ماہنامہ الفاران
ماہِ ربیع الاول - ۱۴۴۵
حضور" ﷺ "اقدس کے دعوتی خطوط کی شان
جناب حضرت مولانا مدثراحمد قاسمی صاحب، ڈائریکٹر :الغزالی انٹرنیشنل اسکول،ارریہ،بہار
ایک ایسے وقت میں جبکہ دنیا بھر کی حکومتیں قیام امن کے لئے دوطرفہ بات چیت کو بہت اہمیت دیتی ہیں اور اس کے لئے الگ الگ پلیٹ فارم سے مختلف نوعیت کی گفت و شنید بھی ہوتی ہے؛ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے سفارتی تعلقات کے قیام کیلئے کی جانے والی کوششوں اور مختلف بادشاہوں، اُمراء اور قبائلی سرداروں کی جانب بھیجے گئے خطوط کی اہمیت کو سمجھنا بہت آسان ہے۔
ایک ایسے وقت میں جبکہ دنیا بھر کی حکومتیں قیام امن کے لئے دوطرفہ بات چیت کو بہت اہمیت دیتی ہیں اور اس کے لئے الگ الگ پلیٹ فارم سے مختلف نوعیت کی گفت و شنید بھی ہوتی ہے؛ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے سفارتی تعلقات کے قیام کیلئے کی جانے والی کوششوں اور مختلف بادشاہوں، اُمراء اور قبائلی سرداروں کی جانب بھیجے گئے خطوط کی اہمیت کو سمجھنا بہت آسان ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ اسلام نے اپنی بڑھتی طاقت کے زعم میں کبھی مد مقابل پر چڑھائی کا راستہ نہیں اپنا یا بلکہ گفت و شنید کو اولیت دی۔
چنانچہ دنیا کی تاریخ میں یہ ریکارڈ موجود ہے کہ صلح حدیبیہ کے بعد سنہ ۷؍ ہجری میں رسول ﷺ نے اسلام کی پر امن دعوت کو دنیا کے تمام ملوک و سلاطین تک پہنچانے کیلئے مختلف نمائندوں کو اپنے خطوط کے ساتھ بھیجا تھا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جن بادشاہوں اور امراء کے نام دعوتی خطوط بھیجے ان میں سے نمایاں نام یہ ہیں: شاہ حبشہ اصحمہ نجاشی، شاہ روم قیصر ہرقل، شاہ فارس کسریٰ خسرو پرویز، شاہ اسکندریہ ومصر مقوقس، شاہ بحرین منذر بن ساویٰ، شاہ یمامہ ہوذہ بن علی، شاہ دمشق حارث غسانی، شاہ عمان جیفر وعبد، اہل نجران، مسیلمہ کذاب، بنو جذامہ، بنو بکر بن وائل، ذی الکلاع وغیرہ۔(تاریخ اسلام)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دعوتی خطوط کا نتیجہ یہ نکلا کہ چند امراء کے علاوہ اکثر امراء وقبائل نے اسلام قبول کر لیا اور کفر وشرک کے اندھیروں سے نکل کر ایمان و اسلام کی روشنی میں آ گئے۔ اس کے ساتھ مراسلات کے ذریعہ دی جانے والی دعوت کو قبول کرتے ہوئے مندرجہ ذیل قبائل بھی وفود کی صورت میں دربار رسالت ﷺ میں حاضر ہوئے: وفد عبد القیس، وفد اشعریین، وفد کندہ، وفد ازد، وفد ہمدان، وفد غامد، وفد نخع، وفد بنی الحارث، وفد دوس، وفد تجیب، وفد بہرا، وفد بلی، اور وفد نجران و حضرموت۔(تاریخ اسلام)
در اصل نبی اکرم ؐ کے خطوط ہی اتنے معقول اور دل کو اپیل کر نے والے تھے کہ جن سلاطین اور اُمراء کے نام یہ خطوط لکھے گئے تھے، ان میں سے اکثر کے دل کی کیفیت اس طرح بدلی کہ وہ دامن اسلام میں بے تابانہ کھینچے چلے آئے۔ آپؐ کے پرکشش اسلوبِ نگارش کو بیان کرتے ہوئے ملک کے معروف صاحب قلم مولانا ندیم الو ا جدی لکھتے ہیں: ’’دعوتی خطوط کا آغاز مکتوب نگار اور مکتوب الیہم کے ناموں کی وضاحت سے ہوتا ہے، پھر نام کے ساتھ یہ وضاحت ہے کہ لکھنے والا اللہ کا رسول ہے، اور جس کو لکھا گیا ہے اس کے عہدے اور منصب کی صراحت بھی ہے، نجاشی اور قیصر روم وغیرہ کے خطوط میں رسول کے ساتھ عبد کا اضافہ بھی ہے، کہ یہ دراصل عیسائیوں کے اس عقیدے کی تردید ہے کہ وہ اپنے پیغمبر کو خدا کا درجہ دیتے ہیں، جبکہ رسول صرف رسول ہوتا ہے، خدا نہیں ہوتا، پرویز شہنشاہ فارس کے نام خط میں اللہ رب العزت کی وحدانیت پر خاص زور دیا گیا ہے، کیوں کہ ان کے یہاں دو خداؤں یزداں اوراہرمن کا تصور موجود تھا، انہیں یہ بتلانے کی ضرورت تھی کہ خدا ایک ہے، اسی طرح بت پرست مشرکین کو بھی ایک خدا کے تصور سے آشنا اور متعارف کرایا گیا ہے، یہود ونصاری کو ان کی کتابوں کے حوالے سے یہ بتلایا گیا ہے کہ میری نبوت کا ذکر تمہاری تورات اور انجیل میں موجود ہے۔ ان خطوط میں کسی طرح کی کوئی دھمکی نہیں ہے، نہ کسی جنگ کا ذکر ہے، بلکہ صاف لفظوں میں تلقین کی گئی ہے کہ ایمان لے آؤ، سلامت رہو گے، اگر مسلمان ہوجاتے ہو تو تمہارا یہ ملک، تمہاری بادشاہت اور شہنشاہیت اور امارت و حکومت سب باقی رہے گا، اپنے باشندوں کو بھی اسلام قبول کرنے کیلئے کہو، ورنہ ان کے غیر مسلم رہ جانے کا گناہ تمہارے سر پر ہوگا، لیکن رعایا کیلئے اسلام قبول کرنے میں کسی طرح کی کوئی زور زبردستی نہیں ہے، قبول کرلیں تو بہت اچھا، نہ قبول کریں تو وہ تمہارے ملک میں رہیں گے، مگر انہیں جزیہ ادا کرنا ہوگا، ان کی حفاظت کی ذمہ داری تمہاری ہوگی۔‘‘
محققین کے مطابق حضورؐ کےخطوط کی تعداد ۳۰۰؍ کے قریب ہے، ان میں سے ۱۳۹؍ خطوط ایسے ہیں جن کا اصل متن محفوظ ہے اور ۸۶؍ خطوط وہ ہیں جن کا صرف مفہوم کتب میں ذکر کیا گیا ہے۔ (مکتوبات نبویؐ) سیرت کی کتابوں میں آپؐ کے مکتوبات کا علاحدہ باب ہے جس کامطالعہ ضروری ہے۔
گزشتہ۲؍ صدیوں میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ۶؍ مکتوبات اپنی اصلی حالت میں دستیاب ہوچکے ہیں، یہ مکاتیب نجاشی شاہ حبشہ، منذر بن ساوی گورنر بحرین، قیصر روم ہرقل، شاہ مصر و اسکندریہ مقوقس، شہنشاہ ایران خسرو پرویز کسریٰ اور شاہ عمان جیفر و عبدان کے نام ہیں۔(مکتوبات نبویؐ)
ان خطوط کے علاوہ نبیؐ اکرم نے زبانی طور پر اپنے سامنے والے کو جو پیغام امن دیا ہے وہ رہتی دنیا تک مشعل راہ ہے۔اس کی ایک روشن مثال پر غور فرمائیں: حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فتح مکہ کے موقع پر جب ابوسفیان کو دیکھا تو بلند آواز سے کہا کہ اے ابوسفیان! آج گھمسان کی جنگ کا دن ہے۔ آج کعبہ میں خونریزی حلال کر دی جائے گی۔ اس جملے کے جواب میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خفگی کا اظہار فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ سعد بن عبادہ نے غلط کہا، بلکہ آج کا دن تو رحمت کا دن ہے۔
مذکورہ باتوں کے پس منظر میں ایک منصف مزاج محقق یہ ضرور کہے گا کہ تجزیاتی مطا لعہ کے بغیر یہ کہہ دینا کہ اسلام نے تبلیغ کے لئے تشدد کا راستہ اپنا یا تھا یا اسلام بزور شمشیر دنیا میں پھیلا، مبنی بر حق نہیں ہے۔یہاں مسلمانوں کو یہ بات ضرور سمجھنی چاہئے کہ غیر مسلموں کو اسلام کی خوبیوں سے واقف کرانے کیلئے بالکلیہ خاموشی اور جارحانہ طرز عمل مناسب طریقہ نہیں ہے بلکہ ہمیں جب بھی موقع ملے تقریری و تحریری اسلوب میں قرآن کی ذیل میں ذکر کردہ حکمت کو ضرور استعمال کریں:
