ماہنامہ الفاران
ماہِ ربیع الاول - ۱۴۴۵
سرورکائنات کی تشریف آوری
جناب حضرت مولانا ہمایوں اقبال صاحب ندوی، نائب صدر:جمعیت علمائ صلع ارریہ و جنرل سکریٹری:تنظیم ابنائ ندوہ،پورنیہ کمشنری
عمرو بن لحی نام کا ایک آدمی جو قبیلہ خزاعہ سے تعلق رکھتا تھاوہ منصب وعہدہ کا بڑاحریص تھا،اس نے خانہ کعبہ کے عہدہ" متولی" کو حاصل کرنے کے لیےجنگ کا سہارا لیا ، قبیلہ جرہم کے لوگ جو صدیوں سے خانہ کعبہ کی خدمت پر مامور تھے انہیں شکست دے کر خود کعبہ کا متولی بن گیا، اس کے بعد بلقاء گیااور وہاں سے ایک بت لاکر خانہ کعبہ میں داخل کردیا، روئے زمین پر خدا کا پہلا گھر اور توحید کے اس مرکز کو اس شخص نےبت خانہ اور مندر میں تبدیل کردیا،خدا کے اس گھر میں بت دیکھ کراہل عرب نے بتوں کو ہی خدا بنالیا، رفتہ رفتہ بت پرستی عرب کے ہر قبیلے اور ہر خاندان تک پہونچ گئی،بقول شاعر:
قبیلہ قبیلہ کا بت ایک جدا تھا،
کسی کا ہبل تھا، کسی کا صفا تھا۔
اس کےبعد وہ وقت بھی لوگوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ سرزمین عرب میں کفر وشرک کا بازار لگ گیا ہے،توحید کے مرکز خانہ کعبہ سے کفر وشرک کی اشاعت ہورہی ہے ،پورا عرب کفرستان بن گیا ہے، ایک خدا کی جگہ سینکڑوں خداؤں کے لوگ قائل ہوگئے ہیں، کفر وشرک کے وائرس نے عرب میں ہر طرح کی گندگی پھیلا دی ہے،
تاریخ وسیرت کی کتابوں میں یہ باتیں محفوظ ہیں؛بےشمار بتوں کی پوجا کی بدولت اہل عرب نےخدا کےبھی خاندان بنادیے،فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں کہنےلگے،جنوں کی خدا سے رشتہ داریاں جوڑ دیں، ہر چمکنے والی چیز کو دیوتا سمجھتے لگے،ستاروں کی پوجا شروع ہوگئی، سورج اور چاند کی عبادت ہونےلگی، بھوت وشیاطین اور جنوں کی طاقت کے سامنےسبھی سجدہ ریز ہوگئے، عرب قوم جو کبھی کسی حکومت کے زیر اثر نہیں رہی تھی،اب آسانی سے شیطانین کی غلامی اور بندگی میں چلی گئی، عرب کے چپہ چپہ پرکاہنوں کی دکانیں کھل گئیں ، ان کی توہم پرستی کایہ حال تھاکہ زہریلے سانپ کونہیں مارتے،اور درندگی کا حال یہ تھا کہ ذرا ذرا سی بات پر ایک دوسرے کی گردن کاٹ لیتے، نشہ اور شراب میں ڈوب گئے اور ہر گھر میخانہ بن گیا ، قمار بازی فخر کی بات سمجھی جانےلگی، جوئے میں اپنی بیوی اور بچوں کو ہارجاناان کے نزدیک کوئی عار کی بات نہیں تھی،سود خوری کا عام رواج ہوگیا، رہزنی اور ڈکیتی کو پیشہ سمجھا جانے لگا، رات دن کے اس شغل نے عرب کو درندہ بنادیا ، زندہ جانور کے کوہان کو کاٹ لیتے، پیٹ چاک کرکلیجہ نکال لیتےاور اس کا کباب بناکر خوب مزے سے کھاتے، زنااور فسق وفجور عام ہوگیا، عورتوں اور کمزوروں کے ساتھ کون سا ظلم ہے جو کیا نہیں جاتا، لڑکی پیدا ہوتی تو گڑھا کھود کر اسمیں وہ زندہ گاڑ دی جاتی، یہ معاملہ بت پرستی سے شروع ہوااور اپنی انتہا کو پہونچ چکا،اب ایسا خیال کیا جارہا تھا کہ ہلاکت سے اس قوم کو کوئی نہیں