ماہنامہ الفاران
ماہِ صفر المظفر - ۱۴۴۵
توبہ کی حقیقت اور اس کے فوائد
جناب حضرت مولانا خورشید عالم داؤدصاحب قاسمی، مون ریز ٹرسٹ اسکول، زامبیا
آدمی سے خطا ونسیان اور گناہ ومعصیت کا صدور ہوتا رہتا ہے۔ اگر کسی آدمی سے گناہ ہوجائے؛ تو اس کی تلافی کے لیے اللہ تعالی نے توبہ کا دروازہ کھول رکھا ہے۔ قرآن وحدیث میں بار بار امت مسلمہ کو توبہ واستغفار کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ اس سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ مسلمانوں کے حق میں، توبہ کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ آدمی سے جب بھی کوئی گناہ ہوجائے؛ تو اسے فوراً سچی توبہ کرنی چاہیے۔ پھر اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ بندے کے اس گناہ کو معاف فرمادیتے ہیں اور بندہ پاک صاف ہوجاتا ہے۔ توبہ کی حقیقت کیا ہے؟ اس کی کیا شرطیں ہیں؟ اس کے فوائد کیا ہیں؟ سچی توبہ کسے کہتے ہیں؟ اس حوالے سے چند سطریں ذیل میں لکھی جارہی ہیں۔
توبہ کی حقیقت
توبہ کے معنی لوٹنے اور واپس ہونے کے ہیں۔ جب اس لفظ کی نسبت کسی بندے کی طرف ہوتی ہے، تو اس وقت اس کامعنی اپنے گناہ وخطا کو چھوڑدینااور اپنے کیے ہوئے پر نادم وپشیماں ہونا ہوتا ہے۔ توبہ کی اصطلاحی تعریف کے حوالے سے علامہ آلوسی (۱۸۰۲-۱۸۵۴ء)فرماتے ہیں: ”النَّدَمُ وَالإِقْلاَعُ عَنِ الْمَعْصِیَةِ مِنْ حَیْثُ ہِیَ مَعْصِیَةٌ، لا؛ لأَنَّ فِیہَا ضَرَرًا لِبَدَنِہِ وَمَالِہِ، وَالْعَزْمُ عَلَی عَدَمِ الْعَوْدِ إِلَیْہَا إِذَا قَدَرَ“․(روح المعانی۲۸/۱۵۸)ترجمہ:بندہ اپنے گناہوں سے باز آجائے اور اپنے کیے ہوئے پر نادم وپشیماں ہو اور گناہ سے یہ توبہ اس وجہ سے ہو کہ وہ گناہ ہے؛ اس لیے نہ ہو کہ اس میں کوئی جانی ومالی نقصان ہے اور یہ عزم وارادہ کرے کہ حتیٰ المقدور دوبارہ یہ گناہ نہیں کرے گا۔
توبہ کی شرطیں
توبہ کے لیے کچھ شرطیں بھی ہیں۔ اگر توبہ کرنے والا ان شرطوں کو ملحوظ رکھ کر، توبہ کرتا ہے، تو امید ہے کہ وہ توبہ اس کے لیے مفید اور نافع ہوگی۔ اگر توبہ کرنے والا ان شرائط کا لحاظ نہیں کرتا ہے، توممکن ہے کہ وہ توبہ مفید اور ثمر آور نہ ہو۔ توبہ کی قبولیت کے لیے کتابوں میں متعدد شرطیں مذکور ہیں۔ مگر اس حوالے سے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جو چھ شرطیں بیان کی ہے، وہ نہایت ہی جامع ہیں اور سب کے نزدیک مسلم ہیں۔وہ شرطیں یہ ہیں:
(۱) اپنے گزشتہ برے عمل پر ندامت، (۲) جو فرائض وواجبات اللہ تعالی کے چھوٹے ہیں، ان کی قضا، (۳)کسی کا مال وغیرہ ظلماً لیا تھا، تو اس کی واپسی، (۴)کسی کو ہاتھ یا زبان سے ستایا اور تکلیف پہنچائی تھی، تو اس سے معافی، (۵)آئندہ اس گناہ کے پاس نہ جانے کی پختہ عزم وارادہ (۶)اور یہ کہ جس طرح اس نے اپنے نفس کو اللہ کی نافرمانی کرتے ہوئے دیکھا ہے، اب وہ اطاعت کرتے ہوئے دیکھ لے۔ (معارف القرآن:۸/۵۰۶)
تنبیہ
عام طور پر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ گناہ کے بعد، توبہ کرلینے سے گناہ معاف ہوجاتا ہے؛ مگر یہ بات قابل غور ہے کہ اگر کسی نے کسی بندہ کا حق مار رکھا ہے یا کسی کا حق زور زبردستی چھین لیاہے؛ تو اس صورت میں صرف توبہ اور ندامت وپشیمانی کافی نہیں ہو گا؛ بل کہ جس بندہ کا حق مارا گیا ہے یا چھینا گیا ہے؛ اس کا حق ادا کرنا بھی ضروری ہے۔ پھر جاکر توبہ قبول ہوگی۔ موسوعہ فقہیہ میں ہے:”توبہ بمعنی گذشتہ اعمال پر ندامت اور آئندہ ایسا نہ کرنے کا عزم وارادہ، حقوق العباد میں سے کسی کا حق ساقط کرنے کے لیے کافی نہیں ہوگی؛ چناں چہ اگر کوئی کسی کا مال چرائے یا اس کو غصب کرلے یا کسی اور طرح سے برا سلوک کرے؛ تو محض ندامت وپشیمانی اور گناہوں سے رک جانے اور دوبارہ نہ کرنے کے عزم سے ان مسائل سے وہ بری الذمہ نہیں ہوسکتا؛ بلکہ حق کا ادا کرنا ضروری ہے یہ فقہاء کے یہاں متفق علیہ مسئلہ ہے“۔ (موسوعہ فقہیہ:۱۴/۱۵۷)
توبہ کا شرعی حکم
جب گناہ کبیرہ کا ارتکاب ہوجائے؛ تو اس سے توبہ کرنا فرض ہے۔ یہ واضح رہے کہ تمام کبیرہ گناہوں سے توبہ کرنا ضروری ہے۔ اگر کوئی شخص صرف بعض گناہوں سے توبہ کرتا؛ تو اہل حق کے نزدیک ان گناہوں سے اس کی توبہ درست ہے اور باقی گناہوں سے توبہ کرنا، اس کے ذمے باقی رہے گا۔ توبہ کا شرعی حکم یہ ہے کہ توبہ کرنا فرض ہے۔ یہ حکم قرآن وحدیث اور اجماع سے ثابت ہے۔ علماء کرام نے توبہ کی فرضیت کی دلیل میں اس آیت کریمہ کو پیش کیاہے: وَتُوبُوا إِلَی اللّٰہِ جَمِیعاً أَیُّہَا الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُونَ(نور:۳۱)ترجمہ:”اور اے مومنو!تم سب اللہ کے سامنے توبہ کرو؛ تاکہ تمھیں فلاح نصیب ہو۔“ایک حدیث شریف میں ہے: یَا أَیُّہَا النَّاسُ تُوبُوا إِلَی اللّٰہِ قَبْلَ أَنْ تَمُوتُوا،(سنن ابن ماجة، برقم:۱۰۸۱)ترجمہ:”اے لوگو!مرنے سے پہلے تم سب اللہ کے سامنے توبہ کرو“․․․․۔
