کر بھنی ہوئی بکری کے گوشت کا ہدیہ آپ کی خدمت میں بھیجا. اس نے معلوم کررکھا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کونسا عضو پسند کرتے ہیں. اُسے بتایا گیا تھا کہ آں حضرت دستہ پسند فرماتے ہیں اس لیے اس نے دستہ میں خوب زہر ملا دیا تھا. پھر اُسے لے کر وہ رسول اللہ کے پاس آئی اور آپ کی خدمت میں پیش کیا. تو آپ نے دستہ اٹھا کر ایک ٹکڑا چبایا؛ لیکن نگلنے کے بجائے فورا تھوک دیا. پھر فرمایا کہ یہ ہڈی مجھے بتا رہی ہے کہ اس میں زہر ملایا گیا ہے. اس کے بعد آپ نے زینب کو طلب فرمایا. اس خاتون نے اپنے جرم کا اقرار کر لیا. وجہ یہ بتائی کہ اگر آپ بادشاہ ہیں تو ہمیں آپ سے راحت مل جائے گی اور اگر نبی ہیں، تو غیب سے خبر دے دی جائے گی. اس پر آپ نے اسے اپنی ذات کی حد تک معاف فرمادیا (سنن أبي داود (4/ 175))
جانوروں پر رحمت و شفقت :
آپ کی رحمت کا فیض انسان تو انسان؛ بے زبان جانوروں تک بھی پہنچا؛ جیسا کہ صحیح مسلم میں حضرت جابر بن عبداللہ سے روایت ہے. وہ کہتے ہیں کہ میں ایک غزوہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک تھا. میرا اونٹ پیچھے رہ گیا تھا، چوں کہ وہ چل نہیں پا رہا تھا. رسول اللہ مجھے راہ میں مل گئے اور پوچھا تمہارے اونٹ کو کیا ہو گیا. میں نے عرض کیا :یارسول اللہ وہ بیمار ہے. حضور صلی اللہ علیہ وسلم میرے اونٹ پر متوجہ ہوئے، اسے اٹھایا اور اس کے لیے دعاء بھی فرمائی. رسول اللہ کی دعا کے نتیجے میں اونٹ صحت یاب اور چاق چوبند ہوگیا اور اس برق رفتاری سے چلنے لگا کہ تمام اونٹنیوں سے آگے ہو گیا . حضور نے پھر مجھ سے اس کے متعلق پوچھا تو میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ وہ تو پوری طرح ٹھیک ہو گیا ہے؛ اُسے حضور کی برکت کا حصہ مل گیا ہے.
صحیح مسلم میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو بلایا. وہ تاخیر سے حاضر ہو ا اور کہنے لگا کہ میرے اونٹنی تیز نہیں چل پاتی ہے. وہ اس قدر آہستگی کے ساتھ چلتی ہے کہ مجھے حاضر ہونے میں دیر لگتی ہے. آپ نے اونٹنی کو ایک ایڑ لگائی اور وہ سب سے آگے نکلنے لگی.
ایک مرتبہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک راستہ سے گزر رہے تھے کہ ایک اونٹنی آپ کو دیکھ کر رونے اور بلکنے لگی. آپ نے رحمت و شفقت سے اس کے پشت پر ہاتھ پھیرا؛ تو وہ چپ ہو گئی اور اُس نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے مالک کی شکایت کی.(بطور معجزہ) آپ اس کی شکایت کو سمجھ گئےاور آپ نے اس کے مالک کو بلا کر چارہ وغیرہ کا خیال رکھنے کی تاکید فرمائی. صحابہ کرام یہ منظر دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئے (مشکوٰۃ المصابیح ص :540)
حضرت عبد اللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک انصاری شخص کے باغ میں داخل ہوئے تو وہاں ایک اُونٹ تھا۔ جب اُس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو وہ رو پڑا اور اُس کی آنکھوں سے آنسو بہ نکلے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اُس کے پاس تشریف لے گئے اور اُس کے سر پر دستِ شفقت پھیرا تو وہ خاموش ہو گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا: اِس اُونٹ کا مالک کون ہے، یہ کس کا اُونٹ ہے؟ انصار کا ایک نوجوان حاضر خدمت ہوا اور عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ میرا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم اس بے زبان جانور کے معاملے میں اللہ تعالیٰ سے نہیں ڈرتے. جس کا اللہ تعالیٰ نے تمہیں مالک بنایا ہے۔ اس نے مجھے شکایت کی ہے کہ تم اسے بھوکا رکھتے ہو اور اس سے بہت زیادہ کام لیتے ہو۔‘‘( أبو داود، کتاب الجهاد، الرقم: 2549)
حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک شخص کے پاس سے گزرے جو بھیڑ کا دودھ دوہ، رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس سے فرمایا: اے فلاں! جب تم دودھ نکالو تو اِس کے بچے کے لیے بھی چھوڑ دو. یہ جانوروں کے ساتھ سب سے بڑی نیکی ہے۔‘‘( مجمع الزوائد، 8 /196197)
حضرت یحیی بن سعید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھوڑے کا چہرہ اپنی چادر مبارک سے صاف کر رہے تھے۔‘
(موطا امام مالک کتاب الجهاد، 2 /468، الرقم: 1002، سنن سعيد بن منصور 2 /203، الرقم: 2438)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ایک شخص جا رہا تھا کہ اُسے راستے میں شدید پیاس لگی، اُس نے ایک کنواں دیکھا تو وہ اُس کنویں میں اُتر گیا اور پانی پیا، جب وہ کنویں سے نکلا؛ تو اُس نے دیکھا کہ ایک کتا پیاس کی وجہ سے ہانپ رہا ہے اور کیچڑ چاٹ رہا ہے، اُس شخص نے سوچا اِس کتے کی بھی پیاس سے وہی حالت ہو رہی ہے جو (کچھ دیر قبل) میری ہو رہی تھی، پس وہ کنویں میں اُترا اور اپنے موزے میں پانی بھرا، پھر اُس موزے کو منہ سے پکڑ کر اُوپر چڑھا اور کتے کو پانی پلایا، اللہ تعالیٰ نے اُس کی یہ نیکی قبول کی اور اُس کی مغفرت فرما دی، صحابہ کرام نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا اِن جانوروں میں بھی ہمارے لیے اجر ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر تر جگر والے (یعنی ہر زندہ جانور) میں اَجر ہے (یعنی اللہ تعالیٰ کی کسی بھی مخلوق سے نیکی کرنے پر اجر ملتا ہے)۔‘‘ (بخاری،2363مسلم2244)
