ماہنامہ الفاران

ماہِ محرم الحرام - ۱۴۴۵

تحریک ریشمی رومال

جناب حضرت مفتی خالدانورپورنوی صاحب المظاہری، استاذ:حدیث و فقہ: جامعہ مدنیہ ،سبل پور، پٹنہ

بَہارجو اب ہندمیں آئی ہوئی ہے! 1857کی جنگ آزادی سے 6؍سال قبل 1851میں یوپی کے بریلی شہرمیں ،دارالعلوم دیوبند کے سب سے پہلے طالب علم ، حضرت مولانامحمودالحسن ؒ پیدا ہوئے ، جنہیں دنیاشیخ الہند کے نام سے جانتی ہے، 1857کے ہنگامی حالات اور عام مسلمانوں بالخصوص علماء کرام کی قربانیوںاور شہادتوں کے دنوں کو انہوں نے اپنی کم عمری میں ہی بہت قریب سے دیکھاتھا،اس لئے فطری طورپر وہ انگریز کے ناپاک عزائم اورہندوستان کی پاک سرزمین پر ان کے ناپاک وجود سے بہت ہی نالاں اور پریشان تھے،اس لئے دارالعلوم دیوبند سے ہی انہوں نے اس کی شروعات کی ،اور انگریزکا مقابلہ کس طرح کیاجائے ،اس کیلئے افرادسازی اور مظبوط پلاننگ کا آغاز کردیا،1878 میں انجمن ثمرۃ التربیت قائم کیا، 1909میں جمعیۃ الانصارکی بنیادڈالی،اور اس کے ذریعہ دوطرفہ محاذآرائی کی،ایک تو ملک کے اندراورایک ملک سے باہر،اور شیخ الہند حضرت مولانامحموالحسن ؒہی کی تحریک کی وجہ سے ہی انگریز کے خلاف جہاد کی گونج ملک سے باہر بیرون ملک تک پہونچ گئی۔
ترکی اورعالم اسلام کے حالات بھی اچھے نہیں تھے،مسلمانوں کے ساتھ مظالم اور ناانصافیوں کے واقعات لگاتارپیش آرہے تھے،ان واقعات پر بھی شیخ الہندحضرت مولانامحمودالحسن دیوبندیؒ کی گہری نظر تھی،مگرملک کے حالات کسی تیزتحریک کیلئے سازگارنہ تھے،مسلمانوں پرحیرانی اورافسردگی طاری تھی،وہ ثریاسے تحت الثریٰ میں جاگرے تھے ، کچھ بھی سمجھ میں نہیں آرہاتھاکہ اپنی کھوئی ہوئی حیثیت کس طرح حاصل کریں ،ایسے اصحاب بھی بہت کم نظرآرہے تھے جن کے خلوص پراعتماد کیا جا ئے ۔اس لئے حضرت شیخ الہندؒ نے ایک نقشہ ٔ عمل تیار کیا ، اور اس میں نہایت ہی قابل اعتماد لوگوں کوشامل کیا،1915ء میں مولاناعبیداللہ سندھیؒ کوکابل کیلئے روانہ کیا،اور سب کچھ صیغہ راز میں رکھاگیا،مولاناعبیداللہ سندھی ؒ خودکہتے ہیں:کہ مجھے کوئی مفصل پروگرام نہیں بتایا گیا ، مگرجب میں وہاں پہونچاتومعلوم ہواحضرت شیخ الہندجس جماعت کے نمائندہ ہیں،اس کی پچاس سال کی محنتوں کا حاصل میرے سامنے غیرمنظم شکل میں تعمیل حکم کیلئے تیارہے۔
اس سے سمجھ میں آتاہے کہ 1865ء ہی میں تحریک شیخ الہندکی بنیادپڑچکی تھی،مولاناابوالکلام آزادؒ، ڈاکٹر انصاریؒ،حکیم اجمل خاںؒ،مولانامحمدعلیؒ،اس جماعت کے خاص ارکان تھے،اورشیخ الہندؒ اس جماعت کے نمائندہ تھے،اس تحریک کامقصدیہ تھاکہ افغانستان کوآمادہ کیاجائے کہ ایک بارپھرجہاداپنامشن بنالیں،اورترکی خلافت کو اس تحریک کاپشت پناہ بنایا جا ئے ، اور دیگر اسلامی مملکت کے تعاون سے انگریزوں سے مقابلہ کیاجائے۔