توبہ کب تک ؟
جب بندہ اللہ کے سامنے توبہ کرتا ہے؛ تو اللہ تعالی اس کی توبہ قبول فرماتے ہیں۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے: وَہُوَ الَّذِی یَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِہِ وَیَعْفُو عَنِ السَّیِّئَاتِ وَیَعْلَمُ مَا تَفْعَلُون (شوری:۲۵)ترجمہ:”اور وہی ہے جو اپنے بندے کی توبہ قبول کرتا ہے اور گناہوں کو معاف کرتا ہے اور جو کچھ تم کرتے ہو، اس کا پورا علم رکھتا ہے“۔جہاں تک توبہ کی قبولیت کے وقت کی بات ہے؛ تو اللہ تعالیٰ اس وقت تک توبہ قبول فرمائیں گے؛ جب تک کہ قیامت کی بڑی نشانیوں میں سے ایک اہم نشانی یعنی سورج کا پچھم سے طلوع ہونا شروع نہ ہوجائے۔ روایت میں ہے: مَنْ تَابَ قَبْلَ أَنْ تطلُعَ الشَّمْسُ مِنْ مغْرِبِہَا تَابَ اللّٰہ علَیْہ․(صحیح مسلم، برقم:۲۷۰۳)اللہ پاک اپنے بندے کی توبہ اس وقت تک قبول فرمائیں گے، جب تک اس بندے میں موت کے آثار ظاہر نہ ہوئے ہوں۔ حدیث میں ہے: إِنَّ اللّٰہَ یَقْبَلُ تَوْبَةَ العَبْدِ مَا لَمْ یُغَرْغِرْ․(سنن ترمذی، برقم:۳۵۳۷) ترجمہ:”یقینا اللہ تعالی اس وقت تک بندے کی توبہ قبول کرتا ہے؛ جب تک کہ وہ جان کنی کی حالت میں نہ چلا جائے۔“
فورا توبہ کیجیے
آدمی سے گناہ ومعصیت کا ہونا فطری بات ہے؛ مگر جوں ہی ہمیں احساس ہو کہ ہم نے گناہ کا ارتکاب کیا ہے؛ تو اس کی تلافی کی کوشش کرنی چاہیے۔ ہمیں بدکار اورفاسق وفاجر شخص کی طرح گناہ سے بے اعتنائی نہیں برتنی چاہیے، گناہ کو معمولی چیز نہیں سمجھنا چاہیے۔ ہمیں مومن جیسے اوصاف اپنانے چاہیے۔ جب ہم سے کسی گناہ کا صدور ہوجائے؛ تو ہمیں اس گناہ کو پہاڑ جیسا بوجھ سمجھنا چاہیے اور اس سے فوراً توبہ کرنی چاہیے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: إِنَّ المُؤْمِنَ یَرَی ذُنُوبَہُ کَأَنَّہُ قَاعِدٌ تَحْتَ جَبَلٍ یَخَافُ أَنْ یَقَعَ عَلَیْہِ، وَإِنَّ الفَاجِرَ یَرَی ذُنُوبَہُ کَذُبَابٍ مَرَّ عَلَی أَنْفِہِ․(صحیح بخاری، برقم:۶۳۰۸)ترجمہ:بے شک مومن اپنے گناہوں کو اس طرح دیکھتا ہے، جیسا کہ وہ کسی پہاڑ کے نیچے بیٹھا ڈررہا ہے کہ وہ اس پر گر پڑے؛ جب کہ بدکار اپنے گناہوں کو اس مکھی کی طرح دیکھتا ہے جو اس کی ناک پر سے گزرگئی۔
ہمیں پتہ نہیں کہ کب ہم اس دنیا سے رخصت ہوجائیں؛ اس لیے ہمیں توبہ کرنے میں کوتاہی نہیں برتنی چاہیے؛ بلکہ عجلت سے کام لینا چاہیے۔ توبہ کے بعد، ہمیں امید رکھنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ہماری توبہ قبول فرمائیں گے۔ اللہ تعالی کی رحمت ومغفرت ہر وقت ہمارے توبہ کی منتظر ہے۔ اللہ تعالیٰ نہ صرف مسلمان؛ بلکہ توبہ کے بعد، کفار ومشرکین کو بھی معاف فرمادیتے ہیں۔ اللہ تعالی نصاری کے کفر وشرک کو بیان کرنے کے بعد، قرآن کریم میں ارشاد فرماتے ہیں: أَفَلَا یَتُوبُونَ إِلَی اللّٰہِ وَیَسْتَغْفِرُونَہُ وَاللّٰہُ غَفُورٌ رَحِیمٌ﴾(مائدہ:۷۴)ترجمہ: ”کیا پھر بھی یہ لوگ معافی کے لیے اللہ کی طرف رجوع نہیں کریں گے اور اس سے مغفرت نہیں مانگیں گے؟ حالاں کہ اللہ بہت بخشنے والا، بڑا مہربان ہے“۔ علامہ شبیر احمد عثمانی (۱۸۸۷-۱۹۴۹ء)فرماتے ہیں:”یہ اسی غفور رحیم کی شان ہے کہ جب ایسے ایسے باغی اور گستاخ مجرم بھی جب شرمندہ ہوکر اور اصلاح کا عزم کرکے حاضر ہوں؛ تو ایک منٹ میں عمر بھر کے جرائم معاف فرمادیتا ہے۔“(تفسیر عثمانی)
توبہ نصوح کیجیے
گناہ کے ارتکاب کے بعد، ہمیں اپنے رب کے سامنے ”توبہ نصوح“کرنی چاہیے۔ قرآن کریم میں ”توبہ نصوح“کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ توبہ نصوح کیا ہے؟ ایک روایت میں ”توبہ نصوح“کی وضاحت اس طرح کی گئی ہے: ”أَن ینْدَم العَبْد علی الذَّنب الَّذِی أصَاب فیعتذر إِلَی اللّٰہ ثمَّ لَا یعود إِلَیْہِ کَمَا لَا یعود اللَّبن إِلَی الضَّرع“․(الدر المنثور:۸/۲۲۷) ترجمہ:”کہ بندہ اس گناہ پر نادم ہو جس کا اس نے ارتکاب کیا؛ پھر اللہ کے سامنے معذرت پیش کرے، پھر بندہ اس گناہ کی طرف نہ لوٹے جیسا کہ دودھ تھن میں نہیں لوٹتا“۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے نزدیک توبہ نصوح یہ ہے: ”الندم بالقلب، والاستغفار باللسان، والإقلاع بالبدن، والإضمار علی أن لا یعود“․(القاموس الفقہی، ص:۵۰)ترجمہ:دل میں گناہ پر شرمندگی ہو، زبان سے استغفار کرے، بالکلیہ گناہ ترک کردے اور دوبارہ اسے نہ کرنے کا پختہ ارادہ کرے۔