حضرت اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ ایک دفعہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک صحراء سے گزر رہے تھے کہ کسی آواز لگانے والے نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ’یا رسول اللہ‘ کہہ کر پکارا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم آواز کی طرف متوجہ ہوئے؛ لیکن سامنے کوئی نظر نہ آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ غور سے دیکھا؛ تو وہاں ایک ہرنی بندھی ہوئی تھی۔ اس نے عرض کیا: یا رسول اللہ، میرے نزدیک تشریف لائیے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے قریب ہوئے اور اس سے پوچھا: تمہاری کیا حاجت ہے؟ اس نے عرض کیا: اس پہاڑ میں میرے دو نومولود بچے ہیں۔ پس آپ مجھے آزاد کردیجئے کہ میں اُنہیں دودھ پلا کر آپ کے پاس واپس لوٹ آؤں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا تم ایسا ہی کرو گی؟ اس نے عرض کیا: اگر میں ایسا نہ کروں تو اللہ تعالیٰ مجھے سخت عذاب دے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے آزاد کردیا۔ وہ گئی اس نے اپنے بچوں کو دودھ پلایا اور پھر لوٹ آئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دوبارہ باندھ دیا۔ پھر اچانک وہ اعرابی (جس نے اس ہرنی کو باندھ رکھا تھا) متوجہ ہوا اور اس نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں آپ کی کوئی خدمت کرسکتا ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، اس ہرنی کو آزاد کردو۔ پس اس اعرابی نے اسے فوراً آزاد کردیا۔ وہ وہاں سے دوڑتی ہوئی نکلی اور وہ یہ کہتی جا رہی تھی: میں گواہی دیتی ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور بے شک آپ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں۔ ( طبرانی ،المعجم الکبير، 23 /331، الرقم: 763)
بکریوں کے تھن پر آپ کا فیضان رحمت :
حضرت عبدﷲ بن مسعود رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں ایک کم عمر لڑکا تھا اور مکہ میں مشرک سردار عقبہ بن ابی معیط کی بکریاں چراتا تھا. اتفاق سے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیق رضیﷲ عنہ کا میرے پاس سے گزر ہوا، آپ صلی اللہ
علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ اے بچے ! اگر تمہاری بکریوں کے تھنوں میں دودھ ہو تو ہمیں بھی دودھ پلاؤ، میں نے عرض کیا کہ میں ان بکریوں کا مالک نہیں ہوں؛ بلکہ ان کا چرواہا ہونے کی حیثیت سے امین ہوں، میں بھلا بغیر مالک کی اجازت کے کس طرح ان بکریوں کا دودھ کسی کو پلا سکتا ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تمہاری بکریوں میں کوئی بچہ بھی ہے. میں نے کہا کہ ”جی ہاں” آپ نے فرمایا اس بچے کو میرے پاس لاؤ۔ میں لے آیا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس بچے کی ٹانگوں کو پکڑ لیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے تھن پر اپنا دست مبارک لگا دیا تو اس کا تھن دودھ سے بھر گیا پھر ایک گہرے پتھر میں آپ نے اس کا دودھ دوہا، پہلے خود پیا پھر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو پلایا ۔حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ کہتے ہیں کہ اس کے بعد مجھ کو بھی پلایا. پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بکری کے تھن میں ہاتھ مار کر فرمایا کہ اے تھن! تو سمٹ جا چنانچہ فوراً ہی اس کا تھن سمٹ کر خشک ہو گیا.
حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ کا بیان ہے کہ میں اس معجزہ کو دیکھ کر بے حد متاثر ہوا اور میں نے عرض کیا کہ آپ پر آسمان سے جو کلام نازل ہوا ہے. مجھے بھی سکھائیے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم ضرور سیکھو تمہارے اندر سیکھنے کی صلاحیت ہے۔ چنانچہ میں نے آپ کی زبان مبارک سے سن کر قرآن مجید کی ستر سورتیں یاد کر لیں۔ حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ کہا کرتے تھے کہ میرے اسلام قبول کرنے میں اس معجزہ کو بہت بڑا دخل ہے۔ (طبقات ابن سعد ج۱ ص۱۲۲)
مسند احمد میں حضرت خباب کی بیٹی سے روایت ہے کہ میرے والد خباب ایک سریہ میں دشمنوں سے جہاد کے لیے گئے ہوئے تھے، ان کے غائبانہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری خبر گیری فرمایا کرتے تھے. ایک معاملہ بکریوں کے دوہنے کا تھا. آں حضرت خود تشریف لاتے اور ساری بکریاں دوہ جاتے. آپ کے دوہنے کی برکت سے گھر کا سب سے بڑا برتن دودھ سے بھر جاتا۔(مسند احمد بن حنبل)
سفر ہجرت میں دوسرے یا تیسرے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر اُمّ معبد خزاعیہ کے خیمے سے ہو ا۔ اس کا فاصلہ مکہ مکرمہ سے ایک سوتیس (۱۳۰) کیلو میٹر ہے۔ اُمّ معبد ایک نمایاں اور توانا خاتون تھیں۔ ہاتھ میں گھٹنے ڈالے خیمے کے صحن میں بیٹھی رہتیں اور آنے جانے والے کو کھلاتی پلاتی رہتیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ پاس میں کچھ ہے ؟ بولیں : واللہ! ہمارے پاس کچھ ہوتا تو آپ لوگوں کی میزبانی میں تنگی نہ ہوتی۔ بکریاں بھی دور دراز ہیں۔ یہ قحط کا زمانہ تھا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ خیمے کے ایک گوشے میں ایک بکری ہے۔ فرمایا : ام معبد ! یہ کیسی بکری ہے؟ بولیں:اسے کمزوری نے ریوڑ سے پیچھے چھوڑ رکھا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے
