ماہنامہ الفاران
ماہِ ربیع الاول - ۱۴۴۵
لاتَحْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا
جناب حضرت مفتی خالدانورپورنوی صاحب المظاہری، جنرل سکریٹری:رابطہ مدارس اسلامیہ عربیہ(بہار)
غارِثورمیں آپ ﷺ قیام فرماہیں،ساتھ میں ابوبکرصدیق بھی ہیں،عرب کے کفار ومشرکین قدم کے نشان کے ذریعہ تلاس کرتے تے غارثورکے منہ تک پہونچ جاتے ہیں،ابوبکرصدیق دیکھتے ہیں کہ:ان کے پاؤں نظر آرہے ہیں،اپنی جان سے زیادہ محبوب اللہ کے رسول ﷺ کی فکرستانے لگی:اے اللہ کے رسولﷺ! ذرا ساوہ لوگ جھک گئے تو ہمیں دیکھ لیں گے،وہ تو بالکل قریب آچکے ہیں،اب ہماراکیاہوگا؟اللہ کے رسولﷺ نے ارشاد فرمایا: لا تحزن ان اللہ معنا، ڈرومت،غم نہ کر،اللہ ہمارے ساتھ ہے۔
ملکی،ریاستی،بلکہ عالمی پیمانہ پر آج بھی اسلام کے ماننے والوں کو ڈرانے، اورخوف ودہشت میں مبتلا کرنے کی کوشیں کی جارہی ہیں،کبھی گؤتسکری کے نام پر،کبھی رام،رام جئے شری رام کے نام پر،کبھی بچہ،یا دوسری چیز کی چوری کے الزام کے نام پر،یاپھر ہجومی تشدد کے ذریعہ یونہی ماردیاجاتاہے،انسانیت کے ان دشمنوں کو مقصد یہی ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کا خاتمہ ہوجائے،سارے لوگ انہی کے نام لیوا ہو جا ئیں، اسلام اور اس کی تعلیمات کو چھوڑکرالحاد وبے دینی کے رنگ میں رنگ جائیں،ایک خداکے علاوہ ہزاروں خداؤں کے سامنے سجدہ ریز ہوجائیں،یعنی ڈراور خوف کی وجہ سے دامنِ اسلام سے مسلمان دور ہو جا ئیں، اسی مقصد کے تحت یہ ساری کوشیں کی جارہی ہیں،ایسے ماحول میں قرآن کی یہ آیت ہمیں تسلی دیتی ہے: لاتحزن ان اللہ معنا، ڈر ومت، غم نہ کر،اللہ ہمارے ساتھ ہے۔
جنگ احد کا موقع ہے،شروع شروع میں مسلمان غالب ہیں،اور فتح کے بالکل قریب ہیں،پہاڑ کے ایک ٹیلہ میں پچاس تیراندازوں کو متعین کردیاجاتاہے،اور انہیں حکم دیاجاتاہے کہ کسی بھی حالت میں وہ نیچے نہ اتریں، لیکن تیراندازوں کے اس دستے نے سوچاکہ دشمن بھاگ چکاہے،اب ہماری ذمہ داری ختم ہوچکی ہے،مالِ غنیمت جمع کرنے میں ہمیں حصہ لیناچاہئے،اس دستہ کے امیرعبداللہ بن جبیر اوردوسرے چند ساتھیوں نے ٹیلہ چھوڑنے کی مخالفت بھی کی،لیکن ان میں زیادہ تر لوگوں نے بے مقصد سمجھ کر ٹیلہ چھوڑ دیا، مخالفین کو موقع مل گیا، اور پہاڑ کے پیچھے سے اس پر حملہ کردیا،صحابہ کرام اس صورت حال کو سمجھ نہیں سکے،اور جنگ کا پانسہ پلٹ گیا، اسی دوران کسی نے یہ افواہ پھیلادی کہ نبی کریمﷺ شہیدہوگئے،اس افواہ سے مسلمانوں کے حوصلے ٹوٹ گئے، ان کے پاؤں اکھڑ گئے،ان میں سے بعض نے تو میدان ہی چھوڑدیا،بعض جنگ سے کنارہ کش ہوگئے،لیکن نبی کریم ﷺکی ایک جان نثار جماعت،آپ کے اردگرد مقابلہ کرتی رہی، اسی میں آپ ﷺکا مبارک دانت شہید ہوگیا،چہرہ مبارک لہولہان ہوگیا،ستر صحابہ کرام شہیدہوگئے،اس واقعہ سے مسلمانوں کو شدیدصدمہ پہونچا، اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے آسمانی ہدایت نازل ہوئی، و لا تھنوا ولاتحزنواوانتم الاعلون ان کنتم مومنین،تم سست نہ پرو،غم نہ کھاؤ،تم ہی غالب رہو گے، اگر تم ایمان والے ہو۔
