ماہنامہ الفاران
ماہِ صفر المظفر - ۱۴۴۵
اسی پہ ضر ب پڑی،جو شجر پرانا تھا
جناب حضرت مولانا کبیر الدین صاحب فاران المظاہری؛ ناظم: مدرسہ قادریہ،مسروالا،ہماچل پردیش و سرپرست ماہنامہ "الفاران"
اسی پہ ضر ب پڑی،جو شجر پرانا تھا
محدث کبیر حضرت مولانا ڈاکٹر مفتی عبد الغنی شاشی، ازہری،کشمیر ی ایک عظیم محقق،ماہر علوم و فنون، بے لوث داعی، گرو ہ اولیاء کے صحبت یافتہ اور بافیض بزرگ۔
لیکن روئے زمین پر کچھ ایسی شخصیات بھی رب کائنات نے پیداکیں جن کی اس مٹی نے رنگت تو بدل دی لیکن ا ن کے کارناموں اور حسنات کو مٹانے میں ہمیشہ ناکام رہی۔
زمیں کھاگئی آسماں کیسے کیسے
وطن مالوف لوٹنے کے بعد آپ کشمیر یونیورسٹی کے شعبہئ عربی میں پروفیسر اور اخیر میں ہیڈ آف دَے ڈپارٹمینٹ مقرر ہوئے اور اپنے علوم و فنون کی مہارت کا لوہا منوایا اور ایک کامیاب مدرس اور منتظم کے طور پر فائز المرام رہے اور اپنی علمی وراثت کو امانت داری سے اپنے شاگردوں میں منتقل فرمایا جنہوں نے بعد میں یونیورسٹی کے امور کو بحسن و خوبی انجام دے کر استاذ کا نام روشن کیا۔
اللہ سبحانہٗ تعالیٰ نے آپ کے رگ و پے میں ان کے روحانی اور علمی استاذِ محترم شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ اور شیخ الاسلام حضرت مولاناسید حسین احمد مدنی ؒ جیسی ہستیوں کی نظرکیمیاں گر اور ان کی طبعی صالحیت کی وجہ سے مدارس دینیہ کی بیش بہا خدمات کا ان کے سر سہرہ رکھا اور آپ نے وادی میں سیکڑوں مکاتب اسی طرح درجنوں مدارس و مساجد قائم کئے اور ا ن کی خدمت و نصرت کو اپنا فرض منصبی سمجھا۔
حضرت مفتی صاحب ؒ نے متعدد بار فدائے ملت حضرت مولانا سید اسعد مدنی ؒ اور حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب مہتمم دار دالعلوم کو بھی کشمیر میں بلا کر علماء دیوبند کا تعارف اور ان کی خدمات کا وادی میں تعارف کرایا اور کئی دینی اداروں کی بنیا د بھی ان حضرات کے مبارک ہاتھوں رکھوائی۔
جس یونیورسٹی میں آپ پروفیسر تھے وہ آپ کے گھر سے ۵۲ /میل کی دری پر تھی،آپ گھر سے علی الصبح پیدل چل کر تو کہیں سواری پر سوار ہو کر وقت سے پہلے یونیورسٹی پہونچتے،جفاکشی کایہ عالم تھا کہ دن کو یونیورسٹی میں خدمت انجام دیتے اور رات کو گھر پہونچ کر مدارس کے نظم وانصرام کی دیکھ ریکھ اور فکر فرماتے۔