توبہ نصوح کے بعد، اللہ تعالی اپنے بندے پر جو احسان فرمائیں گے، اس کا ذکر بھی اسی آیت کریمہ میں فرماتے ہیں جس میں توبہ نصوح کا حکم ہے:یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا تُوبُوا إِلَی اللّٰہِ تَوْبَةً نَصُوحًا عَسَی رَبُّکُمْ أَنْ یُکَفِّرَ عَنْکُمْ سَیِّئَاتِکُمْ وَیُدْخِلَکُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِی مِنْ تَحْتِہَا الْأَنْہَارُ یَوْمَ لَا یُخْزِی اللّٰہُ النَّبِیَّ وَالَّذِینَ آمَنُوا مَعَہُ نُورُہُمْ یَسْعَی بَیْنَ أَیْدِیہِمْ وَبِأَیْمَانِہِمْ یَقُولُونَ رَبَّنَا أَتْمِمْ لَنَا نُورَنَا وَاغْفِرْ لَنَا إِنَّکَ عَلَی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ․(التحریم:۸)ترجمہ:اے ایمان والو تم اللہ کے آگے سچی توبہ کرو، امید ہے کہ تمہارا رب تمہارے گناہ معاف کردے گا، اور تم کو ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی جس دن کہ اللہ تعالی نبی کو اور جو مسلمان ان کے ساتھ ہیں ان کو رسوا نہ کرے گا۔ ان کا نور ان کے داہنے اور ان کے سامنے دوڑتا ہوگا، یوں دعا کرتے ہونگے کہ اے ہمارے رب! ہمارے لیے ہمارے اس نور کو اخیر تک رکھیے اور ہماری مغفرت فرمادیجیے! آپ ہر شئے پر قادر ہیں۔
معافی اور توبہ کی ہدایت
قرآن کریم میں ارشاد ربانی ہے:اسْتَغْفِرُوا رَبَّکُمْ ثُمَّ تُوبُوا إِلَیْہِ․(ہود:۳) ترجمہ:”اور یہ (ہدایت دیتا)کہ اپنے پروردگار سے گناہوں کی معافی مانگو اور پھر اس کی طرف رجوع کرو“۔حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالی یہ نہیں چاہتے ہیں کہ جب بندہ سے گناہ سر زد ہوجائے؛ تو وہ اسی حالت میں رہے۔ اللہ تعالی اتنے رحیم وکریم ہیں کہ ہدایت دیتے ہیں کہ گناہ کے بعد، بندے ان سے معافی مانگیں اور توبہ کرکے پاک وصاف ہوجائیں۔ مفتی محمد شفیع دیوبندی (۱۸۹۷-۱۹۷۶ء) اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
”اللہ تعالی نے اپنے بندوں کو یہ بھی ہدایت فرمائی ہے کہ وہ اپنے رب سے مغفرت اور معافی مانگا کریں اور توبہ کیا کریں۔ مغفرت کا تعلق پچھلے گناہوں سے ہے اور توبہ کا تعلق آئندہ ان کے پاس نہ جانے کے عہد سے ہے۔ اور در حقیقت صحیح توبہ یہی ہے کہ پچھلے گناہوں پر نادم ہوکر اللہ تعالی سے ان کی معافی طلب کرے اور آئندہ ان کے نہ کرنے کا پختہ عزم وارادہ کرے۔“(معارف القرآن: ۴/۵۸۶)
دل کو زنگ آلود ہونے سے بچانا
انسان گناہ کرتا ہے، تو اس کے دل میں ایک سیاہ نقطہ لگا دیا جاتا ہے۔ جب وہ توبہ واستغفار کرتا ہے؛ پھر اس کا دل صاف کردیا جاتا ہے۔ مگر کوئی شخص توبہ نہ کرے؛ بل کہ مستقل گناہ کرتا رہے؛ تو وہ نقطہ بڑھتا چلا جاتا، یہاں تک کہ اس کا دل زنگ آلود ہوجاتا ہے، پھر حق قبول کرنے کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے۔ اس سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ جب بھی ہم سے کوئی گناہ ہوجائے؛ تو ہمیں فوراً توبہ کرکے دل کو زنگ آلود ہونے سے بچانا چاہیے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ”إِنَّ العَبْدَ إِذَا أَخْطَأَ خَطِیئَةً نُکِتَتْ فِی قَلْبِہِ نُکْتَةٌ سَوْدَاءُ، فَإِذَا ہُوَ نَزَعَ وَاسْتَغْفَرَ وَتَابَ سُقِلَ قَلْبُہُ، وَإِنْ عَادَ زِیدَ فِیہَا حَتَّی تَعْلُوَ قَلْبَہُ، وَہُوَ الرَّانُ الَّذِی ذَکَرَ اللَّہُ“ کَلَّا بَلْ رَانَ عَلَی قُلُوبِہِمْ مَا کَانُوا یَکْسِبُونَ․(المطففین:۱۴)(سنن ترمذی:برقم:۳۳۳۴) ترجمہ:”بے شک جب بندہ ایک گناہ کرتا ہے؛ تو ایک سیاہ نقطہ اس کے دل میں لگا دیا جاتا ہے۔ پھر جب وہ گناہ چھوڑ دیتا ہے اور استغفار وتوبہ کرتا ہے، تو اس کا دل صاف کردیا جاتا ہے۔ اور(بغیر توبہ کیے ہوئے) دوبارہ گناہ کرتا ہے؛ تو اس نقطہ میں زیادتی کردی جاتی ہے؛ تا آں کہ وہ پورے دل پر چھا جاتا ہے۔ اسی کو ”ران“کہتے ہیں جسے اللہ تعالی (قرآن کریم میں)بیان فرمایا ہے: کَلَّا بَلْ رَانَ عَلَی قُلُوبِہِمْ مَا کَانُوا یَکْسِبُونَ“۔ (ترجمہ:ہر گز نہیں، بل کہ جو عمل یہ کرتے رہے ہیں، اس نے ان کے دلوں پر زنگ چڑھا دیا ہے)۔
کثرت سے توبہ کرنے کا حکم
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کے لوگوں کو کثرت سے توبہ کرنے کا حکم فرمایا ہے۔ آپ… ایک حدیث میں، توبہ کے حوالے سے اپنے عمل کا اظہار فرمارہے ہیں کہ آپ… دن بھر میں سو مرتبہ توبہ کرتے تھے۔ آپ… کی ذات مبارک گناہوں اور خطاؤں سے پاک تھی۔ آپ … معصوم ومغفور تھے۔ اس کے باوجود آپ… کثرت سے توبہ کرتے تھے۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ آپ… کی امت یہ سیکھے کہ جب آپ… مغفور ومعصوم ہوکر بھی اتنی کثرت سے توبہ کرتے ہیں؛ تو ہمیں تو اور زیادہ توبہ واستغفار کرنا چاہیے؛ کیوں کہ ہم سے چھوٹے بڑے بے شمار گناہ شب وروز ہوتے رہتے ہیں۔ حدیث میں ہے: ”یَا أَیُّہَا النَّاسُ! تُوبُوا إِلَی اللّٰہِ، فَإِنِّی أَتُوبُ فِی الْیَوْمِ إِلَیْہِ مِائَةَ مَرَّةٍ“․(صحیح مسلم، برقم:۲۷۰۲)ترجمہ:”اے لوگو!خداکے سامنے توبہ کرو ؛ کیوں کہ میں دن بھر میں سو بار توبہ کر تا ہوں“۔ایک دوسری روایت میں ہے: ”وَاللّٰہِ إِنِّی لَأَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ، وَأَتُوبُ إِلَیْہِ، فِی الیَوْمِ أَکْثَرَ مِنْ سَبْعِینَ مَرَّةً“․(صحیح بخاری، برقم:۶۳۰۷)ترجمہ:”خدا کی قسم!میں ایک دن میں ستر بار سے زیادہ اللہ تعالی کے سامنے استغفار اور توبہ کرتا ہوں۔“
آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ نبی اکرم… نے ایک حدیث میں دن بھر میں سو مرتبہ اور دوسری میں ستّر سے بھی زیادہ مرتبہ توبہ کا ذکر فرمایا ہے۔ یہ عدد کا مطلب یہ نہیں کہ اللہ کے رسول… صرف سوبار یا ستّر بار ہی توبہ کرتے تھے؛ بل کہ مطلب یہ ہے کہ آپ… کثرت سے دن رات توبہ کرتے تھے، اس سے امت کو یہ سبق ملتا ہے کہ وہ بھی کثرت سے توبہ کریں۔
رات ودن توبہ کا انتظار
اللہ تعالی اتنے سخی اور کریم ہیں کہ اپنے بندے کا انتظار کرتے ہیں کہ وہ گناہوں کی گٹھڑی لے کر، کب ہمارے در پر آئے گا اور توبہ کرے۔ آپ اتنے کریم و غفور ہیں کہ آپ ہر وقت اپنے بندوں کی توبہ کا انتظار کرتے ہیں چاہے وہ دن میں توبہ کریں یا رات میں توبہ کریں۔ جب بندہ توبہ کرتا ہے؛ تو پروردگار کو خوشی ہوتی ہے۔ ذات باری تعالی اس بندے سے راضی ہوجاتے ہیں اور اپنی غفاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے، اس بندے کی گناہوں کو معاف فرما دیتے ہیں۔ حدیث شریف میں ہے: ”إِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ یَبْسُطُ یَدَہُ بِاللَّیْلِ لِیَتُوبَ مُسِیءُ النَّہَارِ، وَیَبْسُطُ یَدَہُ بِالنَّہَارِ لِیَتُوبَ مُسِیءُ اللَّیْلِ، حَتَّی تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِنْ مَغْرِبِہَا“․(صحیح مسلم، برقم:۲۷۵۹)ترجمہ:”اللہ پاک رات میں اپنا ہاتھ پھیلاتا ہے؛ تاکہ دن کے گنہ گار توبہ کرلیں اور اپنا ہاتھ دن میں پھیلاتا ہے؛ تاکہ رات کے گنہ گار توبہ کرلیں، یہاں تک کہ آفتاب مغرب سے طلوع ہونے لگے“۔ یعنی قیامت کے قریب تک اللہ پاک ایسا کرتے رہیں گے۔
اللہ تعالی کا اپنے ہاتھ کو پھیلانے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی اپنے بندے کی توبہ سے بہت خوش ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ بڑے سخی وکریم ہے اور اس کی رحمت بہت وسیع ہے گناہوں کو معاف کرتے ہیں اور گناہوں کو معاف کرکے خوش ہوتے ہیں۔
توبہ ایک پسندیدہ عمل
توبہ اللہ تعالی کی نظر میں ایک پسندیدہ عمل ہے۔ جو شخص گناہ اور معصیت کے بعد توبہ کرتا ہے؛ تو اللہ تعالی اس کو معاف فرما دیتے ہیں: ”لَوْلَا أَنَّکُمْ تُذْنِبُونَ لَخَلَقَ اللّٰہُ خَلْقًا یُذْنِبُونَ یَغْفِرُ لَہُمْ“․(صحیح مسلم،برقم:۲۷۴۸)ترجمہ: ”اگر تم گناہ کا ارتکاب نہ کرو؛ تو اللہ تعالی ایسی مخلوق پیدا فرمائیں گے جو گناہ کا ارتکاب کرے گی، (پھر توبہ کرے گی اور)اللہ تعالی انھیں معاف کردیں گے۔“
ایک حدیث شریف میں توبہ کرنے والے کو اس شخص سے تشبیہ دی گئی ہے، جس کے ذمے کوئی گناہ ہو ہی نہیں۔ رسول اکرم… فرماتے ہیں: ”التَّائِبُ مِنَ الذَّنْبِ، کَمَنْ لَا ذَنْبَ لَہُ“․ (سنن ابن ماجة، برقم:۴۲۵۰)ترجمہ:”گناہ سے توبہ کرنے اس شخص کی طرح ہے جس نے کوئی گناہ نہ کیا ہو۔“
اللہ تعالی توبہ سے بے انتہا خوش ہوتے ہیں
اللہ پاک توبہ کرنے والے بندے سے اس شخص سے بھی زیادہ خوش ہوتے ہیں جس نے اپنا گم شدہ اونٹ پالیا ہو۔ رسول اکرم… فرماتے ہیں: ”اللّٰہُ أَفْرَحُ بِتَوْبَةِ عَبْدِہِ مِنْ أَحَدِکُمْ سَقَطَ عَلَی بَعِیرِہِ وَقَدْ أَضَلَّہُ فِی أَرْضِ فَلَاةٍ“․(صحیح بخاری، برقم:۶۳۰۹)ترجمہ:”اللہ پاک اپنے بندے کی توبہ سے تم میں سے اس شخص کے مقابلے میں زیادہ خوش ہوتا ہے، جس نے اپنا اونٹ پالیا ہو؛ جب کہ وہ اسے ایک چٹیل میدان میں گم کرچکا تھا۔“
اس تحریر کا اختتام ایک قرآنی آیت پر کیا جارہا ہے جس میں اللہ تعالی یہ فرماتے ہیں کہ اگر بندہ کبائر اور بڑے گناہوں سے خود کو بچا لیتا ہے؛ تو اس کے چھوٹے گناہوں کو رحیم وکریم مولا خود ہی معاف کردیں گے اور اس بندے کو ایک باعزت جگہ میں داخل کریں۔ اس باعزت جگہ کا مطلب جنت ہے۔ آیت کریمہ ملاحظہ فرمائیں: ”إِنْ تَجْتَنِبُوا کَبائِرَ ما تُنْہَوْنَ عَنْہُ نُکَفِّرْ عَنْکُمْ سَیِّئاتِکُمْ، وَنُدْخِلْکُمْ مُدْخَلًا کَرِیماً“(نساء:۳۱)ترجمہ:”اگر تم ان بڑے بڑے گناہوں سے پرہیز کرو، جن سے تمھیں روکا گیا ہے؛ تو تمھاری چھوٹی برائیوں کا ہم خود کفارہ کردیں گے اور تم کو ایک باعزت جگہ داخل کریں گے۔“ اللہ تعالی ہم سب کو توبہ کی توفیق عطا فرمائے اور جنت میں داخل فرمائے!
