ماہنامہ الفاران
ماہِ ربیع الثانی - ۱۴۴۵
سیرت رسولؐ کی ممتاز خصوصیات
محترم جناب ڈاکٹر سراج الدین ندویؔ صاحب، چیئرمین ملت اکیڈمی۔سرکڑہ بجنور(یوپی)
ماہ ربیع الاول وہ مبار مہینہ ہے جس میں آپ ؐ کی بعثت بھی ہوئی اور رحلت بھی۔ برصغیر میں اس مہینہ کو اس لحاظ سے خاص اہمیت حاصل ہے۔ آپ ؐ کی محبت میں لوگ چراغاں کرتے ہیں، جلسے کرتے ہیں، جلوس نکالتے ہیں، محفل نعت سجاتے ہیں، لیکن اس ماہ میں ہماری اولین ترجیح یہ ہونا چاہئے کہ ہم آپ کی سیرت کی روشنی میں اپناجائزہ لیں اوردیکھیں کہ ہماری زندگی آپ ؐ کے پیغام و عمل سے کس قدر ہم آہنگ ہے۔ اللہ کے تمام انبیاء و رسل بے شمار خوبیوں کے مالک تھے۔ ذیل میں سیرت رسول کے بعض پہلوئوں کا مختصراً ذکر کیا جاتا ہے تاکہ ہم سب ہدایت حاصل کرسکیں۔
سیرت رسول ؐ کا سب سے نمایاں پہلو یہ ہے کہ رسول اکرم ﷺ کے سامنے ایک صاف اور شفاف ویژن تھا، وہی ویژن آپ نے اپنی امت کو دیا۔ دین اسلام ایک ویژنری دین ہے۔ اللہ کے نبی ﷺ نے اپنے مخاطبین سے مکہ کے ابتدائی دور میں کئی مرتبہ یہ بات ارشاد فرمائی تھی کہ میں تمہیں ایک کلمہ کی طرف بلاتا ہوں، اگر تم اسے قبول کرلو تو عرب کے تم مالک ہوجائوگے اور عجم تمہارا باج گزار ہوجائے گا۔ یہی بات آپ نے اس وقت فرمائی جب قریش کے سردار اور مکہ کے معززین حضرت ابوطالب کے پاس آپ کی شکایت لے کر پہنچے۔ جب مکہ میں آپؐ کو اور صحابہؓ کو طرح طرح سے اذیتیں دی جارہی تھیں، دور دور تک آپ کی دعوت کے غلبہ و فتح کے امکانات نظر نہ آتے تھے،تب بھی آپ ؐ لوگوں کو یہی بشارت سناتے تھے، غور کیجیے جب آپ ؐ اپنے رفیق حضرت ابوبکر صدیقؓ کے ساتھ ہجرت کررہے تھے، کتنی بے بسی کا عالم تھا، آپ ؐ اپنا پیارا وطن چھوڑ رہے تھے، آپ ؐ نے اپنے سفر کو راز رکھاتھا، اس وقت بھی آپ کو اپنی فتح اور پیغام کے غلبہ کا ایک سو ایک فیصد یقین تھا۔ سراقہ بن جعثم ؓ سے کہے گئے الفاظ اس کا ثبوت ہیں۔ سراقہ ؓ آپ کو سو سرخ اونٹوں کے لالچ میں پکڑنے گئے تھے لیکن حضور ﷺ کا معجزہ دیکھنے کے بعد انھیں یقین ہوگیا کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔ سراقہ ؓنے جان کی امان چاہی تو حضور اکرم ﷺ نے فرمایا :’’سراقہ ہم تمہارے ہاتھوں میں کسریٰ کے کنگن دیکھتے ہیں۔ ‘‘ایک بے سرو سامان انسان، جو خود اپنا گھر چھوڑ کر دوسرے شہر جارہا ہو،جس کو اس کے قبیلہ اور بستی نے تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہو اور بہت کم لوگوں نے اس کی تصدیق کی ہو،لیکن اسے اپنے مشن کی کامیابی کا اتنا یقین تھا کہ وہ اپنے سراقہ کو کسریٰ کے کنگن تحفہ میں دے رہا ہے۔ یعنی وہ کہہ رہا ہے اے سراقہ !