ماہنامہ الفاران
ماہِ ذی القعدہ - ۱۴۴۴
بھینس کی قربانی
جناب حضرت مفتی محمد عبیداللہ قاسمی بہرائچی، استاذ: جامعہ اسلامیہ دارالعلوم حیدرآباد
عہد نبوی اورعہد صحابہ میں جزیرة العرب میں بھینس نہیں پائی جاتی تھی؛ اس لیے بھینس کی قربانی آپ اور صحابہ سے نہ تو عملاً ثابت ہے اور نہ ہی آپ … نے صراحتاً بھینس کی قربانی کے بارے میں کوئی حکم صادر فرمایا ہے، اس کو بنیاد بنا کر غیر مقلدین حضرات یہ کہتے ہیں : چوں کہ ”جاموس“ (بھینس ) کی قربانی کا تذکرہ قرآن و حدیث میں نہیں ہے اورنہ ہی عملاً آپ اور صحابہ سے ثابت ہے؛ اس لیے بھینس کی قربانی جائز نہیں؛جبکہ دوسری طرف بر صغیر پاک و ہند وغیرہ میں جس طرح مسلمان گائے، بکرا اور دنبہ وغیرہ کی قربانی کرتے ہیں، اسی طرح بھینس کی قربانی بھی بکثرت کرتے ہیں اور تمام علماء اہل السنة والجماعة بالاتفاق اسے جائز قرار دیتے ہیں اور بعض علماء غیر مقلدین بھی بھینس کی قربانی کے جواز کے قائل ہیں؛ کیوں کہ قرآن و حدیث میں قربانی کے باب میں جاموس (بھینس ) کا تذکرہ نہ ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ قربانی جائز نہ ہو، ورنہ توزمانہٴ موجودہ کی بہت ساری اشیاء (موبائل، کمپیوٹر، جہاز اور ٹرین وغیرہ) جن کا ذکر قرآن واحادیث میں نہیں ہے، ان سب کا استعمال ناجائز ہوگا ؛ حالا نکہ ایسا نہیں ہے؛ اس لیے یہ دیکھا جائے گا علماء امت کا بھینس کی قربانی کے سلسلہ میں کیا موقف اور عمل رہا ہے ؟فقہاء اور محدثین نے بھینس کی قربانی کو کس بنیاد پر جائز قرار دیا ہے؟ وہ اس سلسلے میں کیا فرماتے ہیں؟ اہل لغت کی کیا رائے ہے؟ اسی طرح بعض علماء غیرمقلد ین اس سلسلے میں کیا فرماتے ہیں؟۔
تو واضح رہے کہ تمام فقہاء، محدثین، اور اہل لغت حتی کہ بعض علماء غیر مقلدین نے بھی بھینس (جاموس)کو گائے (بقر)کی جنس سے مانا ہے؛ بلکہ اس پر اجماع ہے، یعنی بھینس گائے ہی کی ایک نوع اور ایک قسم ہے اور جب گائے کی قربانی جائز ہے، تو بھینس جو اسی کی ایک نوع ہے اس کی بھی قربانی جائز ہوگی۔ذیل میں بھینس کی حقیقت وماہیت ذکر کرنے کے بعد ہر ایک کی تفصیل نقل کی جارہی ہے۔
بھینس کی حقیقت وماہیت
بھینس/ بھینسا : بر صغیر میں کثرت سے پایا جانے والا ایک مشہور چوپایہ ہے، جس کا رنگ سیاہ ہوتا ہے اور جو گائے سے تھوڑا بھاری بھرکم اور مضبوط ہوتا ہے۔اردو اور ہندی میں اس کے مادہ کو بھینس اور نر کو بھینسا کہا جاتا ہے۔(فیروز اللغات اردو جامع، ص: ۲۴۳، ط: فیروز سنز لمیٹڈ لاہور )
فارسی میں اسے ”گاؤ میش“ کہا جاتا ہے، جو دو لفظوں یعنی : ”گاؤ“ اور ”میش “سے مرکب ہے اور ”گاؤ “کے معنی گائے اور بیل کے ہیں؛ جب کہ میش کے معنی : بھیڑ، مینڈھا اور دنبہ وغیرہ کے ہیں۔ (گویا جو چوپایہ گائے اور بھیڑ کے مشابہ ہو،اسے بھینس کہتے ہیں )۔ (فیروز اللغات اردو جامع، ص: ۱۰۸۰-۱۳۳۰، ط: فیروز سنز لمیٹڈ لاہور )
اور اسی لفظ ِ” گاؤ میش “سے عربی زبان میں بھینس کا نام ” جاموس رکھا گیا، یعنی یہ اصلاًعربی زبان کا لفظ نہیں ہے؛ بلکہ اہل عرب نے اسے فارسی سے عربی میں معرب کر لیا ہے اور گاف کو جیم سے اور سین کو شین سے بدل دیا، پھر تسہیل کرتے ہوئے ” فاعول“ کے وزن پر” جاموس“ بنا دیا، جس کی جمع جوامیس آتی ہے۔
علامہ محمد بن محمد زبیدی رحمہ اللہ” تاج العروس“ میں لکھتے ہیں : الجاموس ․․․․ معروف، معرّبُ ”کاومیش“، وھي فارسیة، ج: الجوامیس، وقد تکلمت بہ العرب․ ( تاج العروس، ۱۵/۵۱۳، دارالہدایة)
بعض اہل لغت فرماتے ہیں کہ : ” جاموس “اصلا عربی زبان ہی کا لفظ ہے اور یہ ” جمس “سے مشتق ہے جو اپنے معنی کے اعتبار سے جمود اور ٹھوس پن پر دلالت کرتا ہے، اس معنی کو ملحوظ رکھتے ہوئے جب اہل عرب اس چوپائے سے متعارف ہوئے، تو انھوں نے اس کی ہیئت و جسامت اور مضبوطی کو دیکھتے ہوئے اسے جاموس کا نام دے دیا۔