توبہ کی حقیقت
توبہ کے معنی لوٹنے اور واپس ہونے کے ہیں۔ جب اس لفظ کی نسبت کسی بندے کی طرف ہوتی ہے، تو اس وقت اس کامعنی اپنے گناہ وخطا کو چھوڑدینااور اپنے کیے ہوئے پر نادم وپشیماں ہونا ہوتا ہے۔ توبہ کی اصطلاحی تعریف کے حوالے سے علامہ آلوسی (۱۸۰۲-۱۸۵۴ء)فرماتے ہیں: ”النَّدَمُ وَالإِقْلاَعُ عَنِ الْمَعْصِیَةِ مِنْ حَیْثُ ہِیَ مَعْصِیَةٌ، لا؛ لأَنَّ فِیہَا ضَرَرًا لِبَدَنِہِ وَمَالِہِ، وَالْعَزْمُ عَلَی عَدَمِ الْعَوْدِ إِلَیْہَا إِذَا قَدَرَ“․(روح المعانی۲۸/۱۵۸)ترجمہ:بندہ اپنے گناہوں سے باز آجائے اور اپنے کیے ہوئے پر نادم وپشیماں ہو اور گناہ سے یہ توبہ اس وجہ سے ہو کہ وہ گناہ ہے؛ اس لیے نہ ہو کہ اس میں کوئی جانی ومالی نقصان ہے اور یہ عزم وارادہ کرے کہ حتیٰ المقدور دوبارہ یہ گناہ نہیں کرے گا۔
توبہ کی شرطیں
توبہ کے لیے کچھ شرطیں بھی ہیں۔ اگر توبہ کرنے والا ان شرطوں کو ملحوظ رکھ کر، توبہ کرتا ہے، تو امید ہے کہ وہ توبہ اس کے لیے مفید اور نافع ہوگی۔ اگر توبہ کرنے والا ان شرائط کا لحاظ نہیں کرتا ہے، توممکن ہے کہ وہ توبہ مفید اور ثمر آور نہ ہو۔ توبہ کی قبولیت کے لیے کتابوں میں متعدد شرطیں مذکور ہیں۔ مگر اس حوالے سے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جو چھ شرطیں بیان کی ہے، وہ نہایت ہی جامع ہیں اور سب کے نزدیک مسلم ہیں۔وہ شرطیں یہ ہیں:
(۱) اپنے گزشتہ برے عمل پر ندامت، (۲) جو فرائض وواجبات اللہ تعالی کے چھوٹے ہیں، ان کی قضا، (۳)کسی کا مال وغیرہ ظلماً لیا تھا، تو اس کی واپسی، (۴)کسی کو ہاتھ یا زبان سے ستایا اور تکلیف پہنچائی تھی، تو اس سے معافی، (۵)آئندہ اس گناہ کے پاس نہ جانے کی پختہ عزم وارادہ (۶)اور یہ کہ جس طرح اس نے اپنے نفس کو اللہ کی نافرمانی کرتے ہوئے دیکھا ہے، اب وہ اطاعت کرتے ہوئے دیکھ لے۔ (معارف القرآن:۸/۵۰۶)
تنبیہ
عام طور پر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ گناہ کے بعد، توبہ کرلینے سے گناہ معاف ہوجاتا ہے؛ مگر یہ بات قابل غور ہے کہ اگر کسی نے کسی بندہ کا حق مار رکھا ہے یا کسی کا حق زور زبردستی چھین لیاہے؛ تو اس صورت میں صرف توبہ اور ندامت وپشیمانی کافی نہیں ہو گا؛ بل کہ جس بندہ کا حق مارا گیا ہے یا چھینا گیا ہے؛ اس کا حق ادا کرنا بھی ضروری ہے۔ پھر جاکر توبہ قبول ہوگی۔ موسوعہ فقہیہ میں ہے:”توبہ بمعنی گذشتہ اعمال پر ندامت اور آئندہ ایسا نہ کرنے کا عزم وارادہ، حقوق العباد میں سے کسی کا حق ساقط کرنے کے لیے کافی نہیں ہوگی؛ چناں چہ اگر کوئی کسی کا مال چرائے یا اس کو غصب کرلے یا کسی اور طرح سے برا سلوک کرے؛ تو محض ندامت وپشیمانی اور گناہوں سے رک جانے اور دوبارہ نہ کرنے کے عزم سے ان مسائل سے وہ بری الذمہ نہیں ہوسکتا؛ بلکہ حق کا ادا کرنا ضروری ہے یہ فقہاء کے یہاں متفق علیہ مسئلہ ہے“۔ (موسوعہ فقہیہ:۱۴/۱۵۷)
توبہ کا شرعی حکم
جب گناہ کبیرہ کا ارتکاب ہوجائے؛ تو اس سے توبہ کرنا فرض ہے۔ یہ واضح رہے کہ تمام کبیرہ گناہوں سے توبہ کرنا ضروری ہے۔ اگر کوئی شخص صرف بعض گناہوں سے توبہ کرتا؛ تو اہل حق کے نزدیک ان گناہوں سے اس کی توبہ درست ہے اور باقی گناہوں سے توبہ کرنا، اس کے ذمے باقی رہے گا۔ توبہ کا شرعی حکم یہ ہے کہ توبہ کرنا فرض ہے۔ یہ حکم قرآن وحدیث اور اجماع سے ثابت ہے۔ علماء کرام نے توبہ کی فرضیت کی دلیل میں اس آیت کریمہ کو پیش کیاہے: وَتُوبُوا إِلَی اللّٰہِ جَمِیعاً أَیُّہَا الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُونَ(نور:۳۱)ترجمہ:”اور اے مومنو!تم سب اللہ کے سامنے توبہ کرو؛ تاکہ تمھیں فلاح نصیب ہو۔“ایک حدیث شریف میں ہے: یَا أَیُّہَا النَّاسُ تُوبُوا إِلَی اللّٰہِ قَبْلَ أَنْ تَمُوتُوا،(سنن ابن ماجة، برقم:۱۰۸۱)ترجمہ:”اے لوگو!مرنے سے پہلے تم سب اللہ کے سامنے توبہ کرو“․․․․۔
توبہ کب تک ؟
