ماہنامہ الفاران
ماہِ ربیع الاول - ۱۴۴۵
تعلیم دین کی ضرورت
جناب حضرت مولانا و مفتی نفیس احمد صاحب جمالپوری المظاہری؛ استاذ:حدیث و فقہ، مدرسہ قادریہ،مسروالا،ہماچل پردیش
رب تعالٰی نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے آپ غور فرمائیں کہ انسان کے ماسوا جتنی مخلوقات ہیں ان سب کی گردنیں جھکی ہوئی ہیں لیکن انسان کی گردن سیدھی کھڑی ہوئی ہے جوکہ انسان کے سردار ہونے کی بین دلیل ہے غفور رحیم نے انسان کو اتنی عقل عطا کی ہوئی ہے کہ یہ مختلف متفرق اشیاء کو یکجا کر کے طرح طرح ایجادات کو روئے زمین کی زینت بناڈالتا ہے،
بڑے بڑے صحرائی ودریائی بھانت بھانت کے حیوانات ڈیل ڈول جسم جثہ ہونے کے باوجود ایک وقت میں ایک ہی طرح کی غذا استعمال کرتے ہیں اور ہر نوع وجنس کے چرند وپرندتقریباایک ہی قسم کے گھروں میں بسیرا کرتے ہیں مگر انسان مٹی ذرات کو تراش کر محلات ، حویلیاں اور گھر اپنے رہنے کے حتی کہ اپنے جانوروں اور گاڑیوں کو رکھنے کے لیے عالیشان بلڈنگیں تعمیر کرتا ہے ۔
عقل ، بڑی نعمت اور بڑا امتحان
عقل اللہ کی عظیم نعمت ہے، اور دنیا کی ہر نعمت کی طرح یہ بھی انسان کے امتحانی پرچے کا حصہ ، بلکہ سب سےبنیادی حصہ ہے۔جس کے پاس عقل نہیں ہے، اس کا امتحان بھی نہیں ہے، اور وہ ہر ذمہ داری سے بری ہے، جسم اور مال سے زیادہ اہم امتحان عقل کا ہے، جسم اور مال کا تعلق اعمال سے ہے، اور عقل کا تعلق ایمان سے ہے، اور ظاہر ہے کہ ایمان عمل پر مقدم ہے، جب کہ دونوں ہی نجات وفلاح کے لیے ناگزیر ہیں۔امتحانی پرچے کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ اسے حل کرنے کے صحیح اور غلط دو راستے ہوتے ہیں، اور اسی کی بنا پر ناکامی اور کامیابی دونوں کے راستے اسی ایک امتحان سے نکلتے ہیں۔اس امتحان سے مفر نہیں اور اسے صحیح طور پر انجام دینے کے سوا نجات کا کوئی راستہ نہیں۔اس لیے عقل کے استعمال کو زندگی کے بنیادی اور ناگزیر کاموں میں شامل کرنا چاہیے۔ اس کا استعمال محض دنیا کی کچھ معمولی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے نہیں، بلکہ نجات اور فلاح جیسے عظیم مقاصد کے لیے ہونا چاہیے۔
عقل ، دراصل ذریعہ ہدایت ہے
وحی اللہ کی عظیم نعمت ہے، اور عقل بھی اللہ کی عظیم نعمت ہے، دونوں نعمتوں میں ایک بات مشترک ہے کہ جان بوجھ کر گمرہی کی جستجو کرنے والوں کو ان دونوں سے گمرہی ہاتھ آتی ہے، اور ہدایت تلاش کرنے والوں کو اگر وہ عقل کا استعمال کریں تو وحی سے ہدایت مل جاتی ہے۔عقل اور وحی دونوں کا اصل مقصد تو ہدایت دینا ہی ہے، البتہ اس دار الامتحان میں اللہ کی یہ سنت بھی کارفرما رہتی ہے کہ جو لوگ خود ہدایت سے بیزار یا بے نیاز ہوں ، اور ضلالت وگمرہی کو اپنا شیوہ بنالیں، انھیں نہ وحی سے کوئی فیض پہونچتا ہے، اور نہ عقل کا ہونا ان کے لیے مفید ثابت ہوتا ہے۔