تم اسلام قبول کروگے، اسلام غالب ہوجائے گا، اس زمانہ کی سپر پاور ایران کی سلطنت بھی اسلام کے زیر نگیں ہوگی، وہاں کے بادشاہ کسریٰ کے کنگن اسلامی بیت المال میں آئیں گے، اے سراقہ تم اس وقت تک زندہ رہوگے، یہ فتح اپنی آنکھوں سے دیکھوگے اور کسریٰ کے کنگن تمہیں پہنائے جائیں گے۔ کسی بھی تحریک کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ اس کے کارکنان کے اندر اس کے غلبہ کا پختہ یقین ہو، حالات کیسے بھی ہوں، آزمائشیں بظاہر کتنی ہی سخت ہوں، لیکن میر کارواں اور اس کے ہمراہیوں کو منزل پر پہنچنے کا یقین اپنی آنکھوں سے نظر آرہا ہو۔قرآن کریم نے آپ کے اس ویژن کو دعوت الی الحق، دعوت الی الخیر دعوت الی المعروف، اظہار دین اوربشارت حق کے نام سے موسوم کیا ہے۔
آپؐ کی دوسری امتیازی خصوصیت یہ تھی کہ آپ ؐ جو فرماتے، جس بات کا حکم دیتے اس پر خود عمل کرکے دکھاتے بلکہ سب سے زیادہ آپ اس پر عمل کرتے۔ آپ ؐ کی دعوت تھی کہ ایک اللہ کی حاکمیت تسلیم کی جائے، اسی کے سامنے سر نیاز جھکایا جائے، اسی کی عبادت کی جائے، چنانچہ ان باتوں پر آپ ؐ سب سے زیادہ عمل کرتے تھے، آپ کی پوری زندگی میں ایک لمحہ بھی ایسا نہیں آیاجب آپ سے شرک کا کوئی ادنیٰ سا بھی فعل سرزد ہوا ہو، حالانکہ آپ ؐ نے مشرکانہ ماحول میں آنکھیں کھولی تھیں، کعبہ میں سینکڑوں بت موجود تھے۔ کبھی آپ نے کسی غیراللہ کی عبادت نہیں کی۔ آپؐ کی عبادت کا حال یہ تھا کہ نماز پڑھتے ہوئے آپ کے پائوں متورم ہوجاتے، قرآن کی تلاوت کرتے ہوئے آواز رندھ جاتی اور ریش مبارک آنسوئوں سے تر ہوجاتی۔ جب آپؐ نے اپنے پیرو کاروں سے روزوں کا مطالبہ کیا تو آپ خود ان سے زیادہ روزے رکھتے تھے، خدق کھودتے وقت اگر صحابہ ؓ کے پیٹ پر ایک پتھر تھا تو آپ کے پیٹ پر دو پتھر بندھے تھے۔ اسی طرح آپ ؐ نے جب راہ خدا میں انفاق کا حکم دیا تو سب سے زیادہ آپ ؐ نے انفاق کیا، آپ کے گھر میں کسی قسم کی دولت جمع نہ تھی۔ آپ ؐ نے جب حکم دیا کہ اللہ کا دین لوگوں تک پہنچایا جائے تو آپ ؐ نے اس میں اس قدر محنت کی کہ اللہ تعالیٰ نے کہا :’’ کیا تم اپنے آپ کو گھلا ڈالوگے، اگر یہ ایمان نہ لائے ‘‘(الشعراء)جب آپ ؐ نے انسانوں کے ساتھ شفقت و محبت کی تعلیم دی تو خود قرآن نے گواہی دی کہ :’’بیشک تمہارے پاس تم میں سے وہ عظیم رسول تشریف لے آئے جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا بہت بھاری گزرتا ہے، وہ تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے، مسلمانوں پر بہت مہربان، رحمت فرمانے والے ہیں۔ ‘‘ (توبہ 128-)جب آپ ؐ نے راہ خدا میں جان کی بازی لگانے کا حکم دیا تو خود سب سے پہلے تلوار اٹھائی۔ کوئی بھی تحریک اپنے امیر یا لیڈر کے اس کردار کے بغیر کیسے کامیاب ہوسکتی ہے۔ اس شخص کی بات کا کیسے اثر ہوسکتا ہے جو لوگوں کو بھلائی کا حکم دے اور خود اس پر عمل نہ کرے۔ قرآن مجید نے اس متنبہ کیا :’’ اے ایمان والو! تم وہ بات کیوں کہتے ہو جس پر خود عمل نہیں کرتے۔ ‘‘(الصف۔ 1)
