ماہنامہ الفاران
ماہِ صفر المظفر - ۱۴۴۵
غزوہ خندق؛ مسلمانوں کے لئے اہم سبق
جناب حضرت مفتی خالدانورپورنوی صاحب المظاہری، استاذ:حدیث و فقہ: جامعہ مدنیہ ،سبل پور، پٹنہ
چشم فلک نے وہ منظرشایدپہلی باردیکھاہوگاجب خانہ کعبہ کی دیواروں سے چمٹ کر،اسے سینے سے لگاکر اﷲ کے رسول ﷺ کی مخالفت کرنے والے مشرکین مکہ اوریہودنے یہ عہدکیا:ہم میں سے جب تک ایک آدمی بھی زندہ رہے گاوہ اﷲ کے رسول محمدﷺ کے خلاف جنگ کرتارہے گا۔
یہودی جانتے تھے کہ محمدﷺ کادین بہترہے؛مگرپھربھی اپنی ہوس،انا،عنادودشمنی کی آگ بجھانے اور مسلمانوں کوصفحۂ ہستی سے مٹانے کیلئے مشرکین مکہ سے ہاتھ ملالیا،اوریہ جانتے ہوئے بھی کہ بت پرستی کفر ہے، اپنے علم وضمیرکے خلاف مشرکین مکہ سے صاف صاف کہدیاہمارے نزدیک تمہارادین زیادہ بہتر ہے۔
سرداران قریش سے قول وقرارکے بعدیہ یہودی عرب کے ایک بڑے جنگجوقبیلہ غطفان کے پاس پہونچے، رشوت کی پیش کش کی اورمسلمانوں کااستیصال کرنے کیلئے جنگ میں شرکت کاعہدوپیمان کیا۔
باہمی قرارداد کے مطابق ابوسفیان کی قیادت میں قریشیوں کالشکرمکہ مکرمہ سے روانہ ہوا،اورمرظہران میں قیام کیا،یہودیوں اوردوسرے قبائل کے لوگ بھی شامل ہوگئے،عرب ویہودکی اس اتحادی طاقت کی تعداددس سے بارہ ہزارکے قریب تھی۔
غزوہ بدراورغزوہ اُحدکے مقابلہ میں اس متحدہ طاقت کامقابلہ کرنااتناآسان نہیں تھا،نبی کریم ﷺ نے صحابہ کرام کوجمع کیا،ان سے مشورہ کیاکہ اب ہمیں کیاکرناچاہئے؟حضرت سلمان فارسی صنے مشورہ دیاکہ ایسے موقع پر بلادفارس میں دشمن کے حملہ کوروکنے کیلئے خندق کھوداجاتاہے،رسول اﷲ ﷺ نے اس مشورہ کوبے حد قبول فرمایا، اورخندق کھودنے کاحکم دے دیا۔اسی لئے اس غزوہ کو’’غزوۂ خندق‘‘بھی کہاجاتاہے۔
اس خندق کی لمبائی ،چوڑائی کی نبی کریم ﷺنے حدبندی کردی اورخط بھی کھینچ دیا، انصارومہاجرین اور خود نبی کریم ﷺ بھی خندق کھودنے میں مصروف ہوگئے،آج کی دنیاکی حیران ہے کہ سخت سردی ہے،پتھریلی زمین ہے، نہ آج کی طرح مشینیں ہیں،نہ آلات واوزاراورہتھیارہیں،مگران کاجوش ایمانی اوردل محبت رسول سے اس قدر سرشارہے کہ صرف چھ دن میں ساڑھے تین میل لمبی خندق کی کھدائی مکمل ہوجاتی ہے۔
ساڑھے تین میل خندق کی کھدائی میں انصاربھی تھے،مہاجرین بھی تھے،فارسی بھی تھے،اوردوسرے صحابہ کرام ث بھی ،مگران کے باہمی تعلقات نہایت ہی مضبوط ومستحکم اورقابل رشک تھے،اگراپناحصہ کھدائی کا پورا ہوجا تاتووہ خالی نہیں بیٹھے رہتے کہ ان کی ڈیوٹی پوری ہوگئی،بلکہ اپنے دوسرے ساتھی کی مددکرتے۔
