ماہنامہ الفاران
ماہِ محرم الحرام - ۱۴۴۵
دنیا جن کی جوتیوں پر پڑی تھی!
جناب حضرت الحاج مولاناکبیر الدین فاران صاحب المظاہری:ناظم :مدرسہ عربیہ قادریہ، مسروالا،ہماچل پردیش، سرپرست :ماہنامہ الفاران
”علی میاں ندوی“ایک مردحق آگاہ
اس روئے زمین پر ایسے بزرگ ہیں جن کو بھلا کر بھی بھلایا نہیں جا سکتا کہ ان کا خلوص اور ان کے خدمات اس حد تک کرہئ ارض پر محیط ہیں کہ تا قیام قیامت ان کا نام مٹ نہیں سکتا اس میں کا رِعلمی،روحانی،قلمی اور خلوص واحسان کو بڑا دخل ہے، انہیں میں سے ایک نابغہئ روزگار اور عبقری ہستی مفکراسلام حضرت مولانا سید علی میاں ندوی ؒ کی ذات ستوہ صفات والی شخصیت کی ہے جن کو اللہ نے خلوص واخلاص وللہیت اور دنیا سے بے رغبتی اور استغنیٰ کی دولت، قرآن و احادیث، تاریخ وتصوف،مغربی اذھان وافکار کے سد باب اور حالات حاضرہ کی تفیض سناشی کے جوہر نایاب سے نوازاتھا۔
وہ ایک سادہ سیدھاقلب مکانی انسان کے روپ والی، بے تکلف زندگی گذارنے والی شخصیت تھی انہیں ایک وھلہ میں دیکھ کر کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ وہ یہ ذات ہیں جن کی صدائے دل نواز سے ایوانوں میں تہلکے مچ جاتے تھے۔ عالم عرب کی قصر شاہی میں سنناٹا چھا جاتا اور جن کی مبارک صحبتوں سے قلب کے بند سوتے کھل جاتے تھے۔
اللہ نے انہیں اردو زبان کے ساتھ عربی زبان و ادب پر عبور اور دسترس عطاکی تھی،دانشوران عرب جب ان کی مجلسوں میں ہوتے یا کسی تقریب میں ان کا خطاب سنتے تو عشعش کرتے،یہ کون عجمی ہے؟جنکی عربی ادب وانشا حق گوئی،حق گوشی اور نور بصارت عربوں کو متحیر کر دیتا تھا۔
ان کے علمی تفوق اور مطالعہ کی گہرائی وگیرائی نے انہیں ایک وقت میں اکابر کی راہوں سے کچھ دور کر دیا تھا وہ جماعت اسلامی کے افکار و خیالات کے ترجمان ہونے لگے تھے،اللہ نے ان پر اپنا فضل اور ان کی والدہ کی دعاؤں کی برکت سے ان کا ہاتھ تھاما اور وہ بزرگ ساز اور روح کو مجلیٰ اور مصفی کرنے والی ہستی قطب الاقطاب حضرت شاہ عبد القادر رائے پوری جلا بخش شخصیت کے حوالہ ہوئے جہاں نگاہ مرد مومن سے ان کے خیالات کی پاکیزگی اور قلب کو مصفیٰ اور مزکی کرنے کی توفیق ملی،پھر کیا تھا وہ اپنے مرشد گرامی کے محبوب نظر بن گئے اور اللہ نے انہیں دنیا کے امامت کے منصب عالی سے نواز ا اور اک بڑی دنیا ان کی ذات سے مستفیض ہوتی رہی۔
مفکر اسلام حضرت مولانا علی میاں ندوی ؒ کی خصوصیات ہشتگانہ میں دو اہم خصوصیت جس نے حضرت کو وقت کا امام اور مرشد امت بنایا وہ ان کا بے پایہ خلوص اور دنیا سے بے رغبتی اور استغنیٰ کی دولت تھی جس کو دنیا کے روحانی،علمی اور متمول شخصیات نے اعتراف کیا۔
