ماہنامہ الفاران
ماہِ صفر المظفر - ۱۴۴۵
ماہ صفر کی حقیقت اور پیش آمدہ توہمات کی توجیہ و تردید
جناب مولانا ارشد کبیر خاقان صاحب المظاہری؛ مدیر ماہنامہ"الفاران" و جنرل سکریٹری ابو الحسن علی ایجوکیشنل اینڈ ویلفیر ٹرسٹ(پورنیہ)
اسلامی و قمری سال کا دوسرا مہینہ صفرالمظفرہےعلامہ ابن منظور رحمہ اﷲ نے لسان العرب میں اور صاحب معجم الوسیط نےصفر کا معنی خالی سے کیا ہے۔کہا جاتا ہے کہ: اس مہینے میں عرب لوگوں کے گھر خالی رہتے تھے، کیوں کہ چار مہینوں (ذوالقعدہ، ذوالحجہ، محرم اور رجب)میں مذہبی طور پر ان کو جنگ اور لڑائی نہ کرنے اور مذہبی عبادت انجام دینے کا بہ طور خاص پابند کیا گیا تھا۔محرم کا مہینہ گزرتے ہی اس جنگجو قوم کے لیے مسلسل تین مہینوں کی یہ پابندی ختم ہوجاتی تھی، لہٰذا وہ لوگ جنگ، لڑائی اور سفر میں چل دیتے تھے، اسی وجہ سے ان کے گھر خالی ہوتے تھے۔اس کے علاوہ اور بھی وجوہات کتب میں مذکور ہیں صفر کے ساتھ مظفر کہنے کی وجہ:عام طور پر صفر کے ساتھ مظفر(کام یابی) یا خیرکا لفظ لگایا جاتاہے۔اس کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ:زمانۂ جاہلیت میں صفر کے مہینے کو چوں کہ منحوس مہینہ سمجھا جاتا تھا اور آج بھی اس مہینے کو بہت سے لوگ منحوس اور آسمان سے بلائیں اور آفتیں نازل ہونے والا مہینہ سمجھتے ہیں۔اسی وجہ سے اس مہینے میں خوشی کی بہت سی چیزوں(مثلاً شادی بیاہ وغیرہ کی تقریبات)کو معیوب سمجھتے ہیں؛ جب کہ اسلامی اعتبار سے اس مہینہ سے کوئی نحوست وابستہ نہیں ہے۔اسی وجہ سے احادیث مبارکہ میں اس مہینہ کے ساتھ نحوست وابستہ ہونے کی تردید کی گئی ہے۔اس لیے صفر کے ساتھ مظفر یا خیر کا لفظ لگا کر صفر المظفریا صفر الخیر کہا جاتا ہے، تاکہ اسے منحوس اور شر و آفت والا مہینہ نہ سمجھا جائے، بلکہ اسے کام یابی اورخیر کا مہینہ سمجھا جائے۔
(ماہ صفر اور توہُّم پرستی )
حالانکہ ہما ے پیار ے نبی ﷺ نے بدشگونی کو شرک سے تعبیر فرمایا ہے،حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے مروی ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا بدشگونی شرک ہے اور حضورﷺ نے یہ الفاظ تین مرتبہ دُہرائے۔ (مشکوٰۃ شریف)
درج ذیل سطور میں قرآن و سُنت کی روشنی میں ان توہمات کو دور کرنے کی سعی بلیغ کی جا رہی ہے۔
پہلاوہم
اس ماہ میں شادی کرنے والا ناکامیوں کا شکار ہوتا ہے حتیٰ کے زوجین میں طلاق یا ان میں سے کوئی ایک ہلاک ہو جاتا ہے حالانکہ اس بات کی کوئی حقیقت نہیں ماہ صفر میں شادی کرنا ہرگز منحوس نہیں کیونکہ شادی تو سُنت رسول ﷺ اور نیکی کا عمل ہے اور نیکی کے لئے کوئی وقت مخصوص نہیں ہوتا اس باطل نظریہ نے لوگوں کے اندر اس وجہ سے رواج پکڑا کہ زمانہ جاہلیت میں ایک مرتبہ طاعون کی وبا پھیلی اور اس وبا کا زیادہ تر شکار نوعروس