ماہنامہ الفاران
ماہِ ربیع الثانی - ۱۴۴۵
آخری نبی کے اخلاق وکردار
جناب حضرت مولانا ہمایوں اقبال صاحب ندوی، نائب صدر، جمعیت علماء ارریہ و جنرل سکریٹری، تنظیم أبناء ندوہ پورنیہ کمشنری
عنوان کے مطابق گفتگو کرنے سے پہلے یہ معلوم کرنا ضروری ہے کہ اخلاق کسے کہتے ہیں؟ یہ خالص عربی لفظ ہے،اس کی واحد "خلق" ہے،اس کے معانی عادات واطوار، ملنساری،کشادہ پیشانی، اور آو بھگت کرنے کے ہیں۔علم الاخلاق باضابطہ ایک فن کی حیثیت رکھتا ہے،اسمیں اخلاقیات سے متعلق بحث ہوتی ہےاورایک انسان کی اخلاقی تربیت کی جاتی ہے، ہرمذہب میں کچھ نہ کچھ حد تک یہ تعلیم موجود ہے،مگر اخلاقیات کی تکمیل کا سہرا پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سربندھتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا مقصد اخلاقی تعلیم کا مکمل احاطہ اور اس کی تکمیل بھی ہے،حدیث شریف میں واضح طور پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمادیا کہ؛میں تواسی لئےبھیجاگیاکہ اخلاق حسنہ کی تکمیل کروں(مسند احمد )
اسی لئے شریعت اسلامیہ میں اخلاق کا دائرہ بہت وسیع ہے،ہر انسان جو اس دنیا میں آیا ہے اس کی ولادت سے وفات تک جو بھی روابط وتعلقات ہیں انہیں بہتر ڈھنگ سے نبھانے کا نام اخلاق ہے،اسلام میں جہاں والدین، اہل وعیال، عزیز ورشتہ دار، دوست واحباب، کے حقوق کو اداکرنے کا حکم ہے، وہیں انسانی بنیادوں پرجو بی رشتے ہوسکتے ہیں،ان کے پاس ولحاظ کی بھی بڑی تاکید آئی ہے،ایک انسان کا ضرورت کی بنیاد پر جانوروں سے بھی رابطہ ہوتا ہے، چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حیوانات کے بھی حقوق بیان فرمائے ہیں۔
آج لوگوں نے اخلاق کو ایک دائرہ میں محدود کررکھا ہے،صرف اپنے دوستوں اور رشتہ داروں سے ہنسی خوشی ملنے اور تعلقات نبھانے کو اخلاق سمجھتے ہیں،یہ شریعت کے مزاج کے خلاف اور قرآن وحدیث سے دوری اور لاعلمی کا نتیجہ ہے۔اللہ رب العزت نے اپنی کتاب قرآن شریف میں جن جن باتوں کا حکم فرمایاہے، آپ صلی اللہ علیہ نےان تمام چیزوں کواپنی عملی زندگی کا حصہ بناکر پیش فرمادیاہے، کچھ لوگ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے پاس آئے اور سوال کیا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق بیان کیجئے؛انہوں نے پوچھا کہ تم قرآن نہیں پڑھتے ہو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق ہمہ تن قرآن تھا، (ابوداؤد )
قرانی تمام اخلاقی تعلیم کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی عملی زندگی میں نچوڑ کر اخلاقیات کو پائہ تکمیل تک پہونچادیا ہے،اس بات کی گواہی خود کتاب الہی نے دی ہے، ارشاد خداوندی ہے؛اے محمد! تمہارےاخلاق اعلی معیار پرہیں(سورہ قلم )
اخلاق کا اعلی معیار کیا ہے؟
قرآن وحدیث کے مطالعہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایک انسان انتقام کے جذبے سے پاک ہوکر برائی کی جگہ بھلائی کرے، اور عفو ودر گزر سے کام لے،یہ اخلاق کا اونچا درجہ اور اعلی معیار ہے۔دراصل یہی سنت نبوی ہے،اور اسی نقش پر چلنے کی ضرورت ہے۔حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا فرماتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت کسی کو برا بھلا کہنے کی نہ تھی، برائی کے معاملے میں برائی نہیں کرتے تھےبلکہ درگزر کرتے اور معاف فرما دیتے تھے، (ترمذی )