علامہ احمد بن محمد فیومی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : جَمسَ الودک جموسا، من باب قعد جمد، والجاموس نوع من البقر، کأنّہ مشتق من ذلک؛ لأنّہ لیس فیہ لین البقر في استعمالہ في الحرث والزرع والدیاسة․ وفي التہذیب: الجاموس دخیل، والجمع: الجوامیس تسمیہ الفُرس ”کاومیش“․ (المصباح المنیر فی غریب الشرح الکبیر، ۱/۱۰۸، ط: المکتبة العلمیة بیروت)
ترجمہ : ”جمس الودک جموسا “ کے معنی ہیں چکنائی جم گئی، باب ” قعد “سے ” جمد “ کے معنی میں ہے اور جاموس گائے ہی کی ایک قسم ہے، گویا کہ یہ لفظ اسی سے مشتق ہے؛ کیونکہ ہل چلانے، کھیتی کرنے اور اناج روندنے کے کام میں بھینس کے اندر گائے والی نرمی نہیں ہوتی۔
گویا بھینس گائے ہی ایک قسم ہے جس میں گائے اور بھیڑ دونوں کی مشابہت ہوتی ہے۔
اجماع وأجمعوا علی أنّ حکم الجوامیس حکم البقر․ اس پر اجماع ہے کہ بھینس گائے کے حکم میں ہے۔ (الإجماع لابن المنذر،۱/۴۵، رقم: ۹۱، ط: دارالمسلم للنشر والتوزیع)
علامہ ابوالولید بن رشدالحفیدبدایة المجتہد میں لکھتے ہیں : أجمع العلماء علی جواز الضحایا من جمیع بہیمة الأنعام․ (بدایة المجتہد،۲/۱۹۲، ط: دارالحدیث القاہرة) ترجمہ: تمام چوپایوں کی قربانی کے جواز پرعلماء کا اجماع ہے۔(اور بھینس کا بہیمة الانعام میں سے ہونا اظہر من الشمس ہے، گویا بھینس کی قربانی کے جواز پر بھی علماء کا اجماع ہے )
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ کیا بھینس کی قربانی میں سات حصے ہو سکتے ہیں ؟ تو انھوں نے فرمایا : مجھے اس میں کسی کے اختلاف کا علم نہیں( یعنی اس پر احماع ہے)۔ قلت: الجوامیس تجزئ عن سبعة؟ قال: لا اعرف خلاف ہذا․ (مسائل الإمام أحمد وإسحاق بن راہویہ، ۸/۴۰۲۷، رقم: ۲۸۶۵، ط: عمادة البحث العلمي الجامعة الاسلامیة بالمدینة المنورة)
حافظ ابن قدامہ مقدسی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : لا خلاف في ہذا نعلمہ، وقال ابن المنذر: أجمع کل من یحفظ عنہ من أھل العلم، ولأنّ الجوامیس من أنواع البقر․(المغنی لابن قدامة، ۲/۵۹۴)
ہمیں اس مسئلہ (بھینس کی قربانی کے مسئلہ) میں اختلاف کا علم نہیں ہے اور ابن منذر نے فرمایا: اس پر تمام اہل علم کا اجماع ہے اور اس لیے بھی کہ بھینس گائے ہی کہ ایک قسم ہے۔
جب بھینس کی قربانی کے جواز پر اجماع ہے اور اجماع بھی دلیل شرعی ہے، تو گویا بھینس کی قربانی کے جواز پر بھی دلیل شرعی موجود ہے۔ محدثین
امام مالک بن انس مدنی رحمہ اللہ ” مؤطا امام “مالک میں فرماتے ہیں: إنّما ہي بقر کلّہا․ (مؤطا امام مالک، باب ما جاء في زکاة البقر،۲/۳۶۶، ط: مؤسسة زاید بن سلطان آل نہیان، أبو ظبی الإمارات)
ترجمہ: یہ بھینس گائے ہی ہے۔ اور ایک مقام پر فرماتے ہیں : الجاموس والبقر سواء․ (کتاب الأموال لابي عبید، ۲/۳۶، رقم: ۹۹۴، ط: دارالہدي النبوي مصر و جارالفضیلة السعودیة)
گائے اور بھینس برابر ہیں۔
حضرت سفیان ثوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ” تحسب الجوامیس مع البقر“․ (مصنف عبد الرزاق، ۴/۲۴، رقم الحدیث: ۶۸۵۱، المکتبة الاسلامی بیروت) ترجمہ: بھینسوں کو گائے کے ساتھ شمار کیا جائے گا۔
حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: الجوامیس بمنزلة البقر․ (مصنف ابن ابی شیبہ، ۷/۶۵، رقم: ۱۰۸۴۸،ط: شرکة دارالقبلة، مؤسسة علوم القرآن)
ترجمہ: بھینس گائے کے درجے میں ہے۔
فقہاءاحناف
فقہ حنفی کی تمام کتب میں بھینس کو گائے کی جنس اور نوع سے قرار دے کر قربانی کو جائز قرار دیا گیا ہے؛ چنانچہ صاحب بدائع لکھتے ہیں : أمّا جنسہ فہو أن یکون من الأجناس الثلاثة : الغنم، أوالإبل، أوالبقر، ویدخل في کلّ جنس نوعہ والذکر والأنثی منہ والخصي والفحل لانطلاق اسم الجنس علی ذلک، والمعز نوع من الغنم، والجاموس نوع من البقر؛ بدلیل أنّہ ینضم ّذلک إلی الغنم والبقر في باب الزکاة․ (بدائع الصنائع،کتاب التضحیة، فصل في محلّ إقامة الواجب، ۶/۲۹۸، دارالکتب العلمیة بیروت․ ردالمحتار، کتاب الأضحیة، ۹/۴۶۶، ط: زکریا دیوبند․ الفتاوی الہندیة، کتاب الأضحیة، الباب الخامس في بیان محلّ إقامة الواجب، ۵/۳۶۷، ط: زکریا دیوبند)
