ماہنامہ الفاران
ماہِ ذی القعدہ - ۱۴۴۴
انسان کی پیدائش
جناب حضرت مولانا ومفتی نفیس احمد صاحب جمالپوری المظاہری؛ استاذ حدیث و فقہ؛ مدرسہ قادریہ؛مسروالا؛ہماچل پردیش
رب تعالٰی نے خوشکی ، تری ارض وسماں میں بےشمار مخلوقات کو پیدا کیا ہے جن کی اغراض ومقاصد کو متنوع قسموں میں بانٹا اور اکثر کو ان کی ذمہ داری کا الہام کردیا بعض سے ہمکلامی فرمائی کچھ کو احکام مخصوصہ کامکلف بنایا ان میں سب محترم انسان ہےصرف انسان میں عقل ہی اتنی جامع شی ہے کہ وہ خود مالک کی پہچان کے بغیر سکون حاصل نہیں کرسکتی وہی انسان کو مالک کی پہچان واطاعت کرانے کے لیے کافی تھی لیکن باری تعالٰی نے بنی آدم کی بھلائی کے لیے انبیاء ورسل کو صحائف اور کتب دیکر تبلیغ کے لیے منتخب فرمایا تاکہ نوع انسانی کوکسی طرح کی کوئی پریشانی نہ ہولیکن انسان نے اپنی فطرت کو سمجھنے کے بجائے ہمیشہ اپنی جائز اور ناجائز خواہشات کی تکمیل کی فکر کی کبھی اپنی عاقبت اور جوابدہی کو یکسوہوکونہیں سوچا.
یہ حقیقت ہے کہ اس دنیا میں جس نے سانس لی وہ اپنی مدت معطیہ کومتمم کر کے چل بسا لیکن مدت حیات کس کو کتنی دی گئی کسی کو ماسوائے رب تعالٰی نہیں پتاپھر کیوں ہم لوگ غفلت کی زندگی میں مست ہیں مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی زندگی کی ہرآن سنت نبوی ﷺ کی پیروی کرے اپنے اٹھنے بیٹھنے چلنے پھرنے سونے جگنے کھانے پینے گھر اور مسجد پیشاب خانہ وبیت الخلاء میں آنے جانے نماز پڑھنے پڑھانے روزہ رکھنے حج کرنے تجارت وزراعت صحت وبیماری میں طریقہ نبوی ﷺ کو اپنا مقصد بنائیں
انسان اگر توجہ سے کام لے تو زندگی تبدیل کرنے کےلیے چند منٹ کافی ہے بغرض اصلاح ایک واقعہ زیر مطالعہ ہےکہ مدینہ منورہ میں حضرت امام مالک بن انس جو ائمہ اربعہ میں سے ایک ہے کی مجلس مسجد نبوی ﷺ میں منعقد ہوا کرتی تھی جس میں امام مالک علیہ الرحمہ حدیث پاک کادرس دیتے تھے ایک مرتبہ امام مالک علیہ الرحمہ سواری پر سوار ہوکر کہیں جارہے تھے مدینہ کے گورنر نے اپنی سواری امام مالک کی سواری کے روبرو کر کے عرض کیا کہ حضرت مجھے کوئی حدیث نبوی ﷺ سنا دیجئے جس پر امام مالک غضبناک ہوگئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے لیے تیرے پاس وقت نہیں میں فلاں وقت مسجد نبوی ﷺ میں درس دیتا ہوں وہاں آکر سننا
اس بات پر مدینہ کاگورنر بہت پشیمان ہوا اور کہنے لگا مجھ سے بہت بڑی غلطی ہوگئی اس کی سزا کے لیے قاضی مدینہ کے پاس جانے کا قصد کیا اور جاکر قاضی سے عرض کیا کہ مجھ سے حدیث نبوی ﷺ کی شان میں فلاں غلطی ہوگئی قاضی نے سزا کا اعلان کردیا کہ چالیس کوڑے لگیں گے اگلے دن پھر گورنر وقت متعینہ پر پہنچ کر امام مالک علیہ الرحمہ سے عرض کرنے لگا کہ مجھے حدیث نبوی ﷺ سنا دیجئے آج امام مالک علیہ الرحمہ نے ایک دو نہیں بلکہ چالیس حدیث نبوی ﷺ سنائی مدینہ کے گورنر نے پوچھا