انگریزی حکومت کوشیخ الہندکی حقیقی سرگرمیوں اوران کے اصل منصوبہ کاعلم نہیں تھا؛لیکن اربابِ حکومت کو پتہ تھا کہ شیخ الہند کادماغ انگریزی حکومت کی طرف سے صاف نہیں ہے، اور جنگ عظیم بھی شروع ہوچکی تھی،اس لئے ان کا آزاد رہنا حکومت کے مفادکے خلاف تھا،اور حضرت شیخ الہندؒ بھی حالات کو سمجھ چکے تھے ؛اس لئے مخلصین کے مشورہ سے حضرت شیخ الہندؒ حجازکیلئے روانہ ہوگئے،عجلتِ سفرسے حکومت کاشک اورقوی ہوگا، حکومت نے ٹیلیگرام کے ذریعہ لکھاکہ مولانامحمودالحسن ؒ کو گرفتار کرلیا جائے، حکومت کاٹیلیگرام ممبئی کے گورنر کو اس وقت ملا،جبکہ شیخ الہندجہاز سے ساحل ممبئی چھوڑچکے تھے،پھریوپی کے گورنرنے مرکزی حکومت کے ذریعہ عدن کے گورنر کو بحریری تاردلوایا،لیکن یہ تارعدن کے گورنرکواس وقت ملاجب جہازعدن سے آگے جاچکاتھا،عدن کے گورنرنے جہاز کے کپتان کووائرلیس کیاکہ جدہ میں مولانامحمودالحسن کوجہاسے اترنے نہ دیاجائے،اوران کو جہازہی میں روک لیاجا ئے ، لیکن کپتان کووائرلیس اس وقت جدہ میں ملاجب گورنرحجازکے حکم سے جدہ سے پہلے جزیرہ سعدپرتمام حجاج کو اتار کر مکہ مکرمہ پہونچانے کابندوبست ہوچکاتھا۔
حجازپرترکوں کی حکومت تھی،اس لئے اہم اورکلیدی عہدوں پرترک افسران ہی رکھے جاتے تھے،حجاز کا گورنر جنرل غالب پاشاتھا،جومکہ مکرمہ میں رہتاتھا،اورمدینہ کا گورنراس کے ماتحت تھا،شیخ الہندؒ نے مکہ مکرمہ کے ایک با اثر ہندوستانی تاجر کے واسطہ سے غالب پاشاسے ملاقات کی،اوراپنالائحہ عمل ان کے سامنے پیش کیا۔ پوری گفتگوکے بعد غالب پاشانے مکمل تعاون کایقین دلایا،ان کی تحریرجس میں مجاہدین آزادی ہندکوہرطرح کے تعاون کایقین دلایا گیا تھا،ہندوستان بھیج دی گئی،ان ہی کے توسط سے وزیرجنگ انور پاشا،اورکمانڈرانچیف جمال پاشا سے شیخ الہندؒ کی مسلمانوں کی مظلومیت،برطانوی حکومت کی چیرہ ہ دستیوں،اوراس سے نجات کے منصوبہ اورلائحہ عمل کے بارے میں تفصیلی گفتگوہوئی،دونوں افسران کی طرف سے اظہار اطمینان کرلیاگیا تو شیخ ا لہند نے درخواست کی کہ آپ حضرات کی طرف سے کوئی ایسی تحریر مل جائے کہ جس سے اہل ہندکو حوصلہ ملے اورترکی حکومت کے تعاون کاانہیں یقین ہوجائے ، تو زیادہ بہترہوگا۔انہوں نے وعدہ کیا کہ دمشق جاکر اس کام کی تکمیل کردیں گے۔
