ماہنامہ الفاران

ماہِ ذی الحجہ - ۱۴۴۴

ہندوستان کی چند خصوصیات

جناب حضرت مولانا کبیر الدین صاحب فاران المظاہری؛ ناظم: مدرسہ قادریہ،مسروالا،ہماچل پردیش و سرپرست ماہنامہ "الفاران"

یہ شرف و اعزاز پورے عالم انسانیت میں صرف ہندوستان ہی کو حاصل ہےکہ خدا تعالٰی کے سب سے پہلے پیغمبر حضرت آدم علیہ السلام ہندوستان میں اترے وحئ نبوت سب سے پہلے ہندوستان میں آئی یوں کہیے کہ اسلام کاسورج سب سے پہلے ہندوستان میں نمودار ہواعلامہ آزاد بلگرامی نے اسی وجہ سے مآثر ہندوستان کی سب سے بڑی فضیلت یہی لکھی ہے(سبحۃالمرجان فی مآثر ہندوستان)
لیکن اس مضمون میں ہندوستان کے اس اسلامی دور پر روشنی ڈالی جائے گی جس کی ابتداء خاتم الانبیاء حبیب رب العلمین محمد مصطفی ﷺ سے ہوتی ہے
ہندوستان میں اسلام
عرب بالخصوص قریش ایک تاجر قوم تھی اس زمانے کی سادگی اور آلات نقل وحمل اور رسل ورسائل کی بے حد کمی کے باوجود دنیا کا مشرق ومغرب ان کے زیر قدم تھا دور دراز کے ملکوں سے اموالِ تجارت کی درآمد وبرآمد ان کاپیشہ تھا اس تجارتی سلسلہ میں ان کے تعلقات ہندوستان کے ساتھ بعثت نبی ﷺ سے پہلے ہی قائم تھے بالخصوص مالابار (لنکا) ان کا تجارتی مرکز تھا بہت سے عرب یہیں آباد ہو گئے تھے مشہور فرانسیسی مؤرخ لیبان اپنی کتاب تمدن عرب میں لکھتا ہے کہ عربوں نے تجارتی تعلقات کو بہت بڑی وسعت اور ترقی دی وہ بہت جلد ساحل کارومنڈل، مالابار، سماٹرا، جزائر بحر ہند کو طے کرتے ہوئے جنوبی چین تک پہنچ گئے
سب سے پہلے اسلام مالابار میں
عام طور پر مشہور یہ ہے کہ ہندوستان میں سب سے پہلے اسلام علاقۂ سندھ میں آیا، لیکن تاریخی حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان میں اسلام سب سے پہلے مالابار، سراندیپ وغیرہ جزائر شرق الہند میں پھیلا اور یہ اشاعت عرب تجار کی آمد ورفت کے سبب ہوئی
عربوں کی آمد ورفت پہلے ہی سے مالابار میں تھی، لہذا آنحضرتﷺ کی بعثت کا حال مالابار میں حضور ﷺ ہی کے زمانے میں لوگوں کو معلوم ہو چکا تھا، اس زمانے میں مالابار کا راجہ زمون یاسامری کے نام سے مشہور تھا جو خاندان پلویا سے تعلق رکھتا تھا اس راجہ نے معجزہ شق القمر کودیکھ کر اس کے متعلق تحقیق وتفتیش شروع کی اور اس واقعہ کو بطور یادداشت سرکاری روزنامچہ میں درج کرایا بالآخر اس کو معلوم ہوا کہ عرب کے ملک میں ایک پیغمبر پیدا ہوئے اور انہوں نے یہ معجزہ دکھایا ہے یہ سن کر راجہ نے اسلام قبول کرلیا اور تخت و سلطنت اپنے ولی عہد کے سپرد کرکے خود کشتی میں سوار ہوکر ملک عرب کی جانب روانہ ہوا لیکن راستے ہی میں فوت ہوکر ساحل ملک یمن میں مدفون ہوا راجہ کا یہ سفر چونکہ عام اطلاع کے بغیر پوشیدہ طور پر عمل میں آیا تھا لہذا لوگوں نے راجہ کے اس طرح غائب ہوجانے کی حقیقت کو نہ سمجھا (فتوح الہند صفحہ 9مؤلفہ مفتی شفیع عثمانی رحمۃ اللہ علیہ)
