ماہنامہ الفاران
ماہِ محرم الحرام - ۱۴۴۵
محرم قابلِ احترام
جناب مولانا ارشد کبیر خاقان صاحب المظاہری؛ مدیر ماہنامہ"الفاران" و جنرل سکریٹری ابو الحسن علی ایجوکیشنل اینڈ ویلفیر ٹرسٹ(پورنیہ)
محرم کے مہینے کو محرم اس کی تعظیم کی وجہ سے کہتے ہیں، لفظ حرام یہ حرمت سے ہے، اس کے معنی ہیں: قابلِ احترام ، اور ’’محرم الحرام‘‘ کا معنی ہے: محرم کا مہینہ جو قابل احترام ہے، جیساکہ ’’مسجد الحرام‘‘ کے معنی ہیں وہ مسجد جو قابلِ احترام اور عظمت والی ہے۔ بسا اوقات کسی چیز کی ممانعت اور حرمت اس کی عظمت کی وجہ سے ہوتی ہے۔
اسی ماہ مبارک سے ھجری سال کی ابتداء ہوتی ہے اوریہ ان حرمت والے مہینوں میں سے ایک ہے جن کے بارہ میں اللہ رب العزت کا فرمان ہے ۔ یقینا اللہ تعالی کے نزدیک مہینوں کی تعداد بارہ ہے اور( یہ تعداد ) اسی دن سے ہے جب سے آسمان وزمین کواس نے پیدا فرمایا تھا ، ان میں سے چارحرمت وادب والے مہینے ہیں ، یہی درست اورصحیح دین ہے ، تم ان مہینوں میں اپنی جانوں پرظلم وستم نہ کرو ، اورتم تمام مشرکوں سے قتال کرو جیسے کہ وہ تم سب سے لڑتے ہیں ، اورجان رکھو کہ اللہ تعالی متقیوں کے ساتھ ہے (سورہٴ توبہ آیت نمبر36 ) حضرت سیدنا ابوبکرہ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سال کے بارہ مہینے ہیں جن میں سے چارحرمت والے ہیں ، تین تومسلسل ہیں ، ذوالقعدہ ، ذوالحجۃ ، اورمحرم ، اورجمادی اورشعبان کے مابین رجب کامہینہ جسے رجب مضرکہا جاتا ہے (بخاری حدیث نمبر 2958) اورمحرم کو محرم اس لیے کہا جاتا ہے کہ یہ حرمت والا مہینہ ہے اوراس کی حرمت کی تاکید کے لیے اسے محرم کانام دیا گياہے ۔ اللہ سبحانہ وتعالی کا یہ فرمان(لھذا تم ان میں اپنی جانوں پرظلم وستم نہ کرو ) اس کا معنی یہ ہےکہ یعنی ان حرمت والے مہینوں میں ظلم نہ کرو کیونکہ ان میں گناہ کرنا دوسرے مہینوں کی بنسبت زيادہ شدید ہے ۔
ابن عباس رضي اللہ عنہما سےاس آيت ( لھذا تم ان مہینوں میں اپنے آپ پرظلم وستم نہ کرو ) کے بارہ میں مروی ہے تم ان سب مہینوں میں ظلم نہ کرو اورپھر ان مہینوں میں سے چارکو مخصوص کرکےانہيں حرمت والے قراردیا اوران کی حرمت کوبھی بہت عظيم قراردیتے ہوئے ان مہینوں میں گناہ کاارتکاب کرنا بھی عظیم گناہ کا باعث قرار دیا اوران میں اعمال صالحہ کرنا بھی عظيم اجروثواب کاباعث بنایا ۔ قتادہ رحمہ اللہ تعالی اس آیت (لھذا تم ان مہینوں میں اپنے آپ پر ظلم وستم نہ کرو ) کے بارہ میں کہتے ہيں ۔
حرمت والے مہینوں میں ظلم وستم کرنادوسرے مہینوں کی بنسبت یقینا زيادہ گناہ اوربرائي کا باعث ہے ، اگرچہ ہرحالت میں ظلم بہت بڑي اور عظيم چيز ہے لیکن اللہ سبحانہ وتعالی اپنے امرمیں سے جسے چاہے عظيم بنا دیتا ہے ۔
