ماہنامہ الفاران

ماہِ صفر المظفر - ۱۴۴۵

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد

جناب حضرت مولانا و مفتی نفیس احمد صاحب جمالپوری المظاہری؛ استاذ:حدیث و فقہ، مدرسہ قادریہ،مسروالا،ہماچل پردیش

واضح رہے کہ رسول اللہ ﷺ جب دنیا میں تشریف لائے اس وقت تاریخ ضبط کرنے کا اس قدر اہتمام نہیں ہوتا تھا جیساکہ مابعد کے زمانے میں اسلامی مؤرخین نے شروع کیا، بلکہ اس وقت کسی مشہور واقعے یا عموماً مہینے کے اعتبار سے تاریخ ذکر کردی جاتی تھی، ورنہ تقریبی طور پر تاریخ لکھ دی جاتی تھی، یہ تو اسلام آنے کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعینِ کرام رحمہم اللہ نے احادیثِ نبویہ کے ذخیرے کی حفاظت کی خاطر کامل ضبط و اتقان کے ساتھ ہر چیز کو مرتب و محفوظ کیا، اسی کے نتیجے میں مشہور شخصیات کے حالاتِ زندگی، تاریخِ پیدائش و وفات اور دیگر واقعات مکمل ضبط و تصحیح کے ساتھ محفوظ کیے جانے لگے، اس کے باوجود بھی آج تک مشہور شخصیات کی تاریخِ پیدائش اور وفات میں اختلاف دیکھا جاتاہے۔
بہرحال حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت کے حوالے سے مؤرخین اور سیرت نگاروں کی آراء مختلف ہیں، مشہور یہ ہے کہ بارہ ربیع الاول کو پیدائش ہوئی، البتہ محققین علماءِ کرام کے دو قول ہیں، 8 ربیع الاول یا 9 ربیع الاول، بعض نے ایک کو ترجیح دی ہے، بعض نے دوسرے کو۔ راجح قول کے مطابق حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش 8 ربیع الاول بمطابق 20 یا 22 اپریل 571 عیسوی کو ہوئی،
اسی طرح تاریخ وفات میں بھی اختلاف ہے، مشہور قول کی بنا پر 12 ربیع الاول سن11 ہجری بروز پیر کو وفات ہوئی، لیکن تحقیق کے مطابق یہ قول درست نہیں ہے۔ بعض نے یکم ربیع الاول کو اور بعض نے 2ربیع الاول کو تاریخ وصال قرار دیا ہے، علامہ سہیلی نے روضۃ الانف میں اور علامہ ابن حجر نے فتح الباری میں اسی کو راجح قرار دیا ہے۔
حضور ﷺ کاحلیہ مبارک
حضرت علی رضی اللہ عنہ جب حضور اکرم ﷺ کے حلیہ مبارک کا بیان فرماتے تو کہا کرتے تھے، کہ حضور ﷺ نہ زیادہ لمبے تھے، نہ زیادہ پستہ قد بلکہ میانہ قد لوگوں میں تھے، حضور اکرم ﷺ کے بال مبارک نہ بالکل پیچدار تھے نہ بالکل سیدھے، بلکہ تھوڑی سی پیچیدگی لئے ہوئے تھے، نہ آپ ﷺ موٹے بدن کے تھے نہ گول چہرہ کے البتہ تھوڑی سی گولائی آپ کے چہرہ مبارک میں تھی (یعنی چہرہ انور نہ بالکل گول تھا نہ بالکل لمبا بلکہ دونوں کے درمیان تھا) حضور ﷺ کا رنگ سفید سرخی مائل تھا، حضور ﷺ کی مبارک آنکھیں نہایت سیاہ تھیں اور پلکیں دراز، بدن کے جوڑوں کی ہڈیاں موٹی تھیں (مثلا کہنیاں اور گھٹنے) اور ایسے ہی دونوں مونڈھوں کے درمیان کی جگہ بھی موٹی اور پُر گوشت تھی، آپ ﷺ کے بدن مبارک پر (معمولی طور سے زائد) بال نہیں تھے (یعنی بعض آدمی ایسے ہوتے ہیں کہ ان کے بدن پر بال زیادہ ہو جاتے ہیں حضور اقدس ﷺ کے بدن مبارک پر خاص خاص حصوں کے علاوہ جیسے بازو پنڈلیاں وغیرہ ان کے علاوہ اور کہیں بال نہ تھے) آپ ﷺ کے سینہ مبارک سے ناف تک بالوں کی لکیر تھی، آپ ﷺ کے ہاتھ اور قدم مبارک پُر گوشت تھے، جب آپ ﷺ تشریف لے چلتے تو قدموں کو قوت سے اٹھاتے گویا کہ پستی کی طرف چل رہے ہیں، جب آپ کسی کی طرف توجہ فرماتے تو پورے بدن مبارک کے ساتھ توجہ فرماتے تھے (یعنی یہ کہ صرف گردن پھیر کر کسی کی طرف متوجہ نہیں ہوتے تھے، اس لئے کہ اس طرح دوسروں کے ساتھ لا پرواہی ظاہر ہوتی ہے اور بعض اوقات متکبرانہ حالت ہو جاتی ہے، بلکہ سینہ مبارک سمیت