بچا سکتا ہے، ایسے میں آخری نبی محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری ہوئی،۹/ربیع الاول روز دوشنبہ مطابق ۲۰/اپریل ۵۷۱ء میں آپ کی ولادت ہوئی، (سیرت النبی ۱۰۹/۱) ماہر القادری نے کتنی مہارت کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد اور اورآمد کےبرکات وانوار کو اپنے اشعار میں نظم کیا ہےملاحظہ کیجئے؛کچھ کفرنےفتنے پھیلانےکچھ ظلم نےشعلے بھڑکائے،سینوں میں عداوت جاگ اٹھی انسان سےانساں ٹکرائے
پامال کیا، برباد کیا، کمزوروں کو طاقت والوں نے، ظلم وستم جب حدسےگزرے تشریف محمد لےآئے
اللہ سے رشتہ کو جوڑا،باطل کے طلسموں کو توڑا،وقت کےدھارےکوموڑا،طوفاں میں سفینے تیرائے
مظلوموں کی فریادسنی، مجبوروں کی غمخواری کی،زخموں پہ خنک مرہم رکھے، بے چین دلوں کے کام آئے
عورت کو حیا کی چادر دی، غیرت کا غازہ بھی بخشا،شیشوں میں نزاکت پیدا کی ،کردار کے جوہر چمکائے،
توحید کا دھارا رک نہ سکا، اسلام کا پرچم جھک نہ سکا،کفار بہت کچھ جھنجھلائے، شیطاں نے ہزاروں بل کھائے،
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کو پہلے کفار ومشرکین نے ہلکے میں لیا، آپ پر نازل شدہ کتاب الہی قرآن کو جادوکہا ، آپ جادوگر کے لقب سے پکارے گئے، مگر جب تمام اہل عرب اس خدائی طاقت اور آخری رسول کی دعوت کی طرف بڑھنے لگےاور قبول بھی کرنے لگے تو کفار کو خوف پیدا ہوا کہ اب بتوں کی خیر نہیں ہے، عمرو بن لحی کی کوشش بیکار چلی جارہی ہے، باہم مشورہ کے بعد ایک ڈیلیگیشن محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، انہوں نے سمجھوتہ کی پیشکش کی، کہ اے محمد آپ اور ہم میں کوئی دشمنی نہیں ہے،بس معاملہ آکر بتوں پراٹک جاتا ہے کہ آپ انہیں برا بھلا کہتے ہیں ،ان کی عبادت سے لوگوں کو روکتے ہیں، کچھ آپ اپنے موقف سے نیچے آئیں، کچھ نیچے ہم لوگ بھی اترتے ہیں، آپ ہمارے معبودوں کی عبادت نہیں کرسکتے ہیں مگر احترام تو کر ہی سکتے ہیں ، ہم آپ کے اللہ کی عبادت کے لئے تیار ہیں، مگر آپ ہمارے بتوں کا خیال رکھیں اور احترام کریں، اس طرح ہم دونوں کمپرمائز کرلیتے ہیں، کسی کو کسی سے کوئی شکایت نہیں ہوگی۔
یہ پیشکش خدا کو اتنا ناگوار ہوا کہ سخت لہجے میں قرآن کے اندر ایک مکمل سورت" الکافرون " کے نام سے نازل فرمادی، اور اسمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حکم دیا کہ، اے محمد آپ یہ دوٹوک انداز میں اعلان فرمادیجئے ؛ "اے منکرو! میں عبادت نہیں کرتا ان کی جنکی تم عبادت کرتے ہو۔اور تم عبادت کرنے والے نہیں ہو اس کی جس کی میں عبادت کرتا ہوں، اور میں کبھی عبادت کرنے والا نہیں تمہارے معبودوں کی، اور تم بھی قطعا عبادت کرنے والے نہیں میرے وحدہ لاشریک لہ معبود کی، تمہارے لئے تمہارا دین ہے اور میرے لئے میرا دین ،(سورہ الکافرون)