ہندستان جو کبھی انسانیت نوازی،گنگاجمنی،تہذیب وثقافت کی علامت اور نشانی کے طورپر جاناجا تاتھا، آج لینچستان کے طورپر متعارف ہونے لگاہے،بلاکسی وجہ کے یونہی،تبریز،اخلاق،پہلوخان،اور قاری اویس کو جان سے ماردیاجاتاہے،یعنی حملہ آوروں کے کلیجے اتنے مضبوط ہوگئے کہ نہ انہیں پولیس وانتظامیہ کی فکر ہے اور نہ پولیس وانتظامیہ ایکشن لینے میں کے موڈمیں نظرآرہے ہیں،اس کا مطلب صاف ہے کہ ہمارے حکمراں اور منتخب عوامی نمائندے عوام کی فلاح وترقی،اور امن شانتی کے قیام میں خود رکاوٹ بن رہے ہیں، اگرایساہے اور یقینا ایسا ہی ہے تو اس ملک کے لئے کسی بدنماداغ سے کم نہیں ہے۔
یہ کیساماجراہے،؟کہ موبائل کی دکان پر باتوں باتوں میں قتل کے واردات انجام دے دئیے جاتے ہیں، ایک صاف،ستھرہ شخص پر پہلے چوری کا الزام لگایاجاتاہے،پھر ایک بھیڑ جمع ہوتی ہے،اوراسے یا تو مار دیا دیا جاتا ہے،یاادھ مرا کردیاجاتاہے،یعنی ایسالگ رہاہے کہ انسانیت کی اس منڈی میں ایک بھی انسان نظرنہیں آتا ہے، جواس طرح کے ظالموں،قاتلوں،خونخواردرندوں،کے ہاتھوں کو روک سکے،حالانکہ اس طرح کی سوچ رکھنے اور قتل کے واردات انجام دینے والے لوگوں کی تعدادبہت کم ہے،مگراکثریت کی خاموشی کا کیا مطلب ہے؟ انسانیت کے خلاف ایک نئی سوچ جنم دینے کی کوشش؟یاپھر مسلمانوں کو مزید پریشانی میں ڈالنے کی ایک خوفناک سازش!کوئی معشوق ضرورہے اس پردہ زنگاری کے پیچھے،مگر اس کاایک ہی جواب، قرآن نے دیاہے: ڈر و مت، اللہ ہمارے ساتھ ہے۔
اللہ کے رسول،محمدمصطفی ﷺ جب سرزمینِ عرب میں مبعوث ہوئے،وہ لوگ جو آپ کو الامین، الصادق، کہہ کر پکارتے تھے،وہ آپ کے جانی دشمن ہوگئے،یعنی جنہوں نے امانت وصداقت کے ایوارڈ سے آپ کونوازاتھا،وہ آپ ﷺکے قتل کے پیاسے ہوگئے،جنہوں نے آپﷺ کی اطاعت قبول کی،آپ کی رسالت کا اقرارواعتراف کیا،ان پر طرح طرح کے ظلم ڈھائے جانے لگے،بے وجہ شہیدکیاگیا،ان کا جرم کیا تھا؟کیاا ن کی ذاتی یاخاندانی دشمنی تھی،ایساکچھ بھی نہیں تھا،ہاں مگر شرک وکفرکا انہوں نے انکار کیا تھا، 360خداؤں کے علاوہ ایک خداکی پرستش اورپوجاکا اعلان کیاتھا،اور یہی ان کے لئے سب سے بڑاجرم تھا۔