دریافت کیا کہ اس میں کچھ دودھ ہے ؟ بولیں : وہ اس سے کہیں زیادہ کمزور ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اجازت ہے کہ اسے دوہ لوں؟ بولیں: ہاں ،میرے ماں باپ تم پر قربان۔ اگر تمہیں اس میں دودھ دکھائی دے رہا ہے تو ضرور دوہ لو۔ اس گفتگو کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بکری کے تھن پر ہاتھ پھیرا، اللہ کا نام لیا اوردعا کی۔ بکری نے پاؤں پھیلادیئے۔ تھن میں بھر پور دودھ اُتر آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ام معبد کا ایک بڑا سا برتن لیا. جو ایک جماعت کو آسودہ کرسکتا تھا اور اس میں اتنا دوہا کہ جھاگ اوپر آگیا۔ پھر ام معبد کو پلایا، وہ پی کر شکم سیر ہوگئیں تو اپنے ساتھیوں کوپلایا۔ وہ بھی شکم سیر ہوگئے توخود پیا ، پھر اسی برتن میں دوبارہ اتنادودھ دوہا کہ برتن بھر گیا اور اسے ام ِ معبد کے پاس چھوڑ کر آگے چل پڑے۔
تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ ان کے شوہر ابو معبد اپنی کمزور بکریوں کو ، جو دُبلے پن کی وجہ سے مریل چال چل رہی تھیں ، ہانکتے ہوئے آپہنچے۔ دودھ دیکھا تو حیرت میں پڑ گئے۔ پوچھا :یہ تمہارے پاس کہاں سے آیا ؟ جب کہ بکریاں دور دراز تھیں اور گھر میں دودھ دینے والی بکری نہ تھی ؟ بولیں: واللہ! کوئی بات نہیں سوائے اس کے کہ ہمارے پاس سے ایک بابرکت آدمی گزرا جس کی ایسی اور ایسی بات تھی اور یہ اور یہ حال تھا۔ ابومعبد نے کہا: یہ تو وہی صاحب قریش معلوم ہوتا ہے جسے قریش تلاش کررہے ہیں۔ اچھا ذرا اس کی کیفیت تو بیان کرو۔ اس پر اُمِ معبد نے نہایت دلکش انداز سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف وکمالات کا ایسا نقشہ کھینچا کہ گویا سننے والا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے سامنے دیکھ رہا ہے ۔۔ ۔۔ یہ اوصاف سن کر ابو معبد نے کہا : واللہ! یہ تو وہی صاحبِ قریش ہے جس کے بارے میں لوگوں نے قسم قسم کی باتیں بیان کی ہیں۔ میرا ارادہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت اختیا ر کروں اور کوئی راستہ ملا تو ایسا ضرور کروں گا۔(الرحیق المختوم.، بیہقی، حاکم)
پیاسے جانوروں پر ترحُّم :
پیاسے جانور کو پانی پلانا
آنحضرت ﷺ کا جانوروں سے حسن سلوک کا یہ عالم تھا کہ آپ ﷺ جانوروں کی پیاس کا خیال رکھتے اور دوران وضو بلی کو اپنے برتن سے پانی پلاتے، پھر اس بچے ہوئے پانی سے وضوفر ما لیتے ، جیسا کہ سیدہ عائشہ کا بیان ہے :
عن عائشة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كا ن يصغى إلاناء للهر ويتوضأ بفضله - (۴) حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ بلی کے لئے برتن جھکا دیتے اور اس کے بچے ہوۓ پانی سے وضوفر ما لیتے ۔
آپ ﷺ نے گھر میں آنے جانے والے پرندے اور جانور کے جھوٹے پانی کو ناپاک قرار نہیں دیا ہے، تا کہ گھر والوں کو نگلی نہ ہوا چنانچہ ارشاد ہے :بلی کا جھوٹا ناپاک نہیں ہے؛ کیوں کہ وہ تمہارے پاس بار بار آنے جانے والے جانوروں میں سے ہے. (طحاوی، شرح معانی الآثار 1/11)
پرندوں کے ساتھ شفقت و رحمت :
آپ صلی اللہ علیہ وسلم صرف بنی نوع انسان کے لیے ہی نہیں بلکہ حیوان، چرند پرند، نباتات اور حشرات الارض سب کے لیے رحمت تھے۔ حضرت عبد الرحمٰن بن عبد اللہ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم ؐ نے ایک سفر میں پڑاؤ کیا۔ ایک شخص نے جا کر ایک چڑیا کے گھونسلے سے انڈے نکال لیے۔ وہ چڑیا آ کر رسول کریم ؐ اور آپ ؐ کے صحابہ رضی اللہ عنہم کے سر پر منڈلانے لگی۔ نبی کریم ؐ کی نظر اس پر پڑی تو آپ ؐ نے فرمایا کہ اس پرندہ کو کس نے دکھ پہنچایا ہے۔ ایک شخص نے کہا ’’حضور میں نے اس کے انڈے اٹھائے ہیں‘‘ رسول کریم ؐ نے فرمایا ’’جاؤ! اس کے انڈے واپس اس کے گھونسلے میں رکھ دو‘‘
آپ نے شکاری پرندے نیز بے ضرر چیونٹی، شہد کی مکھی اور ہد ہد کو مارنے سے منع فرمایا۔ حشرات الارض پر رحمت کا اندازہ اس روایت سے بھی ہوتا ہے کہ آپ ؐ نے گھروں میں رہنے والے سفید رنگ کے چھوٹے بے ضرر سانپوں کو بھی مارنے سے منع فرمایا ہے۔
آنحضرت ؐ کی رحمت کی گواہی وہ فاختہ بھی دیتی ہے؛ جس کے بچوں کوایک صحابی رضی اللہ عنہ نے ایک سفر کے دوران اٹھا لیا اور فاختہ بھی فریاد لے کر آپ ؐ کے سر پر منڈلانے لگی۔ آپ ؐ نے فوراً اس کی فریاد کو سمجھا اور صحابی رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ فوراً اس کے بچوں کو واپس رکھو۔
کیا کسی کی رحمت اتنی عام ہوئی ہے کہ ہر ذی روح نے اس سے فائدہ اٹھایا ہو؟ نہیں نہیں یہ تو ہمارے نبی کی شان ہے. یہ ہمارے آقا ہی تھے جو رحمۃ للعالمین تھے۔
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم ایک سفر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ تھے، ہم ایک درخت کے پاس سے گزرے جس میں چَنڈُول(ایک خوش آواز چڑیا) کے دو بچے تھے، ہم نے وہ دوبچے اُٹھا لیے ۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ وہ چَنڈُول نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں شکایت کرتے ہوئے حاضر ہوئی۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کس نے اِس چَنڈُول کو اِس کے بچوں کی وجہ سے تکلیف دی ہے؟ راوی بیان کرتے ہیں: ہم نے عرض کیا: ہم نے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اِس کے بچے اِسے لوٹا دو۔‘‘ ( مستدرک حاکم ، کتاب الذبائح، 4 /267، ، بيهقی دلائل النبوة، 1 /321)
حضرت شرید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: جس نے کسی چڑیا کو بلا وجہ مار ڈالا تو وہ چڑیا قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے سامنے چلائے گی اور عرض کرے گی : اے اللہ! فلاں شخص نے مجھے بلا وجہ بغیر کسی فائدہ کے قتل کیا۔‘‘ ( سنن نسائي حدیث نمبر : 4446)
