ماہنامہ الفاران
ماہِ ربیع الثانی - ۱۴۴۵
مرنے والاگیا داستاں رہ گئی
جناب حضرت مولانا کبیر الدین صاحب فاران المظاہری؛ ناظم: مدرسہ قادریہ،مسروالا،ہماچل پردیش و سرپرست ماہنامہ "الفاران"
مرنے والاگیا داستاں رہ گئی
حضرت مفتی صاحبؒ کی شخصیت ایثار وقناعت، محبت و انسیت،غیر معمولی نظم وضبط اور شور واویلا کے ماحول میں ایک ساقط صامت سمندر کی سی تھی وہ لاجواب گفتار اور بے نظیر کردار کے مالک تھے اور اس خاموش شخصیت میں بلا کی جادوئی تاثیر اور علم و حکمت کے موتی بکھیر نے کا اثر تھا جن کی صحبت میں جہالت کی تاریکی دور ہوتی اور غیر اسلامی ماحول کا تعفن ان کی روحانی عطر بیزیوں سے معطر ہوتی تھی، وہ جامعہ مظاہر علوم سہارنپور کے مسند تدریس کے پر وقار اور کامیا ب مدرس تھے جن کی درسگاہ بڑی کامیاب تھی، ان میں غبی ذہن اور غیر معمولی صلاحیت کے طلبہ کو اپنے سادے اور پر مغز طر ز تکلم سے علم آشنا کر دیتے تھے اور ہر ذوق ومزاج کے طلبہ کو اپنے دلنشیں پیرائے انداز سے سیراب کرنے کی مکمل صلاحیت تھی،وہ ہر ذہن ومزاج کے طلبہ کی رعایت میں تکرار درس فرماتے تھے جس کی برکت سے طلبہ کو ان کے انداز بیان سے سیرابی حاصل ہوتی۔
حضرت مفتی عبد القیوم صاحبؒ کی زندگی میں سیرت نبویﷺ کی مکمل پاسداری تھی اورہر ادا میں نبی پاک ﷺ کی اقتداواتباع کی کوشش فرماتے اس لئے ان کی ذات میں عفوودرگزر، تحمل وبردباری، خوش اخلاقی اوراپنی جادوئی مسکراہٹ سے آنے والوں کا تعب،بے چین روح کو تسلی اور سیرابی فرمادیتے تھے،ان کی چلت پھرت، پروقار شخصیت اور زندگی کی سادگی سے محسوس ہوتا تھا کہ ملائکہ ہیں جو ز مین پر اپنے نورانی پروں سے ڈھانکے ہوئے ہیں۔
حضرت مفتی صاحب ؒ کی زندگی کا ہر شعبہ رسم ورواج سے دور تھا،وہ واقعہ کی اصل روح اور بنیادی مقصد پر مرکوز ہوتے،اللہ نے انہیں خوف و خشیت، انابت وتواضع اور تقویٰ کی دولتوں سے مالامال فرمایا تھا،وہ شفقت و مروت کے بے تاج بادشاہ تھے، میرے محسن استاذ تھے،مظاہر علوم سہارنپور میں دو ر طالب علمی میں ان کی خدمت میں حضوری اور خدمت کا بارہا شرف حاصل ہوتا، آنے والا ہر طالب علم سمجھتا کہ حضرت استا ذ ہمارے سب سے بڑے محسن اور مجھ سے سب سے زیادہ محبت فرماتے ہیں۔
حضرت مفتی صاحب کی ذات میں حد درجہ یکسانیت ویکسوئی تھی،وہ اختلاط، اختلاف اور انتشار کے ماحول سے بہت دور رہتے تھے چنانچہ ایک زمانہ مظاہر علوم سہارنپور کے قیام کے بعد یکسوئی اور گوشہ نشینی زندگی اختیار کرنے کے لئے اپنے مادر وطن رائے پو ر اور اس کے بعد زمانہ کا مشہور روحانی خانقاہ رائے پور سے وابسطہ ہوگئے اور رائے پور کی خانقا ہ کے روحانی وارث بن کر تشنگان علو م ومعرفت او رخانقاہ رحیمی کے فیض اور خوابیدہ روحوں کو بیدار کرتے رہے اور ایک با کمال شخصیت کے روپ میں خانقاہ رحیمی کے مالی اور گلشن قادری کے باغبانی کا فرض نبھاتے رہے،بندہ جب کبھی حضرت استاذ گرامی کی خدمت میں حاضر ہوتا وہ علاقہ کے دینی احوال اور مدرسہ کی ترقیاتی کاموں سے مسرور ہوتے۔ بندہ کی درخواست پر۲۷/سفر ۱۴۲۱ھ بروز جمعرات اپنے رفقاء کے ساتھ مدرسہ قادری مسروالا تشریف لائے، طلبہ اساتذہ اور علاقہ کے عوام کو اپنی تشریف آوری سے مستفیض فرمایا اور اپنے تأثرات کو رجسٹر معائنہ پر اس طرح ثبت فرمایا:
”مدرسہ قادریہ میں حاضر ی کی سعادت نصیب ہوئی،خصوصی طور پر مدرسہ کی صفائی اور نظم ونسق کا معائنہ کر کے بہت ہی مسرت ہوئی، اللہم زد فزد!
یہ سب عزیز مولانا کبیر الدین فاران صاحب سلمہ ناظم مدرسہ ہٰذا کے نظم ونسق اور سلیقہ حسن کار کردگی کا مظہر ہے، حق تعالیٰ شانہ ان کی عمر میں برکت عطا فرمائے اور نظر بد سے اہل مدرسہ اور مدرسہ کی حفاظت فرمائے۔ آمین یارب العالمین“۔
حضرت مفتی صاحب گرامی ؒ ایک عرصہ تک صاحب فراش رہے، اس دوران وہ واردین وصادرین کو اپنی چشم بصار ت سے سیراب فرماتے اور خود روحانی غذا سے اپنے جسم ناتواں کو قوت بہم پہنچاتے، کئی بار حاضری کی سعادت پر ان کے خادم خاص الحاج محترم عتیق احمد صاحب خصوصی رعایت فرماکر قریب تشریف لے جاکر میرا سلام او ر دعاؤں کی درخواست فرماتے،وہ گنگناتی آواز سے دعائے مستجاب سے سرفراز فرماتے۔
حضرت مفتی عبد القیوم صاحب ؒ کو اللہ نے محبوبیت و مقبولیت کی لا زوال دولتوں سے مالامال فرمایا تھا وہ ہر طبقہ فکر کے ہر دل عزیز اور محبوب نظر تھے۔
بلاشبہ! تاریخ انسانیت کے وہ تنہا بزرگ اور بلا اختلافی شخصیت تھی جن کو بے رحم ہاتھوں نے ۶۲/جمادی الاول ۹۳۴۱ھ مطابق ۳۱/ فروری ۸۱۰۲ء کو ہم سے ہمیشہ کے لئے چھین لیا اور دنیا کو اشکبار کر دیا۔ ع