اللہ کے رسول،محمدمصطفی ﷺاکیلے تھے،بیوی حضرت خدیجہ ساتھ ہوئیں،پھر ابوبکرصدیق جیسے دوست کا ساتھ ملا،علی جیسے بچوں نے حمایت کا اعلان کیا،افرادسازی،اور افرادکی تعدادبڑھانے کی طرف آپ ﷺ نے اپنی توجہ مرکوزکی،دعوتِ دین کے نتیجہ میں ایک سے دو،دوسے تین،تین سے چار،اور چار سے ایک بڑی جماعت تیار ہوگئی، مگر اس کے باوجود مکۃ المکرمہ کی زمین باوجودوسیع ہونے کے تنگ ہونے لگی، پہلے لالچ،پھر خوف مسلط کرنے کی کوششیں کی گئیں،یہاں تک کہ آپ کے لئے مکۃ المکرمہ میں کام کرنا مشکل ہوگیا،آپ مدینہ المنورہ کے لئے روانہ ہوگئے،غارِثورمیں پناہ لیا،ابوبکرصدیق ساتھ تھے،آپ کی جان کے دشمن سراغ، لگاتے، لگاتے غار کے منہ تک پہونچ گئے،قرآن کریم کی سورۃ التوبہ کے آیت نمبر (40)میں اللہ تبارک وتعالی نے اس کا پورانقشہ کھینچاہے: اگر تم حضورکی مددنہیں کروگے تو کچھ پرواہ نہیں، اس کی مددتو اللہ تعالی نے اس وقت فرمائی تھی، جب منکرین حق نے اسے اس حال میں مکہ سے نکالاتھا،کہ وہ صرف دو کا دوسراتھا،جب وہ دونوں اس غار کے منہ میں تھے،اور اس وقت اس نے اپنے ساتھی سے کہا:کہ غم نہ کرو،اس وقت اللہ نے اس پر سکون ِقلب نازل فرمایا، اور اس کی مددایسے لشکروں سے کی جن کو تم نہیں دیکھ سکتے،اللہ نے منکرینِ حق کا بول نیچاکردیا،اور اللہ تعالی کا ہی کلمہ بلند رہا، یقینااللہ غالب ہے۔
ہم مسلمان ہیں،یعنی اپنے اپنے رب کے لئے گردن ہم نے خم کردی ہے،مسئلہ خوشی کا ہو،یاغمی کا،رب کے فرمان کی رہنمائی کتاب اللہ کی شکل میں ہمارے پاس موجودہے،اور اسے اپنی اصلی حالت میں قیامت تک محفوظ رہناہے،دائیں،بائیں وہ لوگ جھانکیں گے،جن کے پاس نہ کتاب ہے،نہ آسمانی ہدایت،ان کی دنیاہی سب کچھ ہے،اور آخرت پر ان کو کئی یقین نہیں ہے،ہمارے رب نے تو کہا:کہ خوف کے ذریعہ تمہیں آزمایاجائے گا،کبھی بھوک مسلط کرکے،کبھی جان ومال اور پھلوں میں نقصان کردیں گے،لیکن ایسے میں جنہوں نے صبرکیااور رب کی رضامندی سے پہلوتہی نہیں کی،ان کے لئے خوشخبری ہے۔
مسئلہ تین طلاق کاہو،یاکشمیری مسلمانوں کے حقوق تلفی کا،آسام کے لئے این آرسی کے نفاذ کا ہو، یا ملک بھرمیں اس کے لاگوکرنے کا،ان تمام کے پیچھے یہی مقصد کارفرماہے کہ ہندستانی مسلمانوں کی گھیرابندی کردی جائے،ان کے لئے یہ زمین اتنی تنگ کردی جائے کہ وہ یاتوارتداد کی راہ پنالیں،یاپھر اس دنیاسے راہ فرار اختیار کریں،جیساکہ آسام کی ایک عورت نے اسی لئے خودکشی کرلی کہ انہیں اطلاع دی گئی تھی کہ این آرسی کی لسٹ میں تمہارانام نہیں ہے،حالانکہ خودکشی،خودسوزی،کی نہ تو اسلام میں گنجائش ہے،اور نہ ہی یہ کسی بھی مسئلہ کا حل ہے، بلکہ ایسے موڑ پر ہمارے لئے ضروری ہے کہ پوری مضبوطی سے ان حالات کا مقابلہ کریں،ہرحالت میں اسلام اور اس کی تعلیمات پر قائم رہتے ہوئے،ثبوت وشواہد کی روشنی میں ہم یہ ثابت کریں کہ واقعی ہم مسلمان بھی ہیں اور ایک اچھے ہندستانی بھی!