دشمن سے انتقام لینا یہ کوئی بری بات نہیں ہے، لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب اپنے جانی دشمنوں پر کنٹرول حاصل ہواہے،تاریخ یہ کہتی ہے کہ انہیں معافی ہی ملی ہے۔فتح مکہ کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے جانی دشمنوں کو یہ کہ معاف فرما دیا کہ آج کے دن تم پر کوئی ملامت نہیں ہے، جاؤ تم سب آزاد ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کےپیارےچچا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے قاتل،نیز مرحوم چچا کے جگر کو چبانے والی کو بھی اس دن معافی ملی ہے، صفوان بن امیہ کو بھی اس دن امان نصیب ہواجنہوں نےآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کی خطرناک سازش رچی تھی، زہر میں بجھی ہوئی تلوار لیکر اس شرط پر عمیر بن وہب کو مدینہ روانہ کیا کہ تمہیں محمد کا کام تمام کردینا یے۔اس اخلاق کریمانہ سے متاثر ہوکر وہ بھی مسلمان ہوگئے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کریمانہ سے متاثر ہوکر پورا عرب مذہب اسلام کا علمبردار اور محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا وفادار بنا ہے۔
یہ ماہ مبارک جسمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت ہوئی ہے ان اخلاق کریمانہ کو برادران وطن کے سامنے پیش کرنے کی ہمیں دعوت دیتاہے۔
ابھی کچھ دنوں پہلے ملک کی نئی پارلیمنٹ میں ایک غیر مسلم ایم پی رمیش بدھوڑی نے ایک مسلم ممبر پارلیمنٹ دانش علی کو بھدی بھدی گالیاں دی ہےاوردہشت گرد بھی کہا ہے، صاف لفظوں میں انہوں نے یہ کہنے کی کوشش کی ہے کہ اسلام دہشت گردی سکھاتا ہے اور یہ تلوار کی زور پر پھیلا ہے،ایسے ناواقف لوگوں تک آخری نبی محمد عربی کے اخلاق وکردار کو پیش کرنےکی آج شدید ضرورت ہے، اور یہ واضح کرنے کا موقع ہےکہ اسلام آخری نبی محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق سے پھیلا ہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دشمنوں سے بھی انتقام نہیں لیا ہے،انہیں معاف فرمایا ہے،جنہوں نے آپ کو گالیاں دیں اس کے جواب میں یہی ارشاد فرمایا ہے کہ لوگ مجھے گالیاں دے رہے ہیں جبکہ میں" محمد" ہوں۔اسی سنت پر عمل کرتے ہوئے ان مواقع پر جہاں ہمیں مسلمان ہونے کی وجہ سے گالیاں دی جارہی ہیں، وہاں اسلام اور پیغمبر اسلام کے اخلاقی تعلیم کو پیش کرنا ہی مناسب حل اور صحیح جواب ہے۔ لعن وطعن اس مسئلہ کا حل ہےاور نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ سنت رہی ہے، ایک موقع پر کفار ومشرکین کے ناروا سلوک سے تنگ آکر حضرت خباب بن ارت رضی اللہ عنہ نےیہ عرض کیا کہ؛ یارسول دشمنوں کے حق میں بدعا فرما دیجئے ،آپ کا چہرہ سرخ ہوگیا، فرمایا میں لعنت نہیں رحمت بناکر بھیجا گیا ہوں۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دشمنوں کے حق میں دعائے خیر فرمائی ہے، اس سے متاثر ہوکر لوگوں نے اسلام کو اپنایا ہے، یہ ایک ایسا مذہب ہے جسمیں زور زبردستی کی گنجائش نہیں ہے۔ایمان دراصل دل سے قبول کرنےکا نام ہے،دشمنوں نے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نیک سلوک سے متاثر زبان سے اسلام کا کلمہ پڑھا ہےاور دل سے اسلام کو اپنایا ہے، اسلامی تاریخ کا مشہور واقعہ ہے؛
ثمامہ بن آثال یمامہ کا ایک رئیس آدمی تھا، جو اسلام کا مجرم تھا، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ہاتھوں گرفتار ہو کر مدینہ آیا اور مسجد نبوی کے ایک ستون میں باندھ دیا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لئے آنے تو اس پر نظر پڑی، آپ نے دریافت کیا، ثمامہ تمہارے ساتھ کیا سلوک کیا جائے، اس نے کہا،اگر قتل کرنا چاہیں تو ایک خونی مجرم کو قتل کریں گے، اور معاف کردیں تو احسان مند رہوں گا، اگر مال کی خواہش ہے تو حکم کیجئے، مال حاضر کردیا جائے گا، یہ گفتگو ہوئی اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم چلے گئے۔ دوسرے اور تیسرے روز بھی یہی باتیں ہوئیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے رہا فرما دیا۔ وہ اس برتاؤ سے اسقدر متاثر ہوا کہ رہائی پاکر ایک نخلستان میں گیا،غسل کیا اور واپس آکراسلام قبول کرلیا۔ سیرت کی کتابوں میں ثمامہ بن آثال کا یہ تاریخی جملہ بھی محفوظ ہے؛