انہی ایام میں کچھ مسلمان تاجر سراندیپ میں آئے اور اسلام کاپیغام ساتھ لائے جن عربوں نے اس جزیرہ میں تجارتی ضرورتوں کے سبب بودوباش اختیار کرلی تھی اول وہ مسلمان ہوئے اور پھر بہت جلد جزیرہ میں اسلام پھیلنے لگا حتیٰ کہ سراندیپ کاراجہ بھی مسلمان ہوگیا اور اپنے آپ کو خلافت اسلامیہ کے ساتھ وابستہ کرلیا خلافت بنوامیہ کے زمانے میں سراندیپ کاراجہ مسلمان تھا تاریخ فرشتہ نامی کتاب کے الفاظ یہ ہیں
ہرآئینہ حاکم سراندیپ ازرایاں دیگر مواضع ہندوستان بر حقیقت اسلام مطلع شدہ درعہد صحابہ کرام مقلد قلادہ شریعت مصطفوی گردیدہ بود(فتوح الہند صفحہ10)
سراندیپ کے بعد ہی لکادیپ، مالدیپ اور مالابار میں اسلام پھیل چکاتھا مالابار میں اسلام نے اور بھی جلد اس لیے ترقی کی کہ اسلام کی مساوات ورواداری، ذات پات کی قیود کودور کرکے مظلوم ومغلوب لوگوں کے لیے ایک ابر رحمت اور سامان ترقی تھی مالابار کاراجہ بھی دوسری صدی ہجری کے اوائل میں چند مسلمان سیاحوں کے ہاتھ پر مشرف بااسلام ہوگیا
عجائب الانظار کی روایت کے موافق اس وقت کا راجہ چیرامن پیرومل تھا اس نے بھی مشرف بااسلام ہونے کے بعد امورِ سلطنت اپنے نائبین کے سپرد کرکے حجاز مقدس کے سفر کاقصد کیا مگر عجائب اتفاق سے یہ بھی وہاں نہ پہنچ سکا راستے ہی انتقال کر گیا آخر وقت میں اپنے رفقاء کو وصیت کی کہ مالابار میں اسلام کی تبلیغ کے کام کو پوری مستعدی سے وسیع پیمانے پر جاری کیا جاوے ساتھ ہی اس نے اپنے نائب السلطنت کے نام بھی اسی مضمون کا ایک خط تحریر کیا جس شرف بن مالک، مالک بن دینار اور مالک بن حبیب وغیرہ لیکر مالابار واپس آئے نائب السلطنت نے ملک کے تمام سرداروں کوراجہ کے خط کا مضمون لکھ بھیجا جس کے سبب راجہ کی قوم کے آدمی بکثرت اسلام میں داخل ہو گئے مالک بن دینار وغیرہ نے کدنکلور(کالی کٹ ) میں مسجد تعمیر کی اور اس کے بعد کل مالابار کا دورہ کیا جابجا لوگ اسلام میں داخل ہوئے اور مسجدیں تعمیر ہوئیں اس کے بعد یہ حضرات دورہ کرتے ہوئے ساحل کارومنڈل تک پہنچے وہاں بھی بکثرت لوگوں نے اسلام قبول کیا اور مساجد تعمیر ہوئیں اس کے بعد جنوبی ہند کی طرح بحر الکاہل کے جزائر جاوا، سماٹرا، سنگاپور، ملایا وغیرہ میں بھی اسی طرح اسلام پھیلنا شروع ہوا اور بہت جلد ان بلاد میں عام ہوگیا (تاریخ فرشتہ)