نظریہ کی شفافیت، اس پر کامل یقین اور ہر لفظ پر عمل کے ساتھ ساتھ آپ کی ایک امتیازی خوبی یہ تھی کہ آپ اپنی منزل پر پہنچنے کے لیے منصوبہ بندی کرتے۔ نشانات منزل طے کرتے، یہ نشانات کبھی مختصر مدتی (SHORT TERM)کبھی طویل مدتی (LONG TERM) ہوتے۔ صلح حدیبیہ اور بادشاہوں کے نام خطوط کو آپ کے طویل مدتی منصوبہ کا ہی حصہ کہا جاسکتا ہے جبکہ بہت سے سرایا اور وفود کی ترسیل مختصر مدتی منصوبے تھے۔ کیا کوئی تحریک بغیر کسی منصوبہ کے کامیاب ہوسکتی ہے ؟کیا ہماری تحریکوں کے قائدین کو یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کو 23سال میں کیوں نازل کیا ؟اگر ایک بار میں یہ کتاب نبی ﷺ کے ہاتھوں میں پکڑادی جاتی تو کیا مثبت نتائج برآمد ہوتے ؟ہمارے ملک کے موجودہ حالات اس امر کے زیادہ متقاضی ہیں کہ یہاں اسلام کے غلبہ اور مسلمانوں کے عروج کے لیے منظم اور منصوبہ بند کام کیا جائے۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اس جانب ہماری بیشتر تحریکیں متوجہ ہی نہیں ہیں، وہ کسی منصوبہ بندی کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتیں، گزشتہ سو سال سے ایک ہی ڈھرے پر چل رہی ہیں، ایک کتاب ہے جو قصص و واقعات پر مبنی ہے اسی کو منبع رشد وہدایت سمجھ لیا گیاہے، کام کرنے کا ایک طریقہ ہے جو ان کے بڑوں نے آزادی سے پہلے طے کیا تھا وہی آج بھی اپنائے ہوئے ہیں، اپنے بڑوں سے سر مو اختلاف کو ضیاع ایمان کا سبب سمجھ بیٹھے ہیں۔ حالانکہ وہ اپنی ناکامی کو اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ نبی اکرم ﷺ نے مکہ میں دعوت و تبلیغ کے نکات بھی الگ طے کیے تھے اور طریقہ کار بھی، مدینہ پہنچ کر آپ نے وقت اور حالات کے مطابق اپنی حکمت عملی میں تبدیلیاں بھی فرمائیں۔ مکہ میں توحید و آخرت اور رسالت پر زور دیا گیا، مکہ میں مخالفین پر ہاتھ نہیں اٹھایا گیا، جب کہ مدینہ میں قبائل سے معاہدے، ریاست کی تشکیل، اس کے خارجہ اصول، ریاست کی معاشی پالیسی اور جنگی حکمت عملی وغیرہ طے کی گئی۔ مدینہ میں دشمنان اسلام کو سبق سکھانے اور آگے بڑھ کر ان کو روکنے کی منصوبہ بندی کی گئی۔
یہ بھی آپ ؐ کی نمایاں خوبی تھی کہ آپ ؐ کی زندگی ہر مرحلہ میں شفافیت حامل رہی۔ آپ ؐ کی حیات مبارکہ ایک کھلی کتاب تھی۔ آپ ؐ چونکہ اپنی امت کے لیے نمونہ تھے اس لیے آپ کی زندگی کا کوئی گوشہ نہاں نہ تھا۔ آپ کس طرح اللہ کی عبادت کرتے ہیں ؟آپ کس طرح پاکی اور صفائی کا اہتمام کرتے ہیں ؟آپ کس طرح بات کرتے ہیں ؟کس طرح کھاتے ہیں اور کیا کھاتے ہیں ؟