ماہنامہ الفاران

ماہِ شوال المکرم - ۱۴۴۴

ہجری تاریخ کا آغاز

جناب مولانا ارشد کبیر خاقان صاحب المظاہری؛ مدیرماہنامہ"الفاران"و جنرل سکریٹری؛ ابوالحسن علی ایجوکیشنل اینڈ ویلفیرٹرسٹ(پورنیہ)

اسلام سے پہلے صرف عیسوی سال اور مہینوں سے تاریخ لکھی جاتی تھی،مسلمانوں میں تاریخ لکھنے کی روایت نہیں تھی۔ سن 17ہجری میں حضرت عمرؓ کی خلاف کے دوران حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ نے حضرت عمرؓ کےنام ایک خط لکھا جس میں کہا گیا تھا کہ آپ کی طرف سے حکومت کے مختلف علاقوں میں خطوط جاری کیے جاتے ہیں لیکن تاریخ (اسلامی تاریخ ) ان خطوط میں نہیں لکھی جاتی،حالانکہ تاریخ لکھنے سے بہت فائدہ ہوتا ہےکہ آپ کا حکم کس دن جاری کیا گیا اور کب پہنچا اور کب اس پر عمل ہوا۔ان تمام باتوں کو سمجھنا تاریخ لکھنے پر منحصر ہے۔
چنانچہ حضرت عمرؓ نے اسے بہت مناسب سمجھا اور فورا اکابر صحابہؓ کا اجلاس بلایااس میں مشورہ دینے والے صحابہ کرام کی طرف سے چار قسم کی رائے سامنے آئی۔
پہلےاکابر صحابہ کی ایک جماعت کی رائے تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے سال سے اسلامی سال کی ابتدا کی جائے۔دوسری جماعت اس رائے کی حامل تھی کہ اسلامی سال نبوت کے سال سے شروع ہونا چاہیے۔تیسری جماعت کی رائے تھی کہ ہجرت سے اسلامی سال کی ابتداء کی جائے۔ چوتھی جماعت کی یہ رائے تھی کہ اسلامی سال کا آغاز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال سے ہونا چاہیے۔
ان چاروں قسموں کی رائے سامنے آنے کے بعد ان پر باضابطہ بحث ہوئی ،پھر حضرت عمرؓ نے یہ فیصلہ سنایا کہ ولادت یا نبوت سے اسلامی سال کی ابتدا کرنے میں اختلاف سامنے آ سکتا ہےاس کی وجہ یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کے دن کے ساتھ ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا دن قطعی طورپر اس وقت متعین نہیں ہےبلکہ اختلاف ہے،اور وصال سے شروع کرنا بھی مناسب نہیں ہے کیونکہ وصال کا سال اسلام اور مسلمانوں کے لیے دکھ اور صدمے کا سال ہےاس لیے اسلامی سال کا آغاز ہجرت سے کرنا مناسب ہوگا۔
اس میں چار خوبیاں ہیں:نمبر1حضرت عمرؓفرماتے ہیں کہ ہجرت نے حق اور باطل کے درمیان واضح فرق کیا۔نمبر2یہی وہ سال ہے جس میں اسلام نے عزت اور طاقت حاصل کی،نمبر3یہی وہ سال ہے جس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں نے اللہ کی عبادت امن وسکون کے ساتھ بغیر کسی خوف کے شروع کی نمبر4مسجد نبوی کی بنیاد اسی سال رکھی گئی۔
ان تمام خوبیوں کی بنا پر تمام صحابہ کرام کا اتفاق اور اجماع اس بات پر ہواکہ اسلامی سال کا آغاز ہجرت کے سال ہی سے ہو،پھر اسی اجلاس میں ایک اور مسئلہ پیدا ہوا کہ سال میں بارہ مہینے ہوتے ہیں جن میں سے چار ماہ حرمت والے ہیں۔
ذیقعدہ۔ذی الحجہ۔محرم اور چوتھا رجب جوجمادی الثانی اور شعبان کے درمیان میں ہے۔یہاں تک کہ سال کے مہینے کے آغاز میں اکابر صحابہؓ کی مختلف آراء سامنے آئیں کہ سال کے مہینےکاآغازکس مہینے سے کیاجائے۔