کہ آپ کل تو ایک حدیث نبوی ﷺ سنانے کے لیے تیار نہ ہوئے آج چالیس سنادی فرمایا کہ میرے دل میں خیال آیا کہ کل بےادبی کی وجہ سے چالیس کوڑے کھا کر آیا ہے کیوں نہ ہر کوڑے کے بدلے ایک حدیث نبوی ﷺ سنادوں اس پر مدینہ کے گورنر نے کہا کاش میں اور کوڑے کھالیتامجھےاورحدیث سننے کا موقع ملتا یہ تھے مدینہ منورہ کے گورنر شعبہ بن حجاج بہت بڑے محدث تھے گھوڑے پر سوار ہوکر جارہے تھے شاگرد چاروں طرف دوڑ رہے تھے کہ ایک ڈاکوں نے جاکر شعبہ کے گھوڑے کی نکیل پکڑ کر کہا کہ مجھے حدیث سنا دیجئے شعبہ ناراض ہوگئے کہ راستے میں حدیث نبوی ﷺ معلوم کرتا ہے تجھے شرم نہیں میں یہاں نہیں بتا سکتا ڈاکوں نے خنجر نکال کر کہا کہ یاتو حدیث نبوی ﷺ سنا ورنہ قتل کردونگا شعبہ سمجھ گئے کہ ماننے والا نہیں اپنے سے لیکر رسول ﷺ تک سند پڑھنے کے بعد کہاقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا فاتک الحیاء فافعل ماشئت کہ رسول ﷺ نے فرمایا جب تیری شرم و حیا جاتی رہے جو چاہے کراس پر وہ ڈاکوں شرمندہ ہوا اور اس نے توبہ کی پھر تحصیل علم حدیث میں لگ گئے اور بہت بڑے محدث بنے جن سے
امام بخاری اور امام مسلم نے بھی اپنی اپنی صحیح میں حدیثیں لیں ان محدث کانام ہے محمد بن مسلمہ قعنبی رحمۃ اللہ علیہ امام بخاری کو بخاری کی تصنیف میں سولہ سال لگے انہوں نے پوری تحقیق کی کہ میرے نبی ﷺ کی حدیث ہے کہ نہیں ابواب قائم کئیے احادیث پراس سولہ سال کے عرصہ میں مسلسل باوضو رہتے اور سولہ کے سولہ سال روزے رکھے صاحب مصابیح السنہ کو مصابیح السنہ کی احادیث کی تخریج وتحقیق اور جمع کرنے میں بارہ سال لگے اس اثناء میں ہمیشہ روزہ رکھا صاحب ھدایہ کو ھدایہ کی تصنیف میں بارہ سال لگے انہوں نے بھی مسلسل روزے رکھے گھر والوں کوبھی محسوس نہ ہونے دیا گھر سے جوکھانادوپہرکوآتاکسی طالب علم کو کھلادیتے
یہ حضرات اپنے مسلمان ہونے کا حق ادا کرکے گئے ہیں لیکن اب کا مسلمان اپنے رب اور اپنے نبی ﷺ کی عطا کردہ تعلیمات سے لاعلم یابدعمل ہونے کے سبب یہودیوں اور عیسائیوں کی غلامی کرنے پر مجبور ہے لباس اکثروں کا سنت نبوی ﷺ کے مطابق نہیں کھانے پینے شادی بیاہ میں سنت نبوی ﷺ کی پیروی کے بجائے سماج اور خواہشات نفس کاپجاری ہے
اللہ تعالیٰ کو اپنے دین کی حفاظت کے لیے ہماری ضرورت نہیں ہے وہ تو ابابیل جیسی معمولی مخلوق سے کام لے سکتا ہے تیرویں صدی عیسوی میں تاتاریوں نے تمام تر اقوام کوتخت وتاراج کردیا تھا بغداد میں ہلاکوں خان نے ایک ہی دن میں چھ لاکھ مسلمانوں کو قتل کرایا لیکن اللہ کو کام لیناہوامنظورہلاکوں خان کی قوم سے ہی لے لیا اللہ تعالیٰ نے ہلاکوں خان کے چچا زاد بھائی برک خان کو ہدایت دیدی وہ اس طرح کہ مسلم عورتوں کو جب بغداد اور دوسرے علاقوں سے گرفتار کرکے ہلاکوں خان نے اپنے دادا کی پھیلائی ہوئی سلطنت میں تقسیم کیا تو جوعورتیں برک خان کی کمان کے