جب بندہ اللہ کے سامنے توبہ کرتا ہے؛ تو اللہ تعالی اس کی توبہ قبول فرماتے ہیں۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے: وَہُوَ الَّذِی یَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِہِ وَیَعْفُو عَنِ السَّیِّئَاتِ وَیَعْلَمُ مَا تَفْعَلُون (شوری:۲۵)ترجمہ:”اور وہی ہے جو اپنے بندے کی توبہ قبول کرتا ہے اور گناہوں کو معاف کرتا ہے اور جو کچھ تم کرتے ہو، اس کا پورا علم رکھتا ہے“۔جہاں تک توبہ کی قبولیت کے وقت کی بات ہے؛ تو اللہ تعالیٰ اس وقت تک توبہ قبول فرمائیں گے؛ جب تک کہ قیامت کی بڑی نشانیوں میں سے ایک اہم نشانی یعنی سورج کا پچھم سے طلوع ہونا شروع نہ ہوجائے۔ روایت میں ہے: مَنْ تَابَ قَبْلَ أَنْ تطلُعَ الشَّمْسُ مِنْ مغْرِبِہَا تَابَ اللّٰہ علَیْہ․(صحیح مسلم، برقم:۲۷۰۳)اللہ پاک اپنے بندے کی توبہ اس وقت تک قبول فرمائیں گے، جب تک اس بندے میں موت کے آثار ظاہر نہ ہوئے ہوں۔ حدیث میں ہے: إِنَّ اللّٰہَ یَقْبَلُ تَوْبَةَ العَبْدِ مَا لَمْ یُغَرْغِرْ․(سنن ترمذی، برقم:۳۵۳۷) ترجمہ:”یقینا اللہ تعالی اس وقت تک بندے کی توبہ قبول کرتا ہے؛ جب تک کہ وہ جان کنی کی حالت میں نہ چلا جائے۔“
فورا توبہ کیجیے
آدمی سے گناہ ومعصیت کا ہونا فطری بات ہے؛ مگر جوں ہی ہمیں احساس ہو کہ ہم نے گناہ کا ارتکاب کیا ہے؛ تو اس کی تلافی کی کوشش کرنی چاہیے۔ ہمیں بدکار اورفاسق وفاجر شخص کی طرح گناہ سے بے اعتنائی نہیں برتنی چاہیے، گناہ کو معمولی چیز نہیں سمجھنا چاہیے۔ ہمیں مومن جیسے اوصاف اپنانے چاہیے۔ جب ہم سے کسی گناہ کا صدور ہوجائے؛ تو ہمیں اس گناہ کو پہاڑ جیسا بوجھ سمجھنا چاہیے اور اس سے فوراً توبہ کرنی چاہیے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: إِنَّ المُؤْمِنَ یَرَی ذُنُوبَہُ کَأَنَّہُ قَاعِدٌ تَحْتَ جَبَلٍ یَخَافُ أَنْ یَقَعَ عَلَیْہِ، وَإِنَّ الفَاجِرَ یَرَی ذُنُوبَہُ کَذُبَابٍ مَرَّ عَلَی أَنْفِہِ․(صحیح بخاری، برقم:۶۳۰۸)ترجمہ:بے شک مومن اپنے گناہوں کو اس طرح دیکھتا ہے، جیسا کہ وہ کسی پہاڑ کے نیچے بیٹھا ڈررہا ہے کہ وہ اس پر گر پڑے؛ جب کہ بدکار اپنے گناہوں کو اس مکھی کی طرح دیکھتا ہے جو اس کی ناک پر سے گزرگئی۔
ہمیں پتہ نہیں کہ کب ہم اس دنیا سے رخصت ہوجائیں؛ اس لیے ہمیں توبہ کرنے میں کوتاہی نہیں برتنی چاہیے؛ بلکہ عجلت سے کام لینا چاہیے۔ توبہ کے بعد، ہمیں امید رکھنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ہماری توبہ قبول فرمائیں گے۔ اللہ تعالی کی رحمت ومغفرت ہر وقت ہمارے توبہ کی منتظر ہے۔ اللہ تعالیٰ نہ صرف مسلمان؛ بلکہ توبہ کے بعد، کفار ومشرکین کو بھی معاف فرمادیتے ہیں۔ اللہ تعالی نصاری کے کفر وشرک کو بیان کرنے کے بعد، قرآن کریم میں ارشاد فرماتے ہیں: أَفَلَا یَتُوبُونَ إِلَی اللّٰہِ وَیَسْتَغْفِرُونَہُ وَاللّٰہُ غَفُورٌ رَحِیمٌ﴾(مائدہ:۷۴)ترجمہ: ”کیا پھر بھی یہ لوگ معافی کے لیے اللہ کی طرف رجوع نہیں کریں گے اور اس سے مغفرت نہیں مانگیں گے؟ حالاں کہ اللہ بہت بخشنے والا، بڑا مہربان ہے“۔ علامہ شبیر احمد عثمانی (۱۸۸۷-۱۹۴۹ء)فرماتے ہیں:”یہ اسی غفور رحیم کی شان ہے کہ جب ایسے ایسے باغی اور گستاخ مجرم بھی جب شرمندہ ہوکر اور اصلاح کا عزم کرکے حاضر ہوں؛ تو ایک منٹ میں عمر بھر کے جرائم معاف فرمادیتا ہے۔“(تفسیر عثمانی)
توبہ نصوح کیجیے
گناہ کے ارتکاب کے بعد، ہمیں اپنے رب کے سامنے ”توبہ نصوح“کرنی چاہیے۔ قرآن کریم میں ”توبہ نصوح“کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ توبہ نصوح کیا ہے؟ ایک روایت میں ”توبہ نصوح“کی وضاحت اس طرح کی گئی ہے: ”أَن ینْدَم العَبْد علی الذَّنب الَّذِی أصَاب فیعتذر إِلَی اللّٰہ ثمَّ لَا یعود إِلَیْہِ کَمَا لَا یعود اللَّبن إِلَی الضَّرع“․(الدر المنثور:۸/۲۲۷) ترجمہ:”کہ بندہ اس گناہ پر نادم ہو جس کا اس نے ارتکاب کیا؛ پھر اللہ کے سامنے معذرت پیش کرے، پھر بندہ اس گناہ کی طرف نہ لوٹے جیسا کہ دودھ تھن میں نہیں لوٹتا“۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے نزدیک توبہ نصوح یہ ہے: ”الندم بالقلب، والاستغفار باللسان، والإقلاع بالبدن، والإضمار علی أن لا یعود“․(القاموس الفقہی، ص:۵۰)ترجمہ:دل میں گناہ پر شرمندگی ہو، زبان سے استغفار کرے، بالکلیہ گناہ ترک کردے اور دوبارہ اسے نہ کرنے کا پختہ ارادہ کرے۔
توبہ نصوح کے بعد، اللہ تعالی اپنے بندے پر جو احسان فرمائیں گے، اس کا ذکر بھی اسی آیت کریمہ میں فرماتے ہیں جس میں توبہ نصوح کا حکم ہے:یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا تُوبُوا إِلَی اللّٰہِ تَوْبَةً نَصُوحًا عَسَی رَبُّکُمْ أَنْ یُکَفِّرَ عَنْکُمْ سَیِّئَاتِکُمْ وَیُدْخِلَکُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِی مِنْ تَحْتِہَا الْأَنْہَارُ یَوْمَ لَا یُخْزِی اللّٰہُ النَّبِیَّ وَالَّذِینَ آمَنُوا مَعَہُ نُورُہُمْ یَسْعَی بَیْنَ أَیْدِیہِمْ وَبِأَیْمَانِہِمْ یَقُولُونَ رَبَّنَا أَتْمِمْ لَنَا نُورَنَا وَاغْفِرْ لَنَا إِنَّکَ عَلَی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ․(التحریم:۸)ترجمہ:اے ایمان والو تم اللہ کے آگے سچی توبہ کرو، امید ہے کہ تمہارا رب تمہارے گناہ معاف کردے گا، اور تم کو ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی جس دن کہ اللہ تعالی نبی کو اور جو مسلمان ان کے ساتھ ہیں ان کو رسوا نہ کرے گا۔ ان کا نور ان کے داہنے اور ان کے سامنے دوڑتا ہوگا، یوں دعا کرتے ہونگے کہ اے ہمارے رب! ہمارے لیے ہمارے اس نور کو اخیر تک رکھیے اور ہماری مغفرت فرمادیجیے! آپ ہر شئے پر قادر ہیں۔