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک سفر میں ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم قضائے حاجت کے لئے تشریف لے گئے تو ہم نے ایک چڑیا دیکھی، جس کے ساتھ دو بچے تھے۔ ہم نے اُس کے بچے پکڑ لئے تو چڑیا، پر بچھانے لگی۔ اسی درمیان نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے؛ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کس نے اِسے اِس کے بچوں کی وجہ سے تڑپایا ہے؟ اِس کے بچے اِسے لوٹا دو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چیونٹیوں کا ایک بل دیکھا جسے ہم نے جلا دیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اِسے کس نے جلایا ہے؟ ہم عرض گزار ہوئے: (یا رسول اللہ!) ہم نے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آگ کے ساتھ عذاب دینا، آگ کے (پیدا کرنے والے) رب کے سوا کسی کے لیے مناسب نہیں ہے۔‘‘ (ابوداؤد، باب فی کراہیۃ حرق العدو بالنار)
نباتات پر آپ کی رحمت کا سایہ :
اگر کسی ذی روح چیز کو کسی سے محبت ہو جائے اور کسی کے فراق پر آنسوں بہائے تو کوئی خاص تعجب کی بات نہیں ہے؛ لیکن اگر لکڑی جیسی بے جان چیز کسی کے فراق پر آنسو بہائے؛ تویہ انتہائی حیرت انگیز واقعہ شمار ہو گا؛ آنحضرت صلی الہ علیہ وسلم کی مدنی زندگی میں ایک ایسا ہی حیرت انگیز واقعہ پیش آیا؛ جب ہجرت فرما کر آپ مدینہ تشریف لائے تو آپ کی خاص توجہ سے مدینہ منورہ میں مسجد نبوی کی تعمیری ہوئی. شروع میں اس مسجد میں کوئی منبر نہ تھا. آں حضرت خطبہ دیتے وقت کھجور کے ایک خشک تنے کے ساتھ ٹیک لگاکر کھڑے ہو جاتے تھے؛ کچھ عرصہ کے بعد بڑھئی کے کام میں مہارت رکھنے والے صحابی رسول میمون نے مسجد نبوی کے لیے ایک منبر تیار کر لیا جو تین زینے کا تھا؛ صحیح بخاری میں ہے کہ جب پہلی دفعہ نبی کریم نے اس منبر پر خطبہ دینا شروع فرمایا اور کھجور کاوہ تنا حضور کی ٹیک لگانے کی عزت سے محروم رہ گیا؛ تو اس سے رونے کی آواز آنا شروع ہوگئی. عبداللہ بن عمر فرماتے ہیں " صاحت النخلة صیاح الصبي" یعنی وہ بچوں کی طرح بلک بلک کر رونے لگا اور جابر ابن عبداللہ کی روایت میں ہے:"
بچے کے فراق میں اونٹنی کے بلبلا نے کی جو آواز ہوتی ہے. ویسی ہی آواز اس تنے سے آنے لگی. اس کے بلکنے کی آواز سن کر رسول اللہ اس منبر سے اترے اور کھجور کے اس تنے پر دست شفقت رکھا تو وہ لکڑی خاموش ہو گئی پھر اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر کے متصل دفن کر دیا.
راوی نے بیان کیا:’’مجھے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بتلایا، کہ انہوں نے لکڑی کے ٹکڑے کو گم شدہ بچے والی ماں کی طرح بے قراری سے روتے سُنا۔‘‘
انہوں نے بیان کیا:’’وہ بے قراری سے روتا رہا ،یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر سے نیچے تشریف لائے اور اس کی طرف گئے۔ اسے اپنی آغوش میں لیا ، تب اسے قرار و سکون آیا۔‘‘
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ایک اور روایت میں ہے کہ (ستون کے رونے کی) آواز تمام اہلِ مسجد نے سنی۔ (اس کا رونا سن کر) حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس تشریف لائے اور اس پر اپنا دستِ شفقت پھیرا تو وہ پرسکون ہو گیا۔ بعض صحابہ کہنے لگے: اگر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس تشریف نہ لاتے تو یہ قیامت تک روتا رہتا۔‘‘
امام ابن حبان اور امام ابو یعلیٰ رحمہما اللہ تعالیٰ نے روایت نقل کی ہے، کہ حضرت حسن بصری رحمہ اللہ تعالیٰ جب اس حدیث کو بیان کرتے، تو رونا شروع کر دیتے، اور فرماتے :
’’ یَا عِبَادَ اللّٰہِ! اَلْخَشَبَۃُ تَحِنُّ إلٰی رَسُوْل اللّٰہ صلي اللّٰه عليه وسلم شَوْقًا لِمَکَانِہِ مِنَ اللّٰہِ، فَأَنْتُمْ أَحَقُّ أَنْ تَشْتَاقُوْا إِلٰی لِقَائِہ۔‘‘
’’اے اللہ تعالیٰ کے بندو! اللہ تعالیٰ کے ہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عظیم مقام کی بنا پر آپ سے وصال کے شوق میں لکڑی کا ٹکڑا بے چین ہوتا ہے ، تمہیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات کے شوق میں بہت زیادہ بے قرار ہونا چاہیے۔‘‘(مسند ابی یعلی 5/143)
ایک حدیث میں ہے کہ ”جب رسول اللہ ﷺ اس تنے کے پاس سے گزر کر منبر کی طرف چلے تو تنا‘ اس زور سے رویا کی وہ پھٹ گیا اور دو حصے ہو گیا۔“
مسند دارمی میں حضرت بریدہ کی روایت ہے کہ ”آپ ﷺ نے اس پر اپنا ہاتھ رکھا،اور(اسے چپ کراتے ہوئے)کہا،تم کو اسی جگہ گاڑ دوں جس جگہ تم تھے، پس اسی طرح (سبز شاداب ہو جاؤ)جیسے پہلے تھے،یا تم کو جنت میں بو دوں (یعنی مسجد میں دفن کر دوں تو تم جنت میں اگ جاؤ گے) اورجنت کی نہروں ، چشموں سے سیراب ہوگے،خوب اچھے پھلدار ہوجاؤگے،تمہیں اولیا ء اللہ (جنتی) کھائیں گے،اور ہمیشہ رہوگے،پھر آپ ﷺ نے اس کی طرف کان لگایا کہ وہ کیا کہتا ہے، آپ ﷺسے جب پوچھا گیا کہ اس نے کیا کہا تو آپ ﷺ نے جواب دیاکہ:”اس نے دارالفناء کے مقابلے میں دارالبقاء کو تر جیح دی“یعنی جنت میں اگنے کو ترجیح دی۔(وفاء الوفاء)
مصنف عبد الرزاق میں ہے کہ: معمر نے اہل مدینہ سے نقل کیا ہے کہ اس کھجور کے تنے کو مسجد نبوی ہی میں دفن کر دیا گیا، چنانچہ جس مقام پر دفن کیا گیا ہے وہاں پر ایک ستوں کھڑا کر دیا ہے، جیسے ”استوانہ حنانہ“کہتے ہیں،جو ریاض جنت کے ستونوں میں سے ایک ستون ہے۔ (وفاء الوفاء)
حضرت عمرو بن اوس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے قبیلہ ثقیف کے ایک شخص کو بیری کے درخت کو اجاڑتے ہوئے دیکھا تو ان سے کہا کہ ایسا مت کرو ۔ کیوں کہ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو بیری کے درخت کو ( بلا وجہ ) اکھاڑے گا ، الله تعالی اس کے اوپر عذاب کی کھیتی کرے گا ۔ اس لیے میں بیری کے درخت کو اکھاڑنے کو ناپسند کرتا ہوں ، چاہے وہ کھیت میں ہو یا کسی اور جگہ ہو.