چنانچہ اس سلسلے میں بھی اکابر صحابہ کرام کی طرف سے چار قسم کی رائےسامنےآئیں،ایک جماعت نے یہ مشورہ دیا کہ رجب کے مہینہ سے سال کے مہینہ کی ابتداء کی جائے،کیونکہ رجب سے ذی الحجہ کے مہینےتک چھ ماہ ہوتے ہیں پھر محرم سے لے کر رجب کے آغاز تک چھ مہینے ہوتے ہیں،دوسری جماعت نے یہ مشورہ دیا کہ رمضان کے مہینہ سےسال کے مہینے کا آغاز ہو،کیونکہ رمضان وہ بہترین مہینہ ہے جس میں پورا قرآن نازل ہوا ہے،تیسری جماعت نے یہ مشورہ دیا کہ ماہ محرم سےسال کے مہینے کا آغاز ہو کیونکہ محرم کے مہینے میں حجاج کرام حج ادا کرنے کے بعد واپس آتے ہیں۔چوتھی جماعت نے یہ مشورہ دیا کہ ربیع الاول سے سال کے مہینے کی ابتداء کی جائے،کیونکہ اس مہینے میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت فرمائی، کہ شروع میں ربیع الاول میں مکہ مکرمہ سے سفر شروع فرمایا اور آٹھ ربیع الاول کو مدینہ منورہ پہنچ گئے۔توحضرت عمرؓ نے بڑے احترام سے سب کی رائے سنی۔
پھر آخر میں یہ فیصلہ دیا کہ محرم کے مہینہ سےسال کے مہینے کا آغاز ہونا چاہیےاس کے دو فوائد ہیں،حضرات انصار نے بیعتِ عقبہ کے موقع پر حضورصلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ منورہ ہجرت کر کے تشریف لانے کی دعوت دی اور آپ نے انصار کی دعوت قبول کر لی اور یہ حج ذی الحجہ کے مہینے کے بعد پیش آیاتھا اورحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے محرم کے شروع سے صحابہ کرام کو ہجرت کے لئے روانہ کرنا شروع فرما دیا تھا،لہذا ہجرت کی ابتداء محرم کے مہینے سے ہوئی اور اس کی تکمیل ربیع الاول میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت سے ہوئی۔
حج اسلام کی ایک تاریخی عبادت ہے جو سال میں صرف ایک بار کیا جاتا ہے اور حج مکمل کرنے کے بعد حاجی محرم کے مہینے میں اپنے گھروں کو لوٹ جاتے ہیںان خوبیوں کی وجہ سے سال کے مہینے کا آغاز محرم کے مہینہ سے مناسب ہے اس پر تمام صحابہ کا اتفاق اور اجماع ہوا کے سال کے مہینہ کی ابتداء محرم سے ہو،لہذا اسلامی سال کی ابتداء ہجرت سے اور اسلامی مہینے کی ابتداء محرم الحرام سے مان لی گئی،اللہ نےروزے،عید اور حج کا مدار اسلامی سال اور اسلامی تاریخوں پر رکھا ہےعیسوی تاریخوں پر نہیں رکھا،عیسوی تاریخ اسلامی تاریخ کے ماتحت ہے۔
اسی لیے ہمارے یہاں شادی بیاہ کی تاریخیں،سفر کی تاریخیں،کاروبار شروع کرنے کی تاریخیں اور معاملات و معاشرت میں اسلامی سال اور اسلامی مہینوں کا لحاظ رکھا جانا چاہیے ،امت کا ایک طبقہ جو اسلامی سال اوراسلامی مہینوں کی اہمیت سے ناواقف ہے،اللہ تعالی انہیں بھی عمل کرنےکی توفیق عطاءفرمائے۔
(اسلامی تاریخ )
ماہِ ذی قعدہ
اسلامی تقویم کے اعتبار سے گیارہواں مہینہ زیقعدہ کہلاتا ہے۔ اس مہینے کی عظمت و فضیلت کے لیے یہی کافی ہے کہ اس میں عام طور پر دُنیا بھر سے حج جیسی عظیم الشان عبادت ادا کرنے کے لیے حجاج کرام حرمین شریفین کی طرف رخت سفر باندھ کر حاضری کی سعادت حاصل کرتے ہیں،
اللہ تعالیٰ نے ماہِ ذی قعدہ کو خصوصی شرف و فضیلت بخشی ہے اس کو اُن چار مہینوں میں شامل فرمایا ہے کہ جن کی عظمت و بزرگی اسلام سے پہلے بھی تھی اور اسلام کے بعد بھی ہے، اور وہ چار مہینے یہ ہیں، ذی قعدہ، ذی الحجہ، محرم اور رجب ان مہینوں کی عظمت و بزرگی اسلام سمیت دوسرے آسمانی مذاہب میں بھی تسلیم کی گئی ہے یہاں تک کہ مشرکین مکہ بھی ان چار مہینوں کی عظمت و فضیلت کے قائل تھے
اسلام کے آغاز تک ان چار مہینوں میں جہاں عبادت و طاعت کی خاص فضیلت تسلیم کی جاتی تھی تو وہیں ان میں قتال بھی ممنوع تھا، اور اسلام میں تو اب بھی ان مہینوں میں عبادت و طاعت کی فضیلت برقرار ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں جب سے اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کو پیدا کیا اُس وقت سے مہینوں کی تعداد اللہ تعالیٰ کے یہاں بارہ ہے۔ ان میں سے چار مہینے (ذی قعدہ ، ذی الحجہ ، محرم اور رجب) عظمت و بزرگی والے ہیں یہی ہے سیدھا دین لہٰذا ان مہینوں میں اپنے اوپر ظلم مت کرو (سورۂ توبہ )