مالکیہ ومن البقر ثلاثون، ومن البقر أربعون، وتضمّ أصناف النوع الواحد إلی بعضہا، فیضمّ الجاموس إلی البقر، والمعز إلی الغنم الضأن․ (فقہ العبادات علی المذہب المالکي، الباب الثاني، الفصل الأول، ۱/۲۷۳، مطبعة الإنشاء دمشق سوریا)
قولہ: (في البقر): مرادہ ما یشمل الجاموس، فالأصل فیہا الذبح․ (حاشیة الصاوي علی الشرح الصغیر، باب في بیان حقیقة الذکاة، ۲/۱۵۳، دارالمعارف․ حاشیة الدسوقي علی الشرح الکبیرللشیخ الدردیر، باب الذکاة ۲/ ۱۰۷،ط: دارالفکر)
شوافع
النعم: ہي الإبل، والبقر ویشمل الجاموس، والغنم ویشمل المعز والضأن․ (فقہ العبادات علی المذہب الشافعي، الباب الثاني، زکاة الغنم، ۲/۸۴)
ویتناول لحم البقر جاموسا، وبقروحش، فیحنث بأکل أحدہما من حلف لا یأکل لحم بقر․ قال صاحب حاشیة الجمل: (قولہ: یتناول لحم البقر جاموسا) لأنّ البقر جنس یتناول العراب والجوامیس بخلاف ما لو حلف لا یأکل جاموسا فإنّہ لا یتناول لحم البقر العراب فلا یحنث بہ؛ لأنّ الجاموس نوع من البقر․ (حاشیة الجمل علی شرح المنہج، ۵/۳۰۸، دارالفکر)
حنابلہ
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ کیا بھینس کی قربانی میں سات حصے ہو سکتے ہیں، تو انھوں نے فرمایا : مجھے اس میں کسی کے اختلاف کا علم نہیں۔ قلت: الجوامیس تجزئ عن سبعة، قال لا اعرف خلاف ہذا، قال الحسن تذبح عن سبعة، قال إسحاق کما قال․ (مسائل الإمام أحمد وإسحاق بن راہویہ، ۸/۴۰۲۷، رقم : ۲۸۶۵)
علماء غیر مقلدین
حتی کہ بعض بڑے غیر مقلدعلماء بھی بھینس کو گائے ہی کی ایک قسم مان کر قربانی کو جائز قرار دیتے ہیں۔
(۱) چنانچہ غیر مقلدین کے شیخ الکل میاں نذیر حسین دہلوی اپنے فتوے میں لکھتے ہیں : اور سن بکری کا ایک سال یعنی ایک سال پورا اور دوسرا شروع، اور گائے اور بھینس کا دو سال یعنی دو سال پورے اور تیسرا شروع الخ۔آگے لکھتے ہیں: ویدخل في البقر الجاموس لانہ من جنسہ انتہی ما في الہدایة․ ترجمہ : گائے میں بھینس داخل ہے؛ اس لیے کہ بھینس گائے ہی کی ایک جنس ہے۔ (فتاوی نذیریہ، ۳/۲۵۷، ۲۵۸، اہل حدیث اکادمی کشمیری بازار لاہور )
(۲) مفتی عبد الستار صاحب ایک سوال کے جوب میں لکھتے ہیں : سوال : کیا بھینس کی قربانی جائز ہے ؟ جواب : جائز ہے؛ کیوں کہ بھینس اور گائے کا ایک حکم ہے۔( فتاوی ستاریہ، ۳/ ۲)
(۳) غیر مقلدین کے شیخ الاسلام مولانا ثناء اللہ امرتسری فتاوی ثنائیہ میں قرآن کریم کی آیت ” قل لا أجد فیما أوحي أليّ الخ“ کی تشریح کے تحت لکھتے ہیں:
حجاز میں بھینس کا وجود ہی نہ تھا، پس اس کی قربانی نہ سنت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہوتی ہے نہ تعامل صحابہ سے، ہاں اگر اس کو جنس بقر (گائے کی جنس)سے مانا جائے، جیسا کہ حنفیہ کا قیاس ہے (کما فی الہدایة)یا عموم بہیمة الانعام پر نظر ڈالی جائے تو حکم جواز قربانی کے لیے یہ علت کافی ہے۔ (مستفاد: فتاو ی ثنائیہ، ۱/۸۰۹، ۸۱۰)
(۴) فتاوی علماء اہل حدیث کے مؤلف مولانا ابوالحسنات علی محمد سعیدی سے بھینس کی قربانی کے جواز کے سلسلے میں سوال کیا گیا، تو انھوں نے جواب دیا : جائز ہے؛ چوں کہ گائے اور بھینس کا ایک ہی حکم ہے۔بعینہ یہی جواب مفتی عبد الستار صاحب نے بھی دیا ہے۔ (فتاوی علماء اہل حدیث، ۱۳/۹۴۶۔ فتاوی ستاریہ،۳/۲)
(۵)مولانا عبد القادر حصار وی صاحب ساہیوال لکھتے ہیں :
خلاصہ بحث یہ ہے کہ بکری، گائے کی قربانی مسنون ہے، تاہم بھینس بھینسا کی قربانی بھی جائز اور مشروع ہے اور ناجائز کہنے والے کا مسلک درست نہیں ہے۔ (فتاوی حصاریہ و مقالات علمیہ، ۵/۴۴۶)
(۶ )حافظ زبیر علی زئی کا فتوی : اونٹ، گائے، بھیڑ اور بکری کی قربانی کتاب و سنت سے ثابت ہے اور یہ بات بالکل صحیح ہے کہ بھینس گائے کی ایک قسم ہے، اس پر ائمہ اسلام کا اجماع ہے۔ (فتاوی علمیہ، ۲/ ۱۸۲)
(۷) محدث العصر حافظ گولندوی کا فتوی : بھینس بھی بقر میں شامل ہے، اس کی قربانی جائز ہے۔ ( ہفت روزہ الاعتصام لاہور، ج: ۲۰، شمارہ نمبر : ۹، ص: ۲۹)