قرآن کریم نے کفار ومشرکین کےاس سمجھوتہ کو مسترد کردیا،کہ ایسا معاہدہ کبھی انجام نہیں پاسکتاہے ،مذہب اسلام میں ایک خدا کی عبادت کی جاتی ہے، اسی ایک اللہ کی دعوت دی جارہی ہے،اور دوسری طرف ہزاروں دیوی دیوتا ہیں، جنکا کوئی شمار نہیں ہے،دراصل ہر طرح کی برائیاں تو کفر وشرک سے ہی پیدا ہوتی ہیں، اہل عرب کی تاریخ اس بات کی شہادت دیتی ہے، ہمارا اور تمہارا راستہ بالکل جداجدا ہے، ایسے میں بتوں کے معاملے میں مذہب اسلام کا کوئی کمپرمائز نہیں ہوسکتا ہے،ایسے سمجھوتہ کا تو سوال بھی پیدا نہیں ہوتا ہے۔اس قرانی موقف کا نتیجہ کچھ ہی دنوں میں سامنے آگیا،اور دنیا نے وہ منظر بھی دیکھ لیا کہ مکہ فتح ہوگیا ہے،خانہ کعبہ بتوں سے صاف ہوگیا ہے،ساتھ ہی پورے عرب سےبھی بت پرستی کا خاتمہ ہوچکا ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ کے موقع پر پہلے کعبہ شریف میں تشریف لے گئے، ہاتھ میں ایک چھڑی تھی،اس سے اشارہ کرتے اور بت منھ کے بل گر پڑتا تھا، زبان مبارک پر قرآن کی آیت جاری تھی؛حق آیا اور باطل مٹ گیا، باطل مٹنے کے لئے ہی آیا تھا، (سورہ بنی اسرائیل ۹)
یہ ربیع الاول کا مہینہ ہے،اسمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت ہوئی ہے، صحیح روایت کے مطابق اس مہینہ کی نویں تاریخ بروز سوموار آپ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں تشریف لائے ہیں، یہ حسن اتفاق ہے کہ اس مہینہ کی نویں تاریخ کو دن سوموار ہی کا ہے،ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ہونے کی حیثیت سے اور تبلیغ دین کا جو فرض ہمارے کندھے پر ہے،اس کا احساس کرتے ہوئے یہ عزم کرنا ہے کہ دین اور توحید کے معاملے میں ہم کسی طرح کا کوئی کمپرمائز نہیں کریں گے۔یہ ماہ ربیع الاول کا سب سے بڑا پیغام ہے، موجودہ وقت کی یہ شدید ضرورت بھی ہے، ابھی کچھ دنوں پہلے ایک مسلم وزیر کی تصویر سوشل میڈیا میں نظر سےگزری ،انہوں نےاپنی شکل وصورت ایک مہنت جیسی بنارکھی ہے،اور شیو لنگ پرموصوف جل ابھیشک کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں،یہ کمپرمائز نہیں تو اور کیا ہے؟اس طرح کام بالخصوص مسلم سیاسی لیڈران ووٹ کی خاطر کرتے رہتے ہیں جبکہ مذہب اسلام میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے، یہ ایمان وعقیدہ کے منافی عمل ہے۔
آج پھر عمرو بن لحی نئے روپ میں ہمارے سامنے آگیا ہے،اب خانہ کعبہ نہیں بلکہ ہر خانہ خدا اس کے نشانہ پر ہے،بالخصوص ان تاریخی اور مرکزی مساجد میں بت رکھنے کی پھر آج منظم کوشش ہورہی ہے،جہاں سے بت پرستی کو پورے ملک میں فروغ دیا جاسکے،وطن عزیز میں اس وقت ہر مرکزی مسجد کو مندر میں بدلنے کی سعی ہورہی ہے، اس کا واحد مقصد توحید کےان ذیلی مراکز کو ختم کرنا اوربت پرستی کو فروغ دینا ہے۔
