ماہنامہ الفاران

ماہِ شوال المکرم - ۱۴۴۴

شوال المکرم کی تاریخی اہمیت

جناب حضرت مولانا ومفتی نفیس احمد صاحب جمالپوری المظاہری؛ استاذ حدیث و فقہ؛ مدرسہ قادریہ؛مسروالا؛ہماچل پردیش

شوال کی وجہ تسمیہ
اسلامی سال کے دسویں مہینے کا نام شوال المکرم ہے۔ اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ یہ ”شَول ”سے ماخوذ ہے جس کا معنی اونٹنی کا دُم اٹھانا (یعنی سفر اختیار کرنا) ہے اس مہینہ میں عرب لوگ سیر و سیاحت اور شکار کھیلنے کے لئے اپنے گھروں سے باہر چلے جاتے تھے اس لئے اس کا نام شوال رکھا گیا، اس مہینہ کی پہلی تاریخ کو عید الفطر ہوتی ہے جس کو یوم الرحمۃ بھی کہتے ہیں ، کیونکہ اس دن اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر رحمت فرماتا ہے۔ اور اسی روز اللہ تعالیٰ نے شہد کی مکھی کو شہد بنانے کا الہام کیا تھا۔
اسی دن اللہ تعالیٰ نے جنت پیدا فرمائی ،اسی روز اللہ تبارک و تعالیٰ نے درختِ طوبیٰ پیدا کیا ، اسی دن اللہ عزوجل نے سیدنا حضرت جبرئیل علیہ الصلوٰۃ والسلام کو وحی کے لئے منتخب فرمایا ، اسی دن فرعون کے جادوگروں نے توبہ کی (فضائل ایام و الشہور ، صفحہ 443،غنیہ الطالبین صفحہ405، مکاشفۃ القلوب صفحہ693)
اسی مہینہ کی چوتھی تاریخ کو سید العالمین رحمۃ اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نجران کے نصرانیوں کے ساتھ مباہلہ کےلئے نکلے تھے ، اسی ماہ کی پندرہویں تاریخ کو اُحد کی لڑائی ہوئی، جس میں سید الشہداء حضرت امیر حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ شہید ہوئے تھے ، اسی ماہ کی پچیس تاریخ سے آخرِ ماہ تک جتنے دن ہیں وہ قوم عاد کے لئے منحوس دن تھے جن میں اللہ جل شانہ، نے قوم عاد کو ہلاک فرمایا تھا۔ (فضائل ایام والشہور صفحہ 444، بحوالہ عجائب المخلوقات صفحہ 46)
شش عید کے روزے
شوال کے چھ روزے رکھنا مستحب ہے، احادیثِ مبارکہ میں ان کی فضیلت وارد ہوئی ہے، رسول ﷲصلی ﷲعلیہ وسلم کاارشادِ گرامی صحیح سندکے ساتھ حدیث کی مستندکتابوں میں موجودہے: ’’عن أبي أیوب عن رسول اﷲﷺ قال: من صام رمضان ثم أتبعه ستًّا من شوال فذاک صیام الدهر‘‘. رواه الجماعة إلا البخاري والنسائي‘‘. ( اعلاء السنن لظفر احمد العثمانی -کتاب الصوم - باب استحباب صیام ستۃ من شوال وصوم عرفۃ -رقم الحدیث 2541 ) ترجمہ:’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے رمضان کے روزے رکھے اورپھرشوال کے چھ روزے رکھے تویہ ہمیشہ (یعنی پورے سال)کے روزے شمارہوں گے‘‘۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآنِ کریم کے وعدہ کے مطابق ہر نیکی کا بدلہ کم از کم دس گنا ملتا ہے، گویا رمضان المبارک کے ایک ماہ کے روزے دس ماہ کے روزوں کے برابر ہوئے، اور شوال کےچھ روزے ساٹھ روزوں کے برابر ہوئے، جو دو ماہ کے مساوی ہیں، اس طرح رمضان کے ساتھ شوال کے روزے رکھنے والاگویا پورے سال روزہ رکھنے والا ہوجاتا ہے۔
شوال کا روزہ رکھنے کی ترتیت