حضرت ابوبکرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جس دن سے اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کو پیدا کیا اُس دن سے لے کر آج تک زمانہ اُسی حالت پر گھوم پھر کر واپس آگیا ( یعنی اب اس کے دنوں اور مہینوں میں کمی و زیادتی نہیں ہے جو زمانۂ جاہلیت میں مشرک کیا کرتے تھے بل کہ اب وہ ٹھیک ہوکر اُسی طرز پر واپس آگیا ہے جس طرز پر اپنی ابتدائی اصل صورت میں تھا ) ایک سال بارہ مہینوں کا ہوتا ہےان میں چار مہینے عزت و حرمت والے ہیں، جن میں تین مہینے تو مسلسل ہیں یعنی ذی قعدہ، ذی الحجہ اور محرم، اور ایک مہینہ جو اِن سے علیحدہ آتا ہے ) وہ رجب کا ہے جو جمادی الٓاخر اور شعبان کے درمیان واقع ہے۔ بخاری
ایک مرتبہ رسولِ پاکؐ نے ایک صحابی کو مخاطب کرکے ارشاد فرمایا صبر یعنی رمضان کے مہینے کے روزے رکھو! اور ہر مہینے میں ایک دن کا روزہ رکھ لیا کرو صحابیؓ نے عرض کیا : مجھے اس سے زیادہ کی طاقت ہے، لہٰذا میرے لیے مزید اضافہ فرما دیجیے آپؐ نے فرمایا ہر مہینے میں دو دن روزہ رکھ لیا کرو‘‘ صحابیؓ نے عرض کیا : میرے اندر اس سے بھی زیادہ کی طاقت ہے اس لیے مزید اضافہ فرما دیجیے آپؐ نے فرمایا :ہر مہینے میں تین دن روزے رکھ لیا کرو صحابیؓ نے عرض کیا : میرے اندر اس سے بھی زیادہ کی طاقت ہے اس لیے میرے لیے مزید اضافہ فرما دیجیے آپؐ نے فرمایا : حرمت والے مہینوں ( ذی قعدہ، ذی الحجہ، محرم اور رجب) میں روزہ رکھو اور چھوڑو اور آپؐ نے اپنی تین انگلیوں سے اشارہ فرما کر ان کو ساتھ ملایا پھر چھوڑ دیا ( مطلب یہ تھا کہ ان مہینوں میں تین دن روزہ رکھا کرو، پھر تین دن ناغہ کیا کرو ) اور اسی طرح کرتے رہا کرو۔‘‘ (ابوداؤد)
امام نوویؒ فرماتے ہیں :ماہِ رمضان کے بعد سب سے زیادہ جن مہینوں میں روزے رکھنے کا ثواب ملتا ہے وہ یہی چار مہینے (ذی قعدہ ، ذی الحجہ ، محرم اور رجب) ہیں (روضۃ الطالبین )
قرآنِ مجید میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا جو یہ واقعہ موجود ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو نئی شریعت اور کتاب دینے کے لیے کوہِ طور پر پہلے تیس راتوں کا اعتکاف کرنے کا حکم فرمایا اور پھر مزید دس راتوں کا اضافہ فرما کر کل چالیس راتیں مکمل ہونے پر اُن کو شریعت اور کتاب (تورات) عطا فرمائی ان چالیس راتوں کے بارے میں مفسرین نے لکھا ہے کہ یہ چالیس راتیں ذوقعدہ کے پورے مہینے اور ذی الحجہ کے پہلے عشرے کی تھیں چناں چہ امام ابن کثیرؒ لکھتے ہیں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اعتکاف کی میعاد عیدالاضحی کے دن پوری ہوئی تھی اور اسی دن آپ ؑ کو اللہ تعالیٰ سے ہم کلامی کا شرف نصیب ہوا تھا ،تفسیر ابن کثیر
اللہ تعالیٰ ہمیں اسلامی مہینوں کی قدردانی کی توفیق عطاءفرمائے۔آمین یا رب العالمین

دیگر تصانیف

امیدوں کا چراغ

مٹی کا چراغ

کہاں گئے وہ لوگ

تذکیر و تانیث

مجلس ادارت

team

سرپرست

حضرت الحاج مولانا کبیر الدین فاران صاحب مظاہری

team

مدیر مسئول

مولانا ارشد کبیر خاقان صاحب مظاہری

team

مدیر

مفتی خالد انور پورنوی صاحب قاسمی