حسب وعدہ مدینہ منورہ سے واپس دمشق لوٹ کرتین زبانوں میں تین کاپیاںدونوں افسران کے دستخط کے ساتھ گورنرمدینہ بصری پاشاکے ذریعہ شیخ الہند کے پاس پہونچ گئیں،ان تحریروں میں آزادی ہندکامطالبہ کرنے والوں کی حمایت اورتائیدکرتے ہوئے ان کی ہرطرح کی اعانت وامدادکاوعدہ کیاگیاتھا، اورہراس شخص کو جو ترکی گورنمنٹ کا ملازم یارعیت ہواس کو حکم دیاگیاتھاکہ وہ شیخ الہند پراعتمادکرے،اورانہیں یہ ہدایت دی گئی تھی کہ ان کی امدادواعانت میں حصہ لے،یہ کاغذات ملتے ہی ماہر بڑھئی کے ذریعہ ایک صندوق تیارکرایاگیا،جس کے دوتختوں کے درمیان ان کا غذات کورکھ کراس طرح جوڑدیاگیاکہ کوئی تمیزنہیں کرسکتاکہ دوتختے جڑے ہوئے ہیں،اس صندوق میں ریشمی اوردیگرکپڑے اورضرورت کی چیزیں رکھ کر مولاناہادی حسن اورحاجی شاہ بخش کے ذریعہ ہندوستان بھیج دیا ، تاکہ حاجی نورالحسن صاحب کو پہونچادیاجائے اوروہ فوٹوکرکے مخصوص جگہوں پربھیج دیں۔
شیخ الہندؒ کے منصوبے کے مطابق تمام منزلیں بحسن وخوبی طے ہوگئیں ،مگر افسوس! انگریزنے اپنے بنیادی پالیسی ’’لڑاؤاورحکومت کرو‘‘کی بنیادپرعربوں کو ترکی کے خلاف بغاوت پراکسایا،شریف حسین کوحکومت کالالچ دیکر ترکی کے خلاف بغاوت پرآمادہ کیا،مکہ ،مدینہ ،طائف،اوردوسرے مقامات پرایک دن اورایک ہی وقت میں مسلح بغاوت کا آغاز ہوگیا، غالب پاشاگرفتارکرلئے گئے،حجازپرشریف حسین کاقبضہ ہوگیا،شیخ الہندؒ کواب شرافت کے حدودسے نکلنا ضروری ہوگیا،اس لئے کہ منصوبہ کی کامیابی کے جووسائل تھے وہ ایک لخت ختم ہوگئے۔
انگریزکاخوشامدی شریف حسین نے مولاناعزیرگل،مولاناوحید،شیخ الہندمولانامحمودحسن،شیخ الاسلام مولانا حسین احمدمدنی کوگرفتارکرلیا،اوراونٹوں کے ذریعہ جدہ بھیج دیا، جدہ سے مصرلایاگیا،قاہرہ سے بذریعہ بس جزیرہ پہونچایاگیا،جودریائے نیل کے دوسرے ساحل پرقاہرہ کے بالمقابل واقع ہے ،اسی جزیرہ میں ایک پراناجیل میں ڈال دیاگیا، جس کو ’’سیاہ جیل ‘‘کہتے ہیں۔
اس کالی کوٹھری ،قیدتنہائی،گفتگوپرپابندی،ایک مہینہ اسی میں گذرگیا،اچانک سامان درست کرنے کا آرڈر ہوا، 17؍فروری1917 ء کویہ قافلہ انتہائی سیکوریٹی میں قاہرہ پہونچایاگیا،بذریعہ ٹرین قاہرہ سے چل کر اسکندریہ اسٹیشن پہنچایاگیا،یہاں سے بذریعہ جہازروانہ ہوا،چاردونوں کے بعد21؍فروری 1917ء کو یہ جہاز مالٹاکے جزیرہ پرلنگراندازہوا۔اس قیدخانے میں وہی قیدی رکھے جاتے تھے جوحکومت کی نگاہ میں انتہائی خطرناک سمجھے جاتے تھے ، جب یہ قافلہ جیل پہونچاتوتین ہزارقیدی پہلے سے موجودتھے۔ 21؍ فروری 1917ء سے 12؍مارچ 1920ء تک مالٹا قیدخا نے میں جسمانی ،ذہنی مصائب وآلام کی بھٹی میں رہے ، جنہیںدنیاشیخ الہندکے نام سے جانتی ہے،یہ دیکھنے میں ہلکے،پھلکے اوردبلے،پتلے جسم میں تھے ،مگر عزم و استقلال کے پہاڑتھے،نہ انہیں اقتدارکی ہوس تھی،نہ عظمت وشوکت اورجاہ وجلال کاشوق تھا،ان کی جولانگاہ مسجد ، مدرسہ اور خانقاہ تھی،وہ بے سہارا،تہی دست تھے،مگرچھپے ہوئے دل میں برطانوی حکومت اورانگریزسے نفرت کی بو آتی تھی۔