ایک بار حضرت مولانا مفتی عبد العزیزرائے پوریؒ نے اپنی مجلس میں اظہار کیا تھاکہ ایک پروگرام کے سلسلے میں حضرت مولانا علی میاں ندوی ؒ سہارن پور تشریف لائے ہوئے تھے کسی نے روپیوں سے بھراا لفافہ حضرت کی خدمت میں بطور ہدیہ پیش کیا لفافہ دیکھ کر آپ نے اپنا ہاتھ اس طرح کھینچ لیا جیسا کہ سانپ کسی کو ڈنک مارے اور وہ اپنے کو بچانے کیلئے ہاتھ کھینچ لیتا ہو۔
جب وہ سہارن پورشیخ الحدیث حضرت مولانا شیخ زکریا ؒ کی زیارت کیلئے تشریف لاتے تو اکثر ان کا قیام حضرت مفتی عبد العزیز رائے پوریؒ کے حجرے میں ہوتا تھاجو دار جدید کی مسجد کے شمالی جانب واقع ہے،جہاں نہ غسل خانہ کا انتظام تھانہ بیت الخلاء کا حضرت ازراہ شفقت فرماتے مفتی صاحب میری طبیعت چاہتی ہے کہ آپ کے حجرے میں بیت الخلاء بنوادوں لیکن میرے پاس اتنی گنجائش نہیں ہے۔
حضرت مفتی عبد العزیز صاحب مفکر اسلام کے ہر دل عزیز تھے رائے پور کی نسبت اور ان کے مرشد کے پیرو کی وجہ سے ان سے بڑی محبت تھی۔
شیخ جلیل حضرت علامہ یوسف قرضاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنی زندگی میں مفکر اسلام حضرت شیخ ابو الحسن علی میاں ندویؒ سے زیادہ زاہد اور دنیا سے بے رغبت انسان نہیں دیکھا۔ دنیا ان کی جوتیوں میں پڑی تھی، مگر وہ اسے نگاہ اٹھا کر دیکھنا بھی گوارا نہ کرتے۔ شیخ قرضاویؒ نے علامہ ندویؒ پر ایک کتاب لکھی ہے۔ جس کا نام“الشیخ الندوی کما عرفتہ”ہے۔
اس میں انہوں نے شیخ ندوی کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ اپنی مساعی جمیلہ کے بدلے میں کبھی معاوضہ نہیں لیتے تھے۔ حالانکہ اس وقت کے دیگر علماء اسے قبول کیا کرتے۔ اس حوالے سے شیخ قرضاوی نے کئی واقعات بھی لکھے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں: ایک مرتبہ انہیں وزٹنگ پروفیسر کے طور پر جامعۃ دمشق بلایا گیا۔ اس وقت شرعیہ فیکلٹی کے سربراہ عظیم داعی اور فقیہ الدکتور مصطفی السباعی تھے۔ شیخ ندوی نے کئی اہم ترین لیکچرزدئے۔ جن کی تیاری میں لازماً انہیں کئی دن محنت کرنی پڑی ہوگی۔ یہ لیکچرز وہاں کے اساتذہ و طلبہ سن کرحیران و ششدر رہ گئے۔ ان کا موضوع“التجدید والمجددون فی تاریخ الإسلام”(روشن خیال اور روشن خیالی، اسلامی تاریخ کے آئینے میں) اس کے بعد انہوں نے“رجال الفکر والدعوۃ فی الإسلام”کے عنوان پر وقیع و عمیق لیکچرز دیئے۔ جامعہ دمشق کے دستور کے مطابق، جب شیخ ندوی رخصت ہونے لگے تو بھاری معاوضہ ان کی خدمت میں پیش کیا گیا، ان کے ساتھ شریک دیگر پروفیسرز اور علماء کو بھی یہ معاوضہ دیا گیا۔ مگر شیخ ندوی نے یہ معاوضہ لینے سے انکار کرکے سب کو حیران کر دیا۔