آپ ﷺایک رسول تھے،اور رب کے بھیجے ہوئے ایک پیغامبرتھے،وہ نبیوں میں سب سے افضل، اور خاتم النبین تھے،مگر اس کے باوجود انہوں نے دشمنوں سے بچنے کے لئے ایک غارمیں پناہ لی،حالانکہ وہ اللہ سے دعاء کرتے،تو بھی کافی ہوجاتا،مگر آپ نے اس پر اکتفانہ کرکے ظاہری سبب کو اختیار کیا،اوراس کے ذریعہ امت مسلمہ کو سبق دیا:کہ حالات اور آنے والے فتوں کا مقابلہ کرنے کے لئے دعاء بھی ضروری ہے، اور دوا کا استعمال بھی انتہائی ناگزیر ہے،این آرسی بھی اگر تمام مسلمان ہندکے لئے لاگو ہوجاتا ہے تو یہ بھی کسی فتنہ سے کم نہیں ہے، لیکن ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں،یہ بھی انتہائی خطرناک بیماری ہے،بلکہ اس کے بالمقابل ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنے کاغذات اور آئی کارڈ کودرست کرلیں، تمام کاغذات میں ناموں،تاریخ پیدائش ودیگرچیزوں میں یکسانیت ہو،اس کی رعایت ضرورکریں!
نئے تقاضے ہیں،اور نئی ضروریات ہیں،ان سے صرفِ نظر کرکے انسان آگے نہیں بڑھ سکتاہے،ان سے جڑنا،اور اپنی پالیسی کا حصہ بناناایک مسلمان کے لئے ضروری ہے،اور اسلام اس سے منع نہیں کرتاہے، آپ غورکریں!اللہ کے رسول ﷺنے جس شہرمیں ہجرت کی،اسے یثرب کہاجاتاتھا، جس کامعنی ہے ملامت، فساد،خرابی، آپ کے مبارک قدم پڑتے ہی اس کا نام مدینۃ النبیﷺ اور مدینۃ الرسول ﷺ ، پڑگیا،یعنی اللہ کے رسول کا شہر،آپ کی محنت سے یہ اسلام کا اولین دارالخلافہ بنا،آپ نے اخوت وبھائی چارگی کا پیغام دیا، جس کے نتیجہ میں انصاری اورمہاجرین بھائی بھائی بن گئے،وہاں کئی طرح کے لوگوں، مختلف قبیلوں،کئی مذاہب کے ماننے والوں سے واسطہ پڑا،اس لئے آپ نے میثاقِ مدینہ طے کیا،اور باہمی ربط و اتحاد کو فروغ دینے کے لئے پڑوسیوں کے حقوق کی طرف توجہ دلائی،اور پھر وہی جگہ مدینۃ المنورہ کہلایا، یعنی وہ شہرجو منوراور روشن ہوا،اور وہیں سے اسلام کی روشنی پوری دنیامیں پہونچی۔
ہم سب اسی نبی ﷺکی امتی ہیں،ہماری ذمہ داری ہے،کہ ان کی تعلیمات پر خود بھی عمل کریں،اور دوسروں تک بھی پہونچائیں،ہماراواسطہ بھی مختلف مذاہب کے لوگوں سے ہے،کسی سے ڈرکر،اور خوف میں مبتلا ہوکردعوتِ دین کے پیغام کو عام کرنانہ چھوڑیں،امن وایکتااور اتحاد ویکجہتی کے اصولوں پر عمل کرکے ہم آگے بڑھیں،اللہ کے رسولﷺ کے اس فرمان کو نہ بھولیں جوانہوں نے ابوبکرصدیق سے کہاتھا:لاتحزن ان اللہ معنا”ڈرومت،اللہ ہمارے ساتھ ہے۔