لوگوں کے حصے میں آئیں انہوں نے ان مردوں کی بیویوں کی خوشامد کی کہ آپ ہم سے جوچاہیں کام لیں لیکن اپنے شوہروں سے کہیں کہ ہماری عزتوں پر ہاتھ نہ ڈالیں ان عورتوں نے اپنے شوہروں کو قائل کرلیا کچھ عرصہ کے بعد پھر ان عورتوں نے عبادت کی اجازت مانگی وہ بھی ان کو مل گئی ان کو دیکھ کر منگول عورتیں بھی مسلمان ہوگئیں اور اپنے شوہروں کی بے انتہا فرمانبرداری کرنے لگیں شوہروں نے جب اپنی بیویوں کو اس قدر مطیع پایا تو انہوں نے اس کا راز جاننے کے بعد اسلام کی طرف سبقت کی جلد ہی آدھی منگول فوج مسلمان ہوگئی پھر انہوں نے جواسلام کی خدمت کی وہ اپنی مثال آپ ہے بےشمار کتب اہلِ اسلام کی ترقی کے لیے لکھوائیں اور اسلام کی سربلندی کے لیے ہر ممکن کوشش کی فتاویٰ کی بہت اہم کتاب فتاویٰ تاتارخانیہ اسی دور کی تصنیف ہے جس کو تاتاریوں نے ہی لکھوایا
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں بیان کرچکے ہیں اِنْ یَّشَاْ یُذْهِبْكُمْ وَ یَاْتِ بِخَلْقٍ جَدِیْدٍ(سورہ فاطر آیت نمبر 16)وَ مَا ذٰلِكَ عَلَى اللّٰهِ بِعَزِیْزٍ(سورہ فاطرآیت17) ترجمہ اگروہ چاہے تو تمہیں لے جائے اور نئی مخلوق لے آئے۔ اور یہ اللہ پر کچھ دشوار نہیں ۔
تفسیر {اِنْ یَّشَاْ یُذْهِبْكُمْ: اگروہ چاہے تو تمہیں لے جائے۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے لوگو!اگر تمہارا رب عَزَّوَجَلَّ چاہے تو تمہیں ہلاک کر دے کیونکہ اسی نے تمہیں پیدا کیا ہے اور وہ تم سے بے نیاز ہے اور تمہاری بجائے نئی مخلوق لے آئے جو فرمانبردار ہو ، اللہ تعالیٰ کے احکامات کی پیروی کرنے والی ہواور جن چیزوں سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے ان سے رک جانے والی ہو اور (یاد رکھو کہ) تمہیں ہلاک کر کے نئی مخلوق لے آنا اللہ تعالیٰ پر کچھ دشوار نہیں بلکہ یہ اس کے لئے بہت آسان ہے ،تو اے لوگو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور اس کی فرمانبرداری کرو ا س سے پہلے کہ تمہارا رب عَزَّوَجَلَّ تمہیں ہلاک کر دے۔ (تفسیر طبری)
اللہ تعالیٰ نے بے شمار بستیوں اور قوموں کو ان کے گناہوں کی وجہ سے ماضی میں تباہ و برباد کر کے رکھ دیا قوم عاد قوم ثمود جن کے بارے میں سورہ فجر میں بیان ہوا الذی لم یخلق مثلھا فی البلاد کہ اس کی جیسی طاقت ور قوم کبھی دنیا میں آئی ہی نہیں لیکن ان کو آسمانی ایک چیخ نے آکر ہلاک کردیا اور قوم عاد کوہواکےجھونکےنےنیست و نابود کردیا اس لیے اے مسلمانوں اپنے گناہوں سے توبہ کرو اپنے اندر چھپے ہوئے نفس وشیطان سے مقابلہ کروبنی اسرائیل کی طرح گمراہ مت بنو اللہ کی نصرت کا وعدہ کامل پیروی رب پر ہے