شیخ قرضاوی فرماتے ہیں کہ پہلے تو وہ معاوضہ لیتے نہیں تھے، اگر کوئی مجبور کرتا تو قبول کرکے تنگدست طلبہ میں تقسیم فرماتے۔ چنانچہ یہاں جامعہ دمشق میں بھی ایسا ہی ہوا۔ فرمایا کہ یہ پیسے غریب طلبہ کو دے دیئے جائیں۔ جب انہیں شاہ فیصل ایوارڈ سے نوازا گیا تو اس کے ساتھ بھی ایسا ہی کیا۔ 3 لاکھ ریال کا یہ ایوارڈ انہوں نے ہندوستان کے غریب طلبہ اور محتاج علماء میں تقسیم کر دیا۔ اسی طرح تاریخ اسلام پر دارالسلام برونائی کی حکومت کا عطا کردہ ایوارڈ بھی غریبوں کی نذر فرما دیا۔ پھر یو اے ای (متحدہ عرب امارات)حکومت نے انہیں جائزۃ دبی للقرآن الکریم کے ایوارڈ سے نوازا۔ جس کی قیمت 10 لاکھ درہم تھی۔ اس میں سے ایک روپیہ اپنی جیب میں نہیں ڈالا۔
نامور مورخ و ادیب محمد المجذوب اپنی کتاب”علماء ومفکرون عرفتہم“میں لکھتے ہیں کہ الشیخ الندویؒ رابطۃ العالم الإسلامی کے بانی وارکان میں سے تھے۔ مگر اس ادارے سے کبھی ایک پیسہ بھی نہیں لیا۔ حالانکہ باقی ارکان تنخواہ وصولتے ہیں۔ شیخ اپنے خرچہ پر رابطہ کے سالانہ اجلاسوں میں شرکت کیلئے تشریف لاتے۔ مگر سفری اخراجات بھی قبول نہ کرتے۔
الشیخ إبراہیم السکران نے اپنی کتاب“الماجریات”میں لکھا ہے کہ شیخ ندوی الجامعۃ الإسلامیۃ بالمدینۃ المنورۃ (مدینہ یونیورسٹی) کی شوریٰ کے مستقل رکن تھے۔ لیکن پوری زندگی جامعہ سے ایک پائی بھی قبول نہیں کی۔ جب مدینہ حاضری ہوتی تو اپنی جیب سے ہوٹل بک کراتے۔ جامعہ کے امور نمٹاتے، پھر رات گزارنے ہوٹل تشریف لے جاتے۔ حالانکہ عرب ان پر ریال نچھاور کرنے کو سعادت سمجھتے تھے۔ وہ کسی اور ہی سیارے کے انسان تھے۔ مال و دولت کی ان کے یہاں سرے سے کوئی اہمیت ہی نہ تھی۔
واضح ہو کہ جو مقام و مرتبہ شیخ سید علی میاں ندویؒ کو عرب دنیا میں حاصل تھا، اس کی مثال برصغیر کی تاریخ میں نہیں ملتی۔
مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی میاں ندوی رحمۃ اللہ علیہ کو ملک وملت،انسانیت کیلئے در دوتڑپ کی حد درجہ فکر رہتی تھی جس کا اعتراف ملک کے ہر طبقہ ئ فکر اور مذاہب کے لوگوں کو تھا۔
آپ نے ایک بار اہل علم اور ذی ہوش لوگوں کے درمیان جسمیں ادباء،دانشور،فلاسفرعلمی اور روحانی شخصیات کا مجمع تھا خطاب فرمایا ”اس وقت ہندوستا ن کو آپ کی سوچ قانون کے بارے میں آپ کا دھیان آپ کی محنت اور آپ کی شرافت کی بہت ضرورت ہے یوں سمجھئے کہ ایک کشتی بھنور میں ہے اور خوفناک لہریں منھ کھولے ہوئے اس کی طرف بڑھ رہی ہیں۔ اس کشتی میں کچھ کمزور لوگ سوار ہیں کشتی ڈوبنے ہی والی ہے ایسے وقت میں کوئی ایسا ملاح آجائے جو اس کشتی کو پار لگا دے تو وہ بہت بڑ ا احسان کرنے والا ہو گا۔