نبی کریم ﷺ خالی بیٹھے معائنہ نہیں کررہے ہیں؛ بلکہ اس کھدائی میں صحابہ کے ساتھ برابرکے شریک ہیں، حضرت براء بن عازب صفرماتے ہیں:کہ نبی کریم ﷺ خندق کھودنے ا ورمٹی کواس جگہ سے منتقل کرنے میں اس قدر مصروف تھے کہ آپ ﷺ کے جسم مبارک مٹی کے گرداس طرح ڈھانپ لیاتھاکہ کہ پیٹ اورپیٹھ کی کھال نظرنہ آتی تھی۔
بارہ ہزارکی مسلح فوج کے ساتھ تین ہزارنہتے بے سروسامان لوگوں کامقابلہ عقل وقیاس میں آنے والی بات نہیں تھی، اس پراضافہ یہ ہواکہ حی بن اخطب جس نے سب کو مسلمانوں کے خلاف یکجاکرنے پرسب سے بڑاکام کیاتھا،مدینہ منورہ پہونچ کریہودکے قبیلہ بنوقریظہ کو اپنے ساتھ ملالیا،جبکہ اس سے قبل بنوقریظہ اورمسلمانوں کے مابین معاہدہ بھی ہوچکاتھا،اس لئے مسلمان ان سے بے فکرتھے،مگرجب نبی کریم ﷺ کواس کی اطلاع ہوئی تو ان کی عہدشکنی سے آپ کو سخت صدمہ پہونچا،اوراب پہلے سے زیادہ فکردامن گیرہوگئی ،اس لئے کہ احزاب کے راستہ پرتوخندق کھودی گئی تھی ؛مگریہ لوگ تومدینہ کے اندرتھے۔
رسول اﷲ ﷺ اورصحابہ کرام رات رات بھرخندق کی دیکھ بھال کرتے،اگرکسی وقت آرام کیلئے بیٹھتے بھی ، اورکسی طرح کی آوازسنتے تو آنحضرت ﷺ ہتھیارسے لیس ہوکرمیدان میں آجاتے،حضرت ام سلمہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں:کہ ایک رات میں کئی کئی مرتبہ ایساہوتاتھاکہ آپ ﷺذراآرام کرنے کیلئے تشریف لائے اورکوئی آوازسنی تو فوراًباہرتشریف لائے،پھرآرام کیلئے بیٹھے،کوئی آوازسنی پھرباہرتشریف لائے،حضرت ام سلمہ رضی اﷲ عنہافرماتی ہیں کہ میں بہت سے غزوات میں شریک رہی ہوں؛مگرآپ کوکسی غزوہ میں ایسی مشقت نہیں دیکھی جیسی غزو ہ خندق میں پیش آئی۔
ایک دن اسلام مخالف طاقتوں نے طے کیاکہ یکبارگی حملہ کرو،اورخندق پارکرکے مٹھی بھرمسلمانوں کانام ونشان مٹادو، پھروہ لوگ بڑی بے جگری کے ساتھ مسلمانوں کے مقابل میں آئے،اورتیروں کی بارش کردی، صحابہ کرامث دن بھراس طرح مشغول رہے کہ نمازکیلئے ذراسابھی وقت نہ ملا،اورچارنمازیں قضاہوگئیں،عشاء کے وقت میں مسلمانوں نے چاروں نمازیں اداکیں۔
مسلمانوں پرشدت کی انتہاء ہوگئی،نبی کریم ﷺ مسلسل تین روزتک مسلمانوں کی فتح اورمخالفین کی شکست کیلئے بددعاء کرتے رہے،تیسرے روزاﷲ نے دعاء قبول فرمائی،رسول اﷲ ﷺ خوشی خوشی صحابہ کرام کے پاس تشریف لائے اورفتح کی بشارت سنائی۔
اﷲ تبارک وتعالیٰ ارشادفرماتے ہیں:اے مسلمانو!یادکرواﷲ کاانعام جب تم پرچڑھ آئی تھیں فوجیں،ہم نے بھیج دی ان پرہوا،اوروہ فوجیں جوتم نے نہیں دیکھی،اوراﷲ تعالیٰ تمہارے اعمال کودیکھتے تھے،جبکہ وہ لوگ تم پر آ چڑ ھے تھے، اوپرکی طرف سے اورنیچے کی طرف سے بھی،اورجب کہ آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئی تھیں،اورکلیجے منہ کوآنے لگے تھے،اورتم لوگ اﷲ کے ساتھ طرح طرح کے گمان کررہے تھے،اس موقع پرمسلمانوں کا پور ا امتحان لیاگیا اورسخت جھڑجھڑا ئے گئے۔