ذرا غور کریں پنج وقت نماز پڑھنے والے صرف دو فیصد جمعہ پڑھنے والے پانچ فیصد عید الفطر پڑھنے والے پچاس فیصد بقرعید پڑھنے والے 7فیصدباقی لوگ کہاں ہیں بازاروں میں جویں کی محفلوں میں سٹہ اورعشق معاشقی کے پھندوں میں پیشاب کی تھیلیوں کے لیے اپنی زندگیوں کوبربادکررہےہیں تو پھر اللہ کی مدد کہاں گرےگی اپنی آخرت کی فکر کرو تمہیں رب العزت کی بارگاہ میں جواب دینا ہے تمہیں رسول ﷺ کا سامنا کرناہے تمہیں حضرت بلال حبشی حضرت خباب بن ارت مصعب بن عمیر عمار بن یاسر اور حضرت سمیہ کا سامنا قیامت کے دن کرنا ہے اس لئے اپنی زندگی میں سدھار لاؤ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ سب کو عقل سلیم عطاء فرمائے آمین
یہ حقیقت ہے کہ اس دنیا میں جس نے سانس لی وہ اپنی مدت معطیہ کومتمم کر کے چل بسا لیکن مدت حیات کس کو کتنی دی گئی کسی کو ماسوائے رب تعالٰی نہیں پتاپھر کیوں ہم لوگ غفلت کی زندگی میں مست ہیں مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی زندگی کی ہرآن سنت نبوی ﷺ کی پیروی کرے اپنے اٹھنے بیٹھنے چلنے پھرنے سونے جگنے کھانے پینے گھر اور مسجد پیشاب خانہ وبیت الخلاء میں آنے جانے نماز پڑھنے پڑھانے روزہ رکھنے حج کرنے تجارت وزراعت صحت وبیماری میں طریقہ نبوی ﷺ کو اپنا مقصد بنائیں
انسان اگر توجہ سے کام لے تو زندگی تبدیل کرنے کےلیے چند منٹ کافی ہے بغرض اصلاح ایک واقعہ زیر مطالعہ ہےکہ مدینہ منورہ میں حضرت امام مالک بن انس جو ائمہ اربعہ میں سے ایک ہے کی مجلس مسجد نبوی ﷺ میں منعقد ہوا کرتی تھی جس میں امام مالک علیہ الرحمہ حدیث پاک کادرس دیتے تھے ایک مرتبہ امام مالک علیہ الرحمہ سواری پر سوار ہوکر کہیں جارہے تھے مدینہ کے گورنر نے اپنی سواری امام مالک کی سواری کے روبرو کر کے عرض کیا کہ حضرت مجھے کوئی حدیث نبوی ﷺ سنا دیجئے جس پر امام مالک غضبناک ہوگئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے لیے تیرے پاس وقت نہیں میں فلاں وقت مسجد نبوی ﷺ میں درس دیتا ہوں وہاں آکر سننا
اس بات پر مدینہ کاگورنر بہت پشیمان ہوا اور کہنے لگا مجھ سے بہت بڑی غلطی ہوگئی اس کی سزا کے لیے قاضی مدینہ کے پاس جانے کا قصد کیا اور جاکر قاضی سے عرض کیا کہ مجھ سے حدیث نبوی ﷺ کی شان میں فلاں غلطی ہوگئی قاضی نے سزا کا اعلان کردیا کہ چالیس کوڑے لگیں گے اگلے دن پھر گورنر وقت متعینہ پر پہنچ کر امام مالک علیہ الرحمہ سے عرض کرنے لگا کہ مجھے حدیث نبوی ﷺ سنا دیجئے آج امام مالک علیہ الرحمہ نے ایک دو نہیں بلکہ چالیس حدیث نبوی ﷺ سنائی مدینہ کے گورنر نے پوچھا کہ آپ کل تو ایک حدیث نبوی ﷺ سنانے کے لیے تیار نہ ہوئے آج چالیس سنادی فرمایا کہ میرے دل میں خیال آیا کہ کل بےادبی کی وجہ سے چالیس کوڑے کھا کر آیا ہے کیوں نہ ہر کوڑے کے بدلے ایک حدیث نبوی ﷺ سنادوں اس پر مدینہ کے گورنر نے کہا کاش میں اور کوڑے کھالیتامجھےاورحدیث سننے کا موقع ملتا یہ تھے مدینہ منورہ کے گورنر شعبہ بن حجاج بہت بڑے محدث تھے گھوڑے پر سوار ہوکر جارہے تھے شاگرد چاروں طرف دوڑ رہے تھے کہ ایک ڈاکوں نے جاکر شعبہ کے