ہوئیں لیکن اگر دقت نظر سے تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے وہ طاعون کی وبا شوال میں پھیلی تھی جسے امتدادِ زمانہ نے شوال سے صفر کی جانب موڑ دیا اور ماہ شوال بھی ہرگز منحوس نہیں کیونکہ رسول اکرمﷺ کا نکاح حضرت عائشہ صدیقہؓ سے ماہ شوال میں ہوا تھاجہا ں تک تعلق ہے ماہ صفر میں شادی کرنے کا تو اگر اس ماہ میں شادی کرنے میں کوئی قباحت ہوتی تو رسول اکرمﷺ اپنی لختِ جگر سیدہ فاطمہؓ کا نکاح کبھی بھی ماہ صفر میں نہ کرتے۔ رسول اکرمﷺ کا اپنی لخت جگر سیدہ فاطمہؓ کا نکاح ماہ صفر میں کرنا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ ماہ صفر میں شادی کرنا ہرگز منحوس نہیں۔
دوسرا وہم
ماہ صفر میں کوئی بھی شروع کیا جانے والا کام ادھورا اور نامکمل رہتا ہے کبھی بھی کامیاب ہو کر منزل مقصود تک نہیں پہنچتا یہ بھی باطل نظریہ ہے کیونکہ اگر اسلامی تار یخ پر نگاہ دوڑائی جائے تو یہ حقیقت آ شکار ہوتی ہے کہ ماہ صفر کے مہینہ کی اسلام کے ساتھ بہت عظیم یادگاریں وابستہ ہیں جو اس وہم کے ازالہ کے لئے کافی ہیں،مثلاً اسلام کا پہلا غزوہ غزوہ ودان ماہ صفر میں پیش آیا، خیبر جیسی عظیم سلطنت ماہ صفر میں اسلام کے دامن میں آئی، سریہ رجیع ما ہ صفر میں ہوا، سریہ ضحاک بن سفیان ماہ صفر میں ہوا۔ آپ خود اندازہ لگائیے کہ اتنے اہم امور ماہ صفر میں وقوع پذیر ہوئے اس کے باوجود افسوس آج بھی بعض ناعاقبت اندیش لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اس ماہ میں شروع کیا جانے والا کام اپنے منطقی انجام تک نہیں پہنچ سکتا۔
تیسرا وہم
حضور اکرمﷺ نے ماہ صفر کے اختتام کی خبر دینے والے کو جنت کی خوشخبری سنائی ہے معلوم ہوا کہ صفر وہ منحوس مہینہ ہے جس سے نکلنے پر آپؐ نے خوشی منائی ہےاولا تو یہ حدیث ہی انتہائی ضعیف ہے یاپھر یہ کہہیےکہ اس حدیث میں ماہ صفر کی نحوست کی طرف اشارہ نہیں بلکہ اس میں ایک راز پوشیدہ ہے اصل بات یہ ہے کہ چونکہ انبیاء اور اولیاء کو دار فنا سے دار بقا کی طرف کوچ کرنے کا وقت اور دن پہلے سے بتا دیا جاتا ہے جیسا کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا کہ اللہ کے ایک نیک بندے کو اختیار دیا گیا تھا تو اس نے رفیق اعلیٰ کی طرف جانا پسند کیا چونکہ ماہ ربیع الاول میں حضور اکرمﷺ کو محبوب حقیقی سے ملنا تھا اور آپؐ کو ماہ ربیع الاول کا شدت سے انتظار تھا اس لئے آپؐ نے ماہ صفر کے اختتام کی خبر دینے والے کو جنت کی خوشخبری کا عندیہ دیا۔
چوتھا وہم
یہ آفتوں اور بلاؤں کے نازل ہونے کا مہینہ ہے حالانکہ اس بات کا حقیقت حال سے کوئی تعلق نہیں ہے دراصل زمانہ جاہلیت میں اہل عرب لوٹ مار اور قتل و غارت گر ی سے اپنا پیٹ پالتے تھے اس کے باوجود ملتِ ابراہیمی ہونے کی وجہ سے چار مقدس مہینوں کا احترام اپنے اوپر لازم جانتے تھے چنانچہ تین ماہ تسلسل کے ساتھ آتے اس لئے تیسرے مہینے تک ان کی جمع پونجی ختم ہو جاتی اور تیسرا مہینہ محرم کو صفر میں تبدیل کر لیتے تھے اب جونہی صفر کا مہینہ شروع ہوتا تو لڑائی مارکٹائی، لوٹ کھسوٹ، غارت گری دوبارہ شروع ہو جاتی اس بنا پر دور جاہلیت سے ہی عوام صفر کے مہینے کو مصیبتوں کا مہینہ گردانتے تھے اس باطل نظریہ کے بطلان کے لئے حضور اکرمﷺ کا یہ فرمان عالیشان پیش خدمت ہے،حضرت جابرؓ فرماتے ہیں میں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سُنا کہ ماہ صفر میں بیماری، نحوست اور بھوت پریت وغیرہ کا کوئی نزول نہیں ہوتا (مسلم)اور حقیقت یہ ہے کہ اگر بلائیں اور مصیبتیں نازل ہوتی بھی ہیں تو وہ نافرمان لوگوں پر ان کی نافرمانی کی وجہ سے اور وہ ماہ صفر کے ساتھ خا ص نہیں ہیں۔باقی اس ماہ کی فضیلت کے سلسلے میں صراحةً کوئی روایت منقول نہیں ہے
(ماہ صفر اور توہُّم پرستی )
حالانکہ ہما ے پیار ے نبی ﷺ نے بدشگونی کو شرک سے تعبیر فرمایا ہے،حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے مروی ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا بدشگونی شرک ہے اور حضورﷺ نے یہ الفاظ تین مرتبہ دُہرائے۔ (مشکوٰۃ شریف)
درج ذیل سطور میں قرآن و سُنت کی روشنی میں ان توہمات کو دور کرنے کی سعی بلیغ کی جا رہی ہے۔
پہلاوہم
اس ماہ میں شادی کرنے والا ناکامیوں کا شکار ہوتا ہے حتیٰ کے زوجین میں طلاق یا ان میں سے کوئی ایک ہلاک ہو جاتا ہے حالانکہ اس بات کی کوئی حقیقت نہیں ماہ صفر میں شادی کرنا ہرگز منحوس نہیں کیونکہ شادی تو سُنت رسول ﷺ اور نیکی کا عمل ہے اور نیکی کے لئے کوئی وقت مخصوص نہیں ہوتا اس باطل نظریہ نے لوگوں کے اندر اس وجہ سے رواج پکڑا کہ زمانہ جاہلیت میں ایک مرتبہ طاعون کی وبا پھیلی اور اس وبا کا زیادہ تر شکار نوعروس ہوئیں لیکن اگر دقت نظر سے تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے وہ طاعون کی وبا شوال میں پھیلی تھی جسے امتدادِ زمانہ نے شوال سے صفر کی جانب موڑ دیا اور ماہ شوال بھی ہرگز منحوس نہیں کیونکہ رسول اکرمﷺ کا نکاح حضرت عائشہ صدیقہؓ سے ماہ شوال میں ہوا تھاجہا ں تک تعلق ہے ماہ صفر میں شادی کرنے کا تو اگر اس ماہ میں شادی کرنے میں کوئی قباحت ہوتی تو رسول اکرمﷺ اپنی لختِ جگر سیدہ فاطمہؓ کا نکاح کبھی بھی ماہ صفر میں نہ کرتے۔ رسول اکرمﷺ کا اپنی لخت جگر سیدہ فاطمہؓ کا نکاح ماہ صفر میں کرنا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ ماہ صفر میں شادی کرنا ہرگز منحوس نہیں۔
دوسرا وہم