قتادہ رحمہ اللہ کہتے ہيں بلاشبہ اللہ سبحانہ وتعالی نے اپنی مخلوق میں سے کچھ کواختیارکرکے اسے چن لیا ہے فرشتوں میں سے بھی پیغمبر چنے اورانسانوں میں سے بھی رسول بنائے ، اورکلام سے اپنا ذکر چنا اورزمین سے مساجد کواختیار کیا ، اورمہینوں میں سے رمضان المبارک اورحرمت والے مہینے چنے ، اورایام میں سے جمعہ کا دن اختیارکیا ، اورراتوں میں سے لیلۃ القدر کوچنا ، لھذا جسے اللہ تعالی نے تعظیم دی ہے تم بھی اس کی تعظیم کرو ، کیونکہ اہل علم وفھم اورحل وعقد کے یہاں امور کی تعظیم بھی اسی چيز کےساتھ کی جاتی ہے جسے اللہ تعالی نے تعظيم دی ہے (ابن کثیر سورۃ التوبۃ آیت نمبر 36 )
محرم الحرام کے مہینہ میں کثرت سے روزے رکھنے کی فضیلت
حضرت ابوھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا رمضان المبارک کے بعدافضل ترین روزے اللہ تعال کے مہینہ محرم الحرام کے روزے ہيں (مسلم حدیث نمبر 1982) حدیث میں مہینہ کی اللہ تعالی کی طرف تعظیمااضافت کی گئي ہے یعنی یہاں اضافۃ تعظیم ہے ۔
ملا علی قاری رحمہ اللہ کا قول ہے ظاہر یہ ہے کہ یہاں سب حرمت والے مہینے مراد ہيں ، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ثابت ہے کہ آپ نے رمضان المبارک کے علاوہ کسی بھی مہینہ کے مکمل روزے نہیں رکھے ، لھذا اس حدیث کومحرم میں کثرت سےروزے رکھنے پرمحمول کیا جائے گا نہ کہ پورے محرم کے روزے رکھنے پر اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ شعبان کے مہینہ میں کثرت سے روزہ رکھا کرتے تھے ، ہوسکتا ہے کہ محرم کی فضیلت کے بارہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوآخری عمر میں وحی کی گئي ہو اورآپ روزے نہ رکھ سکے ہوں (شرح مسلم للنووی رحمہ اللہ) ۔ اللہ سبحانہ وتعالی جگہ اورزمانے واوقات سے جوچاہے اختیار کرلیتا ہے ، عزالدین بن عبدالسلام رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں کہ جگہوں اورزمانے کی فضیلت دوقسموں کی ہوتی ہے : ایک قسم تودنیاوی اوردوسری دینی ہے جواللہ تعالی کی طرف لوٹتی ہے جس میں اللہ تعالی اپنے بندوں پران اوقات اورجگہوں میں عمل کرنے والوں پراجروثواب کی جودوسخاکرتا ہے ، مثلا رمضان المبارک کے روزوں کوباقی سارے مہینوں کے روزوں پرفضیلت حاصل ہے ، اوراسی طرح عاشوراء کےدن روزہ رکھنے کی فضلیت تواس کی فضیلت اللہ تعالی کی جود وسخا اوراپنے بندوں پراحسان کی طرف لوٹتی ہے (قواعد الاحکام)
یوم عاشوراء
اس ماہ کو یہ بھی عزت حاصل ہے کہ اس کے اندر بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی معیت میں فرعون مصر کے ظالم وجابر ہاتھوں سے نجات پائی تھی اور فرعون مع اپنے ساتھیوں کے دریائے نیل میں غرق کیا گیا تھا اس لیے بطور شکریہ کے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس مہینے کی دسویں تاریخ کو روزہ رکھا تھا اور رسول ﷺ نے فرمایا ہے کہ اس دن کا روزہ رکھنا رمضان کے بعد تمام روزوں سے افضل ہے(مسلم) اور ارشاد فرمایا کہ مجھے امید ہے کہ عاشوراء کا روزہ گذشتہ سال کے تمام گناھوں کا کفارہ ہو جاتا ہے( مسلم)
