ماہنامہ الفاران
ماہِ ذی الحجہ - ۱۴۴۴
قربانی کا مہینہ
جناب حضرت مولانا و مفتی نفیس احمد صاحب جمالپوری المظاہری؛ استاذ:حدیث و فقہ، مدرسہ قادریہ،مسروالا،ہماچل پردیش
ماہ ِذی الحجہ کا پہلا عشرہ
اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم کی(سورة الفجر آیت نمبر 2)میں ذی الحجہ کی دس راتوں کی قسم کھائی ہے(وَالْفَجْرِ وَلَیَالٍ عَشْرٍ)جس سے معلوم ہوا کہ ماہ ذی الحجہ کا ابتدائی عشرہ اسلام میں خاص اہمیت کا حامل ہے
حج کا اہم رکن:
وقوفِ عرفہ اسی عشرہ میں ادا کیا جاتا ہے، جو اللہ تعالیٰ کے خاص فضل وکرم کو حاصل کرنے کا دن ہے غرض رمضان کے بعد ان ایام میں اخروی کامیابی حاصل کرنے کا بہترین موقع ہے لہٰذا ان میں زیادہ سے زیادہ اللہ کی عبادت کریں، اللہ کا ذکر کریں، روزہ رکھیں، قربانی کریں احادیث میں ان ایام میں عبادت کرنے کے خصوصی فضا ئل وارد ہوئے ہیں، جن میں سے چند احادیث ذکر کررہا ہوں
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کوئی دن ایسانہیں ہے جس میں نیک عمل اللہ تعالیٰ کے یہاں ان دس دنوں کے عمل سے زیادہ محبوب اور پسندیدہ ہو (صحیح بخاری )
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہماسے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے نزدیک عشرہٴ ذی الحجہ سے زیادہ عظمت والے دوسرے کوئی دن نہیں ہیں، لہٰذا تم ان دنوں میں تسبیح وتہلیل اور تکبیر وتحمید کثرت سے کیا کرو (طبرانی) ان ایام میں ہر شخص کو تکبیر تشریق پڑھنے کا خاص اہتمام کرنا چاہیے، تکبیرِ تشریق کے کلمات یہ ہیں اَللہُ اَکْبَرُ، اَللہُ اَکْبَرُ، لَآ اِلٰہ الَّا اللہُ، وَاللہُ اَکْبَر، اللہُ اَکْبَر، وَلِلہِ الْحَمْدُ
عرفہ کے دن کا روزہ
حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا عرفہ کے دن کے روزے کے متعلق میں اللہ تعالیٰ سے پختہ امید رکھتا ہوں کہ وہ اس کی وجہ سے ایک سال پہلے اور ایک سال بعد کے گناہوں کو معاف فرمادیں گے ( صحیح مسلم)
مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کہ عرفہ کے دن کا ایک روزہ ایک سال پہلے اور ایک سال بعد کے گناہوں کی معافی کا سبب بنتا ہے لہٰذا نویں ذی الحجہ کے دن روزہ رکھنے کا اہتمام کریں
ہمارے استاد مولانا عبدالعظیم مظاہری صاحب استاد حدیث جامعہ مظاہر علوم سہارنپوری نے اس حدیث کی تشریح میں شیخ زکریا کاندھلوی کاقول نقل کیا کہ جس کو یوم عرفہ کےروزہ کی توفیق ملی امید ہے کہ وہ آئندہ سال تک زندہ رہے گا کیونکہ جبھی تو آئندہ سال کے گناہ معاف ہوں گے
وضاحت
اختلافِ مطالع کے سبب مختلف ملکوں میں عرفہ کا دن الگ الگ دنوں میں ہو تو اس میں کوئی اشکال نہیں کیونکہ یوم عیدالفطر، یوم عید الاضحی، شبِ قدر اور یومِ عاشورہ کے مثل ہر جگہ کے اعتبار سے جو دن عرفہ کا قرار پائے گا، اُس جگہ اُسی دن میں عرفہ کے روزہ رکھنے کی فضیلت حاصل ہو گی،
قربانی دین اسلام کی اہم ترین عبادت ہے،اس ماہ مبارک میں لاکھوں مسلمان اس فریضہ کو انجام دیتے ہیں اور ابراہیم علیہ السلام کی سنت پر عمل کرتے ہوئے لاکھوں جانور اللہ کی رضا کی خاطر ذبح کیے جاتے ہیں، قربانی کی عبادت بندے کی اللہ تبارک و تعالی کے ساتھ عشق و محبت کا مظہر ہے، ہونا یہ چاہیے تھا کہ بندہ خود اللہ تبارک و تعالی کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرتا؛ مگر اللہ تبارک و تعالیٰ کی رحمت ہے کہ اللہ تعالی نے جانوروں کو ذبح کرنا اس کے قائم مقام قرار دے دیا، اور جس شخص کو بھی