اس وقت ہمیں یہ عزم لینے کی ضرورت ہے کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چل کر ان تمام سازشوں کو ناکام بنادیں گے اور شیاطین کی عبادت کسی حال میں نہیں کریں گے، اس کے ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جیسے دعوتی فرائض انجام دینے ہوں گے، ارشاد ربانی ہے؛ وہ رسول ان (ان پڑھوں)کو خدا کی آیتیں سناتا اور ان کو سنوارتااور ان ان کو کتاب وحکمت سکھاتا ہے(سورہ جمعہ )
مذکورہ قرآنی آیت میں اللہ رب العزت نے نبی کے تین کام بتلائے ہیں، خدا کی کتاب کو پڑھنا اور سنانا، شرک کی نجاست سے پاک کرنا،اور کتاب وحکمت کی تعلیم دینا، یہی وہ تین چیزیں ہیں جن کی بدولت عرب سے بت پرستی کا خاتمہ ہوا ہے، موجودہ وقت ہمیں قرآن کے پیغام کو عام کرنے، شرک وبت سے بچنے اور بچانے،کتاب وسنت کی اشاعت کے لئے جانی ومالی قربانی پیش کرنے کی دعوت دیتا ہے،
یہ ربیع الاول کا مہینہ ہے، اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت ہوئی ہے، آج محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان موجود نہیں ہیں،آپ کا ظاہری وجود ہم سے چھپ گیاہے مگرآپ کی تعلیم زندہ ہے،اور آپ کی دعوت سراسر زندگی کا نام ہے، اپنی وفات سےپہلےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی موجودگی درج کراتے ہوئے یہ ارشاد فرمایا ہے؛میں دواہم چیزیں تمہارے درمیان چھوڑ کرجارہا ہوں، ایک اللہ کی کتاب اوردوسری میری سنت ہے۔
کسی کا ہبل تھا، کسی کا صفا تھا۔
تاریخ وسیرت کی کتابوں میں یہ باتیں محفوظ ہیں؛بےشمار بتوں کی پوجا کی بدولت اہل عرب نےخدا کےبھی خاندان بنادیے،فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں کہنےلگے،جنوں کی خدا سے رشتہ داریاں جوڑ دیں، ہر چمکنے والی چیز کو دیوتا سمجھتے لگے،ستاروں کی پوجا شروع ہوگئی، سورج اور چاند کی عبادت ہونےلگی، بھوت وشیاطین اور جنوں کی طاقت کے سامنےسبھی سجدہ ریز ہوگئے، عرب قوم جو کبھی کسی حکومت کے زیر اثر نہیں رہی تھی،اب آسانی سے شیطانین کی غلامی اور بندگی میں چلی گئی، عرب کے چپہ چپہ پرکاہنوں کی دکانیں کھل گئیں ، ان کی توہم پرستی کایہ حال تھاکہ زہریلے سانپ کونہیں مارتے،اور درندگی کا حال یہ تھا کہ ذرا ذرا سی بات پر ایک دوسرے کی گردن کاٹ لیتے، نشہ اور شراب میں ڈوب گئے اور ہر گھر میخانہ بن گیا ، قمار بازی فخر کی بات سمجھی جانےلگی، جوئے میں اپنی بیوی اور بچوں کو ہارجاناان کے نزدیک کوئی عار کی بات نہیں تھی،سود خوری کا عام رواج ہوگیا، رہزنی اور ڈکیتی کو پیشہ سمجھا جانے لگا، رات دن کے اس شغل نے عرب کو درندہ بنادیا ، زندہ جانور کے کوہان کو کاٹ لیتے، پیٹ چاک کرکلیجہ نکال لیتےاور اس کا کباب بناکر خوب مزے سے کھاتے، زنااور فسق وفجور عام ہوگیا، عورتوں اور کمزوروں کے ساتھ کون سا ظلم ہے جو کیا نہیں جاتا، لڑکی پیدا ہوتی تو گڑھا کھود کر اسمیں وہ زندہ گاڑ دی جاتی، یہ معاملہ بت پرستی سے شروع ہوااور اپنی انتہا کو پہونچ چکا،اب ایسا خیال کیا جارہا تھا کہ ہلاکت سے اس قوم کو کوئی نہیں بچا سکتا ہے، ایسے میں آخری نبی محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری ہوئی،۹/ربیع الاول روز دوشنبہ مطابق ۲۰/اپریل ۵۷۱ء میں آپ کی ولادت ہوئی، (سیرت النبی ۱۰۹/۱) ماہر القادری نے کتنی مہارت کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد اور اورآمد کےبرکات وانوار کو اپنے اشعار میں نظم کیا ہےملاحظہ کیجئے؛