ماہ صفر میں کوئی بھی شروع کیا جانے والا کام ادھورا اور نامکمل رہتا ہے کبھی بھی کامیاب ہو کر منزل مقصود تک نہیں پہنچتا یہ بھی باطل نظریہ ہے کیونکہ اگر اسلامی تار یخ پر نگاہ دوڑائی جائے تو یہ حقیقت آ شکار ہوتی ہے کہ ماہ صفر کے مہینہ کی اسلام کے ساتھ بہت عظیم یادگاریں وابستہ ہیں جو اس وہم کے ازالہ کے لئے کافی ہیں،مثلاً اسلام کا پہلا غزوہ غزوہ ودان ماہ صفر میں پیش آیا، خیبر جیسی عظیم سلطنت ماہ صفر میں اسلام کے دامن میں آئی، سریہ رجیع ما ہ صفر میں ہوا، سریہ ضحاک بن سفیان ماہ صفر میں ہوا۔ آپ خود اندازہ لگائیے کہ اتنے اہم امور ماہ صفر میں وقوع پذیر ہوئے اس کے باوجود افسوس آج بھی بعض ناعاقبت اندیش لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اس ماہ میں شروع کیا جانے والا کام اپنے منطقی انجام تک نہیں پہنچ سکتا۔
تیسرا وہم
حضور اکرمﷺ نے ماہ صفر کے اختتام کی خبر دینے والے کو جنت کی خوشخبری سنائی ہے معلوم ہوا کہ صفر وہ منحوس مہینہ ہے جس سے نکلنے پر آپؐ نے خوشی منائی ہےاولا تو یہ حدیث ہی انتہائی ضعیف ہے یاپھر یہ کہہیےکہ اس حدیث میں ماہ صفر کی نحوست کی طرف اشارہ نہیں بلکہ اس میں ایک راز پوشیدہ ہے اصل بات یہ ہے کہ چونکہ انبیاء اور اولیاء کو دار فنا سے دار بقا کی طرف کوچ کرنے کا وقت اور دن پہلے سے بتا دیا جاتا ہے جیسا کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا کہ اللہ کے ایک نیک بندے کو اختیار دیا گیا تھا تو اس نے رفیق اعلیٰ کی طرف جانا پسند کیا چونکہ ماہ ربیع الاول میں حضور اکرمﷺ کو محبوب حقیقی سے ملنا تھا اور آپؐ کو ماہ ربیع الاول کا شدت سے انتظار تھا اس لئے آپؐ نے ماہ صفر کے اختتام کی خبر دینے والے کو جنت کی خوشخبری کا عندیہ دیا۔
چوتھا وہم
یہ آفتوں اور بلاؤں کے نازل ہونے کا مہینہ ہے حالانکہ اس بات کا حقیقت حال سے کوئی تعلق نہیں ہے دراصل زمانہ جاہلیت میں اہل عرب لوٹ مار اور قتل و غارت گر ی سے اپنا پیٹ پالتے تھے اس کے باوجود ملتِ ابراہیمی ہونے کی وجہ سے چار مقدس مہینوں کا احترام اپنے اوپر لازم جانتے تھے چنانچہ تین ماہ تسلسل کے ساتھ آتے اس لئے تیسرے مہینے تک ان کی جمع پونجی ختم ہو جاتی اور تیسرا مہینہ محرم کو صفر میں تبدیل کر لیتے تھے اب جونہی صفر کا مہینہ شروع ہوتا تو لڑائی مارکٹائی، لوٹ کھسوٹ، غارت گری دوبارہ شروع ہو جاتی اس بنا پر دور جاہلیت سے ہی عوام صفر کے مہینے کو مصیبتوں کا مہینہ گردانتے تھے اس باطل نظریہ کے بطلان کے لئے حضور اکرمﷺ کا یہ فرمان عالیشان پیش خدمت ہے،حضرت جابرؓ فرماتے ہیں میں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سُنا کہ ماہ صفر میں بیماری، نحوست اور بھوت پریت وغیرہ کا کوئی نزول نہیں ہوتا (مسلم)اور حقیقت یہ ہے کہ اگر بلائیں اور مصیبتیں نازل ہوتی بھی ہیں تو وہ نافرمان لوگوں پر ان کی نافرمانی کی وجہ سے اور وہ ماہ صفر کے ساتھ خا ص نہیں ہیں۔باقی اس ماہ کی فضیلت کے سلسلے میں صراحةً کوئی روایت منقول نہیں ہے