اس طرف رخ فرماتے ) آپ ﷺ کے دونوں مبارک شانوں کے درمیان مہر نبوت تھی، نبیوں کےآپ ﷺ ختم کرنے والے تھے، آپ ﷺ سب سے زیادہ سخی دل والے تھے اور سب سے زیادہ سچی زبان والے تھے، سب سے زیادہ نرم طبیعت والے تھے اور سب سے زیادہ شریف گھرانے والے تھے (غرض آپ ﷺ دل و زبان، طبیعت، خاندان اوصاف ذاتی اور نسبتی ہر چیز میں سب سے زیادہ افضل تھے) آپ ﷺ کو جو شخص یکایک دیکھتا مرعوب ہو جاتا تھا (یعنی آپ ﷺ کا وقار اس قدر زیادہ تھا کہ اول وہلہ میں دیکھنے والا رعب کی وجہ سے ہیبت میں آ جاتا تھا) اول تو جمال وخوبصورتی کے لئے بھی رعب ہوتا ہے ،اس کے ساتھ جب کمالات کا اضافہ ہو تو پھر رعب کا کیا پوچھنا اس کے علاوہ حضور اکرم ﷺ کو جو مخصوص چیزیں عطا ہوئیں، ان میں رعب بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کیا گیا اور جو شخص پہچان کر میل جول کرتا تھا وہ (آپ ﷺ کے اخلاق کریمہ واوصاف جمیلہ سے گھائل ہو کر) آپ ﷺ کو محبوب بنا لیتا تھا، آپ ﷺ کا حلیہ بیان کرنے والا صرف یہ کہہ سکتا ہے کہ میں نے حضور اکرم ﷺ جیسا باجمال و باکمال نہ حضور ﷺ سے پہلے دیکھا نہ بعد میں دیکھا۔ ( شمائل ترمذی )
حضور ﷺ کی ازواج مطہرات
رسول اکرم ﷺنے کل گیارہ ازواج مطہرات سے نکاح کیا، جن کے اسماء گرامی درج ذیل ہیں
(1) حضرت خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ عنہا (2) حضرت سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا (3) حضرت عائشہ بنت ابی بکر الصدیق رضی اللہ عنھما (4) حضرت حفصہ بنت عمر الفاروق رضی اللہ عنہما (5) حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا (6)حضرت ام سلمہ بنت ابی امیہ رضی اللہ عنہا (7) حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا (8) حضرت جویریہ بنت حارث بن ضرار رضی اللہ عنہا (9) حضرت ام حبیبہ بنت ابی سفیان رضی اللہ عنہما (10) حضرت صفیہ بنت حیی بن اخطب رضی اللہ عنہا (11) حضرت میمونہ بنت حارث رضی اللہ عنہا۔
آپ ﷺ کی چار کنیزیں بھی تھیں، جن میں حضرت ماریہ قبطیہ، حضرت ریحانہ بنت شمعون اور حضرت نفیسہ رضوان اللہ علیہن کے نام معلوم ہیں۔ اس کے علاوہ ایک اور کنیز تھیں جن کا نام معلوم نہیں ہے۔
حضور ﷺ کی اولاد
رسول اللہ ﷺ کے تین صاحب زادے تھے، جن کے اسماء گرامی درج ذیل ہیں (1) حضرت قاسم رضی اللہ عنہ (2) حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ (جن کو طیب اور طاہر کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے) (3) حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ۔
آپ ﷺ کی چار صاحب زادیاں تھیں، جن کے اسماء گرامی درج ذیل ہیں (1) حضرت زینب رضی اللہ عنہا (2) حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا (3) حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا (4) حضرت فاطمہ الزہراء رضی اللہ عنہا۔
حضرت ابراہیم کے علاوہ تمام اولاد حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بطن سے ہوئیں، اس کے علاوہ کسی زوجہ مطہرہ سے آپ ﷺ کی کوئی اولاد نہیں ہے،جبکہ حضرت ابراہیم آپ ﷺ کی کنیز حضرت ماریہ قبطیہ کے بطن سے ہیں۔ (سیرت المصطفی لادریس کاندھلوي 273/3- 342، ط: کتب خانه مظھري)

دیگر تصانیف

امیدوں کا چراغ

مٹی کا چراغ

کہاں گئے وہ لوگ

تذکیر و تانیث

مجلس ادارت

team

سرپرست

حضرت الحاج مولانا کبیر الدین فاران صاحب مظاہری

team

مدیر مسئول

مولانا ارشد کبیر خاقان صاحب مظاہری

team

مدیر

مفتی خالد انور پورنوی صاحب قاسمی