پامال کیا، برباد کیا، کمزوروں کو طاقت والوں نے، ظلم وستم جب حدسےگزرے تشریف محمد لےآئے
اللہ سے رشتہ کو جوڑا،باطل کے طلسموں کو توڑا،وقت کےدھارےکوموڑا،طوفاں میں سفینے تیرائے
مظلوموں کی فریادسنی، مجبوروں کی غمخواری کی،زخموں پہ خنک مرہم رکھے، بے چین دلوں کے کام آئے
عورت کو حیا کی چادر دی، غیرت کا غازہ بھی بخشا،شیشوں میں نزاکت پیدا کی ،کردار کے جوہر چمکائے،
توحید کا دھارا رک نہ سکا، اسلام کا پرچم جھک نہ سکا،کفار بہت کچھ جھنجھلائے، شیطاں نے ہزاروں بل کھائے،
یہ پیشکش خدا کو اتنا ناگوار ہوا کہ سخت لہجے میں قرآن کے اندر ایک مکمل سورت" الکافرون " کے نام سے نازل فرمادی، اور اسمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حکم دیا کہ، اے محمد آپ یہ دوٹوک انداز میں اعلان فرمادیجئے ؛ "اے منکرو! میں عبادت نہیں کرتا ان کی جنکی تم عبادت کرتے ہو۔اور تم عبادت کرنے والے نہیں ہو اس کی جس کی میں عبادت کرتا ہوں، اور میں کبھی عبادت کرنے والا نہیں تمہارے معبودوں کی، اور تم بھی قطعا عبادت کرنے والے نہیں میرے وحدہ لاشریک لہ معبود کی، تمہارے لئے تمہارا دین ہے اور میرے لئے میرا دین ،(سورہ الکافرون)
قرآن کریم نے کفار ومشرکین کےاس سمجھوتہ کو مسترد کردیا،کہ ایسا معاہدہ کبھی انجام نہیں پاسکتاہے ،مذہب اسلام میں ایک خدا کی عبادت کی جاتی ہے، اسی ایک اللہ کی دعوت دی جارہی ہے،اور دوسری طرف ہزاروں دیوی دیوتا ہیں، جنکا کوئی شمار نہیں ہے،دراصل ہر طرح کی برائیاں تو کفر وشرک سے ہی پیدا ہوتی ہیں، اہل عرب کی تاریخ اس بات کی شہادت دیتی ہے، ہمارا اور تمہارا راستہ بالکل جداجدا ہے، ایسے میں بتوں کے معاملے میں مذہب اسلام کا کوئی کمپرمائز نہیں ہوسکتا ہے،ایسے سمجھوتہ کا تو سوال بھی پیدا نہیں ہوتا ہے۔اس قرانی موقف کا نتیجہ کچھ ہی دنوں میں سامنے آگیا،اور دنیا نے وہ منظر بھی دیکھ لیا کہ مکہ فتح ہوگیا ہے،خانہ کعبہ بتوں سے صاف ہوگیا ہے،ساتھ ہی پورے عرب سےبھی بت پرستی کا خاتمہ ہوچکا ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ کے موقع پر پہلے کعبہ شریف میں تشریف لے گئے، ہاتھ میں ایک چھڑی تھی،اس سے اشارہ کرتے اور بت منھ کے بل گر پڑتا تھا، زبان مبارک پر قرآن کی آیت جاری تھی؛حق آیا اور باطل مٹ گیا، باطل مٹنے کے لئے ہی آیا تھا، (سورہ بنی اسرائیل ۹)