"اے محمد! زمین پر آپ کے چہرے سے زیادہ کوئی چیز مجھ کو مبغوض نہ تھی لیکن آج وہ محبوب ہے،مجھ کو آپ کےدین سے زیادہ کسی دین سے عداوت نہ تھی لیکن وہ آج تمام مذاہب سے عزیز تر ہے،مجھے آپ کے شہر سے زیادہ کسی شہر سے دشمنی نہ تھی لیکن وہ آج مجھے تمام شہروں سے خوشنما نظر آتا ہے، (سیرت النبی جلد دوم ) وہ قوم ہی قائد اور فاتح ہے جہاں میں
جس قوم کے اخلاق کی چلتی رہے تلوار
اس قوم کی دنیا میں نہیں کچھ بھی حقیقت
جس قوم کے اخلاق کا گھٹ جاتا ہے معیار
اسی لئے شریعت اسلامیہ میں اخلاق کا دائرہ بہت وسیع ہے،ہر انسان جو اس دنیا میں آیا ہے اس کی ولادت سے وفات تک جو بھی روابط وتعلقات ہیں انہیں بہتر ڈھنگ سے نبھانے کا نام اخلاق ہے،اسلام میں جہاں والدین، اہل وعیال، عزیز ورشتہ دار، دوست واحباب، کے حقوق کو اداکرنے کا حکم ہے، وہیں انسانی بنیادوں پرجو بی رشتے ہوسکتے ہیں،ان کے پاس ولحاظ کی بھی بڑی تاکید آئی ہے،ایک انسان کا ضرورت کی بنیاد پر جانوروں سے بھی رابطہ ہوتا ہے، چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حیوانات کے بھی حقوق بیان فرمائے ہیں۔
آج لوگوں نے اخلاق کو ایک دائرہ میں محدود کررکھا ہے،صرف اپنے دوستوں اور رشتہ داروں سے ہنسی خوشی ملنے اور تعلقات نبھانے کو اخلاق سمجھتے ہیں،یہ شریعت کے مزاج کے خلاف اور قرآن وحدیث سے دوری اور لاعلمی کا نتیجہ ہے۔اللہ رب العزت نے اپنی کتاب قرآن شریف میں جن جن باتوں کا حکم فرمایاہے، آپ صلی اللہ علیہ نےان تمام چیزوں کواپنی عملی زندگی کا حصہ بناکر پیش فرمادیاہے، کچھ لوگ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے پاس آئے اور سوال کیا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق بیان کیجئے؛انہوں نے پوچھا کہ تم قرآن نہیں پڑھتے ہو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق ہمہ تن قرآن تھا، (ابوداؤد )
قرانی تمام اخلاقی تعلیم کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی عملی زندگی میں نچوڑ کر اخلاقیات کو پائہ تکمیل تک پہونچادیا ہے،اس بات کی گواہی خود کتاب الہی نے دی ہے، ارشاد خداوندی ہے؛اے محمد! تمہارےاخلاق اعلی معیار پرہیں(سورہ قلم )
اخلاق کا اعلی معیار کیا ہے؟
قرآن وحدیث کے مطالعہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایک انسان انتقام کے جذبے سے پاک ہوکر برائی کی جگہ بھلائی کرے، اور عفو ودر گزر سے کام لے،یہ اخلاق کا اونچا درجہ اور اعلی معیار ہے۔دراصل یہی سنت نبوی ہے،اور اسی نقش پر چلنے کی ضرورت ہے۔حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا فرماتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت کسی کو برا بھلا کہنے کی نہ تھی، برائی کے معاملے میں برائی نہیں کرتے تھےبلکہ درگزر کرتے اور معاف فرما دیتے تھے، (ترمذی )
دشمن سے انتقام لینا یہ کوئی بری بات نہیں ہے، لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب اپنے جانی دشمنوں پر کنٹرول حاصل ہواہے،تاریخ یہ کہتی ہے کہ انہیں معافی ہی ملی ہے۔فتح مکہ کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے جانی دشمنوں کو یہ کہ معاف فرما دیا کہ آج کے دن تم پر کوئی ملامت نہیں ہے، جاؤ تم سب آزاد ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کےپیارےچچا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے قاتل،نیز مرحوم چچا کے جگر کو چبانے والی کو بھی اس دن معافی ملی ہے، صفوان بن امیہ کو بھی اس دن امان نصیب ہواجنہوں نےآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کی خطرناک سازش رچی تھی، زہر میں بجھی ہوئی تلوار لیکر اس شرط پر عمیر بن وہب کو مدینہ روانہ کیا کہ تمہیں محمد کا کام تمام کردینا یے۔اس اخلاق کریمانہ سے متاثر ہوکر وہ بھی مسلمان ہوگئے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کریمانہ سے متاثر ہوکر پورا عرب مذہب اسلام کا علمبردار اور محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا وفادار بنا ہے۔