’’(اے رسولؐ) آپ اپنے رب کی راہ کی طرف حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ بلائیے اور ان سے بحث ایسے انداز سے کیجئے جو نہایت حسین ہو، بیشک آپ کا رب اس شخص کو (بھی) خوب جانتا ہے جو اس کی راہ سے بھٹک گیا اور وہ ہدایت یافتہ لوگوں کو (بھی) خوب جانتا ہے۔‘‘ (النحل:۱۲۵)
ایک ایسے وقت میں جبکہ دنیا بھر کی حکومتیں قیام امن کے لئے دوطرفہ بات چیت کو بہت اہمیت دیتی ہیں اور اس کے لئے الگ الگ پلیٹ فارم سے مختلف نوعیت کی گفت و شنید بھی ہوتی ہے؛ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے سفارتی تعلقات کے قیام کیلئے کی جانے والی کوششوں اور مختلف بادشاہوں، اُمراء اور قبائلی سرداروں کی جانب بھیجے گئے خطوط کی اہمیت کو سمجھنا بہت آسان ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ اسلام نے اپنی بڑھتی طاقت کے زعم میں کبھی مد مقابل پر چڑھائی کا راستہ نہیں اپنا یا بلکہ گفت و شنید کو اولیت دی۔
چنانچہ دنیا کی تاریخ میں یہ ریکارڈ موجود ہے کہ صلح حدیبیہ کے بعد سنہ ۷؍ ہجری میں رسول ﷺ نے اسلام کی پر امن دعوت کو دنیا کے تمام ملوک و سلاطین تک پہنچانے کیلئے مختلف نمائندوں کو اپنے خطوط کے ساتھ بھیجا تھا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جن بادشاہوں اور امراء کے نام دعوتی خطوط بھیجے ان میں سے نمایاں نام یہ ہیں: شاہ حبشہ اصحمہ نجاشی، شاہ روم قیصر ہرقل، شاہ فارس کسریٰ خسرو پرویز، شاہ اسکندریہ ومصر مقوقس، شاہ بحرین منذر بن ساویٰ، شاہ یمامہ ہوذہ بن علی، شاہ دمشق حارث غسانی، شاہ عمان جیفر وعبد، اہل نجران، مسیلمہ کذاب، بنو جذامہ، بنو بکر بن وائل، ذی الکلاع وغیرہ۔(تاریخ اسلام)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دعوتی خطوط کا نتیجہ یہ نکلا کہ چند امراء کے علاوہ اکثر امراء وقبائل نے اسلام قبول کر لیا اور کفر وشرک کے اندھیروں سے نکل کر ایمان و اسلام کی روشنی میں آ گئے۔ اس کے ساتھ مراسلات کے ذریعہ دی جانے والی دعوت کو قبول کرتے ہوئے مندرجہ ذیل قبائل بھی وفود کی صورت میں دربار رسالت ﷺ میں حاضر ہوئے: وفد عبد القیس، وفد اشعریین، وفد کندہ، وفد ازد، وفد ہمدان، وفد غامد، وفد نخع، وفد بنی الحارث، وفد دوس، وفد تجیب، وفد بہرا، وفد بلی، اور وفد نجران و حضرموت۔(تاریخ اسلام)
در اصل نبی اکرم ؐ کے خطوط ہی اتنے معقول اور دل کو اپیل کر نے والے تھے کہ جن سلاطین اور اُمراء کے نام یہ خطوط لکھے گئے تھے، ان میں سے اکثر کے دل کی کیفیت اس طرح بدلی کہ وہ دامن اسلام میں بے تابانہ کھینچے چلے آئے۔ آپؐ کے پرکشش اسلوبِ نگارش کو بیان کرتے ہوئے ملک کے معروف صاحب قلم مولانا ندیم الو ا جدی لکھتے ہیں: ’’دعوتی خطوط کا آغاز مکتوب نگار اور مکتوب الیہم کے ناموں کی وضاحت سے ہوتا ہے، پھر نام کے ساتھ یہ وضاحت ہے کہ لکھنے والا اللہ کا رسول ہے، اور جس کو لکھا گیا ہے اس کے عہدے اور منصب کی صراحت بھی ہے، نجاشی اور قیصر روم وغیرہ کے خطوط میں رسول کے ساتھ عبد کا اضافہ بھی ہے، کہ یہ دراصل عیسائیوں کے اس عقیدے کی تردید ہے کہ وہ اپنے پیغمبر کو خدا کا درجہ دیتے ہیں، جبکہ رسول صرف رسول ہوتا ہے، خدا نہیں ہوتا، پرویز شہنشاہ فارس کے نام خط میں اللہ رب العزت کی وحدانیت پر خاص زور دیا گیا ہے، کیوں کہ ان کے یہاں دو خداؤں یزداں اوراہرمن کا تصور موجود تھا، انہیں یہ بتلانے کی ضرورت تھی کہ خدا ایک ہے، اسی طرح بت پرست مشرکین کو بھی ایک خدا کے تصور سے آشنا اور متعارف کرایا گیا ہے، یہود ونصاری کو ان کی کتابوں کے حوالے سے یہ بتلایا گیا ہے کہ میری نبوت کا ذکر تمہاری تورات اور انجیل میں موجود ہے۔ ان خطوط میں کسی طرح کی کوئی دھمکی نہیں ہے، نہ کسی جنگ کا ذکر ہے، بلکہ صاف لفظوں میں تلقین کی گئی ہے کہ ایمان لے آؤ، سلامت رہو گے، اگر مسلمان ہوجاتے ہو تو تمہارا یہ ملک، تمہاری بادشاہت اور شہنشاہیت اور امارت و حکومت سب باقی رہے گا، اپنے باشندوں کو بھی اسلام قبول کرنے کیلئے کہو، ورنہ ان کے غیر مسلم رہ جانے کا گناہ تمہارے سر پر ہوگا، لیکن رعایا کیلئے اسلام قبول کرنے میں کسی طرح کی کوئی زور زبردستی نہیں ہے، قبول کرلیں تو بہت اچھا، نہ قبول کریں تو وہ تمہارے ملک میں رہیں گے، مگر انہیں جزیہ ادا کرنا ہوگا، ان کی حفاظت کی ذمہ داری تمہاری ہوگی۔‘‘
محققین کے مطابق حضورؐ کےخطوط کی تعداد ۳۰۰؍ کے قریب ہے، ان میں سے ۱۳۹؍ خطوط ایسے ہیں جن کا اصل متن محفوظ ہے اور ۸۶؍ خطوط وہ ہیں جن کا صرف مفہوم کتب میں ذکر کیا گیا ہے۔ (مکتوبات نبویؐ) سیرت کی کتابوں میں آپؐ کے مکتوبات کا علاحدہ باب ہے جس کامطالعہ ضروری ہے۔
گزشتہ۲؍ صدیوں میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ۶؍ مکتوبات اپنی اصلی حالت میں دستیاب ہوچکے ہیں، یہ مکاتیب نجاشی شاہ حبشہ، منذر بن ساوی گورنر بحرین، قیصر روم ہرقل، شاہ مصر و اسکندریہ مقوقس، شہنشاہ ایران خسرو پرویز کسریٰ اور شاہ عمان جیفر و عبدان کے نام ہیں۔(مکتوبات نبویؐ)
ان خطوط کے علاوہ نبیؐ اکرم نے زبانی طور پر اپنے سامنے والے کو جو پیغام امن دیا ہے وہ رہتی دنیا تک مشعل راہ ہے۔اس کی ایک روشن مثال پر غور فرمائیں: حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فتح مکہ کے موقع پر جب ابوسفیان کو دیکھا تو بلند آواز سے کہا کہ اے ابوسفیان! آج گھمسان کی جنگ کا دن ہے۔ آج کعبہ میں خونریزی حلال کر دی جائے گی۔ اس جملے کے جواب میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خفگی کا اظہار فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ سعد بن عبادہ نے غلط کہا، بلکہ آج کا دن تو رحمت کا دن ہے۔
مذکورہ باتوں کے پس منظر میں ایک منصف مزاج محقق یہ ضرور کہے گا کہ تجزیاتی مطا لعہ کے بغیر یہ کہہ دینا کہ اسلام نے تبلیغ کے لئے تشدد کا راستہ اپنا یا تھا یا اسلام بزور شمشیر دنیا میں پھیلا، مبنی بر حق نہیں ہے۔یہاں مسلمانوں کو یہ بات ضرور سمجھنی چاہئے کہ غیر مسلموں کو اسلام کی خوبیوں سے واقف کرانے کیلئے بالکلیہ خاموشی اور جارحانہ طرز عمل مناسب طریقہ نہیں ہے بلکہ ہمیں جب بھی موقع ملے تقریری و تحریری اسلوب میں قرآن کی ذیل میں ذکر کردہ حکمت کو ضرور استعمال کریں:
’’(اے رسولؐ) آپ اپنے رب کی راہ کی طرف حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ بلائیے اور ان سے بحث ایسے انداز سے کیجئے جو نہایت حسین ہو، بیشک آپ کا رب اس شخص کو (بھی) خوب جانتا ہے جو اس کی راہ سے بھٹک گیا اور وہ ہدایت یافتہ لوگوں کو (بھی) خوب جانتا ہے۔‘‘ (النحل:۱۲۵)