یہاں تک ازواج مطہرات کے ساتھ کس طرح رہتے ہیں ؟آپ کے نزدیک صلح کے کیا پیمانے ہیں ؟اپنے اصحاب سے کس قسم کے روابط ہیں ؟ان سارے سوالوں کے جواب آپ کے صحابہ کو معلوم تھے۔ معاملات میں شفافیت لوگوں میں محبت اور اعتماد پیدا کرتی ہے اور عدم شفافیت سے بداعتمادی اور بدگمانیاں پیدا ہوتی ہیں۔ ایک بار آپ ؐ اپنی ایک اہلیہ کے ساتھ جارہے تھے۔ اس وقت ذرا اندھیرا تھا۔ دور سے ایک صحابی نے آپ ؐ کو دیکھا،آپ ؐ رکے، انھیں پاس بلایا اور بتایا کہ میرے ساتھ میری فلاں زوجہ ہیں۔ صحابی ؓ نے عرض کیا :’’اللہ کے رسول !اس وضاحت کی کیا ضرورت تھی ؟‘‘ آپ نے فرمایا :شیطان انسان کی رگوں مین خون بن کر دوڑتا ہے، وہ بدگمانی پیدا کرسکتا ہے۔ ‘‘
آپ ؐ کی ایک امتیازی خصوصیت مشاورت ہے۔ اہم امور میں مشورے کا حکم تو قرآن میں بھی دیا گیا ہے(آل عمران۔ 159) قرآن نے آپ کی اس صفت کو بھی بیان کیا ہے کہ آپ ؐ کوئی کام بغیر مشورے کے نہیں کرتے۔ فرمایا گیا :’’ ان کے کام آپس کے مشوروں سے طے پاتے ہیں ‘‘(شوریٰ۔ 38) آپ اپنے صحابہ سے تو مشورے کرتے ہی تھے لیکن اپنی ازواج سے بھی مشورے کرتے تھے۔ اپنی رائے کے خلاف بھی مشورے نہ صرف سنتے بلکہ مشوروں کے احترام میں عمل بھی کرتے، غزوہ احد میں آپ ؐ کی رائے مدینہ میں رہ کر دفاع کرنے کی تھی، لیکن صحابہ کا مشورہ تھا کہ باہر جاکر جنگ کی جائے، چنانچہ آپ ؐ نے اپنی رائے کے برعکس صحابہ اکرام ؓ کے مشورے پر عمل کیا۔غزوہ خندق میں آپ ؐ نے حضرت سلمان فارسی ؓ کے مشورے پر خندق کھودنے کا حکم دیا۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر آپ ؐ نے ام المومنین حضرت ام سلمہ ؓ کے مشورے پر اپنا سر سب سے پہلے مونڈا۔جسے ہم حلق کہتے ہیں۔ آج کل ملی اداروں کے ذمہ داران اور مسلمانوں کی جماعت کے امراء (ایک دو کو چھوڑ کر)خود کو ڈکٹیٹر سمجھتے ہیں، مشورہ کرنے کو کسر شان سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ سو سال کی تاریخ کا اگر مطالعہ کیا جائے تو اٹھانوے فیصد ادارے اور تحریکیں زوال کا شکار ہیں۔ اگر وہ اپنے رفقاء کو باہم مشوروں میں شریک رکھتے تو عندللہ بھی تنہا مواخذے سے بچ جاتے اور کامیابی بھی حاصل کرتے۔
آپ ؐ کا ایک نمایا ں وصف یہ ہے کہ آپؐنے ہر شخص کی صلاحیت اور نفسیات کو سمجھا اور پھر آپ ؐنے اس کی صلاحیتوں کو نشو نما دی اور ان کو صحیح رخ بھی عطا کیا۔چنانچہ آپؐ نے بہترین مبلغ اور داعی بھی پیدا کیے، بہترین سپہ سالاراور کمانڈر بھی،بہترین سفیر(Ambassador) اور بہترین ترجمان بھی پیدا کیے۔ آپ ؐنے کاتبین کی ایک پوری ٹیم تیار کی، آپ نے بہترین خطیب اور مقرر پیدا کیے، آپ ؐنے بہترین حکمراں اور ماہرین سیاست پیدا کیے۔ آپؐ نے نہ صرف تجارت کے اصول سکھائے بلکہ بہت کامیاب تاجر بھی تیار کیے۔ آپؐ نے سماج کے ہر طبقہ کو بھرپور نمائندگی دی، بچوں کی معصومیت سے بھی تحریک کو تقویت ملی، آپ ؐنے نو عمروں اور جوانوں سے بھی کام لیا اور بزرگوں کی حکمت، دانش مندی اور تجربہ کاری سے بھی تحریک اسلامی کو مستفید کیا۔اسی طرح اگر آپؐ نے اغنیاء و اثریاء اور تجار و صنعت کاروں کی ہمت افزائی تو آپؐ نے مزدوروں کو بھی اہمیت دی