( مصنف عبد الرزاق ، ۱۱ / ۱۲ ، حدیث : ١٩٧٥٨)
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ کی ایک مفصّل روایت حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے ایمان لانے کے تعلق سے امام احمد بن حنبل نے مسند میں نقل کیا ہے... اس روایت میں ہے کہ سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ ان دنوں ایک یہودی کے غلام تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ترغیب پر انھوں نے کچھ درہم اور کھجور کے پودے کاشت کرنے شرط پر اپنے مالک سے مکاتبت کا معاملہ کرلیا ۔ شرط یہ تھی کہ ان درختوں کے ثمر آور ہونے تک سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ وہاں باغ میں کام کریں گے، کھجور کے تمام پودے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھوں سے خود لگائے، صرف ایک پودا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے لگایا، تمام پودے اسی سال ثمر آور ہوگئے، کھجور کے صرف ایک پودے پر پھل نہ آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے کیا ہوا؟ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ٰنے بتلایا: اے اللہ کے رسول! یہ پودا میں نے لگایا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اکھیڑ کر دوبارہ لگا دیا تو وہ بھی اسی سال پھل دار ہوگیا۔ (مسند احمد: ۲۳۳۸۵)
غرض جانوروں، پرندوں اور حشرات الارض کے سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ اور آپ کے ارشادات و فرمودات کا تقاضہ ہے کہ کہ ہمارے قلوب بھی اللہ کی تمام مخلوقات کے تئیں رحم وکرم کے جذبہ سے معمور ہوں. اللہ کی کسی بھی مخلوق کے ساتھ زیادتی اور تکلیف پر ہمارا دل تڑپ اٹھے اور ہم اسے راحت پہنچانے کی کوشش کرتے رہیں. تبھی ہم صحیح معنوں میں رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کہے جانے کے مستحق ہوسکتے ہیں.
شکستہ ہڈی پر آپ کی رحمت :
صحیح بخاری میں براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب عبد اللہ ابن عتیک ابورافع کو جہنم رسید کرنے کے بعد زینہ سے اترے تو پھسلنے کی وجہ سے ان کی پنڈلی کی ہڈیاں ٹوٹ گئیں. انہوں نے آنحضور سے اس حادثے کاذکرکیا. رسول اللہ نے فرمایا :پاؤں پھیلاؤ. میں نے پھیلا دیا. حضور نے اُس جگہ دست مبارک رکھ دیا. چنانچہ فوری طور پر میری ہڈیاں درست ہوگئیں اور میں اس طرح تندرست ہو گیا گویا کبھی مجھے فریکچر کی کوئی شکایت ہی نہ ہوئی ہو.
نکلی ہوئی آنکھ پر آپ کی رحمت :
حضرت قتادہ بن نعمان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ غزوۂ بدر کے دن ان کی آنکھ تیر کا نشانہ بن گئی۔ چنانچہ آنکھ کا ڈھیلا نکل کر چہرے پر لٹک گیا، دیگر صحابہ نے اُسے کاٹ دینا چاہا، رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا گیا؛ تو آپ ﷺ نے منع فرما دیا، پھر آپ ﷺ نے دعا فرمائی اور آنکھ کو اپنے دستِ مبارک سے دوبارہ اُس کے مقام پر رکھ دیا۔تو حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ کی آنکھ اس طرح ٹھیک ہوگئی کہ (دیکھنے والے کو) معلوم بھی نہ ہوتا تھا کہ کون سی آنکھ زخمی ہوئی تھی۔. یہ آنکھ اخیر تک روشن، چمکدار اور خوب صورت رہی. (ابو یعلی، بیہقی)
پہاڑ پر آپ کا سایہ عاطفت:
حضرت انس بن مالک سے روایت کی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اُحد پہاڑ پر جلوہ افروز ہوئے آپ کے ساتھ حضرت ابوبکر حضرت عمر اور حضرت عثمان غنی رضی الله تعالیٰ عنہم تھے. اسی درمیان پہاڑ میں ارتعاش اور لرزش ہونے لگی ۔(یا پہاڑ مارے خوشی کے انگڑائیاں لینے لگا) یہ دیکھ کر حضور صلی اللہ علیہ نے فرمایا :اے احد پہاڑ! تم ٹھہر جاؤ. پرسکون ہوجاؤ اس لیے کہ تمہارے اوپر ایک نبی ، ایک صدیق اور دو شہداء جلوہ افروز ہیں. (بخاری الرقم:3483)
احد ، وہ پہاڑ ہے جس کے متعلق حضورؐ نے فرمایا ’’نُحِبُّہٗ وَیُحِبُّنَا‘‘ (ہم کو اس سے محبت ہے اور اس کو ہم سے محبت ہے. (بخاری،رقم الحدیث 4160، )
جب اُحد پہاڑ جمادات میں سے ہونے کے باوجود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پیار کرتا ہے ، تو نعمتِ ایمان سے بہرہ ور شخص کب یہ گوارہ کرے گا، کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں پہاڑ اس پر سبقت لے جائے۔
سنگریزوں پر آپ کی رحمت کا فیضان :
ایک دن دوپہر کے وقت حضرت عثمان غنی ؓ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اس وقت حضرت ابوبکر صدیق ؓ اور حضرت عمر فاروق ؓ بھی وہاں موجود تھے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان سے دریافت فرمایا، ’’تمھیں کیا چیز یہاں لائی ہے؟ ‘‘انہوں نے عرض کیا:
’’اللہ تعالیٰ اور رسول(علیہ الصلوٰۃوالسلام) کی محبت‘‘
اس سے قبل حضرت ابوبکر صدیق ؓ اورحضرت عمر فاروق ؓ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے استفسار پر یہی جواب دے چکے تھے۔ اس کے بعد حضور اکرم نے سات یا نو کنکریاں ہاتھ میں لیں تو ان کنکریوں نے دست مبارک میں تسبیح پڑھی. جس کی آواز شہد کی مکھیوں کی بھنبھناہٹ کی طرح تھی۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کنکریاں علیحدہ علیحدہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ ، حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ کے ہاتھوں میں دے دیں تو کنکریوں نے سب کے ہاتھوں میں بھی تسبیح پڑھی۔
سلام اس پر کہ جس کی چاند تاروں نے گواہ دی
سلام اس پر کہ جس کی سنگ پاروں نے گواہی دی.