آج ہمار املک جس پر ہم کشتی کی طرح سوار ہیں اس میں سوراخ کیا جا رہا ہے اگر یہ کشتی ڈوب گئی تو اچھے اور بُرے پڑھے لکھے اور ان پڑھ،امیر و غریب، چھوٹے بڑے، بچے اور جوان سب ڈوب جائیں گے۔ ہمارے پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے کشتی کی مثال دے کر یہ کہا ہے کہ نیچے کے حصے کے لوگ اس میں سوراخ کر دیں تو اوپر کے لوگوں کو تماشہ نہیں دیکھنا چاہئے اس لئے کہ اگر کشتی ڈوبی تو کوئی نہیں بچے گا۔
سوراخ ایک ہی طرح کا نہیں ہوتا ہے کوئی چھوٹا ہوتاہے تو کوئی بڑ ا، کوئی خوبصورتی سے ہوتا ہے تو کوئی بد نما، کوئی پھاوڑا مار کر سوراخ کرتا ہے، کوئی تجرباتی طریقے سے تو کوئی سائنسی طریقے سے سوراخ کرتاہے۔
ہمارا سماج بے ایمان ہو رہاہے، سارے سماج میں طرح طرح کے ہتھیاروں سے سوراخ کیا جا رہاہے۔
حضرت مفکر اسلام میں انسانیت کی بھی بڑی فکر تھی فرماتے ہیں ” وہ دل انسان کا دل نہیں جس پر کبھی درد کی چوٹ نہ لگے وہ آنکھ انسان کی آنکھ نہیں نرگس کی آنکھ ہے جس میں نمی نہ ہو، وہ دل انسان کا دل نہیں چیتے کا دل ہے جس پر کبھی درد کی چوٹ نہ لگے، جو کبھی انسانیت کے غم میں رونا تڑ پنا نہ جانے، وہ پیشانی جس پر کبھی ندامت کا پسینہ نہ آئے، وہ پیشانی نہیں بلکہ کوئی چٹان ہے۔ جو ہاتھ انسانیت کی خدمت کے لیے نہیں بڑھتا وہ مفلوج ہے، وہ ہاتھ جو انسان کی گردن کاٹنے کے لیے بڑھتا ہے، اس سے شیر کا ہاتھ بہتر تھا، اگر انسان کا کام کاٹنا تھا تو قدرت اس کو بجائے ہاتھوں کے تلوار دے دیتی، اگر انسان کا مقصد ِزندگی صرف مال جمع کرنا تھا، تو اس کے سینے میں دھڑکتے ہوئے دل کے بجائے ایک تجوری رکھ دی جاتی اگر انسان کا مقصد صرف دوسروں کو برباد کرنا ہوتا تو اس کے پاس اچھا سوچنے کا دماغ نہ ہوتا بلکہ کسی شیطان کا دماغ ہوتا“ میرے بھائیو! ایک باپ کو جتنا غم اپنے بیٹے کی بیماری پر ہوتا ہے،سچ تو یہ ہے کہ اپنے پڑوسی کے بیمار ہونے پر اتنا ہی غم اپنے گاؤں میں بسنے والے کسی بیمار فرد پر،اتنا ہی غم اپنے ملک کے کسی بھائی کے بیمار پڑ جانے پر ہونا چاہیے یاد رکھیے! تاریخ اس بات پر گواہ ہے بلکہ میں بھی تاریخ کے ایک طالب علم کی حیثیت سے کہتا ہوں کہ جب بھی یہ حسین جذبہ کسی حساس دل کے اندر پیدا ہوا اس نے ساری سوسائٹی کو بدل ڈالاماحول اور معاشرے میں اصلاح کا زبردست کام کیا،اپنا نام روشن کیا،گھر، خاندان،اور اپنے ملک کا نام بھی روشن کیا۔ لیکن یاد رکھیے! یہ کام انھی خوش قسمت افراد کے ہاتھوں انجام پایا جن کا دماغ عصبیت سے خالی ہوتا ہے جو انسانیت کی بقا ء و تحفظ کی خاطر جان عزیز کی بازی لگا دیتے ہیں؛ لیکن انسانیت پر آنچ آنے نہیں دیتے ہیں۔ لیکن افسوس اس بات پر ہے کہ آج معاملہ خلاف فطرت ہے انسان،انسان سے وحشت کھائے، انسان انسان سے ڈرے یہ بڑے تعجب کی بات ہے۔ انسان شیروں سے ڈرے،انسان پھاڑ کر کھا جانے والے درندوں سے ڈرے؛ لیکن انسان انسان سے ڈرے؟ یہ بڑے تعجب اور خسارے؛ بلکہ انسانی بقا و تحفظ کے خلاف بات ہے۔