شوال کے چھ روزے یکم شوال یعنی عید کے دن کو چھوڑ کر شوال کی دوسری تاریخ سے لے کر مہینہ کے آخر تک الگ الگ کرکے اور اکٹھے دونوں طرح رکھے جاسکتے ہیں۔ لہذا ان روزوں کا اہتمام کرنا چاہیے۔ البتہ اگر کوئی روزہ نہ رکھے تو اسے طعن و تشنیع کا نشانہ نہیں بنانا چاہیے؛ کیوں کہ یہ مستحب روزہ ہے، جسے رکھنے پر ثواب ہے اور نہ رکھنے پر کوئی مواخذہ نہیں ہے۔ الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (435/2):
ضرورتِ زندگی اور مقصدِ زندگی
اگر ہم اپنی زندگی کاجائزہ لیں تو پتہ چلے گا کہ ہماری زندگی کیسے آگے بڑھ رہی ہے ، جب کہ ہمیں کیسے گزارنا چاہئے تھا۔چنانچہ بتلایا گیا ہے کہ زندگی گزارنے کے دو طریقے ہیں ،(1) ضرورتِ زندگی ۔(2) مقصدِ زندگی ۔ یہ دونوں چیزیں قابل غور ہیں تاکہ ہمیں بہتر طور پر زندگی گزارنے کا موقع ملے۔
ضرورتِ زندگی : دنیا کا علم حاصل کرنا۔
مقصدِ زندگی:دین کا علم حاصل کرنا۔ ضرورتِ زندگی کواسلئے ہمیں اختیار کرنا چاہئے تاکہ اس کو دنیامیں روزی روٹی کے لئے ذریعہ بنایاجائے، اور مقصدِ زندگی کو اس لئے اختیارکرنا ہے کہ اس سے دارین میں کامیابی نصیب ہوجائے ۔ لیکن آج ہمارا مسلم نوجوان صرف اور صرف ضرورتِ زندگی کے پیچھے پڑا ہے اور اسی کو سب کچھ سمجھ بیٹھاہے، جو کہ سراسر غلطی ہے اور مقصدِ زندگی کو تو حاصل کرنا اس کو معلو م ہی نہیں ہے ،۔
اس لئے کہ موجودہ ماحول کے حساب سے اگر کوئی زبان یا علم حاصل کرے تو اس کو کسی شخص کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی، یہ سمجھ کر حاصل کیاجائے تو درست ہے ،اور علم دین کو اختیار کرنامثلا حافظِ قرآن بننا ، عالمِ دین با عمل بننا ، اس سے آمدنی کیا حاصل ہوگی اور اس سے ہماری زندگی کیسے گزرے گی تویہ سمجھنا بالکل نااہل کی علامت ہے۔ ایک سمجھدار انسان کی علامت ہرگزنہیں ہوسکتی۔
شوال کے مہینہ میں پیش آنے والے چند اہم واقعات:1 شوال سنہ 1ھ: ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی رخصتی عمل میں آئی۔2 شوال سنہ 2ھ: اسلام میں پہلی مرتبہ عید الفطر کی نماز ادا کی گئی۔3 شوال سنہ3ھ: غزوہ احداور غزوہ حمرآء الاسد واقع ہوا،4 شوال سنہ 5ھ:غزوہ احزاب (غزوہ خندق) واقع ہوا۔5 شوال سنہ 6ھ:غزوہ مریسیع واقع ہوا۔6شوال سنہ 8ھ: حضرت محمد صل اللہ علیہ وسلم غزوہ حنین کے لیے پہنچے۔
ماہ ِ شوال کی رسومات وبدعات: 1یکم شوال (عید کے دن) فوتگی والے گھر جانا:بعض علاقوں میں جب کسی گھر میں کوئی فوت ہوجاتا ہے ، تو اس کی وفات کے بعد عزیز و اقارب پہلی عید و بقرعید پرمیت کے گھر پہنچنا فرض سمجھتے ہیں،اور وہاں جاکر تعزیت کرتے ہیں ،چاہے انتقال ہوئے مہینوں گذر چکے ہوں۔
اس رسم میں کئی خرابیاں ہیں: 1
تعزیت تین دن کے اندر اندر ایک مرتبہ کرنا سنت ہے ،لہذا جب ایک مرتبہ تعزیت کی جاچکی ہے،اب عید کے دن دوبارہ تعزیت کرنا سنت کے خلاف ہے ۔ 2
شریعت میں اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ 3
عید کا دن خوشی کادن ہے اور اللہ تعالی کی طرف سے مہمان نوازی کا دن ہے ،اس دن غم کو تازہ کرکے عید کی خوشی کوغم میں تبدیل کرنا انتہائی مکروہ اور خلاف ِ شریعت رسم ہے۔ لہذا ان بری رسوم اور بدعات سیئہ سے اجتناب کرنا ضروری ہے 2
فوتگی والے گھر میں سوگ کا سماں:
بعض علاقوں میں کسی کے انتقال کے بعد اس کی پہلی عید پر فوتگی والے گھرمیں سوگ کا سماں ہوتا ہے، اس گھر کے افراد عید کے دن خوشی منانے،اچھے کپڑے پہننے کو برا سمجھتے ہیں۔یہ محض خود ساختہ رسم ہے،کیونکہ شرعی اعتبار سےسوگ کی تین دن تک اجازت ہے ،البتہ جس عورت کے شوہر کا انتقال ہوگیا ہو ،اس کو چار ماہ دس دن تک سوگ کرنا واجب ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: کسی عورت کے لئے ،جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہو، حلال نہیں کہ وہ میت پر تین دن سے زیادہ سوگ کرے سوائے اپنے خاوند کے۔ (مسلم، حدیث نمبر:1491) لہذا اس خود ساختہ رسم سے اجتناب کرنا چاہیے 3
عید کے دن قبرستان جانا:
بعض علاقوں میں یہ رواج ہے کہ عید کے دن نمازِعید کےفوراًبعد قبرستان جانے کو ضروری خیال کیا جاتاہے اور اس دن قبروں کی زیارت نہ کرنے والوں پر طعن کی جاتی ہے،یہ بدعت اورناجائز ہےجس کو ترک کرنا لازم ہے،تاہم اگر اس کا التزام نہ کیا جائےاور اسے سنت اور ضروری نہ سمجھاجائے تو عید کے دن قبرستان جاناجائزہے۔ 4
ماہِ شوال میں نکاح کو منحوس سمجھنا: بعض لوگ دو عیدوں کے درمیان اور شوال کے مہینے میں نکاح اور شادی کو منحوس سمجھتے ہیں
شوال میں نکاح کو منحوس سمجھنے کی وجہ:
اس کی ایک وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ ایک مرتبہ شوال میں طاعون پھیل گیا تھا،جس میں بہت سی دلہنیں مرگئی تھیں،اس لئے زمانہ جاہلیت میں لوگ شوال کے مہینے میں نکاح منحوس سمجھنے لگے تھے اور اس میں شادی نہیں کرتے تھے۔ طبقات ابن سعد: (60/8)
واضح رہے کہ شریعت میں سال کے بارہ مہینوں اور دنوں میں کوئی مہینہ یا دن ایسا نہیں ،جس میں نکاح کی تقریب مکروہ اور ناپسندیدہ ہو یا اس میں نکاح منحوس اور شادی ناکام ہوجاتی ہو۔ جناب رسول اللہ ﷺ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے اس ماہ میں نکاح کیا اور اسی ماہ میں رخصتی فرماکر جاہلیت کے باطل خیال و نظریہ کا رد کیا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے : جناب رسول اللہ ﷺ نے ميرے ساتھ شوال ميں نكاح كيا، اور ميرى رخصتى بھى شوال ميں ہوئى، نبى كريم ﷺكے نزديك رسول اللہ ﷺ کی كونسى بیوی مجھ سے زيادہ خوش قسمت تھى “( مسلم: 348) (مسند احمد: 24272)
اسی لئے ماہ شوال میں شادی کرنا اور رخصتی کر کے نئی نویلی دلہن کو اپنے گھر لانا بہت سے علماء کے نزدیک مستحب ہے ، اور اس کو شادی بیاہ کے لئے منحوس سمجھنا بالکل غلط اور جاہلیت کے امور میں سے ہے۔ غرض یہ کہ شوال کا مہینہ بڑی اہمیت اور گوناگوں خصوصیات کا حامل ہے، اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ہمیں اس عظیم الشان مہینے کی برکتوں سے خوب مالا مال فرمائے، اور اس ماہ مبارک میں بدعات و خرافات سے بچائے اور زندگی کے قیمتی لمحات کی قدر کرکے زیادہ سے زیادہ توشہ آخرت تیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

دیگر تصانیف

امیدوں کا چراغ

مٹی کا چراغ

کہاں گئے وہ لوگ

تذکیر و تانیث

مجلس ادارت

team

سرپرست

حضرت الحاج مولانا کبیر الدین فاران صاحب مظاہری

team

مدیر مسئول

مولانا ارشد کبیر خاقان صاحب مظاہری

team

مدیر

مفتی خالد انور پورنوی صاحب قاسمی