حضرت مفتی صاحبؒ شافعی المسلک اور مقلد تھے، سوئے اتفاق کہ جب ان کا قیام سہارنپور کے علاقے میں ہوا تو میرے علم میں تھاکہ وہ غیر مقلد ہیں اوروہ میرے بارے جانتے تھے کہ میں مودودی ذہن کا ہوں اس لئے ایک دوسرے سے ایک عرصہ تک دوری رہی ایک مرتبہ جانشین شیخ الاسلام حضرت مولانا سید ارشد مدنی دامت برکاتہم العالیہ مدرسہ قادریہ تشریف لائے اور یہاں سے حضرت مفتی صاحب سے ملنے بادشاہی باغ تشریف لے گئے میں بھی ان کے ہمراہ تھا،حضرت مولانا ارشد مدنی صاحب مدظلہ العالی نے فرمایا کہ مفتی صاحب مولانا فاران سے آپ واقف ہیں انہوں نے اثبات میں فرمایا کہ یہ تو مودودی ذہنیت کے ہیں بندہ نے عرض کیا کہ حضرت آپ کے بارے میں مجھے معلوم ہے کہ آپ غیر مقلد ہیں اس لئے آپ کی خدمت میں میری حاضری نہیں ہوتی حضرت مولانا ارشد مدنی مدظلہ نے مسکراتے ہوئے فرمایا ہ ”دونوں کو دونوں سے غلط فہمی رہی“
اس کے بعد حضرت مفتی صاحب ؒسے قربت بڑھتی گئی اور ان کی نظر شفقت سے مستفیض ہوتا رہا اور حاضری کا تسلسل بھی جاری رہا وہ مدرسہ قادریہ تشریف لانے لگے اور کئی جلسوں کی حضرت نے صدارت بھی فرمائی۔اپنی وفات سے ۰۱ / ماہ قبل ۸ شعبان المعظم ۳۴۴۱ھ مطابق ۲۱/مارچ ۲۲۰۲ء بروز بار مدرسہ قادریہ کے جلسہئ دستاربندی فارغین حفاظ کرام میں تشریف لائے جس کے وہ صدر تھے تقریباً ۰۸منٹ تک پرمغز اور مؤثر خطاب فرمایا دوران ارشاد آپ نے دنیاء اسلام کے کئی اہم پہلؤ پر روشنی ڈالی اور آقائے نامدار حضرت محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مسعود سے قیامت تک کے احوال کا نقشہ کھینچنے کے بعد فرمایا ”فتنوں اور آلام ومصائب کی کثرت کو دیکھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ دنیا جلد ہی اختتام پذیر ہونے والی ہے“بہت سی نادر الوجود کتب کا تذکرہ کرنے کے بعد مجھ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا ”مولانا فاران صاحب اللہ تعالیٰ نے آپ کو دولت وثروت سے نوازا اور علم وعرفان سے بھی مالامال فرمایا ہے مجھے یقین ہے کہ میں جو کہوں گا اس کو آپ کما حقہ انجام دیں گے،میں ہندوستان کے بڑے بڑے اداروں میں جاکر وہ بات کہنا چاہتا تھا لیکن اتفاق کہ نہ سکا کہ ایک ایسی لائبریری مدرسہ قادریہ مسروالا میں بنائیے کہ جس میں ہر فن کی ہر زبان میں کتاب ہو تاکہ ہر طبقہ ئ فکرکے لوگ مدارس سے جڑیں اور مدارس اسلامیہ پوری امت مرحومہ کی ہر میدان میں رہنمائی فرمائے“
مدرسہ قادریہ انہیں اس لئے بھی پسند تھا کہ اس کے ذریعہ غیر منقسم پنجاب کے بے دین علاقہ میں بہت سی مساجدتعمیر ہوئی اوربڑی تعداد میں مدارس ومکاتب کا قیام عمل میں آیا جنہیں وہ خوب جانتے تھے اور یہ مدرسہ ان کے پیر و مرشد قطب العالم حضرت شاہ عبد القادر رائے پوری ؒ کی یادگار ہے۔
ایک موقع پر کسی نے میرے اور حضرت مفتی صاحبؒ کے درمیان غلط فہمی کی کوئی بات اڑائی تھی تو اس مخالف کو حضرت نے پیغام بھجوایا تھا کہ”مسر والا کے چوک پر پٹواؤں گا“