ان کے دل میں ہرایک کیلئے گنجائش تھی،مسلمانوں کی طرح وہ ہندؤں کے بھی دوست تھے،نہ صرف سرزمین ہندبلکہ پوری ایشیاکوسرسبزوشاداب دیکھناچاہتے تھے، مگر یورپ کیلئے ان کاذہن تنگ تھا،افریقہ کاسیاہ فام،موٹے ہونٹوں ،الجھے بالوں،نیلی آنکھوں والاحبشی ان کو محبوب تھا،مگرسفیدفاموں سے انہیں سخت نفرت تھی ، اگرکسی یورپین سے ان کا ہاتھ لگ جاتاتووہ ہاتھ کوناپاک سمجھتے تھے،جب تک اس کو دھونہیںلیتے، کسی چیز کو نہیں چھوتے تھے، انگریزخودبولتاتھا:کہ اس محمودالحسن کوجلادیاجائے اوراس کی راکھ کوسونگھاجائے توبھی اس کی راکھ سے انگریزی سامراج کے خلاف ہی بوآئے گی۔
مالٹاکے قیدخانہ میں حضرت شیخ الہندمولانامحمودحسن دیوبندی کو درناک سزائیں دی گئیں،انتقال کے بعدجب غسل کیلئے انہیں تخت پرلٹایاگیا تو دیکھنے والے حیرت زدہ تھے،ان کے کمرپرگوشت نام کی کوئی چیزنہیں ہے،ان کے شاگردشیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمدمدنی نوراللہ مرقدہ سابق صدر جمعیۃ علماء ہند سے معلوم کیاگیا ، تومولانامدنیؒ کی آنکھیں اشکبار ہوگئیں، اورفرمانے لگے:میرے شیخ نے مجھے منع کیاتھا،اس کا ذکرکسی سے مت کرنا،اے لوگو! مالٹا کے جیل خانے میں آزادی کانعرہ لگانے کے جرم میں انگریزنے میرے شیخ کے کمرپرلوہے کی گرم گرم سلاخوں سے داغتاتھا؛اس لئے گوشت نام کی کوئی چیزباقی نہیں رہی ، صرف ہڈیاں ہی ہڈیاں رہ گئیں۔
تحریک ریشمی رومال میں شیخ الہند کو باضابطہ کوئی کامیابی نہیں ملی ،لیکن آزادی کے لئے راستہ ضرور ہموار ہوگیا ،سچ تو یہ ہے کہ عام مسلمانوں ،اور علماء کرام کی قربانیوں کے نتیجہ میں ہی آج ہم آزادی کی سانس لے رہے ہیں ،ورنہ تو غلامی کاطوق ہمارے گلے میں آج بھی موجود رہتا۔
آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے بزرگوں ،مسلمانوں ،بالخصوص حضرت شیخ الہند ؒ کی قربانیوں کو یادکریں،خودبھی جانیں اور دوسروں کو بھی واقف کرائیں،اسی لئے اس کنونشن میں تمام مکاتب فکر کے علماء ،عوام کے ساتھ دیگر برادران وطن کو بھی دی گئی ہے ،تاکہ ہم انہیں بتاسکیں کہ اس ملک کی تعمیر وترقی ،سجانے اور سنوارنے میں ہم نے ہمیشہ قائدانہ کردار پیش کیاہے۔ بہارجوہندمیں آئی ہوئی ہے
یہ سب پودانہیں کی لگائی ہوئی ہے

دیگر تصانیف

امیدوں کا چراغ

مٹی کا چراغ

کہاں گئے وہ لوگ

تذکیر و تانیث

مجلس ادارت

team

سرپرست

حضرت الحاج مولانا کبیر الدین فاران صاحب مظاہری

team

مدیر مسئول

مولانا ارشد کبیر خاقان صاحب مظاہری

team

مدیر

مفتی خالد انور پورنوی صاحب قاسمی