ملکی،ریاستی،بلکہ عالمی پیمانہ پر آج بھی اسلام کے ماننے والوں کو ڈرانے، اورخوف ودہشت میں مبتلا کرنے کی کوشیں کی جارہی ہیں،کبھی گؤتسکری کے نام پر،کبھی رام،رام جئے شری رام کے نام پر،کبھی بچہ،یا دوسری چیز کی چوری کے الزام کے نام پر،یاپھر ہجومی تشدد کے ذریعہ یونہی ماردیاجاتاہے،انسانیت کے ان دشمنوں کو مقصد یہی ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کا خاتمہ ہوجائے،سارے لوگ انہی کے نام لیوا ہو جا ئیں، اسلام اور اس کی تعلیمات کو چھوڑکرالحاد وبے دینی کے رنگ میں رنگ جائیں،ایک خداکے علاوہ ہزاروں خداؤں کے سامنے سجدہ ریز ہوجائیں،یعنی ڈراور خوف کی وجہ سے دامنِ اسلام سے مسلمان دور ہو جا ئیں، اسی مقصد کے تحت یہ ساری کوشیں کی جارہی ہیں،ایسے ماحول میں قرآن کی یہ آیت ہمیں تسلی دیتی ہے: لاتحزن ان اللہ معنا، ڈر ومت، غم نہ کر،اللہ ہمارے ساتھ ہے۔
جنگ احد کا موقع ہے،شروع شروع میں مسلمان غالب ہیں،اور فتح کے بالکل قریب ہیں،پہاڑ کے ایک ٹیلہ میں پچاس تیراندازوں کو متعین کردیاجاتاہے،اور انہیں حکم دیاجاتاہے کہ کسی بھی حالت میں وہ نیچے نہ اتریں، لیکن تیراندازوں کے اس دستے نے سوچاکہ دشمن بھاگ چکاہے،اب ہماری ذمہ داری ختم ہوچکی ہے،مالِ غنیمت جمع کرنے میں ہمیں حصہ لیناچاہئے،اس دستہ کے امیرعبداللہ بن جبیر اوردوسرے چند ساتھیوں نے ٹیلہ چھوڑنے کی مخالفت بھی کی،لیکن ان میں زیادہ تر لوگوں نے بے مقصد سمجھ کر ٹیلہ چھوڑ دیا، مخالفین کو موقع مل گیا، اور پہاڑ کے پیچھے سے اس پر حملہ کردیا،صحابہ کرام اس صورت حال کو سمجھ نہیں سکے،اور جنگ کا پانسہ پلٹ گیا، اسی دوران کسی نے یہ افواہ پھیلادی کہ نبی کریمﷺ شہیدہوگئے،اس افواہ سے مسلمانوں کے حوصلے ٹوٹ گئے، ان کے پاؤں اکھڑ گئے،ان میں سے بعض نے تو میدان ہی چھوڑدیا،بعض جنگ سے کنارہ کش ہوگئے،لیکن نبی کریم ﷺکی ایک جان نثار جماعت،آپ کے اردگرد مقابلہ کرتی رہی، اسی میں آپ ﷺکا مبارک دانت شہید ہوگیا،چہرہ مبارک لہولہان ہوگیا،ستر صحابہ کرام شہیدہوگئے،اس واقعہ سے مسلمانوں کو شدیدصدمہ پہونچا، اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے آسمانی ہدایت نازل ہوئی، و لا تھنوا ولاتحزنواوانتم الاعلون ان کنتم مومنین،تم سست نہ پرو،غم نہ کھاؤ،تم ہی غالب رہو گے، اگر تم ایمان والے ہو۔
