ماہنامہ الفاران

ماہِ ربیع الاول - ۱۴۴۵

بی بی آمنہ کے پھول؛ ہوئے پہلوئے آمنہ سے ہویدا

جناب حضرت مولانا کبیر الدین صاحب فاران المظاہری؛ ناظم: مدرسہ قادریہ،مسروالا،ہماچل پردیش و سرپرست ماہنامہ "الفاران"

چھٹی صدی عیسوی عالم عر ب کا بد ترین دور کہلاتاہے جسکا دامن ان گنت قہر سامانیوں ، بے شمار عیبوں اور لاتعداد تعدیوں سے بھر ا پڑا ہے ۔
یہ دور انسانیت کے مستقبل اور اسکی بقاء اور تر قی کے لحاظ سے حددرجہ تاریک اور مایوس کن دور تھا ۔ انسان اپنی منزل مقصود سے بے خبر تھا ۔ اسکی صلاحیتوں کا اصل نشانہ کچھ موہوم خیالات، اسکی کوششوں کا حاصل کچھ چھوٹے چھوٹے دائر ے جہاں اسکی ذہانت اور قوت عمل صرف ہورہی تھی۔
وہ عادات وروایات اور رسم و رواج کے شکنجہ میں جکڑے ، قبائلی اور نسبی عصبیت میں گرفتار تھے ایک معمولی واقعہ اکثر بڑی خون ریزیوں اور طویل جنگوں کا سبب بن جاتا ۔ معرکہ آرائی ، زور آزمائی ، با ہمی تفاخر اور کبر و نخوت اسکی گھٹی میںپڑی تھی ۔ شراب و کباب اسکے دل بہلانے کاانمول تحفہ اور بے گنا ہوں کوتہ تیغ کرنا وقت کا محبوب مشغلہ تھا ۔
ساراماحول گرم اور پورا معاشرہ بارودی سرنگ بناہوا تھا گویا رہگذار عر ب ظلم و فساد ، شرک و اوہام پرستی ، بے دینی مزاج اور لادینی انداز ان کے رگ و ریشہ میں پیوست تھے ۔سارا عرب جہالت بلکہ نیم حیوانیت کے عالم میں زندگی بسر کررہاتھا ۔
مصرو یو نان میں دیوی اور عقول عشرہ خدا کے شریک کا ر سمجھے جاتے تھے ۔ یمن میں کو اکب پر ستی کا زور تھا۔ حمیر کا قبیلہ سورج کی پرستش کر تاتھا ۔ کنانہ کا خدا مہتاب تھا ۔ سارا عر ب 360 بتوں کو اپنا معبود بر حق جانتاتھا ۔ انہیں بتوں میں کوئی کا شت و زراعت کا دیوتا تھا ۔ کوئی پانی برسانے کا خدا تو کوئی اور چیز کا معبود تھا۔
ہر بت کی پوجااور اسکی خدائیت کا گن گایا جاتا ۔ اسی طرح عطارد کو خدا ماننا توکوئی مشتری کو اپنا حاجت رواء گردانتا۔ ہر ایک کا مذہب اور اس کا خدا ایک خود ساختہ خداتھا ۔ جسکی دیکھ ریکھ ، نقش و نگار ، بنائوسنگار خود مخلوق کرتی ۔ خدا خاموش تھا تماشائی اپنی خدائی پر اتر اتا ۔ عقل و شعور کے بیگا نے عربوں پر کہانت ، جھارپھونک کا گہرا نقش چھا یا ہوا تھا ۔
خدا پر ستی ایک شئی عجیب تھی خداپرست سماج میں بد عتی سمجھاجاتا ورقہ بن نوفل جیسے دو چار اہل بصیرت کے سوا سارا عرب نفسانی خواہشوں کا غلام ،خود ساختہ معبودوں کا پرستار اور ہد ایت کی روشنی سے یکسر محروم تھا ۔ گویا جز یرۃ العر ب پر شب دیجور کا سیا ہ با دل اور جہالت و عصیاں کی تاریکی چھائی ہوئی تھی ظلم و استبداد کی اندھی اور بہری قومیں انسانیت کے وجود سے تہذیب و ا خلاق کے پیرا ہن نوچ رہی تھی۔ ریگستان عر ب شرک و نافرمانی کا اڈہ بدتہذیبی اور بے دینی کا مرکز بناہوا تھا ۔ ایسی گھٹاٹوپ فضاء اور گھپ اندھیر دنیاکو تابناک بناناتھا ۔ ایسی تابناکی اور تابند گی جو ساری ظلمتوں کو محوکردیے اور تار یکیوں پر چھا جائے ۔ ہر گمراہی کو نور ہدایت سے بدل دے ۔ منتشر اجزا ء کو اتحاد کی لڑی میں پرودے جو ظلم و ستم کو عدل و انصاف میں تبدیل کردے ۔