وحی اور عقل میں گہرا رشتہ ہے، وحی صحیح راستے اور صحیح منزل کا پتہ دیتی ہے، عقل صحیح راستے اور صحیح منزل کی جستجو میں رہتی ہے، اور اسی وقت مطمئن ہوتی ہے، جب وہاں تک رسائی ہوجاتی ہے۔ عقل اور وحی کا ملن ہوتا ہے تو عقل کو لگتا ہے کہ گویا آنکھوں کے سامنے سے اندھیرا چھٹ گیا اور روشنی پھیل گئی۔امام فراہیؒ کہتے ہیں:"جان لو کہ ہماری راہ عقل کی راہ ہے، ہم اس پر ایمان لاتے ہیں جسے عقل خالص قبول کرلے اور فطرت کی رہنمائی کو اس پر اطمینان ہو۔ وحی اور رسولوں کی آمد تو عقل کے بالکل موافق ہوئی ، جیسے کہ نگاہ کے لیے روشنی۔ اس کی صراحت کتب مقدسہ میں بہت ہے، اور قرآن تو اس بارے میں سب سے زیادہ صریح ہے۔
یہ درست ہے کہ عقل کے پاس غیب کا علم نہیں ہوتا ہے، غیب کی باتوں پر ایمان لانے کے لیے وحی کی ضرورت ہوتی ہے، اور اسی لیے خالق حکیم نے عقل سے نوازنے کے بعد وحی کے ذریعہ ہدایت کا انتظام کیا۔ تاہم اس کے ساتھ یہ بھی سمجھنا ضروری ہے کہ عقل کے پاس غیب کا علم تو نہیں ہوتا ہے، لیکن غیب کی طرف منسوب دعووں کو جانچنے کی صلاحیت اللہ تعالی نے ضرور دی ہے۔ توحید کا تعلق غیبیات سے ہے اور شرک کا تعلق بھی غیبیات سے جوڑا جاتا ہے، آخرت کے حساب کتاب کا تعلق بھی غیبیات سے ہے، اور آواگمن کا رشتہ بھی غیبیات سے جوڑا جاتا ہے۔ سچے نبی کے پاس غیب سے وحی آتی ہے، اور جھوٹا نبی بھی غیب سے وحی آنے کا دعوی کرتا ہے، غرض غیب کی طرف بہت سی مختلف اور متضاد باتیں منسوب کی جاتی ہیں، ایسے میں انسان کے پاس عقل ہی وہ واحدچیزہے جو غیب سے منسوب مختلف باتوں میں صحیح اور غلط کا فیصلہ کرتی ہے۔
غرض وحی کو وحی ماننے کے لیے بھی انسانوں کے پاس واحد ذریعہ عقل ہے۔ یہی جھوٹے نبی اور سچے نبی میں فرق کرتی ہے، یہی انسانی کلام اور خدائی کلام میں امتیاز کرتی ہے، اور یہی اس فرق وامتیاز کے سلسلے میں اصول بتاتی ہے۔وحی کی ظاہری دلالتوں کو سمجھنے اور وحی کے باطنی اسراراور حکمتوں تک پہونچنے کا کام بھی عقل کرتی ہے۔
انسانیت کی بنیاد پر متحد ہوجاؤ
یہ دنیا تنوع سے بھری ہوئی ہے۔ یہاں مختلف فکر وخیال کے لوگ رہتے ہیں،جن کے مذاہب الگ ہیں۔ جو الگ الگ زبانیں بولتے ہیں اور الگ الگ طرز زندگی کے حامل ہیں۔ ان کے اندر رنگ و نسل کے اختلافات ہیں اور وہ ایک دوسرے سے مختلف نظریات رکھتے ہیں۔ ان اختلافات نے دنیا میں بڑی بڑی جنگیں برپا کی ہیں اور خونریز معر کے ہوئے ہیں۔ کبھی مذہب کے نام پر انسان نے انسان کا خون بہایا ہے تو کبھی زبان کے نام پر انسانی جانیں ضائع ہوئی ہیں۔ کبھی علاقے اور رنگ ونسل کے اختلافات کے سبب آدمی نے آدمی کو غلامی کی زنجیریں پہنائی ہیں اور نوع انسانی کی اس فطری آزادی کا گلا گھونٹا ہے جو اس کا پیدائشی حق ہے۔ طاقت ور نے کمزور کو دبایا اور دولت مندوں نے غریبوں کے حقوق دبائے۔ سوال یہ ہے کہ کیا دنیا میں کوئی ایسا نظام نہیں ہوسکتا جو سبھی کو ان کے حقوق دینے کی بات کرے؟ جہاں کوئی کمزور نہ ہو اور کسی کو طاقت کی بنیاد پر کسی کے ساتھ نا انصافی کرنے کی اجازت نہ ہو؟ جہاں چھوٹے اور بڑے کا فرق مٹ جائے اور رنگ و نسل کی تفریق سے اوپر اٹھ کر لوگ ایک دوسرے کے حقوق اور آزادی کا احترام کریں؟ ان سوالوں کا بس ایک جواب ہے کہ ایسا تب ہی ممکن ہے جب انسان اپنے خالق و مالک کے قانون کو تسلیم کرلے اور اس کے حکم کے مطابق اپنی زندگی بسر کرنا شروع کردے۔ جو ہمارا پیدا کرنے والا ہے اس نے تمام انسانوں کو برابر بنایا ہے اور سب کے حقوق بھی برابر رکھے ہیں۔ اس نے کسی کو زیادہ اور کسی کو کم حقوق نہیں دیئے ۔ یہ تو انسان ہے جو دوسرے انسان کے حق دبانے کی کوشش میں لگارہتا ہے ۔ وہ دوسروں کے حق مارکر اپنا حصہ زیادہ سے زیادہ کرنے کی تاک میں لگا رہتا ہے۔ اگر خدائی احکام کی بات کریں تو اس میں سب کے حقوق برابر ہیں اور سب کو انسانیت کی بنیا د پر متحد ہونے کی دعوت دی گئی ہے۔ وحدت انسانی کی دعوت اللہ کے احکام کو مجموعہ ہے قرآن کریم جس میں اللہ نے بنی نوع انسان کے لئے اپنے احکام اتارے ہیں۔
وہ اپنے بندوں سے بے حد پیار کرتا ہے اور ان پر رحم وکرم فرماتا ہے لہٰذا اس کے احکام بھی اسی نوعیت کے ہیں۔ ایک انسان دوسرے انسان کو تکلیف پہنچاکر خوش ہوتا ہے، ایک دوسرے کا حق مارکر وہ مسرت کا احساس کرتے ہیں مگر اللہ کو یہ باتیں پسند نہیں کیونکہ اس کی نظر میں اس کی تمام مخلوق برابر ہے اور کسی ایک کی تکلیف اس کے لئے بھی تکلیف کا باعث بنتی ہے۔ وہ اپنے بندوں سے محبت کرتا ہے اور اس قدر کہ کوئی ماں بھی اُتنی محبت نہیں کرسکتی۔ اس کی نظر میں اس کی مخلوقات برابر ہیں لہٰذا اس نے انھیں انسانیت کی بنیاد پر متحد ہونے کی دعوت بھی دی ہے۔ قرآن کریم کی سورہ انبیاء میں ہے: ’’اے لوگو! یہ تمہاری امت ایک ہی امت ہے، اور میں تمہارا پالنہار ہوں،تو میری ہی عبادت کرو۔‘‘ د وسری جگہ سورہ مومنون میں بھی ایک لفظ کے فرق کے ساتھ یہی حکم دہرایا گیا ہے: ’’بیشک یہ تمہاری امت ایک ہی امت ہے اور میں تمہارا پروردگار ہوں، تو مجھ سے ڈرو۔‘‘ انبیاء سابقین کسی ایک خطے، ملک ، قبیلے یا قوم میں مبعوث کئے جاتے تھے مگر نبی اکرم ﷺ تمام انسانوں کے لئے رسول بن کر تشریف لائے لہٰذا اللہ نے قرآن میںآپ کو حکم دیا: ’’کہہ دیجئے ،اے لوگو! میں تم سارے انسانوں کی طرف نبی بناکر بھیجا گیا ہوں‘‘ نبی کریم ﷺ ساری کائنات کے لئے نبی بن کر آئے اور آپ کے لائے ہوئے احکام سب کے لئے ہیں۔ اس میں کسی قسم کی تفریق نہیں ہے۔ قرآن انسانی بنیاد پر ایک ایسا معاشرہ تشکیل دیتا ہے جس میں مختلف مذاہب، الگ الگ رنگ ونسل اور طبقے کے لوگ ایک دوسرے کے ساتھ میل، محبت سے رہ سکیں۔ اسی لئے قرآن کا پیغام ہے کہ: ’’اے لوگو! ہم نے تمہیں نر اور مادہ میں پیدا کیا ہے اور خاندان وقبیلے بنائے ہیں۔ صرف اس لئے تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو، ورنہ اصل بات یہ ہے کہ اللہ کے نزدیک تم میں سے زیادہ معزز وہ ہے ، جو زیادہ پرہیز گار ہے۔‘‘
