ماہنامہ الفاران
ماہِ محرم الحرام - ۱۴۴۵
ماہ محرم الحرام اور یوم عاشوراء ، قرآن وحديث کی روشنی میں
جناب محمد احمد حسن سعدی امجدی صاحب،اسلامک اسکالر، جامعہ البرکات اسلامک ریسرچ اینڈ ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ ،علی گڑھ
بلاشبہ اللہ رب العزت نے سال میں چند مہینوں کو بے شمار خصوصیات عطا فرمایا ۔ان مہینوں میں عبادت وریاضت دوسرے مہینوں کے بالمقابل زیادہ مقبول بارگاہ ہوتی ہے۔ انہیں امتیازی مہینوں میں ایک مہینہ محرم الحرام بھی ہے ۔محرم الحرام اسلامی سال کا پہلا مہینہ ہے اور یہ مہینہ اپنے دامن میں ڈھیر ساری رحمتیں اور برکتیں سموئے ہوئے ہے۔ اسلام کے آنے سے پہلے بھی اس مہینے کو قابل احترام سمجھا جاتا تھا لہذا اسلام نے بھی اس مبارک ماہ کے حرمت و تقدس کو برقرار رکھا ۔
ارشاد باری ہے ۔ بے شک مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک اللہ کی کتاب میں بارہ مہینے ہیں ۔جب سے اس نے آسمان اور زمین بنائے ان میں سے چار مہینے حرمت والے ہیں۔یہی سیدھا دین ہے تو ان مہینوں میں اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو اور مشرکوں سے ہر حال میں لڑو جیسا وہ تم سے ہر وقت لڑتے ہیں اور جان لو کہ اللہ پرہیزگاروں کے ساتھ ہے۔ سورة التوبة،آية 36 .ترجمہ کنزالایمان.
قرآن میں اس مبارک مہینے کا شمار چار حرمت والے مہینوں میں کیا گیا ہے ۔ اس مہینے میں جنگ و جدال قتل وقتال سب ممنوع ہیں۔اسی لئے اسے محرم الحرام کہا گیا ۔مذکورہ آیت کریمہ سے چند مزید اہم باتوں کا ثبوت ملتا ہے جو ہمارے لئے نقوش زریں کا مقام رکھتے ہیں کہ اللہ تبارک و تعالی اس مبارک مہینے میں اپنی جانوں پر ظلم کرنے سے منع فرما رہا ہے اور اپنی جانوں پر ظلم یہ کثرت گناہ سے ہوتا ہے۔ لہذا ہمیں اس حرمت والے مہینے میں زیادہ سے زیادہ زیادہ عبادت و ریاضت میں مصروف رہنا چاہئیے اور دوسری بات یہ کہ اس آیت مبارکہ میں اللہ تبارک وتعالی مشرکین کے تیئں متحد ہو کر برسر پیکار ہونے کا حکم فرما رہا ہے۔ کیونکہ اتحاد ایک بڑی چیز ہے اور مسلمانوں میں باہمی اتفاق و اتحاد کا فقدان بھی ہے ۔ لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ہم آپس کے اختلاف کو دور کرکے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوکر مشرکین کے لئے سینہ سپر تیار رہیں ۔اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ متقیوں کے ساتھ ہے۔ تو ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم اس مبارک مہینے میں تمام اوامر الہیہ پر عمل پیرا ہوں اور تمام منہیات سے اپنے نفس کو روکے رکھیں۔ فرائض و واجبات کے ساتھ نوافل و مندوبات کا بھی زیادہ سے زیادہ اہتمام کریں۔
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آقا صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ سال کے بارہ مہینے ہیں ۔جن میں سے چار حرمت والے ہیں تین مسلسل ہیں ذوالقعدہ ذوالحجہ اور محرم اور جمادی اور شعبان کے مابین رجب مضر کا مہینہ ہے۔ صحیح البخاری والمسلم
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے آپ فرماتے ہیں کہ آقا علیہ السلام نے ارشاد فرمایا رمضان کے بعد سب سے افضل روزے محرم الحرام کے ہیں اور فرض نماز کے بعد سب سے افضل نماز تہجد ہے ۔ مسلم شریف۔
یوم عاشورہ کی فضیلت:
عاشورہ کی وجہ تسمیہ میں اختلاف ہے ، اکثر علماء کا قول ہے کہ یہ محرم کا دسواں دن ہوتا ہے اسی لیے اس کو عاشورہ کہا گیا ہے اور بعض علماء نے فرمایا کہ عاشورہ کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اللہ تعالی نے اس روز دس پیغمبروں پر ایک ایک نعمت اتاری، کل دس نعمتیں ہوئیں۔ یہ مبارک دن خاص طورپر برکتوں اور رحمتوں کا حامل ہے، اس دن کے روزے کی فضیلت بے شمار ہے اور حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن روزہ رکھنے کو سنت اور مستحب قرار دیا ایک حدیث میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ مجھے اللہ جل شانہٗ کی رحمت سے یہ امید ہے کہ جو شخص عاشورے کے دن روزہ رکھے گا تو اس کے پچھلے ایک سال کے گناہوں( صغیرہ )کا کفارہ ہو جائے گا۔ مشکوۃ شریف۔