(۸) قاضی محمد عبد اللہ ایم۔اے۔ایل۔ ایل۔بی، خانپوری بھینس کی قربانی کے جواز پر تفصیلی بحث کرتے ہوئے اخیر میں لکھتے ہیں :
پس خلاصہ اس کا یہ ہے کہ : (۱) بھینس مسلمہ طور پر گائے کی ایک قسم ہے۔ (۲) بھینس گائے سے زیادہ قیمتی ہے اور جسامت بھی عام گائے سے بڑھی ہوئی ہوتی ہے اور اس سے نفع بمقابلہ عام گائے کے زیادہ ہے؛ اس لیے اس میں ثواب بھی زیادہ ہے۔ (۳) کم از کم بھینس کی قربانی کے جواز میں کوئی شک نہیں ہے۔ ( ہفت روزہ الاعتصام لاہور، ج: ۲۰، شمارہ نمبر : ۴۲- ۴۳، ص: ۹-۱۰)
(۹)مولانا امین اللہ پشاوری ایک مفصل فتوے میں جواز کے دلائل پر بحث کراے ہوئے لکھتے ہیں:
جب یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ لغت میں لفظ ” البقر “ ” الجاموس “کو بھی شامل ہے، تو شرعا بھی اس کا یہی حکم ہوگا، لہذا اس کی قربانی کا ثبوت قرآن مجید اور سنت صحیحہ سے مل گیا، اب اس پر اعتراض نہیں کیا جا سکتا کہ یہ قیاسی مسئلہ ہے، یا وضاحت کے ساتھ ثابت نہیں، جیسا کہ اس طرح کی باتیں کچھ جاہل قسم کے لوگ سے سنی جا رہی ہیں، جو قرآن و سنت سے استدلال کے طریقوں سے نابلد، ان کی معرفت سے نا آشناء اور ان کے قواعد سے ناواقف ہیں۔عقل و بصیرت رکھنے والوں کے لیے یہ ایک دلیل کافی ہے، جاہل اور بیکار لوگوں کو اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ ( فتاوی الدین الخالص، ۶/۴۹۳)
(۱۰) جماعت غرباء اہل حدیث کے نائب مفتی مولانا عبد القہار صاحب کا فتوی :
صورت مسئولہ میں واضح ہو کہ شرعاً بھینس چوپایہ جانورں میں سے ہے اور اس کی قربانی درست ہے؛ کیوں کہ گائے کی جنس سے ہے، اس لیے بھینس کی قربانی جائز اور درست ہے۔اس دلیل کو اگر نہ مانا جائے، تو گائے کے ہم جنس بھینس کے دودھ اور اس کے گوشت کے حلال ہونے کی دلیل بھی مشکوک ہو جائے گی۔ ( بھینس کی قربانی کا تحقیقی جائزہ، ص: ۲۳۷، ط: اسلامک سینٹر ملتان )
غیر مقلد عالم مولوی نعیم الحق ملتانی نے اس موضوع پر ایک مفصل کتاب لکھی ہے ” بھینس کی قربانی کا تحقیقی جائزہ “اس میں اس طرح کے اور بہت سے علماء غیر مقلدین کے اقوال ذکر کیے ہیں، جنھوں نے بھینس کی قربانی کو جائز کہا ہے، تفصیل کے لیے اس کا مطالعہ فرمائیں۔
اہل لغت
(۱) ”الجاموس: ضرب من کبار البقر“․ (المنجد، ص: ۱۰۱، مرتب لوئیس معلوف) ترجمہ: بھینس بڑی گایوں کی ایک قسم ہے۔
(۲) ”الجاموس: حیوان أھلي من جنس البقر․․․․ والجمع: جوامیس“․ (معجم الوسیط، ص: ۱۳۴، فیصل دیوبند) ترجمہ: بھینس گائے کی جنس سے ایک پالتو جانور ہے۔
(۳) ”جاموس: نوع من البقر ضخم الجثة، جمع: جوامیس“․ ( معجم الرائد کما في المعاني) ترجمہ: بھینس،بھاری جسم والی گائے کی ایک قسم ہے۔
(۴) لسان العرب، مغرب وغیرہ میں بھی بھینس کوگائے کس قسم مانا ہے۔ الجاموس نوع من البقر․ (لسان العرب،۶/ ۴۳، دار صادر بیروت․ المغرب في ترتیب المغرب، ۱/۸۹، ط: دارالکتاب العربي بیروت) ترجمہ : بھینس گائے کی ایک قسم ہے۔
(۵) لغت کی مشہور کتاب ” تاج العروس “ اور دیگر کتب لغت میں بھی بھینس کو گائے کی قسم مانا ہے۔
الجاموس ․․․․ معروف، معرّبُ ”کاومیش“، وھي فارسیة، ج: الجوامیس، وقد تکلمت بہ العرب․ ( تاج العروس، ۱۵/ ۵۱۳، ط: دارالہدایة)
ترجمہ : ” جاموس ایک مشہور چوپایہ ہے، جو گاومیش کا معرب ہے اور گاومیش فارسی زبان کا لفظ ہے، جسے اہل عرب نے کچھ تبدیلی کے ساتھ” جاموس “بنا لیا ہے اور ”جاموس“ کی جمع ” جوامیس “ آتی ہے۔