ہماری خوش قسمتی ہے کہ حضرت مفتی عبد العزیز رائے پوریؒ کی بدولت مدرسہ قادریہ مسروالا ہماچل پردیش کی بنیاد ان کے مبارک ہاتھوں ۶۱/شوال المکرم ۹۹۳۱ھ مطابق ۹/ستمبر ۹۷۹۱ء میں رکھی گئی اور وہ دوبار مدرسہ قادریہ مسروالا میں تشریف لائے اور مدرسہ قادریہ کے بارے میں ان کی یہ تحریر ہمارے لئے سند تبریک ہے
۲۲/ ۴۱۴۱ھ مطابق ۴/ اپریل ۴۹۹۱ کو گلشن قادری مدرسہ قادریہ مسروالا میں حاضری اور اس کے معائنہ کا شرف اور مسرت حاصل ہوئی، شرف اسلئے کہ اسکی نسبت ہمارے شیخ دمر شد شیخ العالم حضرت مولانا شاہ عبد القادر رائے پوری سے ہے، اور اسکے بانی محب گرامی عالم ربانی الحاج مفتی عبد العزیز صاحب رائے پوری سے ہے۔
رائے پور حاضری کے موقع پر سفر کرکے اس مدرسہ کا معائنہ کیا اس مدرسہ کا سنگ بنیادرکھنے کا شرف اس عاجز ہی کو حاصل ہوا تھا(۶۱/شوال ۹۹۳۱ھ مطابق ۹/ستمبر ۹۷۹۱ء)، اور اسکے بعد اس کی مسجد کے افتتاح کی بھی سعادت حاصل ہوئی تھی۔ دیکھنے کے بعد مزید مسرت ہوئی کہ مدرسہ تیزی سے روبہ ترقی ہے۔
مسجد کی وسعت و جمال اور مدرسہ کی عمارت کی خوبی دیکھ کر دل بہت خوش ہوا یہ سب حضرت کی نسبت کی برکت اور کارکنان کی محنت و کاوش اور اخلاص کا ثمرہ ہے۔ اس ریگزار اور پہاڑوں کے سایہ میں یہ چشمہ ئشیریں اک نعمت خداوندی ہے اللہ تعالی اسکو جاری و ساری اور با فیضان رکھے اور یہ علمی وتربیتی چمن شاداب رہے اور برگ وبار لاتا رہے۔
اپنی ایک وقیع تحریر میں مفکر اسلام نے فرمایا
ناظرین با تمکین کی ا طلاع و اطمینان کے لئے لکھا جاتا ہے، کہ ہماچل پردیش کے علاقہ میں مسر والا مقام پر مدرسہ قادریہ واقع ہے جس کی نسبت ہمارے شیخ ومر شد حضرت مو لانا عبد القادر صاحب رائے پوری رحمۃ اللہ علیہ کی طرف ہے، اس کے ذمہ دار و منتظمین سب صحیح العقیدہ اور قابل اعتبار لوگ ہیں، جائے وقوع کی اہمیت اس کی قدیم تاریخ اور اس لحاظ سے کہ یہ علاقہ جہاں کبھی بڑے روحانی و علمی مرکز بھی تھے اب مدارس اور دعوتی مرکزوں سے خالی ہو گیا ہے، مساجد بھی خطرہ میں پڑ گئی ہیں، حضرت کے تربیت یافتہ اور متوسل مولانا مفتی عبد العزیز صاحبؒ نے اس کو قائم کیا، اب محبی مولوی کبیر الدین صاحب فاران اس کے ذمہ دار اور منتظم ہیں۔
اہل خیر سے امید ہے کہ اس کی اعانت کریں گے کہ اس کے استحکام اور اس کے امکانات سے اس علاقہ میں صحیح عقیدہ و مسلک کے پھیلنے اور نئی نسل کے دینی تعلیم سے آراستہ ہونے کی قوی امید ہے۔والغیب عند اللہ مخلص ابو الحسن علی