ایسی منظم و سا ئشتہ سوسائٹی کیلئے ایک ایسی ہستی اور ایک ایسی ذات کی تخلیق کی ضرورت تھی جو ہر صفت کمال سے متصف اور کفر و ضلالت کو مٹانے کی طاقت رکھتی ہو جو تڑپتی روح کو سکون ،پیاسی زمین کو سیرابی اور بلبلاتی دنیا کو طمانیت بخشے ، جو انسانیت کا پیکر عظیم ہو ، اخلاق و کردار کا بہترین مجسمہ اور کامل ترین انسان ہو ۔
اللہ تعالیٰ نے بے تاب اور لب گور کائنات پر رحم فرمایا اور ایسی ذات کی وجود آرائی کا فیصلہ فرمایا ۔ جسکی اہمیت و عظمت کا یہ عالم ہے کہ اگر اسکی پیدائش منظور نہ ہوتی تو نہ یہ عر ش و فرش بنتے ، نہ یہ کائنات کا گلدستہ سجتا، نہ رونقیں ہوتیں اور نہ ہی دنیا کایہ نقش جمیل ہوتا۔
چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ایک مجسمہ ٔ نوری کی تخلیق فرمائی اور حضرت محمد ﷺ کو مستندرائے کیمطابق12؍ربیع الاول مطابق 20 ؍ اپریل 571؁ء کو بطن حضرت آمنہ سے ظلمت کدہ ٔ دہرمیں جلو ہ افروز و جہاں تاب فرمایا ۔
ولادت باسعادت کی شب ایوان کسریٰ متزلزل اور اسکے عالیشان محل کے چودہ کنگرے گرگئے ۔ آتشکدہ فارس بجھ گیا ۔دریائے سادہ خشک ہوگیا ۔ صنم خانومیںخاک اڑنے لگی ، بتکدے مٹی میں مل گئے آزر کدہ کی آتش بازیاں ماند پڑگئیں ، خزاں رسید ہ چمن میں بہار آنے لگی ۔ یہ وہ سال تھا جبکہ اصحاب فیل نے کعبہ پر ہاتھیوں سے حملہ کیا تھا اور اللہ کے حکم سے ابا بیل نے انہیں شکست فاش دی تھی۔
آ پ ﷺ عرب کے اس بنجر اور بے آب و گیا ہ ریتیلے میدان میں پید ا ہوئے تھے جو ظلمتوں اور جہالتوں کے اندھیروں میں ڈوباہواتھا ۔ یہ جلوہ آفرینی ناگفتہ ماحول میں ہوئی مگر پر ورش کی کیفیت انوکھی اور نرالی تھی دنیا میں تشریف آوری سے پہلے والد محترم عبد اللہ رحلت فرماگئے ، شیر خوارگی ہی میں ماں کی ممتااور شفقت بھر ی گود اور والدہ کا مبارک سایہ سرسے اٹھ چکا تھا ۔یہ وہ حالات ہیں جن میں اکثر بچوں کی فطرت اور تربیت میں بڑی کمی واقع ہوجاتی ہے ۔ مگر آپ ﷺ کی پرورش تو خالص قدرت کی نگرانی میں ہوئی ۔ عنفوان شباب رنگا رنگی سر مستی اور بد ہوشی کا ہوتا ہے مگر آپ کی جوانی کچھ اور ہی کیفیت سے گذری ۔ جبکہ قدم قدم پر فتنہ سامانیوں کا ہجوم ۔ برائیوں کا جمگھٹا، نفس کی رغبت اور اسکی تکمیل کی سہولیات ، بت خانے بھی تھے اور شاہد ان سیمیں بدن کے خلوت کدے بھی ، نغمہ ورقص کی محفلیں بھی تھیں اور فحش وبدکاری کے اڈے بھی، شرک و بد عات کاماحول بھی تھا ، کذب ولایعنی مشاغل کا مرکز بھی، بنصرت خداوندی کبھی آ پ ﷺ نہ ان آلائشوں کے قریب بھٹکے اور نہ ہی ان رنگین جلووں سے متأثر ہوئے۔