سیرت رسول ؐ کا سب سے نمایاں پہلو یہ ہے کہ رسول اکرم ﷺ کے سامنے ایک صاف اور شفاف ویژن تھا، وہی ویژن آپ نے اپنی امت کو دیا۔ دین اسلام ایک ویژنری دین ہے۔ اللہ کے نبی ﷺ نے اپنے مخاطبین سے مکہ کے ابتدائی دور میں کئی مرتبہ یہ بات ارشاد فرمائی تھی کہ میں تمہیں ایک کلمہ کی طرف بلاتا ہوں، اگر تم اسے قبول کرلو تو عرب کے تم مالک ہوجائوگے اور عجم تمہارا باج گزار ہوجائے گا۔ یہی بات آپ نے اس وقت فرمائی جب قریش کے سردار اور مکہ کے معززین حضرت ابوطالب کے پاس آپ کی شکایت لے کر پہنچے۔ جب مکہ میں آپؐ کو اور صحابہؓ کو طرح طرح سے اذیتیں دی جارہی تھیں، دور دور تک آپ کی دعوت کے غلبہ و فتح کے امکانات نظر نہ آتے تھے،تب بھی آپ ؐ لوگوں کو یہی بشارت سناتے تھے، غور کیجیے جب آپ ؐ اپنے رفیق حضرت ابوبکر صدیقؓ کے ساتھ ہجرت کررہے تھے، کتنی بے بسی کا عالم تھا، آپ ؐ اپنا پیارا وطن چھوڑ رہے تھے، آپ ؐ نے اپنے سفر کو راز رکھاتھا، اس وقت بھی آپ کو اپنی فتح اور پیغام کے غلبہ کا ایک سو ایک فیصد یقین تھا۔ سراقہ بن جعثم ؓ سے کہے گئے الفاظ اس کا ثبوت ہیں۔ سراقہ ؓ آپ کو سو سرخ اونٹوں کے لالچ میں پکڑنے گئے تھے لیکن حضور ﷺ کا معجزہ دیکھنے کے بعد انھیں یقین ہوگیا کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔ سراقہ ؓنے جان کی امان چاہی تو حضور اکرم ﷺ نے فرمایا :’’سراقہ ہم تمہارے ہاتھوں میں کسریٰ کے کنگن دیکھتے ہیں۔ ‘‘ایک بے سرو سامان انسان، جو خود اپنا گھر چھوڑ کر دوسرے شہر جارہا ہو،جس کو اس کے قبیلہ اور بستی نے تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہو اور بہت کم لوگوں نے اس کی تصدیق کی ہو،لیکن اسے اپنے مشن کی کامیابی کا اتنا یقین تھا کہ وہ اپنے سراقہ کو کسریٰ کے کنگن تحفہ میں دے رہا ہے۔ یعنی وہ کہہ رہا ہے اے سراقہ !تم اسلام قبول کروگے، اسلام غالب ہوجائے گا، اس زمانہ کی سپر پاور ایران کی سلطنت بھی اسلام کے زیر نگیں ہوگی، وہاں کے بادشاہ کسریٰ کے کنگن اسلامی بیت المال میں آئیں گے، اے سراقہ تم اس وقت تک زندہ رہوگے، یہ فتح اپنی آنکھوں سے دیکھوگے اور کسریٰ کے کنگن تمہیں پہنائے جائیں گے۔ کسی بھی تحریک کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ اس کے کارکنان کے اندر اس کے غلبہ کا پختہ یقین ہو، حالات کیسے بھی ہوں، آزمائشیں بظاہر کتنی ہی سخت ہوں، لیکن میر کارواں اور اس کے ہمراہیوں کو منزل پر پہنچنے کا یقین اپنی آنکھوں سے نظر آرہا ہو۔قرآن کریم نے آپ کے اس ویژن کو دعوت الی الحق، دعوت الی الخیر دعوت الی المعروف، اظہار دین اوربشارت حق کے نام سے موسوم کیا ہے۔