قرآن کریم کی یہ آیت وحدت انسانی کی بہترین مثال ہے۔ دنیا میں بسنے والوں کی تعداد کروڑوں میں ہے اور یہ لوگ خواہ خود کو ایک دوسرے سے برتر ظاہر کرتے ہوں مگر خود ان کے خالق کا فرمان ہے کہ انسان ہونے کی حیثیت سے وہ برابر ہیں اور ان میں سے نہ کوئی بڑا ہے اور نہ مرتبے کے لحاظ سے چھوٹا۔ اگر کسی کو برتری حاصل ہے تو صرف تقویٰ اور خوف خداوندی کی بنیاد پر۔حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اکرم ﷺ نے جو خطبہ دیا تھا اس میں بھی آپ نے مسلمانوں کے ایک بڑے مجمع کے سامنے اس بات کا اعلان کیا کہ کسی کو کسی پر فضیلت و برتری حاصل نہیں ہے۔ سب لوگ برابر ہیں اور ایک دوسرے کے بھائی ہیں۔ اللہ اور رسول نے اپنے احکام میں یہ بات واضح کردی ہے کہ حاکم ومحکوم، عربی و عجمی، سیاہ و سفید، کمزور و طاقت ور، مومن و کافرانسان ہونے کی حیثیت سے یکساں ہیں۔ وہ قانون کی نظر میں بھی برابر ہیں لہٰذا کسی کے ساتھ مذہب، ذات، رنگ و نسل یا علاقے کی بنیاد پر کوئی بھید بھاؤ نہیں کیا جاسکتا۔ گویا: بندہ و صاحب و محتاج و غنی ایک ہوئے تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے اسی تعلیم کا اثر تھا کہ امیرالمومنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بھی سیاہ فام بلال حبشی رضی اللہ عنہ کو سیدی کہہ کر خطاب کیا کرتے تھے۔ وہ بلال جن کے حقوق سے مکہ نے غلام ہونے کے سبب انکار کیا۔جو ایک کمزور مسلمان ہونے کی وجہ سے اذیتیں برداشت کرنے پر مجبور ہوئے۔وہی بلال ایک قرآن تعلیم کے سبب تاریخ اسلام کی محترم ترین ہستی بن گئے
عقل ، بڑی نعمت اور بڑا امتحان
عقل اللہ کی عظیم نعمت ہے، اور دنیا کی ہر نعمت کی طرح یہ بھی انسان کے امتحانی پرچے کا حصہ ، بلکہ سب سےبنیادی حصہ ہے۔جس کے پاس عقل نہیں ہے، اس کا امتحان بھی نہیں ہے، اور وہ ہر ذمہ داری سے بری ہے، جسم اور مال سے زیادہ اہم امتحان عقل کا ہے، جسم اور مال کا تعلق اعمال سے ہے، اور عقل کا تعلق ایمان سے ہے، اور ظاہر ہے کہ ایمان عمل پر مقدم ہے، جب کہ دونوں ہی نجات وفلاح کے لیے ناگزیر ہیں۔امتحانی پرچے کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ اسے حل کرنے کے صحیح اور غلط دو راستے ہوتے ہیں، اور اسی کی بنا پر ناکامی اور کامیابی دونوں کے راستے اسی ایک امتحان سے نکلتے ہیں۔اس امتحان سے مفر نہیں اور اسے صحیح طور پر انجام دینے کے سوا نجات کا کوئی راستہ نہیں۔اس لیے عقل کے استعمال کو زندگی کے بنیادی اور ناگزیر کاموں میں شامل کرنا چاہیے۔ اس کا استعمال محض دنیا کی کچھ معمولی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے نہیں، بلکہ نجات اور فلاح جیسے عظیم مقاصد کے لیے ہونا چاہیے۔