روایتوں کے مطابق متعدد بار آپ کے دست مبارک میں سنگ ریزوں نے کلمہ شہادت پڑھا
(خصائص الکبرٰی جلد ثانی)
اسی طرح آپ کی انگلیوں کے اشارے سے چاند دو پارہ ہوگیا۔ (دلائل حافظ ابو نعیم جلد ثانی)
اسی مبارک ہاتھ کی انگلیوں سے متعدد دفعہ چشمہ کی طرح پانی جاری ہوا۔ (صحیح بخاری)
جناتوں کے ساتھ مشفقانہ سلوک :
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مادی جسم رکھنے والے ذی روح کے ساتھ جس طرح رحمت و رافت کا برتاؤ کیا، اسی طرح لطیف اجسام والے جناتوں کے ساتھ بھی خصوصی شفقت کا معاملہ فرمایا.چنانچہ امام ترمذی نے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تم لید اور ہڈیوں سے استنجا نہ کیا کرو۔ اس لیے کہ وہ تمہارے بھائی جنات کے لیے غذا ہے۔ یعنی انسان کی استعمال کی ہوئی ہڈیوں پر دوبارہ گوشت چڑھ جاتا ہے، جسے دوبارہ جن استعمال کرتے ہیں، اور لید سے استنجاء کی ممانعت اس لیے ہے کہ لید اپنی سابقہ حالت کی طرف لوٹ جاتی ہے،یعنی گھاس بن جاتے ہیں جسے جنات کے چوپائے استعمال کرتے ہیں ۔ (ترمذی. 1/11 )
اس کے پس منظر کی وضاحت اس حدیث سے ہوتی ہے، جسے امام ابوداؤد نے حضرت عبد اللہ مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ جنات کا ایک وفد حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا. جنوں نے گزارش کی کہ آپ اپنی امت کے افراد کو ہڈی؛ اور لید سے استنجاء کرنے سے منع فرما دیں
اس لیے کہ اللہ تعالی نے اسے ہمارے لیے رزق بنایا ہے. جنات کی اس درخواست پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر شفقت فرماتے ہوئے اپنی امت کو اس کی طرح کی چیزوں کے ذریعے استنجاء کرنے سے منع فرمایا (ابوداؤد )
قیامت تک کی انسانیت کو ہمہ گیر عذاب الٰہی سے بچانے کی دعا:
نبی کریم ﷺ ہمیشہ اپنی امت کی نجات، فلاح اور دنیا وآخرت کی سرخروئی کے لیے فکر مند رہا کرتے تھے. آپ ہمیشہ یہ خواہش رکھتے تھے کہ میری امت ( امت دعوت ہویااجابت ) دنیا وآخرت کے عذاب سے محفوظ رہے . چنانچہ امت کی محبت و شفقت کے تحت آپ نے اللہ تعالیٰ سے اپنی امت کے لئے تین باتو ں کی دعا فرمائی‘ ایک یہ کہ، اس امت کو عمومی عذاب سے محفوظ رکھا جائے ، پوری امت کو اس طرح تباہ و ہلاک نہ کیا جائے ‘ جس طرح سابقہ امتیں مختلف عمومی عذابوں میں مبتلا کرکے ہلاک کردی گئی تھیں. مثلاً قوم نوح کو پانی میں غرق کرکے ‘ قوم عاد تیز آندھی و طوفان کے ذریعے ‘قوم ثمود کو شدید زلزلہ کے ذریعے اور قوم لوط کو آسمان سے پتھر برسا کر ہلاک کیا گیا تھا. اس طرح ہماری امت کو ہلاک نہ کیا جائے.
دوسری دعا یہ فرمائی کہ غیر مسلم دشمن ان پر اس طرح غالب نہ آجائیں کہ انہیں بالکل نیست ونابود کردیں۔
اور تیسری دعا یہ فرمائی کہ وہ خواہشات نفس کی وجہ سے آپس میں اختلاف کرکے مختلف گروہ اور پارٹیاں نہ بن جائیں۔ نبیﷺ نے بتایا کہ ’’اللہ عزوجل نے اپنے فضل سے پہلی دو دعائیں قبول فرمالیں اور تیسری دعا کسی حکمت کی بنا پر قبول نہیں فرمائی۔ وہ حکمت صرف اللہ تعالیٰ ہی کو معلوم ہے۔(مفہوم حدیث، راوی حضرت ثوبان، ترمذی، مسلم)
وہ ذات جو رحمت مجسم تھی، جن کی رحمت و رافت کا فیضان ہر دوست و دشمن تک عام ہوا ،جنھوں نے پتھر کھاکر بھی دعائیں دی، جنھوں نے پوری انسانیت کی مسیحائی کی. جن کی مہربانی کے فیوض سے جانور، چرند پرند، درخت، پتھر، شجر، حجر سب مستفیض ہوئے، جن کے فیض دعا کے نتیجے میں قیامت تک کی انسانیت، عمومی یکبارگی عذاب سے محفوظ ہوگئی .. وہ ہستی جو اپنی امت کی نجات و فلاح کے لیے دنیا میں بھی بے چین رہی اور آخرت میں بھی یارب امتی امتی کا نعرہ مستانہ بلند کرے گی . کیا اس شفیع المذنبین رحمتِ مُجسم کا ہم پر یہ حق نہیں کہ ہم دل وجان سے اس سے محبت کریں اس کی اتباع کریں، اس کی سنتوں کی پیروی کریں،اس کی صفت رحمت ورافت کو خود بھی اپنائیں اور دنیا میں بھی اسے عام کریں، اپنی خواہش کو اس کے حکم کے تابع کریں، اس کے لائے ہوئے دین کی سربلندی کے لیے ہر ممکن کوشش کریں؟؟؟
اگر ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک امتی کے طور پر اپنے ذمہ عائد نبی کے حقوق ادا کرتے رہے؛ تو اللہ کی ذات سے امید ہے کہ کل بروز محشر ہم جیسے گنہگاروں کو شفیع المذنبین صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت نصیب ہوگی.
جزی اللہ محمدا عنا بماھو اھلہ. وصلی اللہ علی النبی الکریم وبارک وسلم. آمین
امیدوارِ شفاعت ایک گنہگار امتی :
آپ کے ان عظیم الشان اوصاف و کمالات کی عکاسی کرتے ہوئے اللہ رب العالمین نے ارشاد فرمایا :وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ (الانبیاء: 107) یعنی ہم نے آپ کو سارے جہاں کے لیے رحمت بنا کر مبعوث فرمایا. دوسری جگہ ارشاد فرمایا: لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ(التوبہ :۱۲۸) ترجمہ:بیشک تمہارے پاس تم میں سے وہ عظیم رسول تشریف لے آئے؛ جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا بہت بھاری گزرتا ہے، وہ تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے، مسلمانوں پر بہت مہربان، رحمت فرمانے والے ہیں ۔
اللہ رب العالمین کی طرف سے ملنے والے ان تمغہائے امتیاز کا اثر یہ ہوا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے ہر پہلو میں آپ کی صفتِ رحمت کی جلوہ گری نظر آتی ہے .آپ کی شفقت و مہربانی کی چھاپ حیات مبارکہ کے ہر شعبے پر نما یاں طور پر محسوس کی جا سکتی ہے.