مشرکین مکہ توایک جاہل قوم تھی،اس لئے توہم پرستی ،بت پرستی ،خواہشات پرستی ان کی فطرت ثانیہ بن چکی تھی؛مگریہودی قوم میں تو زیادہ تر لوگ پڑھے لکھے تھے،وہ تورات کوپڑھتے اورجانتے تھے کہ اسماعیل کی اولادمیں محمدنام کاایک شخص آخری نبی بن کر عرب کی سرزمین پر تشریف لائیں گے؛مگروہ ماننے کیلئے اس لئے تیارنہیں ہیں کہ نبی بنی اسرائیل سے کیوں نہیں ہوسکتا؟
یہیں سے عداوت ودشمنی شروع ہوگئی،اسلام ترقی نہ کرے،نبی کریم ﷺ کے جان نثاروں کی تعداد میں اضافہ نہ ہو،بلکہ ایک بھی نام لینے والانہ رہے،ان کی ہمیشہ یہی کوشش رہی،اوراس مشن میں کامیابی حاصل کرنے کیلئے وہ تمام حربے اپنائے جہاں تک انسان سوچ بھی نہیں سکتاہے،اوریہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔
وہ اہل کتاب ہوکربھی اﷲ کی کتاب نہ ماننے والوں کے ساتھ ہوگئے۔اﷲ کو ایک مانتے ہوگئے بھی لات و ہبل کے سامنے سجدہ ریزہوگئے،عیسائیوں سے دشمنی کے باوجود بھی ان سے ہاتھ ملالئے۔حضرت موسیٰ ں کو نبی برحق ماننے کے باوجود بھی محمدﷺ کے بارے میں ان کی دی گئی پیشین گوئی کوٹھکرادیا،صرف اس لئے کہ اسلام ترقی نہ کرے،اسلا م پھلے پھولے نہیں۔
آج میڈیا پریہودیوں کاقبضہ ہے،کبھی چینلوں میں دکھایا جاتاہے کہ مسلمان آتنگ واد ہیں ،کبھی اس طرح پیش کیاجاتاہے کہ اسلام دہشت گردی والامذہب ہے،کبھی سمجھانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ اسلام کے ماننے والے شدت پسند ہیں،دقیانوس ہیں،مگرسچ یہ ہے کہ ان سب میں یہودی ذہنیت کارفرماہے اوربس!
آج وہ ہمارے ملک ،ہمارے شہرہی میں نہیں،ہمارے گھروں میں گھس آئے ہیں،وہ مسلمانوں کومٹانے کیلئے مکمل طورپر کمربستہ ہوچکے ہیں،اوردنیائے کفرکواپنے ساتھ شریک کرلیاہے؛مگرافسوس کہ آج اس متحدہ طاقت کامقابلہ کرنے کیلئے ہمارے پاس نہ کوئی خندق ہے اورنہ کوئی پلاننگ۔
وہ مسلمانوں کامقابلہ کرنے کیلئے اپنے سارے اختلاف کوختم کرچکے ہیں،اورہم ہیں کہ ہردن نئے نئے اختلافات پیداکررہے ہیں،مختلف خیموں اورٹولیوں میں بٹے ہوئے ،اختلافات کوفروغ دینے میں کوشاں،ا ور سرگرداں نظر آرہے ہیں، جوباتیں اپنے گھرکی تھیں وہ اسٹیج میں،اورجوباتیں اسٹیج کی ہیں ان سے ہم کنارہ کش ہیں ۔
ہماری بے حسی کاعالم یہ ہے چند پیسوں اورچندسکوں یاسستی شہرت اورجاہ ومنصب حاصل کرنے کیلئے اپنے ہی مسلم بھائیوں پرالزام تراشیاں شروع کردیتے ہیں،ان کی خامیوں اورکمزوریوں کوبرسرعام جس طرح بیان کرتے ہیں کہ ایسالگتاہے کہ یہی ہمارامشن ہے ،یہی ہماراکام ہے۔