گھوڑے کی نکیل پکڑ کر کہا کہ مجھے حدیث سنا دیجئے شعبہ ناراض ہوگئے کہ راستے میں حدیث نبوی ﷺ معلوم کرتا ہے تجھے شرم نہیں میں یہاں نہیں بتا سکتا ڈاکوں نے خنجر نکال کر کہا کہ یاتو حدیث نبوی ﷺ سنا ورنہ قتل کردونگا شعبہ سمجھ گئے کہ ماننے والا نہیں اپنے سے لیکر رسول ﷺ تک سند پڑھنے کے بعد کہاقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا فاتک الحیاء فافعل ماشئت کہ رسول ﷺ نے فرمایا جب تیری شرم و حیا جاتی رہے جو چاہے کراس پر وہ ڈاکوں شرمندہ ہوا اور اس نے توبہ کی پھر تحصیل علم حدیث میں لگ گئے اور بہت بڑے محدث بنے جن سے
امام بخاری اور امام مسلم نے بھی اپنی اپنی صحیح میں حدیثیں لیں ان محدث کانام ہے محمد بن مسلمہ قعنبی رحمۃ اللہ علیہ امام بخاری کو بخاری کی تصنیف میں سولہ سال لگے انہوں نے پوری تحقیق کی کہ میرے نبی ﷺ کی حدیث ہے کہ نہیں ابواب قائم کئیے احادیث پراس سولہ سال کے عرصہ میں مسلسل باوضو رہتے اور سولہ کے سولہ سال روزے رکھے صاحب مصابیح السنہ کو مصابیح السنہ کی احادیث کی تخریج وتحقیق اور جمع کرنے میں بارہ سال لگے اس اثناء میں ہمیشہ روزہ رکھا صاحب ھدایہ کو ھدایہ کی تصنیف میں بارہ سال لگے انہوں نے بھی مسلسل روزے رکھے گھر والوں کوبھی محسوس نہ ہونے دیا گھر سے جوکھانادوپہرکوآتاکسی طالب علم کو کھلادیتے
یہ حضرات اپنے مسلمان ہونے کا حق ادا کرکے گئے ہیں لیکن اب کا مسلمان اپنے رب اور اپنے نبی ﷺ کی عطا کردہ تعلیمات سے لاعلم یابدعمل ہونے کے سبب یہودیوں اور عیسائیوں کی غلامی کرنے پر مجبور ہے لباس اکثروں کا سنت نبوی ﷺ کے مطابق نہیں کھانے پینے شادی بیاہ میں سنت نبوی ﷺ کی پیروی کے بجائے سماج اور خواہشات نفس کاپجاری ہے
اللہ تعالیٰ کو اپنے دین کی حفاظت کے لیے ہماری ضرورت نہیں ہے وہ تو ابابیل جیسی معمولی مخلوق سے کام لے سکتا ہے تیرویں صدی عیسوی میں تاتاریوں نے تمام تر اقوام کوتخت وتاراج کردیا تھا بغداد میں ہلاکوں خان نے ایک ہی دن میں چھ لاکھ مسلمانوں کو قتل کرایا لیکن اللہ کو کام لیناہوامنظورہلاکوں خان کی قوم سے ہی لے لیا اللہ تعالیٰ نے ہلاکوں خان کے چچا زاد بھائی برک خان کو ہدایت دیدی وہ اس طرح کہ مسلم عورتوں کو جب بغداد اور دوسرے علاقوں سے گرفتار کرکے ہلاکوں خان نے اپنے دادا کی پھیلائی ہوئی سلطنت میں تقسیم کیا تو جوعورتیں برک خان کی کمان کے لوگوں کے حصے میں آئیں انہوں نے ان مردوں کی بیویوں کی خوشامد کی کہ آپ ہم سے جوچاہیں کام لیں لیکن اپنے شوہروں سے کہیں کہ ہماری عزتوں پر ہاتھ نہ ڈالیں ان عورتوں نے اپنے شوہروں کو قائل کرلیا کچھ عرصہ کے بعد پھر ان عورتوں نے عبادت کی اجازت مانگی وہ بھی ان کو مل گئی ان کو دیکھ کر منگول عورتیں بھی مسلمان ہوگئیں اور اپنے شوہروں کی بے انتہا فرمانبرداری کرنے لگیں شوہروں نے جب اپنی بیویوں کو اس قدر مطیع پایا تو انہوں نے اس کا راز جاننے کے بعد اسلام کی طرف سبقت کی جلد ہی آدھی منگول فوج مسلمان ہوگئی پھر انہوں نے جواسلام کی خدمت کی وہ اپنی مثال آپ ہے بےشمار کتب اہلِ اسلام کی ترقی کے لیے لکھوائیں اور اسلام کی سربلندی کے لیے ہر ممکن کوشش کی فتاویٰ کی بہت اہم کتاب فتاویٰ تاتارخانیہ اسی دور کی تصنیف ہے جس کو تاتاریوں نے ہی لکھوایا