یوں تو آپ جامع الکلمات اور مجمع الاوصاف ہیں. اللہ تعالی نے آپ کو بے شمار خوبیوں سے سرفراز فرمایا؛ لیکن ان تمام اوصاف کے مابین آپکی صفت رحمت ایک ممتاز مقام رکھتی ہے. آپ رحمتِ مجسم ہیں؛ لیکن صرف انسانوں کے لیے ہی نہیں بلکہ کائنات کے ایک ایک ذرے کے لیے ؛ شجر و حجر کے لیے؛ بحر و بر کے لیے ، نباتات و جمادات کے لیے ؛ یعنی کائنات کے ہر شیی کے لیے. آپ کی رحمت کا فیض ہر شخص تک پہنچا اور کائنات کی ہر چیز آپ کی رحمت سے مستفیض ہوئی. اور تاہنوز ہورہی ہے. دوست تو دوست آپ کے دشمن؛ بلکہ آپ کے خون کے پیاسے بھی آپ کے فیضان رحمت سے محروم نہیں رہے.
سلام اس پر کہ جس کی ذات فخر آدمیت ہے.
روئے مبارک کا فیضان :
آپ کی صفت رحمت کا ظہور بچپن ہی سے ہونے لگا تھا اور اپنے اور پرائے سب آپ کی رحمت سے فیض یاب ہونے لگے تھے. چنا نچہ حافظ ابن عساکر نے اپنی کتاب تاریخ ابن عساکر میں آپ کے بچپنے کے حوالے سے ایک روایت نقل کی ہے. راوی جلہمہ بن عرفطہ کہتے ہیں کہ میں مکہ اس حال میں پہنچا کہ لوگ قحط سے دو چار تھے، قریش نے آپ کے چچا ابو طالب سے گذارش کی کہ پورا علا قہ قحط کا شکار ہے. بال بچے، مویشی چوپائے سب بھکمری کی زد میں ہیں. چلیے بارش کی دعاء فرما دیجیے! چنانچہ ابو طالب ایک بچہ کو ساتھ لے کر برآمد ہوئے. یہ بچہ ایسا ابر آلود سورج معلوم ہورہا تھا؛ جس سے گھنا با دل ابھی ابھی چھٹا ہو!! اردگرد اور بھی بچے تھے. ابو طالب اس معصوم بچے کا ہاتھ پکڑ کر مسجد حرام لے آئے اور اس کی پیٹھ کعبہ کی دیوار سے لگا دی. بچے نے ان کی انگلی پکڑ رکھی تھی. اسی حالت میں ابو طالب بچے کے توسط سے دعاء کرنے لگے. ادھر فضا کا یہ منظر تھا کہ اس وقت آسان پر بادل کا ایک ٹکڑا بھی نہ تھا ، لیکن دیکھتے ہی دیکھتے ادھر ادھر سے بادل کی آمد شروع ہوئی اور ایسی موسلا دھار بارش ہوئی کہ وادی جل تھل ہو گیا اور شہر و بیابان شاداب ہو گئے. یہ بچہ کوئی اور نہیں تھا؛ بلکہ ہمارے آقا و مولا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تھے. بعد میں خواجہ ابوطالب نے اس واقعہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے آپ کی شان میں کہا: وأبيض يستقى الغمام بوجهه. ثمال الیتامی عصمۃللأرامل یعنی وہ ایسے حسین و جمیل اور خوبصورت ہیں کہ ان کے چہرے سے بارش کا فیضان طلب کیا جاتا ہے. وہ یتیموں کے ماوی اور بیواؤں کے محافظ ہیں۔(المواهب اللدنية ج1 ص48)
بعض تاریخی روایات کے مطابق آں حضرت کی شیر خوارگی کے زمانے میں بھی آپ کے رخ انور کے وسیلے سے دعاء کی گئی اور اللہ تعالیٰ نے موسلا دھار بارش نازل فرمائی. اس واقعہ کے بعد بھی کئی مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے بارش کی دعاء کی اور فوری طور پر بارش ہوئی.
امام بخاری نے صحیح بخاری میں اس واقعہ کو یوں بیان فرمایا ہے :
حضرت عبداللہ بن دینار ؓفرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کو یہ شعر پڑھتے ہوئے سنا: ’’وہ گورے (مکھڑے والے ﷺ) جن کے چہرے کے توسل سے بارش مانگی جاتی ہے، یتیموں کے والی، بیواؤں کے سہارا ہیں۔‘‘
حضرت عمر بن حمزہ کہتے ہیں کہ حضرت سالم (بن عبد ﷲ بن عمرؓ) نے اپنے والد ماجد سے روایت کی کہ کبھی میں شاعر کی اس بات کو یاد کرتا اور کبھی حضور نبی اکرم ﷺکے چہرہ اقدس کو تکتا کہ اس (رخِ زیبا) کے توسل سے بارش مانگی جاتی؛ تو آپ ﷺ(منبر سے) اُترنے بھی نہ پاتے کہ سارے پرنالے بہنے لگتے۔ مذکورہ بالا شعر حضرت ابوطالب کا ہے۔ ( بخاری، حدیث نمبر 963 )
دشمنوں کے ساتھ حسنِ سلوک:
آپ کے رحم و کرم سے نہ صرف یہ کہ اپنے متعلقین، متبعین اور دوست و احباب مستفیض ہوئے؛ بلکہ آپ نے اپنے خون کے پیاسوں اور اپنے جانی دشمنوں کے ساتھ بھی رحم وکرم کا برتاؤ کیا.
آپ کی پوری زندگی اس بات پر شاہد عدل ہے؛ کہ آپ نے اپنی ذات کے لئے کبھی کسی سے بدلہ نہیں لیا. جنگ بدر میں عظیم الشان فتح کے بعد دشمن کی صف سے (70)ستر افراد گرفتار ہوئے، یہ سارے دشمنانِ خدا پکڑ کرلائے گئے. اور رسول اللہ کی خدمت میں پیش کیے گئے. یہ سب کے سب کفر کے سرغنہ اور بد معاشوں کے سردار تھے.
آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان سے بدلہ لے سکتے تھے؛ لیکن ان سے بدلہ لینے کے بجائے آپ نے ان کے ساتھ بهترین سلوک فرمایا اور بالآخر ان سب کو رہا فرما دیا.
سلام اس پر کہ جس نے بادشاہی میں فقیری کی
سلام اس پرکہ اسرار محبت جس نے سکھلائے
سلام اس پر کہ جس نے زخم کھا کر پھول برسائے
سلام اس پر کہ جس نے خوں کے پیاسوں کو قبائیں دیں
سلام اس پر کہ جس نے گالیاں سن کر دعائیں دیں.