میں ان خوش نصیبوں میں سے ہوں جنہیں حضرت کی زیارت اور ملاقات کیلئے فراخی سے وقت ملتا اور خلوت میں رائے مشورے کی سعادت بھی نصیب ہوتی یہ خوشگوار یادیں ہیں جنہیں کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔
جس سمت نظر اٹھی، آواز تیر ی آئی
آپ علماء ربانیین میں سے تھے آپ جہاں روحانی پیشوا تھے وہیں سیاست کے اعلیٰ درجے کے رموز شناس بھی تھے! حالات ک کی گردشوں سے اور زمانے کے کروٹوں سے بھی واقفیت تھی آپ اپنی مجلس میں ”ذکر الٰہی“کو بڑی اہمیت دیتے خو دآپ کا ذکر کا مشغلہ تھا آپ فرماتے تھے ذکر عبادت کی روح اور ساری عبادتوں کا خلاصہ ہے۔ وہ علماء دیوبند کے قدر دان اور ان سے والہانہ عقیدت و تعلق رکھتے تھے اور خانقاہ رحیمی رائے پور ضلع سہارنپور کی معرفت کے بحر ذخار سے فیض یافتہ تھے قطب عالم حضرت شاہ عبد القادر رائے پوری ؒ سے بیعت اور ان کے مجاز بھی تھے۔
حضرت مفتی صاحب ؒ اپنے رنگ کے بزرگ تھے، ان میں جمال کی نرمی بھی تھی اور جلال کی گرمی بھی،ان کے یہاں تصنع و بناوٹ اور دکھاوے کی کوئی گنجائش نہیں تھی وہ عہد قدیم کے بزرگ اور جدید افکار وخیالات کے رہنما اور سلف و خلف کے امین تھے اور ہمارے دو ر کے اکابر کی داستان کے شاہد العین۔
اس کے دل میں قاسمیت تھی یقینا بے حساب
جہاں ان کی رعایت میں علماء دار العلوم، مظاہر علوم اور علاقہ کے اہل مدارس اور روحانی مریضوں کا خوب آنا جانارہتا اور یہاں سے وہ با مراد اور شفایاب ہو کر جاتے تھے۔
اکثر عید الفطر میں فدائے ملت حضرت مولاناسید اسعد مدنی ؒ،پیر طریقت حضرت مولانا محمد طلحہ صاحب کاندھولویؒ بادشاہی باغ تشریف لاتے تھے۔
حضرت نے اپنی تصانیف اور خطبات سے بھی اسلام کی حقیقی اور صاف ستھری تصویر دنیا کے سامنے پیش کی ایسے خطاب جو بے مثل بصیرت، علمی تعمق اور روشن بیانی سے لیس ہو ا کرتے تھے۔
حق تو یہ ہے کہ آپ ایک عظیم محقق، بے لوث داعی،ماہر علوم و فنون اورگرو ہ اولیاء کے صحبت یافتہ اور بافیض بزرگ تھے،وہ گوشہ نشینی اور خلوت کو پسند کرتے تھے،لیکن زمانہ کے نشیب وفراز پر گہری نظر رکھتے اور نبض سناشی کے جوہر سے بھی اللہ نے مالامال فرمایا تھاجس کی وجہ سے ان کا شمار ایک صائب الرائے کے طور پر ہوتا تھا۔ وادی کشمیر ہی نہیں، غیر منقسم پنجاب کے مدارس و مکاتب اور مساجد کے مینار آپ کی خدمات کے گواہ اورآپ کی نیک دل اولاد آپ کیلئے صدقہ ئ جاریہ ہیں۔
بلآخروہ دن بھی آگیا کہ اس عظیم روحانی اور نورانی شخصیت کو ہزاروں سوگواروں کی موجودگی میں جمعہ بعد ۷۲/ جمادی الاخری ۴۴۴۱ء مطابق ۰۲ جنوری ۳۲۰۲ء کو مٹی نے اپنے اندر سمو کر ان کے انوار سے اپنے کو شکم سیر اورمنورکر لیا۔
وہی چراغ بجھا جس کی لو قیامت تھی