ہندستان جو کبھی انسانیت نوازی،گنگاجمنی،تہذیب وثقافت کی علامت اور نشانی کے طورپر جاناجا تاتھا، آج لینچستان کے طورپر متعارف ہونے لگاہے،بلاکسی وجہ کے یونہی،تبریز،اخلاق،پہلوخان،اور قاری اویس کو جان سے ماردیاجاتاہے،یعنی حملہ آوروں کے کلیجے اتنے مضبوط ہوگئے کہ نہ انہیں پولیس وانتظامیہ کی فکر ہے اور نہ پولیس وانتظامیہ ایکشن لینے میں کے موڈمیں نظرآرہے ہیں،اس کا مطلب صاف ہے کہ ہمارے حکمراں اور منتخب عوامی نمائندے عوام کی فلاح وترقی،اور امن شانتی کے قیام میں خود رکاوٹ بن رہے ہیں، اگرایساہے اور یقینا ایسا ہی ہے تو اس ملک کے لئے کسی بدنماداغ سے کم نہیں ہے۔
یہ کیساماجراہے،؟کہ موبائل کی دکان پر باتوں باتوں میں قتل کے واردات انجام دے دئیے جاتے ہیں، ایک صاف،ستھرہ شخص پر پہلے چوری کا الزام لگایاجاتاہے،پھر ایک بھیڑ جمع ہوتی ہے،اوراسے یا تو مار دیا دیا جاتا ہے،یاادھ مرا کردیاجاتاہے،یعنی ایسالگ رہاہے کہ انسانیت کی اس منڈی میں ایک بھی انسان نظرنہیں آتا ہے، جواس طرح کے ظالموں،قاتلوں،خونخواردرندوں،کے ہاتھوں کو روک سکے،حالانکہ اس طرح کی سوچ رکھنے اور قتل کے واردات انجام دینے والے لوگوں کی تعدادبہت کم ہے،مگراکثریت کی خاموشی کا کیا مطلب ہے؟ انسانیت کے خلاف ایک نئی سوچ جنم دینے کی کوشش؟یاپھر مسلمانوں کو مزید پریشانی میں ڈالنے کی ایک خوفناک سازش!کوئی معشوق ضرورہے اس پردہ زنگاری کے پیچھے،مگر اس کاایک ہی جواب، قرآن نے دیاہے: ڈر و مت، اللہ ہمارے ساتھ ہے۔
اللہ کے رسول،محمدمصطفی ﷺ جب سرزمینِ عرب میں مبعوث ہوئے،وہ لوگ جو آپ کو الامین، الصادق، کہہ کر پکارتے تھے،وہ آپ کے جانی دشمن ہوگئے،یعنی جنہوں نے امانت وصداقت کے ایوارڈ سے آپ کونوازاتھا،وہ آپ ﷺکے قتل کے پیاسے ہوگئے،جنہوں نے آپﷺ کی اطاعت قبول کی،آپ کی رسالت کا اقرارواعتراف کیا،ان پر طرح طرح کے ظلم ڈھائے جانے لگے،بے وجہ شہیدکیاگیا،ان کا جرم کیا تھا؟کیاا ن کی ذاتی یاخاندانی دشمنی تھی،ایساکچھ بھی نہیں تھا،ہاں مگر شرک وکفرکا انہوں نے انکار کیا تھا، 360خداؤں کے علاوہ ایک خداکی پرستش اورپوجاکا اعلان کیاتھا،اور یہی ان کے لئے سب سے بڑاجرم تھا۔
اللہ کے رسول،محمدمصطفی ﷺاکیلے تھے،بیوی حضرت خدیجہ ساتھ ہوئیں،پھر ابوبکرصدیق جیسے دوست کا ساتھ ملا،علی جیسے بچوں نے حمایت کا اعلان کیا،افرادسازی،اور افرادکی تعدادبڑھانے کی طرف آپ ﷺ نے اپنی توجہ مرکوزکی،دعوتِ دین کے نتیجہ میں ایک سے دو،دوسے تین،تین سے چار،اور چار سے ایک بڑی جماعت تیار ہوگئی، مگر اس کے باوجود مکۃ المکرمہ کی زمین باوجودوسیع ہونے کے تنگ ہونے لگی، پہلے