جب تمام فقہاء ومحدثین، اہل لغت حتی کہ بعض بڑے غیر مقلدعلماء نے بھی بھینس کو گائے کی جنس سے مانا ہے، تو جس طرح گائے کی قربانی درست ہے، اسی طرح بھینس کی قربانی بھی درست ہوگی، اس میں کسی شک وشبہ کی گنجائش نہیں، گویا قرآن وحدیث میں گائے کے ضمن میں بھینس کا بھی تذکرہ ہے، اور اگر بھینس کو گائے کی ایک قسم نہیں مانیں گے، تو بھینس کا گوشت، دودھ، دہی اور گھی کا تذکرہ بھی قرآن و حدیث میں نہیں ہے، اس بنیاد پر انھیں بھی حرام اور ناجائز ہونا چاہیے؛ حالانکہ مذکورہ چیزوں کی حلت کے سبھی قائل ہیں اور کوئی اختلاف نہیں ہے،تو جس بنیاد پر مذکورہ چیزیں حلال اور جائز ہیں، اسی بنیاد پر بھینس کی قربانی بھی جائز ہو گی، ورنہ ” تخلف الحکم عن العلة“ لازم آئے گا جو کہ درست نہیں۔ اسی طرح تمام ائمہ و فقہاء نے بھینس کو گائے کی جنس سے مان کربھینس پر بھی زکات فرض کی ہے؛ جب کہ قرآن وحدیث سے بھینس کی زکات ثابت نہیں ہے، اور نہ ہی صحابہ نے بھینس کی زکات وصول کی ہے۔( اور وجہ یہ تھی کہ عرب میں بھینس پائی نہیں جاتی تھی اور آج بھی نہیں ہے) اگر قربانی کو ناجائز کہیں گے، تو زکات کو بھی ناجائز کہنا پڑے گا؛ اس لیے جس طرح بھینس کی زکات صحیح ہے، اس کے گوشت، دودھ، دہی اور گھی کا استعمال درست ہے، اسی طرح قربانی بھی صحیح ہے۔
تو واضح رہے کہ تمام فقہاء، محدثین، اور اہل لغت حتی کہ بعض علماء غیر مقلدین نے بھی بھینس (جاموس)کو گائے (بقر)کی جنس سے مانا ہے؛ بلکہ اس پر اجماع ہے، یعنی بھینس گائے ہی کی ایک نوع اور ایک قسم ہے اور جب گائے کی قربانی جائز ہے، تو بھینس جو اسی کی ایک نوع ہے اس کی بھی قربانی جائز ہوگی۔ذیل میں بھینس کی حقیقت وماہیت ذکر کرنے کے بعد ہر ایک کی تفصیل نقل کی جارہی ہے۔
بھینس کی حقیقت وماہیت
بھینس/ بھینسا : بر صغیر میں کثرت سے پایا جانے والا ایک مشہور چوپایہ ہے، جس کا رنگ سیاہ ہوتا ہے اور جو گائے سے تھوڑا بھاری بھرکم اور مضبوط ہوتا ہے۔اردو اور ہندی میں اس کے مادہ کو بھینس اور نر کو بھینسا کہا جاتا ہے۔(فیروز اللغات اردو جامع، ص: ۲۴۳، ط: فیروز سنز لمیٹڈ لاہور )
فارسی میں اسے ”گاؤ میش“ کہا جاتا ہے، جو دو لفظوں یعنی : ”گاؤ“ اور ”میش “سے مرکب ہے اور ”گاؤ “کے معنی گائے اور بیل کے ہیں؛ جب کہ میش کے معنی : بھیڑ، مینڈھا اور دنبہ وغیرہ کے ہیں۔ (گویا جو چوپایہ گائے اور بھیڑ کے مشابہ ہو،اسے بھینس کہتے ہیں )۔ (فیروز اللغات اردو جامع، ص: ۱۰۸۰-۱۳۳۰، ط: فیروز سنز لمیٹڈ لاہور )
اور اسی لفظ ِ” گاؤ میش “سے عربی زبان میں بھینس کا نام ” جاموس رکھا گیا، یعنی یہ اصلاًعربی زبان کا لفظ نہیں ہے؛ بلکہ اہل عرب نے اسے فارسی سے عربی میں معرب کر لیا ہے اور گاف کو جیم سے اور سین کو شین سے بدل دیا، پھر تسہیل کرتے ہوئے ” فاعول“ کے وزن پر” جاموس“ بنا دیا، جس کی جمع جوامیس آتی ہے۔
علامہ محمد بن محمد زبیدی رحمہ اللہ” تاج العروس“ میں لکھتے ہیں : الجاموس ․․․․ معروف، معرّبُ ”کاومیش“، وھي فارسیة، ج: الجوامیس، وقد تکلمت بہ العرب․ ( تاج العروس، ۱۵/۵۱۳، دارالہدایة)
بعض اہل لغت فرماتے ہیں کہ : ” جاموس “اصلا عربی زبان ہی کا لفظ ہے اور یہ ” جمس “سے مشتق ہے جو اپنے معنی کے اعتبار سے جمود اور ٹھوس پن پر دلالت کرتا ہے، اس معنی کو ملحوظ رکھتے ہوئے جب اہل عرب اس چوپائے سے متعارف ہوئے، تو انھوں نے اس کی ہیئت و جسامت اور مضبوطی کو دیکھتے ہوئے اسے جاموس کا نام دے دیا۔
علامہ احمد بن محمد فیومی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : جَمسَ الودک جموسا، من باب قعد جمد، والجاموس نوع من البقر، کأنّہ مشتق من ذلک؛ لأنّہ لیس فیہ لین البقر في استعمالہ في الحرث والزرع والدیاسة․ وفي التہذیب: الجاموس دخیل، والجمع: الجوامیس تسمیہ الفُرس ”کاومیش“․ (المصباح المنیر فی غریب الشرح الکبیر، ۱/۱۰۸، ط: المکتبة العلمیة بیروت)
ترجمہ : ”جمس الودک جموسا “ کے معنی ہیں چکنائی جم گئی، باب ” قعد “سے ” جمد “ کے معنی میں ہے اور جاموس گائے ہی کی ایک قسم ہے، گویا کہ یہ لفظ اسی سے مشتق ہے؛ کیونکہ ہل چلانے، کھیتی کرنے اور اناج روندنے کے کام میں بھینس کے اندر گائے والی نرمی نہیں ہوتی۔
گویا بھینس گائے ہی ایک قسم ہے جس میں گائے اور بھیڑ دونوں کی مشابہت ہوتی ہے۔
اجماع وأجمعوا علی أنّ حکم الجوامیس حکم البقر․ اس پر اجماع ہے کہ بھینس گائے کے حکم میں ہے۔ (الإجماع لابن المنذر،۱/۴۵، رقم: ۹۱، ط: دارالمسلم للنشر والتوزیع)