آ پ کی جوانی چاندنی سے زیا دہ اجلی اور پھول سے بڑھکر بے داغ ثابت ہوئی ، تاریخ نہیں بتا سکتی کہ حضرت محمد ﷺ کے کسی دشمن نے آپ کے کردار کے بارے میں کبھی اظہار شک کیا ہو۔
آپ ﷺنے مطالعہ فطرت کیلئے غار حراکی گوشہ نشی فرمائی زندگی گذارنے کیلئے بکر یاں چرائیں اور سوداگر ی کی ، زندگی بنانے کیلئے چشم و گوش کو واکیا اور ہر چیزکو دیدۂ عبرت کی نگاہ سے دیکھا اور آپ دنیا کے اندھیروں میں چراغ بن کر نمودار ہوئے جسکی روشنی سے عالم منور ہوا ۔ عر ب کے اس خشک ریگستان میں ایساپھول بنکر مہکے جسکی مست کردینے والی مہک کے آگے مشک و گلاب کی کوئی حقیقت نہ تھی ۔ دنیا کا کوئی گوشہ ایسانہیں رہاکہ جسمیں آپ کی مہک نے سرایت نہ کی ہو ۔ یہ ہمارے آقاء مدنی حضرت محمد الرسول اللہ ﷺ فداہ ابی والی ذات بابر کت اور دین مبین کے برحق ہو نیکی بین دلیل ہے کہ اس کا مل ترین انسان نے بارشاد خداوندی آخر ی اور کامل اصلاح کا کام اپنے ہاتھو ں لیکر کمر ہمت باندھی اور مردہ بستی اور خوابیدہ قوم کو جوایک مدت سے وحدہ لاشریک کو فراموش کرکے بتوں کے آگے سربسجود تھی۔ وہ بجلی کا کڑکا تھا یا صوت ہادی
عر ب کی زمیں جس نے ساری ہلادی
نئی اک لگن سب کے دل میںلگادی
اک آواز میں ساری بستی جگادی
یہی وہ جامع شخصیت تھی کہ جس نے خد ا فراموش قوم کو زندگی کی صحیح ڈگر اور اصل مقصد سے روشناس کرایا اور ایسا راستہ دکھایا کہ جسمیں تاقیامت مزید اصلا ح کی ضرورت اور ترمیم کی حاجت نہ رہی اور حسب فرمان خداوندی اس مقدس اور کا مل تر ین مذہب کو اسلام کے بر گذیدہ نام سے موسوم کیا ۔ بیشک ! فخر کونین حضرت محمد ﷺ نے انسان کے مختلف حیثیتوں اور صداقت کے مختلف پہلووں پرغائر نظر ڈالی کہ جو اختلافات صدیوں سے عقد لا ینحل چلے آرہے تھے سب مٹ گئے اک ایسی صدا لگائی جس نے گھروں سے نکل کر مید ان تک مسجد سے بازاروں تک کی کا یا پلٹ دی ۔
دنیا کی رت بدل گئی ، انسانوں کے مزاج بدل گئے ، ذہن بدلا ، زاویہ ٔ نگاہ بد لے ، اخلا قی قدریں بدلیں ، دستور وقانون بدلے ،حقوق و فرائض کی قسمیں بدلیں ، حلا ل و حرام کے پیمانے بد لے ، دلوں میں خداکی محبت کا شعلہ بھڑکا ، انسانوں کو اک نئی دھن لگ گئی ، قلوب میں نئی حرارت ، دماغوں میں نیا جذبہ اور سروں میں نیا سودا سماگیا اور اک ایسے مذہب کا سلسلہ شروع ہوا جو نوع انسانی کی فلاح کامل کا ذریعہ اور نجا ت کا سبب بنا ۔ جوش ملیح آبادی نے کیا خوب حق ادا کیا ہے۔ ائے کے تیرے جلال سے ہل گئی بزم کافری
رعشۂ خوب بن گیا رقص و بیا ن آذری
ائے کے تیرے بیان میں نغمہ ٔ صلح آستی
ائے کے تیرے سکوت میں خندہ بندہ پروری
چشمہ تیرے بیان کا غار حرا کی خاموشی
نغمہ تیرے سکوت کا نعرہ فتح خیبری