یہ ربیع الاول کا مہینہ ہے،اسمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت ہوئی ہے، صحیح روایت کے مطابق اس مہینہ کی نویں تاریخ بروز سوموار آپ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں تشریف لائے ہیں، یہ حسن اتفاق ہے کہ اس مہینہ کی نویں تاریخ کو دن سوموار ہی کا ہے،ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ہونے کی حیثیت سے اور تبلیغ دین کا جو فرض ہمارے کندھے پر ہے،اس کا احساس کرتے ہوئے یہ عزم کرنا ہے کہ دین اور توحید کے معاملے میں ہم کسی طرح کا کوئی کمپرمائز نہیں کریں گے۔یہ ماہ ربیع الاول کا سب سے بڑا پیغام ہے، موجودہ وقت کی یہ شدید ضرورت بھی ہے، ابھی کچھ دنوں پہلے ایک مسلم وزیر کی تصویر سوشل میڈیا میں نظر سےگزری ،انہوں نےاپنی شکل وصورت ایک مہنت جیسی بنارکھی ہے،اور شیو لنگ پرموصوف جل ابھیشک کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں،یہ کمپرمائز نہیں تو اور کیا ہے؟اس طرح کام بالخصوص مسلم سیاسی لیڈران ووٹ کی خاطر کرتے رہتے ہیں جبکہ مذہب اسلام میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے، یہ ایمان وعقیدہ کے منافی عمل ہے۔
آج پھر عمرو بن لحی نئے روپ میں ہمارے سامنے آگیا ہے،اب خانہ کعبہ نہیں بلکہ ہر خانہ خدا اس کے نشانہ پر ہے،بالخصوص ان تاریخی اور مرکزی مساجد میں بت رکھنے کی پھر آج منظم کوشش ہورہی ہے،جہاں سے بت پرستی کو پورے ملک میں فروغ دیا جاسکے،وطن عزیز میں اس وقت ہر مرکزی مسجد کو مندر میں بدلنے کی سعی ہورہی ہے، اس کا واحد مقصد توحید کےان ذیلی مراکز کو ختم کرنا اوربت پرستی کو فروغ دینا ہے۔
اس وقت ہمیں یہ عزم لینے کی ضرورت ہے کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چل کر ان تمام سازشوں کو ناکام بنادیں گے اور شیاطین کی عبادت کسی حال میں نہیں کریں گے، اس کے ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جیسے دعوتی فرائض انجام دینے ہوں گے، ارشاد ربانی ہے؛ وہ رسول ان (ان پڑھوں)کو خدا کی آیتیں سناتا اور ان کو سنوارتااور ان ان کو کتاب وحکمت سکھاتا ہے(سورہ جمعہ )
مذکورہ قرآنی آیت میں اللہ رب العزت نے نبی کے تین کام بتلائے ہیں، خدا کی کتاب کو پڑھنا اور سنانا، شرک کی نجاست سے پاک کرنا،اور کتاب وحکمت کی تعلیم دینا، یہی وہ تین چیزیں ہیں جن کی بدولت عرب سے بت پرستی کا خاتمہ ہوا ہے، موجودہ وقت ہمیں قرآن کے پیغام کو عام کرنے، شرک وبت سے بچنے اور بچانے،کتاب وسنت کی اشاعت کے لئے جانی ومالی قربانی پیش کرنے کی دعوت دیتا ہے،
یہ ربیع الاول کا مہینہ ہے، اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت ہوئی ہے، آج محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان موجود نہیں ہیں،آپ کا ظاہری وجود ہم سے چھپ گیاہے مگرآپ کی تعلیم زندہ ہے،اور آپ کی دعوت سراسر زندگی کا نام ہے، اپنی وفات سےپہلےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی موجودگی درج کراتے ہوئے یہ ارشاد فرمایا ہے؛میں دواہم چیزیں تمہارے درمیان چھوڑ کرجارہا ہوں، ایک اللہ کی کتاب اوردوسری میری سنت ہے۔