قیدیوں کے ساتھ رحمت و شفقت :
ایسے زمانے میں جب دشمن کے قیدیوں کو قتل کر دیا جاتا تھا؛ آپ نے نہ صرف یہ کہ ان کی خبر گیری کی تاکید کی، بلکہ یہ حکم فرمایا کہ ان قیدیوں کے ساتھ نرمی اور شفقت کا سلوک کیا جائے اور ان کے آرام کا پورا پورا خیال رکھاجائے۔
صحابۂ کرام جو اپنے آقا کی طرف سے آنے والے ہر حکم اور نصیحت پر عمل کرنا اپنی سعادت سمجھتے تھے. انھوں نے اس شان کے ساتھ اس حکم پر عمل کیا کہ تاریخ عالم اس کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے۔
ایک قیدی ابو عزیر بن عمیر(جو حضرت مصعب بن عمیر کے بھائی ہیں) کی روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ کے حکم کی وجہ سے انصار مجھے تو پکی ہوئی روٹی دیتے تھے؛ لیکن خود کھجور وغیرہ کھا کر گذارہ کر لیتے تھے اور کئی دفعہ ایسا ہوتا تھا کہ ان کے پاس اگر روٹی کا چھوٹا ٹکڑا بھی ہوتا تھا تو وہ مجھے دے دیتے تھے اور خود نہیں کھاتے تھے اور اگر میں کبھی شرم کی وجہ سے واپس کردیتا تو وہ اصرار کے ساتھ پھر مجھ کو دے دیتے تھے۔
ان قیدیوں میں ایک شخص سہیل بن عمرو بھی تھا جو قریش کے سرداروں میں سے تھا اور اس کی زبان بہت تیز اور کلام بہت پُر اثر تھا. یہ آنحضرت ﷺ کے خلاف تقریریں کیا کرتا تھا۔ اب وہ قید ہو کر مسلمانوں کے قبضہ میں تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مشورہ دیا کہ اس کے اگلے دانت نکلوا دینے چاہئیں تاکہ یہ آنحضرت ﷺ کے خلاف فتنہ انگیز تقاریر نہ کرسکے۔ آنحضرت ﷺ نے اس تجویز کو ناپسند کرتے ہوئے فرمایا کہ میں اگر اس کے عضو بگاڑوں تو اگرچہ میں نبی ہوں؛ لیکن خدا اس کی جزا میں میرے اعضاء بھی بگاڑ ے گا ۔ اور اسے معاف کرتے ہوئے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو مخاطب بنا کر فرمایا:عمر تمہیں کیا معلوم کہ خدا آئندہ اسے ایسے مقام پر کھڑا کرے جو قابل تعریف ہو۔
چنانچہ فتح مکہ کے موقعہ پرسہیل بن عمرمسلمان ہو گیا اور آنحضرت ﷺ کی وفات پر اس نے متزلزل لوگوں کو بچانے کے لیے اسلام کی تائید میں نہایت پراثر خطبے دیے جس سے بہت سے ڈگمگاتے ہوئے لوگ بچ گئے۔اور اسلام پر ثابت قدم رہے. (رضی اللہ عنہ) ( الاستیعاب ، 2 / 230 اسد الغابہ ، 2 / 557 ، سیرت حلبیہ ، 2 / 267 ، 268ملخصاً)
غزوہ حنین میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے چھ ہزار قیدیوں کو رہا کردیا گیا اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان کو پہننے کے لئے لباس عنایت فرمائے۔
حاتم طائی کی بیٹی جب گرفتار ہوکر آئی تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے عزت سے مسجد کے ایک گوشے میں اس کوٹھہرایا اور فرمایا کہ کوئی تمہارے شہر کا آجائے تو اس کے ساتھ تم کو رخصت کردوں گا۔ چنانچہ چند روز کے بعد سفر کے سامان کے ساتھ انہیں ان کے بھائی عدی بن حاتم کے پاس اس کے معتمد شخص کے ساتھ شام بھجوادیا۔( اسدالغابۃ ج۳؍ص۵۰۶؍ عدی بن حاتم،مطبوعہ دارالفکر))
غیر مسلم کے جنازے کے ساتھ آپ کی مدارات:
ایک مرتبہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سے ایک یہودی کاجنازہ گذرا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے ہوئے تھے جب جنازہ پر نظر پڑی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو گئے، صحابہٴ کرام نے عرض کیا یا رسول اللہ !یہ تو ایک یہودی اور غیر مسلم کا جنازہ تھا،اس کے احترام میں کھڑے ہونے کی کیا ضرورت تھی ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا أَلَیْسَتْ نَفْسًا (بخاری، حدیث نمبر : 1312)
” کیا وہ انسان نہیں ہے “ یہاں اگر چہ کسی مسلمان کا جنازہ نہیں تھا؛ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم احترام انسانیت کے پیغام کو عام کرنے کے لیے اس کے احترام اور اس کے پسماندگان کی دل دہی کے لیے جنازہ کو دیکھ کر کھڑے ہو گئے ، آں حضرت کے اس اسوہ سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ کفر وشرک کے باوجود آدمیت کے اوصاف اور ان کا احترام باقی رہتا ہے.
غلاموں پر رسول اللہ کی رحمت و شفقت:
آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے غلاموں کے ساتھ نیک برتاؤ کی تاکید کی ہے، خواہ وہ کافر ہوں یا مسلمان ہو ، حضرت ابوذرفرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: جن کو اللہ تعالی نے تمہارا دست نگر اور ماتحت بنایا ہے، وہ تمہارے بھائی ہیں یعنی لونڈی، غلام اور خدمت گار، اس کو وہ اپنے کھانے میں سے کھلائے، اپنے کپڑے میں سے پہنائے، اس کو ایسے کام کی تکلیف نہ دے جس سے وہ تھک جائے، اگر اسے ایسے کام کی تکلیف دے جس سے وہ تھک جائے تو پھر خود اس کی امداد کرے یعنی ہاتھ بٹائے ۔ (صحیح بخاری کتاب الوصایا)
ایک شخص نے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں غلام کا قصور کتنی مرتبہ معاف کروں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے، کچھ جواب نہ دیا، اس نے دوبارہ یہی پوچھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پھر خاموش رہے تیسری مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر روز ستر بار معاف کرو (ترمذی :۲/۱۶)
حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جو الفاظ آخری وقت تک زبانِ مبارک پر جاری تھے اور جس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم خالقِ حقیقی سے جاملے، وہ یہ الفاظ تھے: الصلوٰةَ، الصلوٰةَ، اِتَّقُوْاللہ فِیْمَا مَلَکَتْ أیْمَانُکُمْ ”نماز کا خیال رکھو، اپنے زیر دست غلاموں کے بارے میں اللہ سے ڈرو!“(سنن ابی داود/الأدب 133 (5156)
سلام اس پر کہ جس نے مشکیں کھول دیں اسیروں کی