نیز دس محرم ہی کے دن اللہ تعالی نے حضرت موسی علیہ السلام اور ان کی قوم کو فرعون سے نجات دلائی ، اور حضرت موسی علیہ السلام نے اس دن بطور شکرانہ روزہ رکھا اسی لئے یہودی بھی اس دن شکرانے کا روزہ رکھتے تھے، آقا ﷺ کے علم میں جب یہ بات آئی تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ ہم موسی علیہ السلام کے طرز عمل کو اپنانے کے لیے تم سے زیادہ حقدار ہیں تو آپ نے خود بھی دس محرم کو روزہ رکھا اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا ۔ صحیح البخاری و المسلم ، ابو داؤد والبہیقی
اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے آپ فرماتی ہیں کہ یوم عاشورہ کو زمانہ جاہلیت میں قریش روزہ رکھتے تھے اور آقا ﷺ بھی اس دن روزہ رکھتے تھے۔ ھجرت کے بعد جب حضور ﷺ مدینہ تشریف لائے تو آپ نے عاشورہ کا روزہ رکھا اور صحابہ کو رکھنے کا حکم دیا لیکن جب رمضان کے روزوں کی فرضیت آگئی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اب جو چاہے عاشورہ کے دن روزہ رکھے اور جو چاہے نہ رکھے ۔ رواہ البخاری والمسلم
تو پتا چلا کہ عاشورہ کے روزوں کی بڑی فضیلت ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس دن خود بھی روزہ رکھتے تھے اور صحابہ کو روزہ رکھنے کی تلقین بھی فرماتے تھے اب رہا یہ سوال کہ کیا ہم بھی یہودیوں کی طرح ایک روزہ رکھیں گے کیونکہ اس میں اغیار کی مشابہت پائی جا رہی ہے۔ تو اس مناسبت سے حدیث کے الفاظ ہیں۔رئیس المفسرین حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ جب حضور ﷺ نے عاشورہ کا روزہ رکھا اور صحابہ کو روزہ رکھنے کی تلقین فرمائی تو صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین نے عرض کی یارسول اللہ یہود و نصاریٰ اس دن روزہ رکھتے ہیں یعنی اس دن روزہ رکھنے میں ان کی مشابہت پائی جا رہی ہے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ان شاء اللہ آئندہ سال ہم نویں کو بھی روزہ رکھیں گے ۔ راوی کہتے ہیں کہ آئندہ سال آنے سے پہلے حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان سے رحلت فرما چکے تھے ۔ رواہ المسلم
مذکورہ حدیث سے یوم عاشورہ اور اس کے روزوں کی فضیلت کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔ اور یوم عاشوراء اس لئے بھی بے شمار رحمتوں اور برکتوں کا حامل ہے کہ اس دن تاریخ کے بہت سے عظیم واقعات رونما ہوئے ۔ مؤرخین لکھتے ہیں کہ یوم عاشورہ میں آسمان و زمین اور حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کیا گیا ۔ اسی دن حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول ہوئی تھی۔ اسی دن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر اٹھایا گیا ۔ اسی دن حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خلیل اللہ بنا دیا گیا اور ان پر آگ گلزار ہو گئی۔اسی دن حضرت موسی علیہ السلام اور ان کی قوم کو فرعون کے ظلم و استبداد سے نجات حاصل ہوئی ۔ حضرت یونس علیہ السلام کو مچھلی کے پیٹ سے باہر نکالا گیا۔ اسی دن حضرت اسماعیل علیہ السلام کی ولادت باسعادت ہوئی اور اس کے علاوہ تاریخ اسلام کے بے شمار واقعات کثرت سے اس دن میں وقوع پذیر ہوئے ۔ اور ان میں سب سے مشہور یہ کہ 61 ھجری کو میدان کربلا میں اہل بیت پر ظلم و زیادتی کے پہاڑ توڑے گئے اور ان پر بے انتہا مظالم ڈھائے گئے اور بالآخر نواسہ رسول حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کو شہید کیا گیا۔
تو ہمیں چاہیے کہ ہم اس مبارک مہینے کے فیوض و برکات سے اپنے آپ کو محروم نہ رہنے دیں۔زیادہ سے زیادہ قرآن خوانی اور فاتحہ خوانی کا اہتمام کرکے تمام شہداء کربلا رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کے نام سے ایصال ثواب کی سعادتیں حاصل کریں
اللہ تبارک و تعالی کی بارگاہ میں دعا ہے کہ اللہ ہمیں اس مبارک دن کی برکتوں اور رحمتوں سے مستفید و مستنیر ہونے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارے اندر امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ جیسا جذبہ ایثاروقربانی پیدا فرمائے ۔ آمین یا رب العالمین۔
ارشاد باری ہے ۔ بے شک مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک اللہ کی کتاب میں بارہ مہینے ہیں ۔جب سے اس نے آسمان اور زمین بنائے ان میں سے چار مہینے حرمت والے ہیں۔یہی سیدھا دین ہے تو ان مہینوں میں اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو اور مشرکوں سے ہر حال میں لڑو جیسا وہ تم سے ہر وقت لڑتے ہیں اور جان لو کہ اللہ پرہیزگاروں کے ساتھ ہے۔ سورة التوبة،آية 36 .ترجمہ کنزالایمان.