اکثرکیوں ایساہوتاہے کہ الیکشن کے موقع پر مسلم علاقوں میں کئی مسلم چہرے سامنے آئے ہیں،اورکامیابی کسی کونہیں مل پاتی ہے، ہماری پبلک اوربے چارے عوام کسی ایک جانب فیصلہ کرنے پرتیارنہیں ہوتی ہیں، اوراس کاسیدھافائدہ ان طاقتوں کوہوتاہے جوخندق پارکرکے ہمارے خون سے ہولی کھیلناچاہتے ہیں۔
مسجدوں کے منبروں سے جو آوازیں بلندہوتی ہیں،اس میں زیادہ تریہی عنوانِ اختلافی نظرآتاہے،ان فروعی مسائل کوزورداراندازمیں پیش کیاجاتاہے،جن سے بے چارے عوام پش وپیش میں ہوجاتی ہے ، اور خود مسلمان بھائیوں کواسلام پرشک ہونے لگتاہے،جبکہ یہ جزوئی مسائل نہ تو اسلام کیBasic چیزہیں،اورنہ ہی اس قدرضروری کہ جس کے کرنے نہ کرنے سے مسلمان مسلمان ہی نہ رہے۔
اﷲ نے ہرہفتہ مسلمانوں کوانعام کے طورپرایک بہت بڑااسٹیج دیاہے، اور وہ ہے جمعہ کا دن ،جس میں نہ شامیانے کی ضرورت ہے اور نہ خیمہ لگانے کی ،نہ لوگوں کو بلانے میں پیسے خرچ ہوتے ہیں ،اور نہ کسی طرح کا صرفہ ، اگرعام مسلمان دلچسپی سے سنیں اورہمارے علماء کرام نبی کریم ﷺ کی سیرت،نبی ﷺ کے اخلاق،اسوۂ حسنہ اوراسلام کی بنیادی چیزوں پر گفتگو کریں،اورمسلم صفوں میں اتحادپیداکرنے کوششیں کریں تو بہت کم وقت میں ایک بہتر اور پاکیزہ سماج کی تشکیل ہوگی ،اور مسلم بھائیوں میں زبردست انقلاب آئیگا۔
مسلمانویادرکھئے!یہودیوں کی متحدہ طاقت یعنی دنیائے کفرکااگرمقابلہ کرناہے توسب سے پہلے اپنے صفوں میں اتحاد پیدا کرنا ہوگا،گورے،کالے،عربی،عجمی،مسلکی،گروہی اورہرطرح کے اختلافات کومٹاکرایک اہم پلاننگ کرنی ہوگی۔
یہودی جانتے تھے کہ محمدﷺ کادین بہترہے؛مگرپھربھی اپنی ہوس،انا،عنادودشمنی کی آگ بجھانے اور مسلمانوں کوصفحۂ ہستی سے مٹانے کیلئے مشرکین مکہ سے ہاتھ ملالیا،اوریہ جانتے ہوئے بھی کہ بت پرستی کفر ہے، اپنے علم وضمیرکے خلاف مشرکین مکہ سے صاف صاف کہدیاہمارے نزدیک تمہارادین زیادہ بہتر ہے۔
سرداران قریش سے قول وقرارکے بعدیہ یہودی عرب کے ایک بڑے جنگجوقبیلہ غطفان کے پاس پہونچے، رشوت کی پیش کش کی اورمسلمانوں کااستیصال کرنے کیلئے جنگ میں شرکت کاعہدوپیمان کیا۔
باہمی قرارداد کے مطابق ابوسفیان کی قیادت میں قریشیوں کالشکرمکہ مکرمہ سے روانہ ہوا،اورمرظہران میں قیام کیا،یہودیوں اوردوسرے قبائل کے لوگ بھی شامل ہوگئے،عرب ویہودکی اس اتحادی طاقت کی تعداددس سے بارہ ہزارکے قریب تھی۔
غزوہ بدراورغزوہ اُحدکے مقابلہ میں اس متحدہ طاقت کامقابلہ کرنااتناآسان نہیں تھا،نبی کریم ﷺ نے صحابہ کرام کوجمع کیا،ان سے مشورہ کیاکہ اب ہمیں کیاکرناچاہئے؟حضرت سلمان فارسی صنے مشورہ دیاکہ ایسے موقع پر بلادفارس میں دشمن کے حملہ کوروکنے کیلئے خندق کھوداجاتاہے،رسول اﷲ ﷺ نے اس مشورہ کوبے حد قبول فرمایا، اورخندق کھودنے کاحکم دے دیا۔اسی لئے اس غزوہ کو’’غزوۂ خندق‘‘بھی کہاجاتاہے۔