۲۲/ ۴۱۴۱ھ مطابق ۴/ اپریل ۴۹۹۱ کواپنی تشریف آوری پر اظہار مسرت فرماتے ہوئے لکھا ”اس مدرسہ اور مسجد کو دیکھ کر اپنی خوشی چھپانہیں سکتا یہ میرے لئے بالکل انکشاف ہے اور میں نے ایک نئی چیز دیکھی ہے یہ اس علاقہ کے صحرا میں اک گلستاں ہے“
ناظم ندوۃ العلماء لکھنو
مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی میاں ندوی ؒ اپنے معاصرین کے گل سر سبز تھے اللہ نے انہیں علوم ومعارف ارشاد و سلوک دقت نظر، وسعت مطالعہ،گیرائی اور گہرائی کی دولت اور علوم وفنون پر دسترس عطافرمائی تھی۔وہ خاموش مزاج مصلح تھے اپنی دور بینی نگاہوں سے اپنے ہم نشینوں کے قلب کو مذکی ٰاور مصفیٰ فرماتے ان کا رہن سہن، نشست و برخاست میں بلا کی سادگی اور کشش تھی ان کا دسترخوان بھی بے جا تکلفات سے پاک تھا۔(بعض مکررات)
انہوں نے اپنے قلم گوہر بار سے علماء دیوبند کا عربوں میں تعارف کرایا خاص طور پر شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریا صاحبؒ کی کتابوں کا تعارف اور شاعر مشرق علامہ اقبال کی منظوم کتابوں کا عربی میں ترجمہ کرا کر ان کی فکری ارتقاء اور تصوف کی طرف ان کے رجحان کا بھی تعارف کرانے میں کوئی ججھک محسوس نہیں کی۔
ان کی خدمت میں علم و معرفت سے مشغول شخصیات بھی تشریف لاتی تھیں اور ادباء،شعراء،سماجی اور سیاسی رہنما بھی حاضری دیتے تھے۔
آپ اپنے انداز تکلم میں مخاطب کے مقام ومرتبہ کا جس وسعت ظرف اور باریکی سے خیال رکھتے اس کی مثال نہیں ملتی،ایسی شخصیت صدیوں میں پیدا ہوتی ہے اور سالوں تک دلو ں پر چھائی رہتی ہے۔
ان کی ذات ”ندوۃ العلماء“ کے بکھرے زلفوں کو سنوار نے میں تادم حیات لگی رہی اور ندوہ اور ندویت کا رشتہ علماء دیوبند اور طریقہ ئ اہل سنت والجماعت خاص طور پر ان کے مرشد قطب الاقطاب حضرت مولانا شاہ عبدا لقادر رائے پوری ؒ کی روحانیت سے مضبوط قائم رکھنے پر گامزن رہی۔
ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہزاروں سعیوں کے بعد ایک وسیع عریض حد درجہ دیدہ زیب اور پر کشش مسجد جس کا آر۔کی۔ ٹیکٹ جناب چودھری فضل الرحمان صاحب جو ایک بڑی دنیا میں اپنی کلاکاری کیلئے مشہور رہے ہیں ان کے مجوزہ ڈیزائن پر جناب مولانا انصار الحق مظاہری دامت برکاتہم اور الحاج مستری یوسف صاحب کی نگرانی میں تکمیل ہوئی۔
مسجد مفتی عبد العزیز کے افتتاح کے پر وقار موقع پر جس میں علاقہ کے ہندو مسلم سکھ اور بڑی تعداد میں دور دراز علاقہ کے عوام و خواص موجود تھے اس زرّین موقع پر حضرت کی خدمت میں مختصر خطبہ ئ استقبالیہ پیش کیا گیا جس کا اقتباس اسطرح ہے۔
صدر گرامی قدر ،با وقار حضرات سامعین اور دینی بھائیو !