عقل ، دراصل ذریعہ ہدایت ہے
وحی اللہ کی عظیم نعمت ہے، اور عقل بھی اللہ کی عظیم نعمت ہے، دونوں نعمتوں میں ایک بات مشترک ہے کہ جان بوجھ کر گمرہی کی جستجو کرنے والوں کو ان دونوں سے گمرہی ہاتھ آتی ہے، اور ہدایت تلاش کرنے والوں کو اگر وہ عقل کا استعمال کریں تو وحی سے ہدایت مل جاتی ہے۔عقل اور وحی دونوں کا اصل مقصد تو ہدایت دینا ہی ہے، البتہ اس دار الامتحان میں اللہ کی یہ سنت بھی کارفرما رہتی ہے کہ جو لوگ خود ہدایت سے بیزار یا بے نیاز ہوں ، اور ضلالت وگمرہی کو اپنا شیوہ بنالیں، انھیں نہ وحی سے کوئی فیض پہونچتا ہے، اور نہ عقل کا ہونا ان کے لیے مفید ثابت ہوتا ہے۔
وحی اور عقل میں گہرا رشتہ ہے، وحی صحیح راستے اور صحیح منزل کا پتہ دیتی ہے، عقل صحیح راستے اور صحیح منزل کی جستجو میں رہتی ہے، اور اسی وقت مطمئن ہوتی ہے، جب وہاں تک رسائی ہوجاتی ہے۔ عقل اور وحی کا ملن ہوتا ہے تو عقل کو لگتا ہے کہ گویا آنکھوں کے سامنے سے اندھیرا چھٹ گیا اور روشنی پھیل گئی۔امام فراہیؒ کہتے ہیں:"جان لو کہ ہماری راہ عقل کی راہ ہے، ہم اس پر ایمان لاتے ہیں جسے عقل خالص قبول کرلے اور فطرت کی رہنمائی کو اس پر اطمینان ہو۔ وحی اور رسولوں کی آمد تو عقل کے بالکل موافق ہوئی ، جیسے کہ نگاہ کے لیے روشنی۔ اس کی صراحت کتب مقدسہ میں بہت ہے، اور قرآن تو اس بارے میں سب سے زیادہ صریح ہے۔
یہ درست ہے کہ عقل کے پاس غیب کا علم نہیں ہوتا ہے، غیب کی باتوں پر ایمان لانے کے لیے وحی کی ضرورت ہوتی ہے، اور اسی لیے خالق حکیم نے عقل سے نوازنے کے بعد وحی کے ذریعہ ہدایت کا انتظام کیا۔ تاہم اس کے ساتھ یہ بھی سمجھنا ضروری ہے کہ عقل کے پاس غیب کا علم تو نہیں ہوتا ہے، لیکن غیب کی طرف منسوب دعووں کو جانچنے کی صلاحیت اللہ تعالی نے ضرور دی ہے۔ توحید کا تعلق غیبیات سے ہے اور شرک کا تعلق بھی غیبیات سے جوڑا جاتا ہے، آخرت کے حساب کتاب کا تعلق بھی غیبیات سے ہے، اور آواگمن کا رشتہ بھی غیبیات سے جوڑا جاتا ہے۔ سچے نبی کے پاس غیب سے وحی آتی ہے، اور جھوٹا نبی بھی غیب سے وحی آنے کا دعوی کرتا ہے، غرض غیب کی طرف بہت سی مختلف اور متضاد باتیں منسوب کی جاتی ہیں، ایسے میں انسان کے پاس عقل ہی وہ واحدچیزہے جو غیب سے منسوب مختلف باتوں میں صحیح اور غلط کا فیصلہ کرتی ہے۔
غرض وحی کو وحی ماننے کے لیے بھی انسانوں کے پاس واحد ذریعہ عقل ہے۔ یہی جھوٹے نبی اور سچے نبی میں فرق کرتی ہے، یہی انسانی کلام اور خدائی کلام میں امتیاز کرتی ہے، اور یہی اس فرق وامتیاز کے سلسلے میں اصول بتاتی ہے۔وحی کی ظاہری دلالتوں کو سمجھنے اور وحی کے باطنی اسراراور حکمتوں تک پہونچنے کا کام بھی عقل کرتی ہے۔