اس خندق کی لمبائی ،چوڑائی کی نبی کریم ﷺنے حدبندی کردی اورخط بھی کھینچ دیا، انصارومہاجرین اور خود نبی کریم ﷺ بھی خندق کھودنے میں مصروف ہوگئے،آج کی دنیاکی حیران ہے کہ سخت سردی ہے،پتھریلی زمین ہے، نہ آج کی طرح مشینیں ہیں،نہ آلات واوزاراورہتھیارہیں،مگران کاجوش ایمانی اوردل محبت رسول سے اس قدر سرشارہے کہ صرف چھ دن میں ساڑھے تین میل لمبی خندق کی کھدائی مکمل ہوجاتی ہے۔
ساڑھے تین میل خندق کی کھدائی میں انصاربھی تھے،مہاجرین بھی تھے،فارسی بھی تھے،اوردوسرے صحابہ کرام ث بھی ،مگران کے باہمی تعلقات نہایت ہی مضبوط ومستحکم اورقابل رشک تھے،اگراپناحصہ کھدائی کا پورا ہوجا تاتووہ خالی نہیں بیٹھے رہتے کہ ان کی ڈیوٹی پوری ہوگئی،بلکہ اپنے دوسرے ساتھی کی مددکرتے۔
نبی کریم ﷺ خالی بیٹھے معائنہ نہیں کررہے ہیں؛ بلکہ اس کھدائی میں صحابہ کے ساتھ برابرکے شریک ہیں، حضرت براء بن عازب صفرماتے ہیں:کہ نبی کریم ﷺ خندق کھودنے ا ورمٹی کواس جگہ سے منتقل کرنے میں اس قدر مصروف تھے کہ آپ ﷺ کے جسم مبارک مٹی کے گرداس طرح ڈھانپ لیاتھاکہ کہ پیٹ اورپیٹھ کی کھال نظرنہ آتی تھی۔
بارہ ہزارکی مسلح فوج کے ساتھ تین ہزارنہتے بے سروسامان لوگوں کامقابلہ عقل وقیاس میں آنے والی بات نہیں تھی، اس پراضافہ یہ ہواکہ حی بن اخطب جس نے سب کو مسلمانوں کے خلاف یکجاکرنے پرسب سے بڑاکام کیاتھا،مدینہ منورہ پہونچ کریہودکے قبیلہ بنوقریظہ کو اپنے ساتھ ملالیا،جبکہ اس سے قبل بنوقریظہ اورمسلمانوں کے مابین معاہدہ بھی ہوچکاتھا،اس لئے مسلمان ان سے بے فکرتھے،مگرجب نبی کریم ﷺ کواس کی اطلاع ہوئی تو ان کی عہدشکنی سے آپ کو سخت صدمہ پہونچا،اوراب پہلے سے زیادہ فکردامن گیرہوگئی ،اس لئے کہ احزاب کے راستہ پرتوخندق کھودی گئی تھی ؛مگریہ لوگ تومدینہ کے اندرتھے۔
رسول اﷲ ﷺ اورصحابہ کرام رات رات بھرخندق کی دیکھ بھال کرتے،اگرکسی وقت آرام کیلئے بیٹھتے بھی ، اورکسی طرح کی آوازسنتے تو آنحضرت ﷺ ہتھیارسے لیس ہوکرمیدان میں آجاتے،حضرت ام سلمہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں:کہ ایک رات میں کئی کئی مرتبہ ایساہوتاتھاکہ آپ ﷺذراآرام کرنے کیلئے تشریف لائے اورکوئی آوازسنی تو فوراًباہرتشریف لائے،پھرآرام کیلئے بیٹھے،کوئی آوازسنی پھرباہرتشریف لائے،حضرت ام سلمہ رضی اﷲ عنہافرماتی ہیں کہ میں بہت سے غزوات میں شریک رہی ہوں؛مگرآپ کوکسی غزوہ میں ایسی مشقت نہیں دیکھی جیسی غزو ہ خندق میں پیش آئی۔