ابتداء اسلام میں عاشوراء کا روزہ فرض تھا پھر رمضان المبارک کے روزوں کی فرضیت کے بعد عاشوراء کے روزے کی فرضیت ختم کردی گئی البتہ اس کا سنت ہونا اب بھی باقی ہےاس دن روزہ رکھنا اب بھی بڑا ثواب اور اجر کاباعث ہے لیکن یہ یاد رہے کہ باطن ہمیشہ اپنے ظاہر سے متؤثر ہوتا ہے اس لیے اسلام نے کفار کی ظاہری طرز بودوباش کے اختیار کرنے سے منع فرمایا ہے اس خیال کے ماتحت چونکہ عاشوراء کا روزہ رکھنا یہودیوں کی مشابہت سے خالی نہ تھا اور اس کو چھوڑدینا اس کی برکات سے محرومی کا باعث ہوتا اس لیے علماء اسلام نے ہمیں یہ تعلیم دی کہ ایک دن کا روزہ اس کے ساتھ اور ملالوبہتر تو یہ ہے کہ نویں دسویں کا روزہ رکھو اور اگر کسی وجہ سے نویں کاروزہ نہ رکھ سکے تو اس کے ساتھ گیارہویں کا روزہ رکھ لے صرف دسویں محرم کا روزہ رکھنا حسبِ تصریحات فقہاء کرام کراہت سے خالی نہیں ہے۔
خوب سمجھ لینا چاہیے کہ ماہ محرم کی فضیلت کی وجہ سے جس طرح اس میں عبادات کا ثواب زیادہ ہوتا ہے اسی طرح اس ماہ کے اندر گناہوں اور معصیت میں ملوث ہونے کے وبال وعقاب کے بڑھ جانے کا بھی اندیشہ ہے اس لیے ہر مسلمان کے لیے بہت ضروری ہے کہ وہ ہر قسم کی بدعات اور رسومات سے احتراز کرکے صرف ان عبادات اور امور کی انجام دہی میں مشغول رہے جن کی ہدایات پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ماہ کے اندر امت کو دی ہیں اور وہ صرف دوکام ہیں ایک نویں اور دسویں کاروزہ جوکہ سنت ہے دوسرے دسویں کو اپنی استطاعت کے موافق اپنے اہل وعیال پر کھانے میں وسعت وفراخی کرنا جوکہ مستحب ہے
اسی ماہ مبارک سے ھجری سال کی ابتداء ہوتی ہے اوریہ ان حرمت والے مہینوں میں سے ایک ہے جن کے بارہ میں اللہ رب العزت کا فرمان ہے ۔ یقینا اللہ تعالی کے نزدیک مہینوں کی تعداد بارہ ہے اور( یہ تعداد ) اسی دن سے ہے جب سے آسمان وزمین کواس نے پیدا فرمایا تھا ، ان میں سے چارحرمت وادب والے مہینے ہیں ، یہی درست اورصحیح دین ہے ، تم ان مہینوں میں اپنی جانوں پرظلم وستم نہ کرو ، اورتم تمام مشرکوں سے قتال کرو جیسے کہ وہ تم سب سے لڑتے ہیں ، اورجان رکھو کہ اللہ تعالی متقیوں کے ساتھ ہے (سورہٴ توبہ آیت نمبر36 ) حضرت سیدنا ابوبکرہ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سال کے بارہ مہینے ہیں جن میں سے چارحرمت والے ہیں ، تین تومسلسل ہیں ، ذوالقعدہ ، ذوالحجۃ ، اورمحرم ، اورجمادی اورشعبان کے مابین رجب کامہینہ جسے رجب مضرکہا جاتا ہے (بخاری حدیث نمبر 2958) اورمحرم کو محرم اس لیے کہا جاتا ہے کہ یہ حرمت والا مہینہ ہے اوراس کی حرمت کی تاکید کے لیے اسے محرم کانام دیا گياہے ۔ اللہ سبحانہ وتعالی کا یہ فرمان(لھذا تم ان میں اپنی جانوں پرظلم وستم نہ کرو ) اس کا معنی یہ ہےکہ یعنی ان حرمت والے مہینوں میں ظلم نہ کرو کیونکہ ان میں گناہ کرنا دوسرے مہینوں کی بنسبت زيادہ شدید ہے ۔