لالچ،پھر خوف مسلط کرنے کی کوششیں کی گئیں،یہاں تک کہ آپ کے لئے مکۃ المکرمہ میں کام کرنا مشکل ہوگیا،آپ مدینہ المنورہ کے لئے روانہ ہوگئے،غارِثورمیں پناہ لیا،ابوبکرصدیق ساتھ تھے،آپ کی جان کے دشمن سراغ، لگاتے، لگاتے غار کے منہ تک پہونچ گئے،قرآن کریم کی سورۃ التوبہ کے آیت نمبر (40)میں اللہ تبارک وتعالی نے اس کا پورانقشہ کھینچاہے: اگر تم حضورکی مددنہیں کروگے تو کچھ پرواہ نہیں، اس کی مددتو اللہ تعالی نے اس وقت فرمائی تھی، جب منکرین حق نے اسے اس حال میں مکہ سے نکالاتھا،کہ وہ صرف دو کا دوسراتھا،جب وہ دونوں اس غار کے منہ میں تھے،اور اس وقت اس نے اپنے ساتھی سے کہا:کہ غم نہ کرو،اس وقت اللہ نے اس پر سکون ِقلب نازل فرمایا، اور اس کی مددایسے لشکروں سے کی جن کو تم نہیں دیکھ سکتے،اللہ نے منکرینِ حق کا بول نیچاکردیا،اور اللہ تعالی کا ہی کلمہ بلند رہا، یقینااللہ غالب ہے۔
ہم مسلمان ہیں،یعنی اپنے اپنے رب کے لئے گردن ہم نے خم کردی ہے،مسئلہ خوشی کا ہو،یاغمی کا،رب کے فرمان کی رہنمائی کتاب اللہ کی شکل میں ہمارے پاس موجودہے،اور اسے اپنی اصلی حالت میں قیامت تک محفوظ رہناہے،دائیں،بائیں وہ لوگ جھانکیں گے،جن کے پاس نہ کتاب ہے،نہ آسمانی ہدایت،ان کی دنیاہی سب کچھ ہے،اور آخرت پر ان کو کئی یقین نہیں ہے،ہمارے رب نے تو کہا:کہ خوف کے ذریعہ تمہیں آزمایاجائے گا،کبھی بھوک مسلط کرکے،کبھی جان ومال اور پھلوں میں نقصان کردیں گے،لیکن ایسے میں جنہوں نے صبرکیااور رب کی رضامندی سے پہلوتہی نہیں کی،ان کے لئے خوشخبری ہے۔
مسئلہ تین طلاق کاہو،یاکشمیری مسلمانوں کے حقوق تلفی کا،آسام کے لئے این آرسی کے نفاذ کا ہو، یا ملک بھرمیں اس کے لاگوکرنے کا،ان تمام کے پیچھے یہی مقصد کارفرماہے کہ ہندستانی مسلمانوں کی گھیرابندی کردی جائے،ان کے لئے یہ زمین اتنی تنگ کردی جائے کہ وہ یاتوارتداد کی راہ پنالیں،یاپھر اس دنیاسے راہ فرار اختیار کریں،جیساکہ آسام کی ایک عورت نے اسی لئے خودکشی کرلی کہ انہیں اطلاع دی گئی تھی کہ این آرسی کی لسٹ میں تمہارانام نہیں ہے،حالانکہ خودکشی،خودسوزی،کی نہ تو اسلام میں گنجائش ہے،اور نہ ہی یہ کسی بھی مسئلہ کا حل ہے، بلکہ ایسے موڑ پر ہمارے لئے ضروری ہے کہ پوری مضبوطی سے ان حالات کا مقابلہ کریں،ہرحالت میں اسلام اور اس کی تعلیمات پر قائم رہتے ہوئے،ثبوت وشواہد کی روشنی میں ہم یہ ثابت کریں کہ واقعی ہم مسلمان بھی ہیں اور ایک اچھے ہندستانی بھی!