ایک دن اسلام مخالف طاقتوں نے طے کیاکہ یکبارگی حملہ کرو،اورخندق پارکرکے مٹھی بھرمسلمانوں کانام ونشان مٹادو، پھروہ لوگ بڑی بے جگری کے ساتھ مسلمانوں کے مقابل میں آئے،اورتیروں کی بارش کردی، صحابہ کرامث دن بھراس طرح مشغول رہے کہ نمازکیلئے ذراسابھی وقت نہ ملا،اورچارنمازیں قضاہوگئیں،عشاء کے وقت میں مسلمانوں نے چاروں نمازیں اداکیں۔
مسلمانوں پرشدت کی انتہاء ہوگئی،نبی کریم ﷺ مسلسل تین روزتک مسلمانوں کی فتح اورمخالفین کی شکست کیلئے بددعاء کرتے رہے،تیسرے روزاﷲ نے دعاء قبول فرمائی،رسول اﷲ ﷺ خوشی خوشی صحابہ کرام کے پاس تشریف لائے اورفتح کی بشارت سنائی۔
اﷲ تبارک وتعالیٰ ارشادفرماتے ہیں:اے مسلمانو!یادکرواﷲ کاانعام جب تم پرچڑھ آئی تھیں فوجیں،ہم نے بھیج دی ان پرہوا،اوروہ فوجیں جوتم نے نہیں دیکھی،اوراﷲ تعالیٰ تمہارے اعمال کودیکھتے تھے،جبکہ وہ لوگ تم پر آ چڑ ھے تھے، اوپرکی طرف سے اورنیچے کی طرف سے بھی،اورجب کہ آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئی تھیں،اورکلیجے منہ کوآنے لگے تھے،اورتم لوگ اﷲ کے ساتھ طرح طرح کے گمان کررہے تھے،اس موقع پرمسلمانوں کا پور ا امتحان لیاگیا اورسخت جھڑجھڑا ئے گئے۔
مشرکین مکہ توایک جاہل قوم تھی،اس لئے توہم پرستی ،بت پرستی ،خواہشات پرستی ان کی فطرت ثانیہ بن چکی تھی؛مگریہودی قوم میں تو زیادہ تر لوگ پڑھے لکھے تھے،وہ تورات کوپڑھتے اورجانتے تھے کہ اسماعیل کی اولادمیں محمدنام کاایک شخص آخری نبی بن کر عرب کی سرزمین پر تشریف لائیں گے؛مگروہ ماننے کیلئے اس لئے تیارنہیں ہیں کہ نبی بنی اسرائیل سے کیوں نہیں ہوسکتا؟
یہیں سے عداوت ودشمنی شروع ہوگئی،اسلام ترقی نہ کرے،نبی کریم ﷺ کے جان نثاروں کی تعداد میں اضافہ نہ ہو،بلکہ ایک بھی نام لینے والانہ رہے،ان کی ہمیشہ یہی کوشش رہی،اوراس مشن میں کامیابی حاصل کرنے کیلئے وہ تمام حربے اپنائے جہاں تک انسان سوچ بھی نہیں سکتاہے،اوریہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔
وہ اہل کتاب ہوکربھی اﷲ کی کتاب نہ ماننے والوں کے ساتھ ہوگئے۔اﷲ کو ایک مانتے ہوگئے بھی لات و ہبل کے سامنے سجدہ ریزہوگئے،عیسائیوں سے دشمنی کے باوجود بھی ان سے ہاتھ ملالئے۔حضرت موسیٰ ں کو نبی برحق ماننے کے باوجود بھی محمدﷺ کے بارے میں ان کی دی گئی پیشین گوئی کوٹھکرادیا،صرف اس لئے کہ اسلام ترقی نہ کرے،اسلا م پھلے پھولے نہیں۔
آج میڈیا پریہودیوں کاقبضہ ہے،کبھی چینلوں میں دکھایا جاتاہے کہ مسلمان آتنگ واد ہیں ،کبھی اس طرح پیش کیاجاتاہے کہ اسلام دہشت گردی والامذہب ہے،کبھی سمجھانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ اسلام کے ماننے والے شدت پسند ہیں،دقیانوس ہیں،مگرسچ یہ ہے کہ ان سب میں یہودی ذہنیت کارفرماہے اوربس!