علامہ ابوالولید بن رشدالحفیدبدایة المجتہد میں لکھتے ہیں : أجمع العلماء علی جواز الضحایا من جمیع بہیمة الأنعام․ (بدایة المجتہد،۲/۱۹۲، ط: دارالحدیث القاہرة) ترجمہ: تمام چوپایوں کی قربانی کے جواز پرعلماء کا اجماع ہے۔(اور بھینس کا بہیمة الانعام میں سے ہونا اظہر من الشمس ہے، گویا بھینس کی قربانی کے جواز پر بھی علماء کا اجماع ہے )
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ کیا بھینس کی قربانی میں سات حصے ہو سکتے ہیں ؟ تو انھوں نے فرمایا : مجھے اس میں کسی کے اختلاف کا علم نہیں( یعنی اس پر احماع ہے)۔ قلت: الجوامیس تجزئ عن سبعة؟ قال: لا اعرف خلاف ہذا․ (مسائل الإمام أحمد وإسحاق بن راہویہ، ۸/۴۰۲۷، رقم: ۲۸۶۵، ط: عمادة البحث العلمي الجامعة الاسلامیة بالمدینة المنورة)
حافظ ابن قدامہ مقدسی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : لا خلاف في ہذا نعلمہ، وقال ابن المنذر: أجمع کل من یحفظ عنہ من أھل العلم، ولأنّ الجوامیس من أنواع البقر․(المغنی لابن قدامة، ۲/۵۹۴)
ہمیں اس مسئلہ (بھینس کی قربانی کے مسئلہ) میں اختلاف کا علم نہیں ہے اور ابن منذر نے فرمایا: اس پر تمام اہل علم کا اجماع ہے اور اس لیے بھی کہ بھینس گائے ہی کہ ایک قسم ہے۔
جب بھینس کی قربانی کے جواز پر اجماع ہے اور اجماع بھی دلیل شرعی ہے، تو گویا بھینس کی قربانی کے جواز پر بھی دلیل شرعی موجود ہے۔ محدثین
امام مالک بن انس مدنی رحمہ اللہ ” مؤطا امام “مالک میں فرماتے ہیں: إنّما ہي بقر کلّہا․ (مؤطا امام مالک، باب ما جاء في زکاة البقر،۲/۳۶۶، ط: مؤسسة زاید بن سلطان آل نہیان، أبو ظبی الإمارات)
ترجمہ: یہ بھینس گائے ہی ہے۔ اور ایک مقام پر فرماتے ہیں : الجاموس والبقر سواء․ (کتاب الأموال لابي عبید، ۲/۳۶، رقم: ۹۹۴، ط: دارالہدي النبوي مصر و جارالفضیلة السعودیة)
گائے اور بھینس برابر ہیں۔
حضرت سفیان ثوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ” تحسب الجوامیس مع البقر“․ (مصنف عبد الرزاق، ۴/۲۴، رقم الحدیث: ۶۸۵۱، المکتبة الاسلامی بیروت) ترجمہ: بھینسوں کو گائے کے ساتھ شمار کیا جائے گا۔
حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: الجوامیس بمنزلة البقر․ (مصنف ابن ابی شیبہ، ۷/۶۵، رقم: ۱۰۸۴۸،ط: شرکة دارالقبلة، مؤسسة علوم القرآن)
ترجمہ: بھینس گائے کے درجے میں ہے۔
فقہاءاحناف
فقہ حنفی کی تمام کتب میں بھینس کو گائے کی جنس اور نوع سے قرار دے کر قربانی کو جائز قرار دیا گیا ہے؛ چنانچہ صاحب بدائع لکھتے ہیں : أمّا جنسہ فہو أن یکون من الأجناس الثلاثة : الغنم، أوالإبل، أوالبقر، ویدخل في کلّ جنس نوعہ والذکر والأنثی منہ والخصي والفحل لانطلاق اسم الجنس علی ذلک، والمعز نوع من الغنم، والجاموس نوع من البقر؛ بدلیل أنّہ ینضم ّذلک إلی الغنم والبقر في باب الزکاة․ (بدائع الصنائع،کتاب التضحیة، فصل في محلّ إقامة الواجب، ۶/۲۹۸، دارالکتب العلمیة بیروت․ ردالمحتار، کتاب الأضحیة، ۹/۴۶۶، ط: زکریا دیوبند․ الفتاوی الہندیة، کتاب الأضحیة، الباب الخامس في بیان محلّ إقامة الواجب، ۵/۳۶۷، ط: زکریا دیوبند)
مالکیہ ومن البقر ثلاثون، ومن البقر أربعون، وتضمّ أصناف النوع الواحد إلی بعضہا، فیضمّ الجاموس إلی البقر، والمعز إلی الغنم الضأن․ (فقہ العبادات علی المذہب المالکي، الباب الثاني، الفصل الأول، ۱/۲۷۳، مطبعة الإنشاء دمشق سوریا)
قولہ: (في البقر): مرادہ ما یشمل الجاموس، فالأصل فیہا الذبح․ (حاشیة الصاوي علی الشرح الصغیر، باب في بیان حقیقة الذکاة، ۲/۱۵۳، دارالمعارف․ حاشیة الدسوقي علی الشرح الکبیرللشیخ الدردیر، باب الذکاة ۲/ ۱۰۷،ط: دارالفکر)
شوافع
النعم: ہي الإبل، والبقر ویشمل الجاموس، والغنم ویشمل المعز والضأن․ (فقہ العبادات علی المذہب الشافعي، الباب الثاني، زکاة الغنم، ۲/۸۴)