قرآن میں اس مبارک مہینے کا شمار چار حرمت والے مہینوں میں کیا گیا ہے ۔ اس مہینے میں جنگ و جدال قتل وقتال سب ممنوع ہیں۔اسی لئے اسے محرم الحرام کہا گیا ۔مذکورہ آیت کریمہ سے چند مزید اہم باتوں کا ثبوت ملتا ہے جو ہمارے لئے نقوش زریں کا مقام رکھتے ہیں کہ اللہ تبارک و تعالی اس مبارک مہینے میں اپنی جانوں پر ظلم کرنے سے منع فرما رہا ہے اور اپنی جانوں پر ظلم یہ کثرت گناہ سے ہوتا ہے۔ لہذا ہمیں اس حرمت والے مہینے میں زیادہ سے زیادہ زیادہ عبادت و ریاضت میں مصروف رہنا چاہئیے اور دوسری بات یہ کہ اس آیت مبارکہ میں اللہ تبارک وتعالی مشرکین کے تیئں متحد ہو کر برسر پیکار ہونے کا حکم فرما رہا ہے۔ کیونکہ اتحاد ایک بڑی چیز ہے اور مسلمانوں میں باہمی اتفاق و اتحاد کا فقدان بھی ہے ۔ لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ہم آپس کے اختلاف کو دور کرکے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوکر مشرکین کے لئے سینہ سپر تیار رہیں ۔اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ متقیوں کے ساتھ ہے۔ تو ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم اس مبارک مہینے میں تمام اوامر الہیہ پر عمل پیرا ہوں اور تمام منہیات سے اپنے نفس کو روکے رکھیں۔ فرائض و واجبات کے ساتھ نوافل و مندوبات کا بھی زیادہ سے زیادہ اہتمام کریں۔
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آقا صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ سال کے بارہ مہینے ہیں ۔جن میں سے چار حرمت والے ہیں تین مسلسل ہیں ذوالقعدہ ذوالحجہ اور محرم اور جمادی اور شعبان کے مابین رجب مضر کا مہینہ ہے۔ صحیح البخاری والمسلم
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے آپ فرماتے ہیں کہ آقا علیہ السلام نے ارشاد فرمایا رمضان کے بعد سب سے افضل روزے محرم الحرام کے ہیں اور فرض نماز کے بعد سب سے افضل نماز تہجد ہے ۔ مسلم شریف۔
یوم عاشورہ کی فضیلت:
عاشورہ کی وجہ تسمیہ میں اختلاف ہے ، اکثر علماء کا قول ہے کہ یہ محرم کا دسواں دن ہوتا ہے اسی لیے اس کو عاشورہ کہا گیا ہے اور بعض علماء نے فرمایا کہ عاشورہ کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اللہ تعالی نے اس روز دس پیغمبروں پر ایک ایک نعمت اتاری، کل دس نعمتیں ہوئیں۔ یہ مبارک دن خاص طورپر برکتوں اور رحمتوں کا حامل ہے، اس دن کے روزے کی فضیلت بے شمار ہے اور حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن روزہ رکھنے کو سنت اور مستحب قرار دیا ایک حدیث میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ مجھے اللہ جل شانہٗ کی رحمت سے یہ امید ہے کہ جو شخص عاشورے کے دن روزہ رکھے گا تو اس کے پچھلے ایک سال کے گناہوں( صغیرہ )کا کفارہ ہو جائے گا۔ مشکوۃ شریف۔
نیز دس محرم ہی کے دن اللہ تعالی نے حضرت موسی علیہ السلام اور ان کی قوم کو فرعون سے نجات دلائی ، اور حضرت موسی علیہ السلام نے اس دن بطور شکرانہ روزہ رکھا اسی لئے یہودی بھی اس دن شکرانے کا روزہ رکھتے تھے، آقا ﷺ کے علم میں جب یہ بات آئی تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ ہم موسی علیہ السلام کے طرز عمل کو اپنانے کے لیے تم سے زیادہ حقدار ہیں تو آپ نے خود بھی دس محرم کو روزہ رکھا اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا ۔ صحیح البخاری و المسلم ، ابو داؤد والبہیقی
اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے آپ فرماتی ہیں کہ یوم عاشورہ کو زمانہ جاہلیت میں قریش روزہ رکھتے تھے اور آقا ﷺ بھی اس دن روزہ رکھتے تھے۔ ھجرت کے بعد جب حضور ﷺ مدینہ تشریف لائے تو آپ نے عاشورہ کا روزہ رکھا اور صحابہ کو رکھنے کا حکم دیا لیکن جب رمضان کے روزوں کی فرضیت آگئی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اب جو چاہے عاشورہ کے دن روزہ رکھے اور جو چاہے نہ رکھے ۔ رواہ البخاری والمسلم
تو پتا چلا کہ عاشورہ کے روزوں کی بڑی فضیلت ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس دن خود بھی روزہ رکھتے تھے اور صحابہ کو روزہ رکھنے کی تلقین بھی فرماتے تھے اب رہا یہ سوال کہ کیا ہم بھی یہودیوں کی طرح ایک روزہ رکھیں گے کیونکہ اس میں اغیار کی مشابہت پائی جا رہی ہے۔ تو اس مناسبت سے حدیث کے الفاظ ہیں۔رئیس المفسرین حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ جب حضور ﷺ نے عاشورہ کا روزہ رکھا اور صحابہ کو روزہ رکھنے کی تلقین فرمائی تو صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین نے عرض کی یارسول اللہ یہود و نصاریٰ اس دن روزہ رکھتے ہیں یعنی اس دن روزہ رکھنے میں ان کی مشابہت پائی جا رہی ہے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ان شاء اللہ آئندہ سال ہم نویں کو بھی روزہ رکھیں گے ۔ راوی کہتے ہیں کہ آئندہ سال آنے سے پہلے حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان سے رحلت فرما چکے تھے ۔ رواہ المسلم
مذکورہ حدیث سے یوم عاشورہ اور اس کے روزوں کی فضیلت کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔ اور یوم عاشوراء اس لئے بھی بے شمار رحمتوں اور برکتوں کا حامل ہے کہ اس دن تاریخ کے بہت سے عظیم واقعات رونما ہوئے ۔ مؤرخین لکھتے ہیں کہ یوم عاشورہ میں آسمان و زمین اور حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کیا گیا ۔ اسی دن حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول ہوئی تھی۔ اسی دن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر اٹھایا گیا ۔ اسی دن حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خلیل اللہ بنا دیا گیا اور ان پر آگ گلزار ہو گئی۔اسی دن حضرت موسی علیہ السلام اور ان کی قوم کو فرعون کے ظلم و استبداد سے نجات حاصل ہوئی ۔ حضرت یونس علیہ السلام کو مچھلی کے پیٹ سے باہر نکالا گیا۔ اسی دن حضرت اسماعیل علیہ السلام کی ولادت باسعادت ہوئی اور اس کے علاوہ تاریخ اسلام کے بے شمار واقعات کثرت سے اس دن میں وقوع پذیر ہوئے ۔ اور ان میں سب سے مشہور یہ کہ 61 ھجری کو میدان کربلا میں اہل بیت پر ظلم و زیادتی کے پہاڑ توڑے گئے اور ان پر بے انتہا مظالم ڈھائے گئے اور بالآخر نواسہ رسول حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کو شہید کیا گیا۔
تو ہمیں چاہیے کہ ہم اس مبارک مہینے کے فیوض و برکات سے اپنے آپ کو محروم نہ رہنے دیں۔زیادہ سے زیادہ قرآن خوانی اور فاتحہ خوانی کا اہتمام کرکے تمام شہداء کربلا رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کے نام سے ایصال ثواب کی سعادتیں حاصل کریں
اللہ تبارک و تعالی کی بارگاہ میں دعا ہے کہ اللہ ہمیں اس مبارک دن کی برکتوں اور رحمتوں سے مستفید و مستنیر ہونے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارے اندر امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ جیسا جذبہ ایثاروقربانی پیدا فرمائے ۔ آمین یا رب العالمین۔