آپؐ کی دوسری امتیازی خصوصیت یہ تھی کہ آپ ؐ جو فرماتے، جس بات کا حکم دیتے اس پر خود عمل کرکے دکھاتے بلکہ سب سے زیادہ آپ اس پر عمل کرتے۔ آپ ؐ کی دعوت تھی کہ ایک اللہ کی حاکمیت تسلیم کی جائے، اسی کے سامنے سر نیاز جھکایا جائے، اسی کی عبادت کی جائے، چنانچہ ان باتوں پر آپ ؐ سب سے زیادہ عمل کرتے تھے، آپ کی پوری زندگی میں ایک لمحہ بھی ایسا نہیں آیاجب آپ سے شرک کا کوئی ادنیٰ سا بھی فعل سرزد ہوا ہو، حالانکہ آپ ؐ نے مشرکانہ ماحول میں آنکھیں کھولی تھیں، کعبہ میں سینکڑوں بت موجود تھے۔ کبھی آپ نے کسی غیراللہ کی عبادت نہیں کی۔ آپؐ کی عبادت کا حال یہ تھا کہ نماز پڑھتے ہوئے آپ کے پائوں متورم ہوجاتے، قرآن کی تلاوت کرتے ہوئے آواز رندھ جاتی اور ریش مبارک آنسوئوں سے تر ہوجاتی۔ جب آپؐ نے اپنے پیرو کاروں سے روزوں کا مطالبہ کیا تو آپ خود ان سے زیادہ روزے رکھتے تھے، خدق کھودتے وقت اگر صحابہ ؓ کے پیٹ پر ایک پتھر تھا تو آپ کے پیٹ پر دو پتھر بندھے تھے۔ اسی طرح آپ ؐ نے جب راہ خدا میں انفاق کا حکم دیا تو سب سے زیادہ آپ ؐ نے انفاق کیا، آپ کے گھر میں کسی قسم کی دولت جمع نہ تھی۔ آپ ؐ نے جب حکم دیا کہ اللہ کا دین لوگوں تک پہنچایا جائے تو آپ ؐ نے اس میں اس قدر محنت کی کہ اللہ تعالیٰ نے کہا :’’ کیا تم اپنے آپ کو گھلا ڈالوگے، اگر یہ ایمان نہ لائے ‘‘(الشعراء)جب آپ ؐ نے انسانوں کے ساتھ شفقت و محبت کی تعلیم دی تو خود قرآن نے گواہی دی کہ :’’بیشک تمہارے پاس تم میں سے وہ عظیم رسول تشریف لے آئے جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا بہت بھاری گزرتا ہے، وہ تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے، مسلمانوں پر بہت مہربان، رحمت فرمانے والے ہیں۔ ‘‘ (توبہ 128-)جب آپ ؐ نے راہ خدا میں جان کی بازی لگانے کا حکم دیا تو خود سب سے پہلے تلوار اٹھائی۔ کوئی بھی تحریک اپنے امیر یا لیڈر کے اس کردار کے بغیر کیسے کامیاب ہوسکتی ہے۔ اس شخص کی بات کا کیسے اثر ہوسکتا ہے جو لوگوں کو بھلائی کا حکم دے اور خود اس پر عمل نہ کرے۔ قرآن مجید نے اس متنبہ کیا :’’ اے ایمان والو! تم وہ بات کیوں کہتے ہو جس پر خود عمل نہیں کرتے۔ ‘‘(الصف۔ 1)