آج وہ ہمارے ملک ،ہمارے شہرہی میں نہیں،ہمارے گھروں میں گھس آئے ہیں،وہ مسلمانوں کومٹانے کیلئے مکمل طورپر کمربستہ ہوچکے ہیں،اوردنیائے کفرکواپنے ساتھ شریک کرلیاہے؛مگرافسوس کہ آج اس متحدہ طاقت کامقابلہ کرنے کیلئے ہمارے پاس نہ کوئی خندق ہے اورنہ کوئی پلاننگ۔
وہ مسلمانوں کامقابلہ کرنے کیلئے اپنے سارے اختلاف کوختم کرچکے ہیں،اورہم ہیں کہ ہردن نئے نئے اختلافات پیداکررہے ہیں،مختلف خیموں اورٹولیوں میں بٹے ہوئے ،اختلافات کوفروغ دینے میں کوشاں،ا ور سرگرداں نظر آرہے ہیں، جوباتیں اپنے گھرکی تھیں وہ اسٹیج میں،اورجوباتیں اسٹیج کی ہیں ان سے ہم کنارہ کش ہیں ۔
ہماری بے حسی کاعالم یہ ہے چند پیسوں اورچندسکوں یاسستی شہرت اورجاہ ومنصب حاصل کرنے کیلئے اپنے ہی مسلم بھائیوں پرالزام تراشیاں شروع کردیتے ہیں،ان کی خامیوں اورکمزوریوں کوبرسرعام جس طرح بیان کرتے ہیں کہ ایسالگتاہے کہ یہی ہمارامشن ہے ،یہی ہماراکام ہے۔
اکثرکیوں ایساہوتاہے کہ الیکشن کے موقع پر مسلم علاقوں میں کئی مسلم چہرے سامنے آئے ہیں،اورکامیابی کسی کونہیں مل پاتی ہے، ہماری پبلک اوربے چارے عوام کسی ایک جانب فیصلہ کرنے پرتیارنہیں ہوتی ہیں، اوراس کاسیدھافائدہ ان طاقتوں کوہوتاہے جوخندق پارکرکے ہمارے خون سے ہولی کھیلناچاہتے ہیں۔
مسجدوں کے منبروں سے جو آوازیں بلندہوتی ہیں،اس میں زیادہ تریہی عنوانِ اختلافی نظرآتاہے،ان فروعی مسائل کوزورداراندازمیں پیش کیاجاتاہے،جن سے بے چارے عوام پش وپیش میں ہوجاتی ہے ، اور خود مسلمان بھائیوں کواسلام پرشک ہونے لگتاہے،جبکہ یہ جزوئی مسائل نہ تو اسلام کیBasic چیزہیں،اورنہ ہی اس قدرضروری کہ جس کے کرنے نہ کرنے سے مسلمان مسلمان ہی نہ رہے۔
اﷲ نے ہرہفتہ مسلمانوں کوانعام کے طورپرایک بہت بڑااسٹیج دیاہے، اور وہ ہے جمعہ کا دن ،جس میں نہ شامیانے کی ضرورت ہے اور نہ خیمہ لگانے کی ،نہ لوگوں کو بلانے میں پیسے خرچ ہوتے ہیں ،اور نہ کسی طرح کا صرفہ ، اگرعام مسلمان دلچسپی سے سنیں اورہمارے علماء کرام نبی کریم ﷺ کی سیرت،نبی ﷺ کے اخلاق،اسوۂ حسنہ اوراسلام کی بنیادی چیزوں پر گفتگو کریں،اورمسلم صفوں میں اتحادپیداکرنے کوششیں کریں تو بہت کم وقت میں ایک بہتر اور پاکیزہ سماج کی تشکیل ہوگی ،اور مسلم بھائیوں میں زبردست انقلاب آئیگا۔
مسلمانویادرکھئے!یہودیوں کی متحدہ طاقت یعنی دنیائے کفرکااگرمقابلہ کرناہے توسب سے پہلے اپنے صفوں میں اتحاد پیدا کرنا ہوگا،گورے،کالے،عربی،عجمی،مسلکی،گروہی اورہرطرح کے اختلافات کومٹاکرایک اہم پلاننگ کرنی ہوگی۔