دراصل سرگروہ انبیا ء ﷺ کی روحانی طاقت نے اک نئی دنیا بنائی ،نئی زندگی، نیا کلچر ، نئی تہذیب اور نئی سلطنت پید ا کی ۔ آپ کے طرز عمل نے وحشت و بربر یت ظلم و فساد ، کفر وبد عات ، شرک و اوہام ،شراب و کباب غرض ہرشیطانی ماحول کو بدل کر انس وانسانیت ، عدل و انصاف ، توحید اعتقاد، اخلاق و شرافت کی تعلیم کی فضا ء قائم کی ۔زمانہ کے خارستان کو گلستان بناکر مہکا یا اور دنیا کے ہرانسان کو صراط مستقیم کی دعوت دیکر ایک کامیاب زندگی کی شاہ راہ دکھائی زندگی کی راہوں میں صالح عقیدہ کی روشنی بخشی اور تعلیم او ر ہدایت سے دنیا کو روشناس کرایا جسمیں اخوت و مودّت ، انسانیت اور یکسانیت کا درس عظیم ہے ۔ اور دونوں جہاں کی کامیابی کا راز پنہاں اور مضمر ہے ۔ ہم اس برگذیدہ ہستی کی بلند پایہ انسانیت اور عظیم شخصیت پر لاکھوں درود و سلام کا تحفہ پیش کرتے ہیں۔ نورحق جوۂ رب شان الہ ٭ ہے توبند ہ مگر اللہ اللہ
یارب صل و سلم دائما ابدا ! ٭علی حبیبک خیرالخلق کلہم !
اللہ نے آپ کو تمام دنیا کے لئے رحمت کا نمونہ بناکر بھیجااور رحمت اللعالمین کہکر آپ کو پکارا جتنے بھی نبی دنیا میں تشریف لائے سب کسی نہ کسی ایک علاقہ کیلئے مخصوص تھے مگر آپ کو اللہ نے پوری دنیا کیلئے بنی بناکر بھیجا اور جو کتاب دی اسکو تمام آسمانی کتابوں کا نچوڑ بنایا آپ نے نفس کا تزکیہ کیا ، افکار کو درست کیا ، اخلا ق کو بلند یوں تک پہچایا، اعمال کی اصلا ح کی، تقویٰ کی تعلیم دی ، احسان کا سبق پڑھایا ، عفوودرگذرکرنا سکھایا ،عزم و استقلال سے جمنا سکھایا ۔ خدمت خلق کی طرف راغب کیا ،کردار کی تعمیر کی آپ کے اخلا ق آئینہ تھے اور آپ کاعمل نمونہ آپکا ظاہرو باطن بھی ایک تھا ۔ اور قول وعمل بھی ایک تھا ایسی ذات جو ہر چیز میں کمال تک پہونچی ہوئی ہو ، وہ ذات اقدس ہی ہوسکتی ہے آپ کو اسوقت بھی عرب کے لوگ صادق اور امین کہتے تھے جبکہ آپ اللہ کے نبی نہیں بنے تھے اور اسوقت بھی لوگوں نے آپ کی صداقت و دیانت و امانت اور خدمت کی تمام لوگوں نے گواہی دی جب آپ ﷺنے رسول ہونے کا اعلان کیا آنحضرت ﷺ کی ذات اقدس کا سب سے بڑا معجزہ یہ ہے کہ جو معاشرہ آپ نے تیا ر کیا اسمیں نہ کسی کے درمیان کوئی فرق تھا نہ امتیاز چنانچہ دنیا نے دیکھاکہ اس معاشرہ میں غلا م آقابن گئے ،جو پست تھے وہ بلند ہوگئے ،جو اطاعت گذار تھے سالار بن گئے اورجو حقارت کی نظر سے دیکھے جاتے تھے انکے اعزاز پر بڑے بڑے معزز لوگ بھی رشک کرنے لگے آپ نے دنیا کو نمونہ اخلا ق ، نیا نظام تعلیم ،نیانظام معاشرت اور نیا نظام حکومت دے کر ثابت کردیا کہ پاکیزہ اصولوں پر ایک صالح نظام کس طر ح تعمیر ہو سکتاہے آج بھی ان اصولوں پر عمل کرکے دنیا میں امن و سکون اور خوشحالی لاسکتے ہیں۔ ہوئے پہلوئے آمنہ سے ہویدا دعاء خلیل اور نوید مسیحا

دیگر تصانیف

امیدوں کا چراغ

مٹی کا چراغ

کہاں گئے وہ لوگ

تذکیر و تانیث

مجلس ادارت

team

سرپرست

حضرت الحاج مولانا کبیر الدین فاران صاحب مظاہری

team

مدیر مسئول

مولانا ارشد کبیر خاقان صاحب مظاہری

team

مدیر

مفتی خالد انور پورنوی صاحب قاسمی