نظریہ کی شفافیت، اس پر کامل یقین اور ہر لفظ پر عمل کے ساتھ ساتھ آپ کی ایک امتیازی خوبی یہ تھی کہ آپ اپنی منزل پر پہنچنے کے لیے منصوبہ بندی کرتے۔ نشانات منزل طے کرتے، یہ نشانات کبھی مختصر مدتی (SHORT TERM)کبھی طویل مدتی (LONG TERM) ہوتے۔ صلح حدیبیہ اور بادشاہوں کے نام خطوط کو آپ کے طویل مدتی منصوبہ کا ہی حصہ کہا جاسکتا ہے جبکہ بہت سے سرایا اور وفود کی ترسیل مختصر مدتی منصوبے تھے۔ کیا کوئی تحریک بغیر کسی منصوبہ کے کامیاب ہوسکتی ہے ؟کیا ہماری تحریکوں کے قائدین کو یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کو 23سال میں کیوں نازل کیا ؟اگر ایک بار میں یہ کتاب نبی ﷺ کے ہاتھوں میں پکڑادی جاتی تو کیا مثبت نتائج برآمد ہوتے ؟ہمارے ملک کے موجودہ حالات اس امر کے زیادہ متقاضی ہیں کہ یہاں اسلام کے غلبہ اور مسلمانوں کے عروج کے لیے منظم اور منصوبہ بند کام کیا جائے۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اس جانب ہماری بیشتر تحریکیں متوجہ ہی نہیں ہیں، وہ کسی منصوبہ بندی کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتیں، گزشتہ سو سال سے ایک ہی ڈھرے پر چل رہی ہیں، ایک کتاب ہے جو قصص و واقعات پر مبنی ہے اسی کو منبع رشد وہدایت سمجھ لیا گیاہے، کام کرنے کا ایک طریقہ ہے جو ان کے بڑوں نے آزادی سے پہلے طے کیا تھا وہی آج بھی اپنائے ہوئے ہیں، اپنے بڑوں سے سر مو اختلاف کو ضیاع ایمان کا سبب سمجھ بیٹھے ہیں۔ حالانکہ وہ اپنی ناکامی کو اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ نبی اکرم ﷺ نے مکہ میں دعوت و تبلیغ کے نکات بھی الگ طے کیے تھے اور طریقہ کار بھی، مدینہ پہنچ کر آپ نے وقت اور حالات کے مطابق اپنی حکمت عملی میں تبدیلیاں بھی فرمائیں۔ مکہ میں توحید و آخرت اور رسالت پر زور دیا گیا، مکہ میں مخالفین پر ہاتھ نہیں اٹھایا گیا، جب کہ مدینہ میں قبائل سے معاہدے، ریاست کی تشکیل، اس کے خارجہ اصول، ریاست کی معاشی پالیسی اور جنگی حکمت عملی وغیرہ طے کی گئی۔ مدینہ میں دشمنان اسلام کو سبق سکھانے اور آگے بڑھ کر ان کو روکنے کی منصوبہ بندی کی گئی۔
یہ بھی آپ ؐ کی نمایاں خوبی تھی کہ آپ ؐ کی زندگی ہر مرحلہ میں شفافیت حامل رہی۔ آپ ؐ کی حیات مبارکہ ایک کھلی کتاب تھی۔ آپ ؐ چونکہ اپنی امت کے لیے نمونہ تھے اس لیے آپ کی زندگی کا کوئی گوشہ نہاں نہ تھا۔ آپ کس طرح اللہ کی عبادت کرتے ہیں ؟آپ کس طرح پاکی اور صفائی کا اہتمام کرتے ہیں ؟آپ کس طرح بات کرتے ہیں ؟کس طرح کھاتے ہیں اور کیا کھاتے ہیں ؟یہاں تک ازواج مطہرات کے ساتھ کس طرح رہتے ہیں ؟آپ کے نزدیک صلح کے کیا پیمانے ہیں ؟اپنے اصحاب سے کس قسم کے روابط ہیں ؟ان سارے سوالوں کے جواب آپ کے صحابہ کو معلوم تھے۔ معاملات میں شفافیت لوگوں میں محبت اور اعتماد پیدا کرتی ہے اور عدم شفافیت سے بداعتمادی اور بدگمانیاں پیدا ہوتی ہیں۔ ایک بار آپ ؐ اپنی ایک اہلیہ کے ساتھ جارہے تھے۔ اس وقت ذرا اندھیرا تھا۔ دور سے ایک صحابی نے آپ ؐ کو دیکھا،آپ ؐ رکے، انھیں پاس بلایا اور بتایا کہ میرے ساتھ میری فلاں زوجہ ہیں۔ صحابی ؓ نے عرض کیا :’’اللہ کے رسول !اس وضاحت کی کیا ضرورت تھی ؟‘‘ آپ نے فرمایا :شیطان انسان کی رگوں مین خون بن کر دوڑتا ہے، وہ بدگمانی پیدا کرسکتا ہے۔ ‘‘