ویتناول لحم البقر جاموسا، وبقروحش، فیحنث بأکل أحدہما من حلف لا یأکل لحم بقر․ قال صاحب حاشیة الجمل: (قولہ: یتناول لحم البقر جاموسا) لأنّ البقر جنس یتناول العراب والجوامیس بخلاف ما لو حلف لا یأکل جاموسا فإنّہ لا یتناول لحم البقر العراب فلا یحنث بہ؛ لأنّ الجاموس نوع من البقر․ (حاشیة الجمل علی شرح المنہج، ۵/۳۰۸، دارالفکر)
حنابلہ
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ کیا بھینس کی قربانی میں سات حصے ہو سکتے ہیں، تو انھوں نے فرمایا : مجھے اس میں کسی کے اختلاف کا علم نہیں۔ قلت: الجوامیس تجزئ عن سبعة، قال لا اعرف خلاف ہذا، قال الحسن تذبح عن سبعة، قال إسحاق کما قال․ (مسائل الإمام أحمد وإسحاق بن راہویہ، ۸/۴۰۲۷، رقم : ۲۸۶۵)
علماء غیر مقلدین
حتی کہ بعض بڑے غیر مقلدعلماء بھی بھینس کو گائے ہی کی ایک قسم مان کر قربانی کو جائز قرار دیتے ہیں۔
(۱) چنانچہ غیر مقلدین کے شیخ الکل میاں نذیر حسین دہلوی اپنے فتوے میں لکھتے ہیں : اور سن بکری کا ایک سال یعنی ایک سال پورا اور دوسرا شروع، اور گائے اور بھینس کا دو سال یعنی دو سال پورے اور تیسرا شروع الخ۔آگے لکھتے ہیں: ویدخل في البقر الجاموس لانہ من جنسہ انتہی ما في الہدایة․ ترجمہ : گائے میں بھینس داخل ہے؛ اس لیے کہ بھینس گائے ہی کی ایک جنس ہے۔ (فتاوی نذیریہ، ۳/۲۵۷، ۲۵۸، اہل حدیث اکادمی کشمیری بازار لاہور )
(۲) مفتی عبد الستار صاحب ایک سوال کے جوب میں لکھتے ہیں : سوال : کیا بھینس کی قربانی جائز ہے ؟ جواب : جائز ہے؛ کیوں کہ بھینس اور گائے کا ایک حکم ہے۔( فتاوی ستاریہ، ۳/ ۲)
(۳) غیر مقلدین کے شیخ الاسلام مولانا ثناء اللہ امرتسری فتاوی ثنائیہ میں قرآن کریم کی آیت ” قل لا أجد فیما أوحي أليّ الخ“ کی تشریح کے تحت لکھتے ہیں:
حجاز میں بھینس کا وجود ہی نہ تھا، پس اس کی قربانی نہ سنت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہوتی ہے نہ تعامل صحابہ سے، ہاں اگر اس کو جنس بقر (گائے کی جنس)سے مانا جائے، جیسا کہ حنفیہ کا قیاس ہے (کما فی الہدایة)یا عموم بہیمة الانعام پر نظر ڈالی جائے تو حکم جواز قربانی کے لیے یہ علت کافی ہے۔ (مستفاد: فتاو ی ثنائیہ، ۱/۸۰۹، ۸۱۰)
(۴) فتاوی علماء اہل حدیث کے مؤلف مولانا ابوالحسنات علی محمد سعیدی سے بھینس کی قربانی کے جواز کے سلسلے میں سوال کیا گیا، تو انھوں نے جواب دیا : جائز ہے؛ چوں کہ گائے اور بھینس کا ایک ہی حکم ہے۔بعینہ یہی جواب مفتی عبد الستار صاحب نے بھی دیا ہے۔ (فتاوی علماء اہل حدیث، ۱۳/۹۴۶۔ فتاوی ستاریہ،۳/۲)
(۵)مولانا عبد القادر حصار وی صاحب ساہیوال لکھتے ہیں :
خلاصہ بحث یہ ہے کہ بکری، گائے کی قربانی مسنون ہے، تاہم بھینس بھینسا کی قربانی بھی جائز اور مشروع ہے اور ناجائز کہنے والے کا مسلک درست نہیں ہے۔ (فتاوی حصاریہ و مقالات علمیہ، ۵/۴۴۶)
(۶ )حافظ زبیر علی زئی کا فتوی : اونٹ، گائے، بھیڑ اور بکری کی قربانی کتاب و سنت سے ثابت ہے اور یہ بات بالکل صحیح ہے کہ بھینس گائے کی ایک قسم ہے، اس پر ائمہ اسلام کا اجماع ہے۔ (فتاوی علمیہ، ۲/ ۱۸۲)
(۷) محدث العصر حافظ گولندوی کا فتوی : بھینس بھی بقر میں شامل ہے، اس کی قربانی جائز ہے۔ ( ہفت روزہ الاعتصام لاہور، ج: ۲۰، شمارہ نمبر : ۹، ص: ۲۹)
(۸) قاضی محمد عبد اللہ ایم۔اے۔ایل۔ ایل۔بی، خانپوری بھینس کی قربانی کے جواز پر تفصیلی بحث کرتے ہوئے اخیر میں لکھتے ہیں :
پس خلاصہ اس کا یہ ہے کہ : (۱) بھینس مسلمہ طور پر گائے کی ایک قسم ہے۔ (۲) بھینس گائے سے زیادہ قیمتی ہے اور جسامت بھی عام گائے سے بڑھی ہوئی ہوتی ہے اور اس سے نفع بمقابلہ عام گائے کے زیادہ ہے؛ اس لیے اس میں ثواب بھی زیادہ ہے۔ (۳) کم از کم بھینس کی قربانی کے جواز میں کوئی شک نہیں ہے۔ ( ہفت روزہ الاعتصام لاہور، ج: ۲۰، شمارہ نمبر : ۴۲- ۴۳، ص: ۹-۱۰)
(۹)مولانا امین اللہ پشاوری ایک مفصل فتوے میں جواز کے دلائل پر بحث کراے ہوئے لکھتے ہیں:
جب یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ لغت میں لفظ ” البقر “ ” الجاموس “کو بھی شامل ہے، تو شرعا بھی اس کا یہی حکم ہوگا، لہذا اس کی قربانی کا ثبوت قرآن مجید اور سنت صحیحہ سے مل گیا، اب اس پر اعتراض نہیں کیا جا سکتا کہ یہ قیاسی مسئلہ ہے، یا وضاحت کے ساتھ ثابت نہیں، جیسا کہ اس طرح کی باتیں کچھ جاہل قسم کے لوگ سے سنی جا رہی ہیں، جو قرآن و سنت سے استدلال کے طریقوں سے نابلد، ان کی معرفت سے نا آشناء اور ان کے قواعد سے ناواقف ہیں۔عقل و بصیرت رکھنے والوں کے لیے یہ ایک دلیل کافی ہے، جاہل اور بیکار لوگوں کو اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ ( فتاوی الدین الخالص، ۶/۴۹۳)
(۱۰) جماعت غرباء اہل حدیث کے نائب مفتی مولانا عبد القہار صاحب کا فتوی :
صورت مسئولہ میں واضح ہو کہ شرعاً بھینس چوپایہ جانورں میں سے ہے اور اس کی قربانی درست ہے؛ کیوں کہ گائے کی جنس سے ہے، اس لیے بھینس کی قربانی جائز اور درست ہے۔اس دلیل کو اگر نہ مانا جائے، تو گائے کے ہم جنس بھینس کے دودھ اور اس کے گوشت کے حلال ہونے کی دلیل بھی مشکوک ہو جائے گی۔ ( بھینس کی قربانی کا تحقیقی جائزہ، ص: ۲۳۷، ط: اسلامک سینٹر ملتان )
غیر مقلد عالم مولوی نعیم الحق ملتانی نے اس موضوع پر ایک مفصل کتاب لکھی ہے ” بھینس کی قربانی کا تحقیقی جائزہ “اس میں اس طرح کے اور بہت سے علماء غیر مقلدین کے اقوال ذکر کیے ہیں، جنھوں نے بھینس کی قربانی کو جائز کہا ہے، تفصیل کے لیے اس کا مطالعہ فرمائیں۔
اہل لغت
(۱) ”الجاموس: ضرب من کبار البقر“․ (المنجد، ص: ۱۰۱، مرتب لوئیس معلوف) ترجمہ: بھینس بڑی گایوں کی ایک قسم ہے۔
(۲) ”الجاموس: حیوان أھلي من جنس البقر․․․․ والجمع: جوامیس“․ (معجم الوسیط، ص: ۱۳۴، فیصل دیوبند) ترجمہ: بھینس گائے کی جنس سے ایک پالتو جانور ہے۔
(۳) ”جاموس: نوع من البقر ضخم الجثة، جمع: جوامیس“․ ( معجم الرائد کما في المعاني) ترجمہ: بھینس،بھاری جسم والی گائے کی ایک قسم ہے۔
(۴) لسان العرب، مغرب وغیرہ میں بھی بھینس کوگائے کس قسم مانا ہے۔ الجاموس نوع من البقر․ (لسان العرب،۶/ ۴۳، دار صادر بیروت․ المغرب في ترتیب المغرب، ۱/۸۹، ط: دارالکتاب العربي بیروت) ترجمہ : بھینس گائے کی ایک قسم ہے۔
(۵) لغت کی مشہور کتاب ” تاج العروس “ اور دیگر کتب لغت میں بھی بھینس کو گائے کی قسم مانا ہے۔
الجاموس ․․․․ معروف، معرّبُ ”کاومیش“، وھي فارسیة، ج: الجوامیس، وقد تکلمت بہ العرب․ ( تاج العروس، ۱۵/ ۵۱۳، ط: دارالہدایة)
ترجمہ : ” جاموس ایک مشہور چوپایہ ہے، جو گاومیش کا معرب ہے اور گاومیش فارسی زبان کا لفظ ہے، جسے اہل عرب نے کچھ تبدیلی کے ساتھ” جاموس “بنا لیا ہے اور ”جاموس“ کی جمع ” جوامیس “ آتی ہے۔
جب تمام فقہاء ومحدثین، اہل لغت حتی کہ بعض بڑے غیر مقلدعلماء نے بھی بھینس کو گائے کی جنس سے مانا ہے، تو جس طرح گائے کی قربانی درست ہے، اسی طرح بھینس کی قربانی بھی درست ہوگی، اس میں کسی شک وشبہ کی گنجائش نہیں، گویا قرآن وحدیث میں گائے کے ضمن میں بھینس کا بھی تذکرہ ہے، اور اگر بھینس کو گائے کی ایک قسم نہیں مانیں گے، تو بھینس کا گوشت، دودھ، دہی اور گھی کا تذکرہ بھی قرآن و حدیث میں نہیں ہے، اس بنیاد پر انھیں بھی حرام اور ناجائز ہونا چاہیے؛ حالانکہ مذکورہ چیزوں کی حلت کے سبھی قائل ہیں اور کوئی اختلاف نہیں ہے،تو جس بنیاد پر مذکورہ چیزیں حلال اور جائز ہیں، اسی بنیاد پر بھینس کی قربانی بھی جائز ہو گی، ورنہ ” تخلف الحکم عن العلة“ لازم آئے گا جو کہ درست نہیں۔ اسی طرح تمام ائمہ و فقہاء نے بھینس کو گائے کی جنس سے مان کربھینس پر بھی زکات فرض کی ہے؛ جب کہ قرآن وحدیث سے بھینس کی زکات ثابت نہیں ہے، اور نہ ہی صحابہ نے بھینس کی زکات وصول کی ہے۔( اور وجہ یہ تھی کہ عرب میں بھینس پائی نہیں جاتی تھی اور آج بھی نہیں ہے) اگر قربانی کو ناجائز کہیں گے، تو زکات کو بھی ناجائز کہنا پڑے گا؛ اس لیے جس طرح بھینس کی زکات صحیح ہے، اس کے گوشت، دودھ، دہی اور گھی کا استعمال درست ہے، اسی طرح قربانی بھی صحیح ہے۔