معافی اور توبہ کی ہدایت
قرآن کریم میں ارشاد ربانی ہے:اسْتَغْفِرُوا رَبَّکُمْ ثُمَّ تُوبُوا إِلَیْہِ․(ہود:۳) ترجمہ:”اور یہ (ہدایت دیتا)کہ اپنے پروردگار سے گناہوں کی معافی مانگو اور پھر اس کی طرف رجوع کرو“۔حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالی یہ نہیں چاہتے ہیں کہ جب بندہ سے گناہ سر زد ہوجائے؛ تو وہ اسی حالت میں رہے۔ اللہ تعالی اتنے رحیم وکریم ہیں کہ ہدایت دیتے ہیں کہ گناہ کے بعد، بندے ان سے معافی مانگیں اور توبہ کرکے پاک وصاف ہوجائیں۔ مفتی محمد شفیع دیوبندی (۱۸۹۷-۱۹۷۶ء) اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
”اللہ تعالی نے اپنے بندوں کو یہ بھی ہدایت فرمائی ہے کہ وہ اپنے رب سے مغفرت اور معافی مانگا کریں اور توبہ کیا کریں۔ مغفرت کا تعلق پچھلے گناہوں سے ہے اور توبہ کا تعلق آئندہ ان کے پاس نہ جانے کے عہد سے ہے۔ اور در حقیقت صحیح توبہ یہی ہے کہ پچھلے گناہوں پر نادم ہوکر اللہ تعالی سے ان کی معافی طلب کرے اور آئندہ ان کے نہ کرنے کا پختہ عزم وارادہ کرے۔“(معارف القرآن: ۴/۵۸۶)
دل کو زنگ آلود ہونے سے بچانا
انسان گناہ کرتا ہے، تو اس کے دل میں ایک سیاہ نقطہ لگا دیا جاتا ہے۔ جب وہ توبہ واستغفار کرتا ہے؛ پھر اس کا دل صاف کردیا جاتا ہے۔ مگر کوئی شخص توبہ نہ کرے؛ بل کہ مستقل گناہ کرتا رہے؛ تو وہ نقطہ بڑھتا چلا جاتا، یہاں تک کہ اس کا دل زنگ آلود ہوجاتا ہے، پھر حق قبول کرنے کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے۔ اس سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ جب بھی ہم سے کوئی گناہ ہوجائے؛ تو ہمیں فوراً توبہ کرکے دل کو زنگ آلود ہونے سے بچانا چاہیے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ”إِنَّ العَبْدَ إِذَا أَخْطَأَ خَطِیئَةً نُکِتَتْ فِی قَلْبِہِ نُکْتَةٌ سَوْدَاءُ، فَإِذَا ہُوَ نَزَعَ وَاسْتَغْفَرَ وَتَابَ سُقِلَ قَلْبُہُ، وَإِنْ عَادَ زِیدَ فِیہَا حَتَّی تَعْلُوَ قَلْبَہُ، وَہُوَ الرَّانُ الَّذِی ذَکَرَ اللَّہُ“ کَلَّا بَلْ رَانَ عَلَی قُلُوبِہِمْ مَا کَانُوا یَکْسِبُونَ․(المطففین:۱۴)(سنن ترمذی:برقم:۳۳۳۴) ترجمہ:”بے شک جب بندہ ایک گناہ کرتا ہے؛ تو ایک سیاہ نقطہ اس کے دل میں لگا دیا جاتا ہے۔ پھر جب وہ گناہ چھوڑ دیتا ہے اور استغفار وتوبہ کرتا ہے، تو اس کا دل صاف کردیا جاتا ہے۔ اور(بغیر توبہ کیے ہوئے) دوبارہ گناہ کرتا ہے؛ تو اس نقطہ میں زیادتی کردی جاتی ہے؛ تا آں کہ وہ پورے دل پر چھا جاتا ہے۔ اسی کو ”ران“کہتے ہیں جسے اللہ تعالی (قرآن کریم میں)بیان فرمایا ہے: کَلَّا بَلْ رَانَ عَلَی قُلُوبِہِمْ مَا کَانُوا یَکْسِبُونَ“۔ (ترجمہ:ہر گز نہیں، بل کہ جو عمل یہ کرتے رہے ہیں، اس نے ان کے دلوں پر زنگ چڑھا دیا ہے)۔
کثرت سے توبہ کرنے کا حکم
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کے لوگوں کو کثرت سے توبہ کرنے کا حکم فرمایا ہے۔ آپ… ایک حدیث میں، توبہ کے حوالے سے اپنے عمل کا اظہار فرمارہے ہیں کہ آپ… دن بھر میں سو مرتبہ توبہ کرتے تھے۔ آپ… کی ذات مبارک گناہوں اور خطاؤں سے پاک تھی۔ آپ … معصوم ومغفور تھے۔ اس کے باوجود آپ… کثرت سے توبہ کرتے تھے۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ آپ… کی امت یہ سیکھے کہ جب آپ… مغفور ومعصوم ہوکر بھی اتنی کثرت سے توبہ کرتے ہیں؛ تو ہمیں تو اور زیادہ توبہ واستغفار کرنا چاہیے؛ کیوں کہ ہم سے چھوٹے بڑے بے شمار گناہ شب وروز ہوتے رہتے ہیں۔ حدیث میں ہے: ”یَا أَیُّہَا النَّاسُ! تُوبُوا إِلَی اللّٰہِ، فَإِنِّی أَتُوبُ فِی الْیَوْمِ إِلَیْہِ مِائَةَ مَرَّةٍ“․(صحیح مسلم، برقم:۲۷۰۲)ترجمہ:”اے لوگو!خداکے سامنے توبہ کرو ؛ کیوں کہ میں دن بھر میں سو بار توبہ کر تا ہوں“۔ایک دوسری روایت میں ہے: ”وَاللّٰہِ إِنِّی لَأَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ، وَأَتُوبُ إِلَیْہِ، فِی الیَوْمِ أَکْثَرَ مِنْ سَبْعِینَ مَرَّةً“․(صحیح بخاری، برقم:۶۳۰۷)ترجمہ:”خدا کی قسم!میں ایک دن میں ستر بار سے زیادہ اللہ تعالی کے سامنے استغفار اور توبہ کرتا ہوں۔“
آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ نبی اکرم… نے ایک حدیث میں دن بھر میں سو مرتبہ اور دوسری میں ستّر سے بھی زیادہ مرتبہ توبہ کا ذکر فرمایا ہے۔ یہ عدد کا مطلب یہ نہیں کہ اللہ کے رسول… صرف سوبار یا ستّر بار ہی توبہ کرتے تھے؛ بل کہ مطلب یہ ہے کہ آپ… کثرت سے دن رات توبہ کرتے تھے، اس سے امت کو یہ سبق ملتا ہے کہ وہ بھی کثرت سے توبہ کریں۔
رات ودن توبہ کا انتظار
اللہ تعالی اتنے سخی اور کریم ہیں کہ اپنے بندے کا انتظار کرتے ہیں کہ وہ گناہوں کی گٹھڑی لے کر، کب ہمارے در پر آئے گا اور توبہ کرے۔ آپ اتنے کریم و غفور ہیں کہ آپ ہر وقت اپنے بندوں کی توبہ کا انتظار کرتے ہیں چاہے وہ دن میں توبہ کریں یا رات میں توبہ کریں۔ جب بندہ توبہ کرتا ہے؛ تو پروردگار کو خوشی ہوتی ہے۔ ذات باری تعالی اس بندے سے راضی ہوجاتے ہیں اور اپنی غفاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے، اس بندے کی گناہوں کو معاف فرما دیتے ہیں۔ حدیث شریف میں ہے: ”إِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ یَبْسُطُ یَدَہُ بِاللَّیْلِ لِیَتُوبَ مُسِیءُ النَّہَارِ، وَیَبْسُطُ یَدَہُ بِالنَّہَارِ لِیَتُوبَ مُسِیءُ اللَّیْلِ، حَتَّی تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِنْ مَغْرِبِہَا“․(صحیح مسلم، برقم:۲۷۵۹)ترجمہ:”اللہ پاک رات میں اپنا ہاتھ پھیلاتا ہے؛ تاکہ دن کے گنہ گار توبہ کرلیں اور اپنا ہاتھ دن میں پھیلاتا ہے؛ تاکہ رات کے گنہ گار توبہ کرلیں، یہاں تک کہ آفتاب مغرب سے طلوع ہونے لگے“۔ یعنی قیامت کے قریب تک اللہ پاک ایسا کرتے رہیں گے۔
اللہ تعالی کا اپنے ہاتھ کو پھیلانے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی اپنے بندے کی توبہ سے بہت خوش ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ بڑے سخی وکریم ہے اور اس کی رحمت بہت وسیع ہے گناہوں کو معاف کرتے ہیں اور گناہوں کو معاف کرکے خوش ہوتے ہیں۔
توبہ ایک پسندیدہ عمل
توبہ اللہ تعالی کی نظر میں ایک پسندیدہ عمل ہے۔ جو شخص گناہ اور معصیت کے بعد توبہ کرتا ہے؛ تو اللہ تعالی اس کو معاف فرما دیتے ہیں: ”لَوْلَا أَنَّکُمْ تُذْنِبُونَ لَخَلَقَ اللّٰہُ خَلْقًا یُذْنِبُونَ یَغْفِرُ لَہُمْ“․(صحیح مسلم،برقم:۲۷۴۸)ترجمہ: ”اگر تم گناہ کا ارتکاب نہ کرو؛ تو اللہ تعالی ایسی مخلوق پیدا فرمائیں گے جو گناہ کا ارتکاب کرے گی، (پھر توبہ کرے گی اور)اللہ تعالی انھیں معاف کردیں گے۔“
ایک حدیث شریف میں توبہ کرنے والے کو اس شخص سے تشبیہ دی گئی ہے، جس کے ذمے کوئی گناہ ہو ہی نہیں۔ رسول اکرم… فرماتے ہیں: ”التَّائِبُ مِنَ الذَّنْبِ، کَمَنْ لَا ذَنْبَ لَہُ“․ (سنن ابن ماجة، برقم:۴۲۵۰)ترجمہ:”گناہ سے توبہ کرنے اس شخص کی طرح ہے جس نے کوئی گناہ نہ کیا ہو۔“
اللہ تعالی توبہ سے بے انتہا خوش ہوتے ہیں
اللہ پاک توبہ کرنے والے بندے سے اس شخص سے بھی زیادہ خوش ہوتے ہیں جس نے اپنا گم شدہ اونٹ پالیا ہو۔ رسول اکرم… فرماتے ہیں: ”اللّٰہُ أَفْرَحُ بِتَوْبَةِ عَبْدِہِ مِنْ أَحَدِکُمْ سَقَطَ عَلَی بَعِیرِہِ وَقَدْ أَضَلَّہُ فِی أَرْضِ فَلَاةٍ“․(صحیح بخاری، برقم:۶۳۰۹)ترجمہ:”اللہ پاک اپنے بندے کی توبہ سے تم میں سے اس شخص کے مقابلے میں زیادہ خوش ہوتا ہے، جس نے اپنا اونٹ پالیا ہو؛ جب کہ وہ اسے ایک چٹیل میدان میں گم کرچکا تھا۔“
اس تحریر کا اختتام ایک قرآنی آیت پر کیا جارہا ہے جس میں اللہ تعالی یہ فرماتے ہیں کہ اگر بندہ کبائر اور بڑے گناہوں سے خود کو بچا لیتا ہے؛ تو اس کے چھوٹے گناہوں کو رحیم وکریم مولا خود ہی معاف کردیں گے اور اس بندے کو ایک باعزت جگہ میں داخل کریں۔ اس باعزت جگہ کا مطلب جنت ہے۔ آیت کریمہ ملاحظہ فرمائیں: ”إِنْ تَجْتَنِبُوا کَبائِرَ ما تُنْہَوْنَ عَنْہُ نُکَفِّرْ عَنْکُمْ سَیِّئاتِکُمْ، وَنُدْخِلْکُمْ مُدْخَلًا کَرِیماً“(نساء:۳۱)ترجمہ:”اگر تم ان بڑے بڑے گناہوں سے پرہیز کرو، جن سے تمھیں روکا گیا ہے؛ تو تمھاری چھوٹی برائیوں کا ہم خود کفارہ کردیں گے اور تم کو ایک باعزت جگہ داخل کریں گے۔“ اللہ تعالی ہم سب کو توبہ کی توفیق عطا فرمائے اور جنت میں داخل فرمائے!