اللہ تبارک وتعالی نے مالی وسعت عطا فرمائی ہے وہ شخص قربانی کرنا اہم دینی فریضہ سمجھتاہے اور بہت بد نصیب ہے وہ آدمی کہ جو باوجود مالی وسعت کے اس عظیم عبادت سے محروم رہے، بارگاہ الٰہی میں قربانی پیش کرنے کا سلسلہ سیدنا آدم علیہ السلام سے ہی چلا آرہا ہے؛ چنانچہ اللہ تعالی نے سورت المائدہ میں سیدنا آدم علیہ السلام کے بیٹوں ہابیل و قابیل کا قصہ ذکر فرمایا ہے کہ دونوں نے اللہ تعالی کے حضور قربانی پیش کی ،ہابیل نے عمدہ دنبہ قربان کیا اور قابیل نے کچھ زرعی پیداوار یعنی غلہ پیش کیا اس وقت قربانی قبول ہونے کی علامت یہ تھی کہ آسمان سے آگ آ کر قربانی کو کھا لیتی چنانچہ ہابیل کی قربانی کو آگ نے کھا لیا اورقابیل کی قربانی وہیں پڑھی رہ گئی،یوں وہ قبولیت سے محروم ہو گئی
قربانی واجب ہونے کا نصاب وہی ہے جو صدقہٴ فطر کے واجب ہونے کا نصاب ہے، یعنی جس عاقل، بالغ ، مقیم ، مسلمان مرد یا عورت کی ملکیت میں قربانی کے ایام میں قرض کی رقم منہا کرنے کے بعد 87گرام 480ملی گرام سونا، یا 612گرام 360ملی گرام چاندی، یا اس کی قیمت کے برابر رقم ہو، یا تجارت کا سامان، یا ضرورت سے زائد اتنا سامان موجود ہو جس کی قیمت 612گرام چاندی کے برابر ہو، یا ان میں سے کوئی ایک چیز یا ان پانچ چیزوں میں سے بعض کا مجموعہ 612گرام چاندی کی قیمت کے برابر ہوتو ایسے مرد وعورت پر قربانی واجب ہے
قربانی واجب ہونے کے لیے نصاب کے مال ، رقم یا ضرورت سے زائد سامان پر سال گزرنا شرط نہیں ہے، اور تجارتی ہونا بھی شرط نہیں ہے، ذی الحجہ کی بارہویں تاریخ کے سورج غروب ہونے سے پہلے اگر نصاب کا مالک ہوجائے تو ایسے شخص پرقربانی واجب ہے
ضرورتِ اصلیہ سے مراد وہ ضرورت ہے جو جان اور آبرو سے متعلق ہو یعنی اس کے پورا نہ ہونے سے جان یا عزت وآبرو جانے کا اندیشہ ہو، مثلاًکھانا ، پینا،پہننے کے کپڑے، رہنے کا مکان، اہلِ صنعت وحرفت کے لیے ان کے پیشہ کے اوزارضرورتِ اصلیہ میں داخل ہیں
اور ضرورت سے زائد سامان سے مراد یہ ہے کہ وہ چیزیں انسان کے استعمال میں نہ ہوں، اور ہر انسان کی ضروریات اور حاجات عموماً دوسرے سے مختلف ہوتی ہیں اور راجح قول کے مطابق ضروریات کو پوری کرنے کے لیے اشیاء کو جائز طریقہ سے اپنی ملکیت میں رکھنے کی کوئی خاص تعداد شریعت کی طرف سے مقرر نہیں ہے؛ بلکہ جو چیزیں انسان کے استعمال میں ہوں اور انسان کو اس کے استعمال کی حاجت پیش آتی ہو اور وہ اشیاء تجارت کے لیے نہ ہوں تو ضرورت اور حاجت کے سامان میں داخل ہیں
لہٰذا جو چیزیں اس انسان کے استعمال میں نہ ہوں اور اس کو ان کی حاجت بھی نہ ہوتی ہو تو وہ ضرورت سے زائد سامان میں شامل ہیں، قربانی کے نصاب میں اس کی مالیت کو شامل کیا جائے گا
قربانی کی حقیقت
قربانی کا عمل اگرچہ ہر امت کے لیے رہا ہے، جیساکہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے: وَلِکِلِّ اُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسِکًا لِیَذْکُرُوا اسْمَ اللہِ عَلَی مَا رَزَقَھُمْ من بَھِیْمَةِ الْاَنْعَامِ (سورة الحج آیت نمبر 34)
ہم نے ہر امت کے لیے قربانی مقرر کی تاکہ وہ چوپایوں کے مخصوص جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائے لیکن حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کی اہم وعظیم قربانی کی وجہ سے قربانی کو سنتِ ابراہیمی کہا جاتا ہے اور اسی وقت سے اس کو خصوصی اہمیت حاصل ہوگئی چنانچہ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کی عظیم قربانی کی یاد میں اللہ تعالیٰ کے حکم پر حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں جانوروں کی قربانی کی جاتی ہے جو قیامت تک جاری رہے گی اس قربانی سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ہم اللہ کی اطاعت اور فرمانبرداری میں اپنی جان ومال ووقت ہر قسم کی قربانی کے لیے تیار رہیں
حضورِاکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجة الوداع کے موقع پر سو اونٹوں کی قربانی پیش فرمائی تھی جس میں سے 63 اونٹ کی قربانی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مبارک ہاتھوں سے کی تھی اور بقیہ 37 اونٹ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نحر (یعنی ذبح) فرمائے(صحیح مسلم )
حجة النبی صلی اللہ علیہ وسلم) یہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد (ذی الحجہ کی 10تاریخ کو کوئی نیک عمل اللہ تعالیٰ کے نزدیک قربانی کا خون بہانے سے بڑھ کر محبوب اور پسندیدہ نہیں) کا عملی اظہار ہے اور اس عمل میں اُن حضرات کا بھی جواب ہے جو مغربی تہذیب سے متاثر ہوکر کہہ دیتے ہیں کہ جانوروں کی قربانی کے بجائے غریبوں کو پیسے تقسیم کردیے جائیں اسلام نے جتنا غریبوں کا خیال رکھا ہے اس کی کوئی مثال کسی دوسرے مذہب میں نہیں ملتی، بلکہ انسانیت کو غریبوں اور کمزوروں کے درد کا احساس شریعتِ اسلامیہ نے ہی سب سے پہلے دلایا ہے غرباء ومساکین کا ہر وقت خیال رکھتے ہوئے شریعت اسلامیہ ہم سے مطالبہ کرتی ہے کہ ہم عید الاضحی کے ایام میں حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کی عظیم قربانی کی یاد میں اپنے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرتے ہوئے قربانی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں، جیسا کہ ساری انسانیت کے نبی حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
کسی کام میں مال خرچ کیا جائے تو وہ عید الاضحی کے دن قربانی میں خرچ کیے جانے والے مال سے زیادہ فضیلت نہیں رکھتا (سنن دار قطنی، سنن کبری للبیہقی) ایک اور روایت میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پیاری بیٹی حضرت بی بی فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا سے ارشاد فرمایااے فاطمہ! اُٹھو اپنی قُربانی کے جانور کے پاس جاؤ اور اسے لے کر آؤ؛ کیونکہ اس کے خون کا پہلا قطرہ گرنے پر تمہارے پچھلے گناہ بخش دئیے جائیں گے اُنہوں نے عرض کیا”یا رسول اللہ !یہ انعام ہم اہلِ بیت کے ساتھ خاص ہے یا ہمارے اور تمام مسلمانوں کے لیے عام ہے؟“تو آپ علیہ السلام نے ارشاد فرمایا:”بلکہ ہمارے اور تمام مسلمانوں کے لیے عام ہے“۔(المستدرک،کتاب الاضاحی) ایک اورروایت میں ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس میں وسعت ہو اور قربانی نہ کرے وہ ہماری عیدگاہ کے قریب نہ آئے۔ (سنن ابن ماجہ،کتاب الأضاحی)حضرت عبداللہ ابن عمر رضی الله عنھماسے روایت ہے کہ حضور نبی کریمﷺ دس سال مدینہ میں مقیم رہے اور ہر سال قربانی فرماتے تھے (سنن ترمذی )
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر سال قربانی کرنا قربانی کی اہمیت ، فضیلت اور تاکید کے لیے کافی ہے حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم ﷺسیاہ اور سفید رنگت والے اور بڑے سینگوں والے دو مینڈھوں کی قربانی فرمایاکرتے تھے اور اپنے پاؤں کو ان کی گردن کے پاس رکھ دیا کرتے تھے اور اپنے دستِ مبارک سے ذبح فرماتے تھے (صحیح بخاری)