یہ ماہ مبارک جسمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت ہوئی ہے ان اخلاق کریمانہ کو برادران وطن کے سامنے پیش کرنے کی ہمیں دعوت دیتاہے۔
ابھی کچھ دنوں پہلے ملک کی نئی پارلیمنٹ میں ایک غیر مسلم ایم پی رمیش بدھوڑی نے ایک مسلم ممبر پارلیمنٹ دانش علی کو بھدی بھدی گالیاں دی ہےاوردہشت گرد بھی کہا ہے، صاف لفظوں میں انہوں نے یہ کہنے کی کوشش کی ہے کہ اسلام دہشت گردی سکھاتا ہے اور یہ تلوار کی زور پر پھیلا ہے،ایسے ناواقف لوگوں تک آخری نبی محمد عربی کے اخلاق وکردار کو پیش کرنےکی آج شدید ضرورت ہے، اور یہ واضح کرنے کا موقع ہےکہ اسلام آخری نبی محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق سے پھیلا ہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دشمنوں سے بھی انتقام نہیں لیا ہے،انہیں معاف فرمایا ہے،جنہوں نے آپ کو گالیاں دیں اس کے جواب میں یہی ارشاد فرمایا ہے کہ لوگ مجھے گالیاں دے رہے ہیں جبکہ میں" محمد" ہوں۔اسی سنت پر عمل کرتے ہوئے ان مواقع پر جہاں ہمیں مسلمان ہونے کی وجہ سے گالیاں دی جارہی ہیں، وہاں اسلام اور پیغمبر اسلام کے اخلاقی تعلیم کو پیش کرنا ہی مناسب حل اور صحیح جواب ہے۔ لعن وطعن اس مسئلہ کا حل ہےاور نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ سنت رہی ہے، ایک موقع پر کفار ومشرکین کے ناروا سلوک سے تنگ آکر حضرت خباب بن ارت رضی اللہ عنہ نےیہ عرض کیا کہ؛ یارسول دشمنوں کے حق میں بدعا فرما دیجئے ،آپ کا چہرہ سرخ ہوگیا، فرمایا میں لعنت نہیں رحمت بناکر بھیجا گیا ہوں۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دشمنوں کے حق میں دعائے خیر فرمائی ہے، اس سے متاثر ہوکر لوگوں نے اسلام کو اپنایا ہے، یہ ایک ایسا مذہب ہے جسمیں زور زبردستی کی گنجائش نہیں ہے۔ایمان دراصل دل سے قبول کرنےکا نام ہے،دشمنوں نے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نیک سلوک سے متاثر زبان سے اسلام کا کلمہ پڑھا ہےاور دل سے اسلام کو اپنایا ہے، اسلامی تاریخ کا مشہور واقعہ ہے؛
ثمامہ بن آثال یمامہ کا ایک رئیس آدمی تھا، جو اسلام کا مجرم تھا، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ہاتھوں گرفتار ہو کر مدینہ آیا اور مسجد نبوی کے ایک ستون میں باندھ دیا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لئے آنے تو اس پر نظر پڑی، آپ نے دریافت کیا، ثمامہ تمہارے ساتھ کیا سلوک کیا جائے، اس نے کہا،اگر قتل کرنا چاہیں تو ایک خونی مجرم کو قتل کریں گے، اور معاف کردیں تو احسان مند رہوں گا، اگر مال کی خواہش ہے تو حکم کیجئے، مال حاضر کردیا جائے گا، یہ گفتگو ہوئی اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم چلے گئے۔ دوسرے اور تیسرے روز بھی یہی باتیں ہوئیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے رہا فرما دیا۔ وہ اس برتاؤ سے اسقدر متاثر ہوا کہ رہائی پاکر ایک نخلستان میں گیا،غسل کیا اور واپس آکراسلام قبول کرلیا۔ سیرت کی کتابوں میں ثمامہ بن آثال کا یہ تاریخی جملہ بھی محفوظ ہے؛
"اے محمد! زمین پر آپ کے چہرے سے زیادہ کوئی چیز مجھ کو مبغوض نہ تھی لیکن آج وہ محبوب ہے،مجھ کو آپ کےدین سے زیادہ کسی دین سے عداوت نہ تھی لیکن وہ آج تمام مذاہب سے عزیز تر ہے،مجھے آپ کے شہر سے زیادہ کسی شہر سے دشمنی نہ تھی لیکن وہ آج مجھے تمام شہروں سے خوشنما نظر آتا ہے، (سیرت النبی جلد دوم )
جس قوم کے اخلاق کی چلتی رہے تلوار
اس قوم کی دنیا میں نہیں کچھ بھی حقیقت
جس قوم کے اخلاق کا گھٹ جاتا ہے معیار