آپ ؐ کی ایک امتیازی خصوصیت مشاورت ہے۔ اہم امور میں مشورے کا حکم تو قرآن میں بھی دیا گیا ہے(آل عمران۔ 159) قرآن نے آپ کی اس صفت کو بھی بیان کیا ہے کہ آپ ؐ کوئی کام بغیر مشورے کے نہیں کرتے۔ فرمایا گیا :’’ ان کے کام آپس کے مشوروں سے طے پاتے ہیں ‘‘(شوریٰ۔ 38) آپ اپنے صحابہ سے تو مشورے کرتے ہی تھے لیکن اپنی ازواج سے بھی مشورے کرتے تھے۔ اپنی رائے کے خلاف بھی مشورے نہ صرف سنتے بلکہ مشوروں کے احترام میں عمل بھی کرتے، غزوہ احد میں آپ ؐ کی رائے مدینہ میں رہ کر دفاع کرنے کی تھی، لیکن صحابہ کا مشورہ تھا کہ باہر جاکر جنگ کی جائے، چنانچہ آپ ؐ نے اپنی رائے کے برعکس صحابہ اکرام ؓ کے مشورے پر عمل کیا۔غزوہ خندق میں آپ ؐ نے حضرت سلمان فارسی ؓ کے مشورے پر خندق کھودنے کا حکم دیا۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر آپ ؐ نے ام المومنین حضرت ام سلمہ ؓ کے مشورے پر اپنا سر سب سے پہلے مونڈا۔جسے ہم حلق کہتے ہیں۔ آج کل ملی اداروں کے ذمہ داران اور مسلمانوں کی جماعت کے امراء (ایک دو کو چھوڑ کر)خود کو ڈکٹیٹر سمجھتے ہیں، مشورہ کرنے کو کسر شان سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ سو سال کی تاریخ کا اگر مطالعہ کیا جائے تو اٹھانوے فیصد ادارے اور تحریکیں زوال کا شکار ہیں۔ اگر وہ اپنے رفقاء کو باہم مشوروں میں شریک رکھتے تو عندللہ بھی تنہا مواخذے سے بچ جاتے اور کامیابی بھی حاصل کرتے۔
آپ ؐ کا ایک نمایا ں وصف یہ ہے کہ آپؐنے ہر شخص کی صلاحیت اور نفسیات کو سمجھا اور پھر آپ ؐنے اس کی صلاحیتوں کو نشو نما دی اور ان کو صحیح رخ بھی عطا کیا۔چنانچہ آپؐ نے بہترین مبلغ اور داعی بھی پیدا کیے، بہترین سپہ سالاراور کمانڈر بھی،بہترین سفیر(Ambassador) اور بہترین ترجمان بھی پیدا کیے۔ آپ ؐنے کاتبین کی ایک پوری ٹیم تیار کی، آپ نے بہترین خطیب اور مقرر پیدا کیے، آپ ؐنے بہترین حکمراں اور ماہرین سیاست پیدا کیے۔ آپؐ نے نہ صرف تجارت کے اصول سکھائے بلکہ بہت کامیاب تاجر بھی تیار کیے۔ آپؐ نے سماج کے ہر طبقہ کو بھرپور نمائندگی دی، بچوں کی معصومیت سے بھی تحریک کو تقویت ملی، آپ ؐنے نو عمروں اور جوانوں سے بھی کام لیا اور بزرگوں کی حکمت، دانش مندی اور تجربہ کاری سے بھی تحریک اسلامی کو مستفید کیا۔اسی طرح اگر آپؐ نے اغنیاء و اثریاء اور تجار و صنعت کاروں کی ہمت افزائی تو آپؐ نے مزدوروں کو بھی اہمیت دی