اسلام چونکہ تجار کے ذریعے سے ہندوستان میں پھیلا علماء ومشائخ بہت بعد میں اس کی طرف متوجہ ہوئے اسی وجہ سے ہندوستان میں جہالت آج بھی ختم نہیں ہوئی اور پرانے رسومات وبدعات رگ وپے میں پیوست ہونے کے سبب تمام طرح کے فرق باطلہ ضالہ مبتدعہ نے ہندوستان میں ہرزمانے میں اپنی جڑیں مضبوط کیں اور لوگ گمراہ ہوئے
انگریزوں کی ہندوستان آمد
ہندوستان کی دولت ومال داری کے قصےساری دنیا میں مشہور تھے یورپ کی قوموں کو بھی نفع اٹھانے کی فکر تھی اسی دھن میں پرتگیزی جہازی واسکوڈی گاما ایک عرب مسلمان کی مدد سے سنہ904ھ مطابق 1498ءمیں کالی کٹ پہنچا اور سمندر کایہ نیا راستہ کھل گیا پرتگیزوں کی دیکھا دیکھی ہالینڈ، جرمنی، سوئیڈن، فرانس اور انگلستان کے سوداگروں نے بھی ہندوستان کا رخ کیا، لیکن تھوڑے ہی عرصہ میں انگریزوں اور فرانسیسیوں کے سوا سب کے قدم اکھڑ گئے، آگے چل کر فرانس کو بھی سامنے سے ہٹنا پڑا اور انگریزوں کے لیے میدان بالکل صاف ہوگیا
انگریز سوداگر سولہویں صدی عیسوی ختم ہوتے ہوتے ہندوستان پہنچ چکے تھے، سنہ 1612عیسوی میں انگریزوں نے گجرات کے مشہور اور اس وقت ملک کے ایک بڑے تجارتی وبندرگاہی شہر سورت میں اپنی پہلی تجارتی کوٹھی بنائی جس کا نام ایسٹ انڈیا کمپنی رکھا، جلد ہی ان کو تجارت میں کامیابی حاصل ہوئی، یہاں تک کہ انہوں نے ملک کے مشرقی ساحل پر چنیا پٹنم کے راجہ سے زمین کے ایک حصہ کو پٹہ پر لے لیا، اس وقت مشرقی ساحلی شہر بمبئی پر پرتگالیوں کا قبضہ تھا، مچھروں کی کثرت، بدبو اور تعفن کی وجہ سے اس وقت تک اس شہر پر ہندوستانی حکومت کی کوئی خاص توجہ نہیں تھی، سنہ 1661عیسوی میں دس پونڈ سالانہ پر یہ زمین ایسٹ انڈیا کمپنی کو پٹہ پر دےدی، کمپنی نے بمبئی پر توجہ دی اور سنہ1687عیسوی میں سورت سے اپنی تجارتی کوٹھی بمبئی منتقل کردی اور اس کے ساتھ مدراس اور کلکتہ میں بھی مزید کوٹھیاں قائم کیں، وہ یہاں سے گرم مصالحے اور سوتی ریشمی کپڑے یورپ لے جاتے تھے، لیکن جب اس وقت کے مغل حکمرانوں کو یہ معلوم ہوا کہ انگریز تجارتی کوٹھیوں کے نام پہ ملک میں فوجی قلعے تعمیر کررہے ہیں تو تمام صوبوں میں اپنے گورنروں کے نام حکم جاری کردیا کہ وہ فوری ملک میں انگریزوں کی تجارت پر باضابطہ روک لگادیں، ان کے مال کو ضبط کریں اور انکے سرکردہ لوگوں کو گرفتار کریں چند ہی سالوں میں برطانوی تجارتی کمپنی کا ہندوستان میں دیوالیہ نکل گیا، کمپنی کے وکیلوں کے معافی مانگنے پر سنہ1690عیسوی میں بنگال کے گورنر نے ان کو نہ صرف دوبارہ تجارت کی اجازت چند شرائط پر دی، بلکہ کلکتہ کا ایک قطعۂ زمین بھی ان کو کارخانہ قائم کرنے کےلیے دےدیا، اس کے بعد کئی سال تک انگریزوں نے اپنے ماضی سے سبق حاصل کرتے ہوئے ملک کے سیاسی معاملات میں دخل اندازی سے بچ کر اپنی پوری توجہ تجارتی دائرہ کو وسعت دینے ہی پر دی،سنہ1707عیسوی میں اورنگ زیب کی وفات کے بعد ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کا شیرازہ بکھر گیا تو اس کے نتیجے میں ملک میں کئی خود مختار ریاستیں وجود میں آئیں تو اس کے بعد انگریزوں کو پھر فوجی طاقت کا خیال ہوا، انگلستان اور فرانس کی لڑائی اور کرناٹک کے ریاستی جھگڑوں نے اس خیال کو اور مضبوط کیا اور انگریز بھی میدان میں اتر آئے، کرناٹک کے جھگڑوں میں انگریزوں نے نواب محمد علی کا ساتھ دیا اور فتح بھی نواب محمد علی کوہوئی، لہذا اب نواب محمد علی انگریزوں کاحلیف ہوگیا اور یوں کرناٹک پر انگریزوں کااثر ورسوخ ہوگیا، ادھر نظام حیدرآباد بھی عملاً انگریزوں کے ماتحت ہوگیا تھا
انگریزوں کے ساتھ ہندوستانیوں کی پہلی جنگ
کرناٹک اور اس کے آس پاس کے علاقوں پر قبضہ کے بعد انگریزوں کی ہوس اقتدار بڑھتی گئی، اس سلسلے میں انہوں نے اپنی راہ میں آنے والی رکاوٹوں کو دور کرنے کےلیے جنگ سے بھی دریغ نہیں کیا، چونکہ ان کی تجارتی سرگرمیاں کلکتہ میں بھی تھیں اس لئے اب بمبئی، سورت، مدراس اور حیدرآباد کے بعد ان کی نظریں بنگال پر تھیں، اس وقت وہاں کے حاکم نواب سراج الدولہ تھے، جن کو ان کے نانا علی وردی خان نے اپنا جانشین مقرر کردیا تھا اور وصیت کی تھی کہ مغربی قوموں سے خبردار رہنا، ورنہ بنگال تمہارا نہیں ہوگا، ایک دفعہ موقع پاکر انگریزوں نے سمندری راستہ سے ان کی حکومت پر بلاوجہ حملہ کردیا، سراج الدولہ اپنی اس توہین کو کب برداشت کرتا، چنانچہ اس نے 20جون سنہ1757عیسوی کو پلاسی کے میدان میں اپنی ستر(70) ہزار فوج کے ساتھ انگریزوں کی صرف تین ہزار کی فوج کا مقابلہ کیا، لیکن اس کے وزیر ورشتہ دار میر جعفر کی غداری کی وجہ سے سراج الدولہ کوشکست ہوئی اور خود اس کو انگریزوں نے جنگ کے بعد گرفتار کرکے بے دردی سے قتل کردیا، قدرت نے بھی ان غداروں سے سخت انتقام لیا اور ان سب کو دنیا ہی میں عبرتناک سزا ملی۔

دیگر تصانیف

امیدوں کا چراغ

مٹی کا چراغ

کہاں گئے وہ لوگ

تذکیر و تانیث

مجلس ادارت

team

سرپرست

حضرت الحاج مولانا کبیر الدین فاران صاحب مظاہری

team

مدیر مسئول

مولانا ارشد کبیر خاقان صاحب مظاہری

team

مدیر

مفتی خالد انور پورنوی صاحب قاسمی