آپ ﷺایک رسول تھے،اور رب کے بھیجے ہوئے ایک پیغامبرتھے،وہ نبیوں میں سب سے افضل، اور خاتم النبین تھے،مگر اس کے باوجود انہوں نے دشمنوں سے بچنے کے لئے ایک غارمیں پناہ لی،حالانکہ وہ اللہ سے دعاء کرتے،تو بھی کافی ہوجاتا،مگر آپ نے اس پر اکتفانہ کرکے ظاہری سبب کو اختیار کیا،اوراس کے ذریعہ امت مسلمہ کو سبق دیا:کہ حالات اور آنے والے فتوں کا مقابلہ کرنے کے لئے دعاء بھی ضروری ہے، اور دوا کا استعمال بھی انتہائی ناگزیر ہے،این آرسی بھی اگر تمام مسلمان ہندکے لئے لاگو ہوجاتا ہے تو یہ بھی کسی فتنہ سے کم نہیں ہے، لیکن ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں،یہ بھی انتہائی خطرناک بیماری ہے،بلکہ اس کے بالمقابل ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنے کاغذات اور آئی کارڈ کودرست کرلیں، تمام کاغذات میں ناموں،تاریخ پیدائش ودیگرچیزوں میں یکسانیت ہو،اس کی رعایت ضرورکریں!
نئے تقاضے ہیں،اور نئی ضروریات ہیں،ان سے صرفِ نظر کرکے انسان آگے نہیں بڑھ سکتاہے،ان سے جڑنا،اور اپنی پالیسی کا حصہ بناناایک مسلمان کے لئے ضروری ہے،اور اسلام اس سے منع نہیں کرتاہے، آپ غورکریں!اللہ کے رسول ﷺنے جس شہرمیں ہجرت کی،اسے یثرب کہاجاتاتھا، جس کامعنی ہے ملامت، فساد،خرابی، آپ کے مبارک قدم پڑتے ہی اس کا نام مدینۃ النبیﷺ اور مدینۃ الرسول ﷺ ، پڑگیا،یعنی اللہ کے رسول کا شہر،آپ کی محنت سے یہ اسلام کا اولین دارالخلافہ بنا،آپ نے اخوت وبھائی چارگی کا پیغام دیا، جس کے نتیجہ میں انصاری اورمہاجرین بھائی بھائی بن گئے،وہاں کئی طرح کے لوگوں، مختلف قبیلوں،کئی مذاہب کے ماننے والوں سے واسطہ پڑا،اس لئے آپ نے میثاقِ مدینہ طے کیا،اور باہمی ربط و اتحاد کو فروغ دینے کے لئے پڑوسیوں کے حقوق کی طرف توجہ دلائی،اور پھر وہی جگہ مدینۃ المنورہ کہلایا، یعنی وہ شہرجو منوراور روشن ہوا،اور وہیں سے اسلام کی روشنی پوری دنیامیں پہونچی۔
ہم سب اسی نبی ﷺکی امتی ہیں،ہماری ذمہ داری ہے،کہ ان کی تعلیمات پر خود بھی عمل کریں،اور دوسروں تک بھی پہونچائیں،ہماراواسطہ بھی مختلف مذاہب کے لوگوں سے ہے،کسی سے ڈرکر،اور خوف میں مبتلا ہوکردعوتِ دین کے پیغام کو عام کرنانہ چھوڑیں،امن وایکتااور اتحاد ویکجہتی کے اصولوں پر عمل کرکے ہم آگے بڑھیں،اللہ کے رسولﷺ کے اس فرمان کو نہ بھولیں جوانہوں نے ابوبکرصدیق سے کہاتھا:لاتحزن ان اللہ معنا”ڈرومت،اللہ ہمارے ساتھ ہے۔