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں بیان کرچکے ہیں اِنْ یَّشَاْ یُذْهِبْكُمْ وَ یَاْتِ بِخَلْقٍ جَدِیْدٍ(سورہ فاطر آیت نمبر 16)وَ مَا ذٰلِكَ عَلَى اللّٰهِ بِعَزِیْزٍ(سورہ فاطرآیت17) ترجمہ اگروہ چاہے تو تمہیں لے جائے اور نئی مخلوق لے آئے۔ اور یہ اللہ پر کچھ دشوار نہیں ۔
تفسیر {اِنْ یَّشَاْ یُذْهِبْكُمْ: اگروہ چاہے تو تمہیں لے جائے۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے لوگو!اگر تمہارا رب عَزَّوَجَلَّ چاہے تو تمہیں ہلاک کر دے کیونکہ اسی نے تمہیں پیدا کیا ہے اور وہ تم سے بے نیاز ہے اور تمہاری بجائے نئی مخلوق لے آئے جو فرمانبردار ہو ، اللہ تعالیٰ کے احکامات کی پیروی کرنے والی ہواور جن چیزوں سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے ان سے رک جانے والی ہو اور (یاد رکھو کہ) تمہیں ہلاک کر کے نئی مخلوق لے آنا اللہ تعالیٰ پر کچھ دشوار نہیں بلکہ یہ اس کے لئے بہت آسان ہے ،تو اے لوگو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور اس کی فرمانبرداری کرو ا س سے پہلے کہ تمہارا رب عَزَّوَجَلَّ تمہیں ہلاک کر دے۔ (تفسیر طبری)
اللہ تعالیٰ نے بے شمار بستیوں اور قوموں کو ان کے گناہوں کی وجہ سے ماضی میں تباہ و برباد کر کے رکھ دیا قوم عاد قوم ثمود جن کے بارے میں سورہ فجر میں بیان ہوا الذی لم یخلق مثلھا فی البلاد کہ اس کی جیسی طاقت ور قوم کبھی دنیا میں آئی ہی نہیں لیکن ان کو آسمانی ایک چیخ نے آکر ہلاک کردیا اور قوم عاد کوہواکےجھونکےنےنیست و نابود کردیا اس لیے اے مسلمانوں اپنے گناہوں سے توبہ کرو اپنے اندر چھپے ہوئے نفس وشیطان سے مقابلہ کروبنی اسرائیل کی طرح گمراہ مت بنو اللہ کی نصرت کا وعدہ کامل پیروی رب پر ہے
ذرا غور کریں پنج وقت نماز پڑھنے والے صرف دو فیصد جمعہ پڑھنے والے پانچ فیصد عید الفطر پڑھنے والے پچاس فیصد بقرعید پڑھنے والے 7فیصدباقی لوگ کہاں ہیں بازاروں میں جویں کی محفلوں میں سٹہ اورعشق معاشقی کے پھندوں میں پیشاب کی تھیلیوں کے لیے اپنی زندگیوں کوبربادکررہےہیں تو پھر اللہ کی مدد کہاں گرےگی اپنی آخرت کی فکر کرو تمہیں رب العزت کی بارگاہ میں جواب دینا ہے تمہیں رسول ﷺ کا سامنا کرناہے تمہیں حضرت بلال حبشی حضرت خباب بن ارت مصعب بن عمیر عمار بن یاسر اور حضرت سمیہ کا سامنا قیامت کے دن کرنا ہے اس لئے اپنی زندگی میں سدھار لاؤ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ سب کو عقل سلیم عطاء فرمائے آمین