ابن عباس رضي اللہ عنہما سےاس آيت ( لھذا تم ان مہینوں میں اپنے آپ پرظلم وستم نہ کرو ) کے بارہ میں مروی ہے تم ان سب مہینوں میں ظلم نہ کرو اورپھر ان مہینوں میں سے چارکو مخصوص کرکےانہيں حرمت والے قراردیا اوران کی حرمت کوبھی بہت عظيم قراردیتے ہوئے ان مہینوں میں گناہ کاارتکاب کرنا بھی عظیم گناہ کا باعث قرار دیا اوران میں اعمال صالحہ کرنا بھی عظيم اجروثواب کاباعث بنایا ۔ قتادہ رحمہ اللہ تعالی اس آیت (لھذا تم ان مہینوں میں اپنے آپ پر ظلم وستم نہ کرو ) کے بارہ میں کہتے ہيں ۔
حرمت والے مہینوں میں ظلم وستم کرنادوسرے مہینوں کی بنسبت یقینا زيادہ گناہ اوربرائي کا باعث ہے ، اگرچہ ہرحالت میں ظلم بہت بڑي اور عظيم چيز ہے لیکن اللہ سبحانہ وتعالی اپنے امرمیں سے جسے چاہے عظيم بنا دیتا ہے ۔
قتادہ رحمہ اللہ کہتے ہيں بلاشبہ اللہ سبحانہ وتعالی نے اپنی مخلوق میں سے کچھ کواختیارکرکے اسے چن لیا ہے فرشتوں میں سے بھی پیغمبر چنے اورانسانوں میں سے بھی رسول بنائے ، اورکلام سے اپنا ذکر چنا اورزمین سے مساجد کواختیار کیا ، اورمہینوں میں سے رمضان المبارک اورحرمت والے مہینے چنے ، اورایام میں سے جمعہ کا دن اختیارکیا ، اورراتوں میں سے لیلۃ القدر کوچنا ، لھذا جسے اللہ تعالی نے تعظیم دی ہے تم بھی اس کی تعظیم کرو ، کیونکہ اہل علم وفھم اورحل وعقد کے یہاں امور کی تعظیم بھی اسی چيز کےساتھ کی جاتی ہے جسے اللہ تعالی نے تعظيم دی ہے (ابن کثیر سورۃ التوبۃ آیت نمبر 36 )
محرم الحرام کے مہینہ میں کثرت سے روزے رکھنے کی فضیلت
حضرت ابوھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا رمضان المبارک کے بعدافضل ترین روزے اللہ تعال کے مہینہ محرم الحرام کے روزے ہيں (مسلم حدیث نمبر 1982) حدیث میں مہینہ کی اللہ تعالی کی طرف تعظیمااضافت کی گئي ہے یعنی یہاں اضافۃ تعظیم ہے ۔
ملا علی قاری رحمہ اللہ کا قول ہے ظاہر یہ ہے کہ یہاں سب حرمت والے مہینے مراد ہيں ، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ثابت ہے کہ آپ نے رمضان المبارک کے علاوہ کسی بھی مہینہ کے مکمل روزے نہیں رکھے ، لھذا اس حدیث کومحرم میں کثرت سےروزے رکھنے پرمحمول کیا جائے گا نہ کہ پورے محرم کے روزے رکھنے پر اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ شعبان کے مہینہ میں کثرت سے روزہ رکھا کرتے تھے ، ہوسکتا ہے کہ محرم کی فضیلت کے بارہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوآخری عمر میں وحی کی گئي ہو اورآپ روزے نہ رکھ سکے ہوں (شرح مسلم للنووی رحمہ اللہ) ۔ اللہ سبحانہ وتعالی جگہ اورزمانے واوقات سے جوچاہے اختیار کرلیتا ہے ، عزالدین بن عبدالسلام رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں کہ جگہوں اورزمانے کی فضیلت دوقسموں کی ہوتی ہے : ایک قسم تودنیاوی اوردوسری دینی ہے جواللہ تعالی کی طرف لوٹتی ہے جس میں اللہ تعالی اپنے بندوں پران اوقات اورجگہوں میں عمل کرنے والوں پراجروثواب کی جودوسخاکرتا ہے ، مثلا رمضان المبارک کے روزوں کوباقی سارے مہینوں کے روزوں پرفضیلت حاصل ہے ، اوراسی طرح عاشوراء کےدن روزہ رکھنے کی فضلیت تواس کی فضیلت اللہ تعالی کی جود وسخا اوراپنے بندوں پراحسان کی طرف لوٹتی ہے (قواعد الاحکام)
یوم عاشوراء
اس ماہ کو یہ بھی عزت حاصل ہے کہ اس کے اندر بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی معیت میں فرعون مصر کے ظالم وجابر ہاتھوں سے نجات پائی تھی اور فرعون مع اپنے ساتھیوں کے دریائے نیل میں غرق کیا گیا تھا اس لیے بطور شکریہ کے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس مہینے کی دسویں تاریخ کو روزہ رکھا تھا اور رسول ﷺ نے فرمایا ہے کہ اس دن کا روزہ رکھنا رمضان کے بعد تمام روزوں سے افضل ہے(مسلم) اور ارشاد فرمایا کہ مجھے امید ہے کہ عاشوراء کا روزہ گذشتہ سال کے تمام گناھوں کا کفارہ ہو جاتا ہے( مسلم)
ابتداء اسلام میں عاشوراء کا روزہ فرض تھا پھر رمضان المبارک کے روزوں کی فرضیت کے بعد عاشوراء کے روزے کی فرضیت ختم کردی گئی البتہ اس کا سنت ہونا اب بھی باقی ہےاس دن روزہ رکھنا اب بھی بڑا ثواب اور اجر کاباعث ہے لیکن یہ یاد رہے کہ باطن ہمیشہ اپنے ظاہر سے متؤثر ہوتا ہے اس لیے اسلام نے کفار کی ظاہری طرز بودوباش کے اختیار کرنے سے منع فرمایا ہے اس خیال کے ماتحت چونکہ عاشوراء کا روزہ رکھنا یہودیوں کی مشابہت سے خالی نہ تھا اور اس کو چھوڑدینا اس کی برکات سے محرومی کا باعث ہوتا اس لیے علماء اسلام نے ہمیں یہ تعلیم دی کہ ایک دن کا روزہ اس کے ساتھ اور ملالوبہتر تو یہ ہے کہ نویں دسویں کا روزہ رکھو اور اگر کسی وجہ سے نویں کاروزہ نہ رکھ سکے تو اس کے ساتھ گیارہویں کا روزہ رکھ لے صرف دسویں محرم کا روزہ رکھنا حسبِ تصریحات فقہاء کرام کراہت سے خالی نہیں ہے۔
خوب سمجھ لینا چاہیے کہ ماہ محرم کی فضیلت کی وجہ سے جس طرح اس میں عبادات کا ثواب زیادہ ہوتا ہے اسی طرح اس ماہ کے اندر گناہوں اور معصیت میں ملوث ہونے کے وبال وعقاب کے بڑھ جانے کا بھی اندیشہ ہے اس لیے ہر مسلمان کے لیے بہت ضروری ہے کہ وہ ہر قسم کی بدعات اور رسومات سے احتراز کرکے صرف ان عبادات اور امور کی انجام دہی میں مشغول رہے جن کی ہدایات پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ماہ کے اندر امت کو دی ہیں اور وہ صرف دوکام ہیں ایک نویں اور دسویں کاروزہ جوکہ سنت ہے دوسرے دسویں کو اپنی استطاعت کے موافق اپنے اہل وعیال پر کھانے میں وسعت وفراخی کرنا جوکہ مستحب ہے