انسانیت کی بنیاد پر متحد ہوجاؤ
یہ دنیا تنوع سے بھری ہوئی ہے۔ یہاں مختلف فکر وخیال کے لوگ رہتے ہیں،جن کے مذاہب الگ ہیں۔ جو الگ الگ زبانیں بولتے ہیں اور الگ الگ طرز زندگی کے حامل ہیں۔ ان کے اندر رنگ و نسل کے اختلافات ہیں اور وہ ایک دوسرے سے مختلف نظریات رکھتے ہیں۔ ان اختلافات نے دنیا میں بڑی بڑی جنگیں برپا کی ہیں اور خونریز معر کے ہوئے ہیں۔ کبھی مذہب کے نام پر انسان نے انسان کا خون بہایا ہے تو کبھی زبان کے نام پر انسانی جانیں ضائع ہوئی ہیں۔ کبھی علاقے اور رنگ ونسل کے اختلافات کے سبب آدمی نے آدمی کو غلامی کی زنجیریں پہنائی ہیں اور نوع انسانی کی اس فطری آزادی کا گلا گھونٹا ہے جو اس کا پیدائشی حق ہے۔ طاقت ور نے کمزور کو دبایا اور دولت مندوں نے غریبوں کے حقوق دبائے۔ سوال یہ ہے کہ کیا دنیا میں کوئی ایسا نظام نہیں ہوسکتا جو سبھی کو ان کے حقوق دینے کی بات کرے؟ جہاں کوئی کمزور نہ ہو اور کسی کو طاقت کی بنیاد پر کسی کے ساتھ نا انصافی کرنے کی اجازت نہ ہو؟ جہاں چھوٹے اور بڑے کا فرق مٹ جائے اور رنگ و نسل کی تفریق سے اوپر اٹھ کر لوگ ایک دوسرے کے حقوق اور آزادی کا احترام کریں؟ ان سوالوں کا بس ایک جواب ہے کہ ایسا تب ہی ممکن ہے جب انسان اپنے خالق و مالک کے قانون کو تسلیم کرلے اور اس کے حکم کے مطابق اپنی زندگی بسر کرنا شروع کردے۔ جو ہمارا پیدا کرنے والا ہے اس نے تمام انسانوں کو برابر بنایا ہے اور سب کے حقوق بھی برابر رکھے ہیں۔ اس نے کسی کو زیادہ اور کسی کو کم حقوق نہیں دیئے ۔ یہ تو انسان ہے جو دوسرے انسان کے حق دبانے کی کوشش میں لگارہتا ہے ۔ وہ دوسروں کے حق مارکر اپنا حصہ زیادہ سے زیادہ کرنے کی تاک میں لگا رہتا ہے۔ اگر خدائی احکام کی بات کریں تو اس میں سب کے حقوق برابر ہیں اور سب کو انسانیت کی بنیا د پر متحد ہونے کی دعوت دی گئی ہے۔ وحدت انسانی کی دعوت اللہ کے احکام کو مجموعہ ہے قرآن کریم جس میں اللہ نے بنی نوع انسان کے لئے اپنے احکام اتارے ہیں۔
وہ اپنے بندوں سے بے حد پیار کرتا ہے اور ان پر رحم وکرم فرماتا ہے لہٰذا اس کے احکام بھی اسی نوعیت کے ہیں۔ ایک انسان دوسرے انسان کو تکلیف پہنچاکر خوش ہوتا ہے، ایک دوسرے کا حق مارکر وہ مسرت کا احساس کرتے ہیں مگر اللہ کو یہ باتیں پسند نہیں کیونکہ اس کی نظر میں اس کی تمام مخلوق برابر ہے اور کسی ایک کی تکلیف اس کے لئے بھی تکلیف کا باعث بنتی ہے۔ وہ اپنے بندوں سے محبت کرتا ہے اور اس قدر کہ کوئی ماں بھی اُتنی محبت نہیں کرسکتی۔ اس کی نظر میں اس کی مخلوقات برابر ہیں لہٰذا اس نے انھیں انسانیت کی بنیاد پر متحد ہونے کی دعوت بھی دی ہے۔ قرآن کریم کی سورہ انبیاء میں ہے: ’’اے لوگو! یہ تمہاری امت ایک ہی امت ہے، اور میں تمہارا پالنہار ہوں،تو میری ہی عبادت کرو۔‘‘ د وسری جگہ سورہ مومنون میں بھی ایک لفظ کے فرق کے ساتھ یہی حکم دہرایا گیا ہے: ’’بیشک یہ تمہاری امت ایک ہی امت ہے اور میں تمہارا پروردگار ہوں، تو مجھ سے ڈرو۔‘‘ انبیاء سابقین کسی ایک خطے، ملک ، قبیلے یا قوم میں مبعوث کئے جاتے تھے مگر نبی اکرم ﷺ تمام انسانوں کے لئے رسول بن کر تشریف لائے لہٰذا اللہ نے قرآن میںآپ کو حکم دیا: ’’کہہ دیجئے ،اے لوگو! میں تم سارے انسانوں کی طرف نبی بناکر بھیجا گیا ہوں‘‘ نبی کریم ﷺ ساری کائنات کے لئے نبی بن کر آئے اور آپ کے لائے ہوئے احکام سب کے لئے ہیں۔ اس میں کسی قسم کی تفریق نہیں ہے۔ قرآن انسانی بنیاد پر ایک ایسا معاشرہ تشکیل دیتا ہے جس میں مختلف مذاہب، الگ الگ رنگ ونسل اور طبقے کے لوگ ایک دوسرے کے ساتھ میل، محبت سے رہ سکیں۔ اسی لئے قرآن کا پیغام ہے کہ: ’’اے لوگو! ہم نے تمہیں نر اور مادہ میں پیدا کیا ہے اور خاندان وقبیلے بنائے ہیں۔ صرف اس لئے تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو، ورنہ اصل بات یہ ہے کہ اللہ کے نزدیک تم میں سے زیادہ معزز وہ ہے ، جو زیادہ پرہیز گار ہے۔‘‘
قرآن کریم کی یہ آیت وحدت انسانی کی بہترین مثال ہے۔ دنیا میں بسنے والوں کی تعداد کروڑوں میں ہے اور یہ لوگ خواہ خود کو ایک دوسرے سے برتر ظاہر کرتے ہوں مگر خود ان کے خالق کا فرمان ہے کہ انسان ہونے کی حیثیت سے وہ برابر ہیں اور ان میں سے نہ کوئی بڑا ہے اور نہ مرتبے کے لحاظ سے چھوٹا۔ اگر کسی کو برتری حاصل ہے تو صرف تقویٰ اور خوف خداوندی کی بنیاد پر۔حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اکرم ﷺ نے جو خطبہ دیا تھا اس میں بھی آپ نے مسلمانوں کے ایک بڑے مجمع کے سامنے اس بات کا اعلان کیا کہ کسی کو کسی پر فضیلت و برتری حاصل نہیں ہے۔ سب لوگ برابر ہیں اور ایک دوسرے کے بھائی ہیں۔ اللہ اور رسول نے اپنے احکام میں یہ بات واضح کردی ہے کہ حاکم ومحکوم، عربی و عجمی، سیاہ و سفید، کمزور و طاقت ور، مومن و کافرانسان ہونے کی حیثیت سے یکساں ہیں۔ وہ قانون کی نظر میں بھی برابر ہیں لہٰذا کسی کے ساتھ مذہب، ذات، رنگ و نسل یا علاقے کی بنیاد پر کوئی بھید بھاؤ نہیں کیا جاسکتا۔ گویا: بندہ و صاحب و محتاج و غنی ایک ہوئے تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے اسی تعلیم کا اثر تھا کہ امیرالمومنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بھی سیاہ فام بلال حبشی رضی اللہ عنہ کو سیدی کہہ کر خطاب کیا کرتے تھے۔ وہ بلال جن کے حقوق سے مکہ نے غلام ہونے کے سبب انکار کیا۔جو ایک کمزور مسلمان ہونے کی وجہ سے اذیتیں برداشت کرنے پر مجبور ہوئے۔وہی بلال ایک قرآن تعلیم کے سبب تاریخ اسلام کی محترم ترین ہستی بن گئے