اس مرغزا ر وادی میں واقع مدرسہ قادریہ مسروالا اور علاقہ میں بسے لوگوں کیلئے آج کادن نہایت مسرت و خوشی اور نیک بختی و سرفرازی کاہے کہ آج ہمارے درمیان ایک ایسی یگانہ ئ روز گار، مقتدر ومحترم ہستی جلوہ افروز ہے جس کی زیا رت کیلئے دنیا مشتاق،جن سے استفادہ کیلئے علماء بیتاب،جن کی حکمت آمیز گفتگوکیلئے بلاتفریق مذہب و ملت ہر طبقہ ئ انسانی متمنی رہتاہے، جن کو دنیا پیا ر سے علی میاں اور احترام وعقیدت سے مفکر اسلام حضرت اقدس مولانا سیدابو الحسن علی ندوی کے نام سے جانتی ہے۔
آپ ہندوستان کے مؤ قر ادارہ ندوۃ العلماء لکھنؤ کے ناظم،آل انڈیا مسلم پرسنل لا ء بورڈ کے صدر، رابطہئ عالم اسلامی مکہ مکرمہ کے رکن رکین، پیام انسانیت فورم کے بانی اور سینکڑوں وقیع کتابوں کے مصنف ہیں، حضرت والا کا اس علاقہ کایہ دوسرا دورہ ہے، پہلا دورہ مدرسہ قادریہ کے بانی،ہمارے مربی حضرت اقدس مولانا مفتی عبد العزیز صاحب مدظلہ کی دعوت پرا س مدرسہ کا سنگ بنیاد رکھنے کیلئے ۶۱/ شوال المکر م ۹۹۳۱ھ مطابق ۹/ ستمبر۹۷۹۱ء کو ہوا تھا، اس موقعہ پر حضر ت والا نے خطاب کے دوران ارشاد فرمایا تھا، کہ”آج یہ سنسان جنگل ہے مگر مجھے اللہ کی ذات سے پوری امید ہے کہ ایک وقت آئیگا جب یہ جگہ آبا د اور پر رونق ہوگی،اور بلبلان علوم نبوی چہچہار ہے ہوں گے، قرآن پاک اور علوم نبوی ﷺ کا درس ہو گا اور طالبان علوم نبوت دوردراز سے آکر سیرابی حاصل کریں گے“ آ پ نے یہ بھی فرمایا تھا، بھائیو! دارالعلوم دیوبند ایک انار کے درخت کے نیچے شروع ہوا تھا جس میں سب سے پہلے استاد و شاگرد دونوں محمود تھے، کیا بعید ہے کہ آم کے سایہ میں پروان چڑھنے والا یہ مدرسہ بھی انار جیساوسیع و ہمہ گیر اور نافع بنے“ حضرت والا کی زبا ن مبارک سے نکلے ہوئے وہ بابر کت کلمات اللہ کے یہاں مقبول ہوئے مدرسہ کی موجودہ ہیئت اس مقبولیت کی منھ بولتی تصویر ہے۔
ایماں کے جہاں پڑتے ہیں قدم زمزم وہیں پیدا ہوتاہے
حضرت والا! ہمارا محبوب و طن بدقسمتی سے بارہا آپسی انارکی، ظلم و بر بریت کا شکار ہو ا ظلم و ناانصافی، حق و نا حق کا فرق مٹ گیا، عورتوں کا سہاگ لوٹاگیا، بچوں کو یتیم کیا گیا، جسمیں انسانیت و شرافت کی دھجیاں بکھیردی گئیں،، ایسی انسانیت دشمنی اور انسان کشی کے ماحول میں یہاں کے ہندومسلم، سکھ و عیسائی نے قدیم روایتی، بھائی چارہ انسانیت اور امن و امان کو مضبوطی سے تھامے رکھا، بقول آنحضرت کہ ”ملت ہی نہ رہی تو مسجد کیاکریگی، سماج ہی نہ رہاتو عبادت کی جگہ کس کا م آئے گی“ اس قیمتی نصیحت پر یہاں کے لوگ قائم و دائم رہے، اور اپنی روایتی شان، بھارت کے سرتاج ہماچل کو باقی رکھا اللہ تعالیٰ اس علا قہ کو اس لحاظ سے دوسروں کیلئے نمونہ بنائے۔
قابل قدر مہمان! آپ کی ذات والا، ملک و ملت کیلئے مسیحا کی حیثیت رکھتی ہے، آپ کے دل میں اپنے ملک اور آدم و حوّا ء کی اولاد کیلئے جس درجہ محبت ہے اس کا بخوبی اندازہ آپ کے ایک ایک ارشاد سے ہوتاہے،”خدا کے بند وں پر ظلم و زیادتی، خدا کے ساتھ جنگ ہے، وہ ملک کبھی نہیں پنپ سکتاوہ سماج کبھی ترقی نہیں کرسکتا جہاں درختوں، جانوروں،اینٹ گارے کی بنی چیزوں کی حفاظت کی جاتی ہو اور خدا کے بندوں کو تہ تیغ کیا جاتاہو“ اس نوع کے ہزاروں بیا نات ہیں جو پڑھنے کوملتے ہیں۔
اس مبارک ومسعود موقعہ پر کہ جس کا عنوان مجلس افتتاح ”مسجد مفتی عبد العزیز“ ہے، اس کا ذکر ضروری ہے کہ یہ مسجد حضرت اقدس شاہ عبد القادرصاحب رائپوری ؒ کے سچے جا نشین، آپ کی ذات والا سے والہانہ عقیدت و محبت رکھنے والے،مدارس و مساجد کے قیام کے متوالے حضرت مولانا مفتی عبد ا لعزیز صاحب ؒ کے حسین خواب کی تعبیر ہے جس کیلئے جناب بابو بھائی مہتہ روڈ لائنس بمبئی والوں نے آراضی وقف کی تھی اور ۵/ جنوری ۸۸۹۱ء کو اس کا سنگ بنیا د پیر طریقت حضرت مولانا محمد طلحہ صاحب دام مجد ہٗ شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد یونس صاحب مدظلہ اور حضرت مولانا مفتی عبد العزیز صاحبؒ کے ہا تھوں علماء اور عوام کی موجود گی میں رکھاگیا تھا، حضرت مفتی صاحب کی دلی خواہش اور اخیر عمر میں ہدا یت تھی کہ اس مسجد کا افتتاح آپکی مبارک ذات سے ہو۔
بندہ پر ایک دور یاروں کی بدولت کشمکش کا رہا اس کی ظاہری وجہ آکاش وانی ریڈیو پر اسٹیشنوں سے میری تقریروں کی نشریات تھی۔ میں نے مسودہ کی کاپی تیار کی اور ان کی بارگاہ میں تکیہ شاہ علیم اللہ رائے بریلی حاضری دی اس پر جب انہوں نے ایک بسیط اور پر حوصلہ مقدمہ تحریر فرمایا تو شعلہ ئ جوالہ پر باران رحمت کا کام کیا اور بہت سی شخصیتوں جن پر غبار پڑا تھا وہ دھل گیا اور میرے لئے باعث سرفرازی اور رحمت ثابت ہوئی۔وہ مقدمہ میری ”فاران ریڈیائی تقریریں“ پر ثبت ہے۔
غرض کہ حضرت سید علی میاں ندوی ؒ نے علمی، دینی، اصلاحی، فکری اور معاشرتی نظام کے نفاذ کے مقاصد و مراحل میں ذرہ برابر بھی سستی اور لا پروائی کو اپنے اوپر غالب ہونے نہیں دیا۔آپ اپنے علم بحر بیکراں کیساتھ ساتھ منکسر المزاجی فکرو تصوع،علم میں پختگی آپ کی نمایا ں خصوصیات اور انسانیت کیلئے تڑپتی روح کی انمٹ مثالیں پیش فرمائیں۔